نظم کے اشعار کی تشریح کے متعلق ضروری ہدایات

(امتحانی نقطہ نظر سے)

نظم کے اشعار کی تشریح انشائی حصے کا دوسرا سوال ہے، جو کہ چھ نمبر کا ہوتا ہے۔

امتحانی پرچے میں حصی نظم سے چار اشعار دیے جائیں گے۔ اگر تمام نظمیں دو تین بار اچھی طرح پڑھ لی گئی ہوں تو نظم کا نام فوراً ذہن میں آ جائے گا۔ فہرست مندرجات سے شعرا کے نام یاد کر لینے چاہییں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نظم کا عنوان مکمل اور صحیح لکھا جائے اور شاعر کے نام کا املا بھی درست ہو۔ اصل نام لکھنے کی شکل میں مکمل لکھنا چاہیے تاہم تخلص لکھ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ 

اس ضمن میں حسبِ ذیل ہدایات سے طلبا استفادہ کر سکتے ہیں۔

  1. سب سے پہلے سوال نمبر لکھا جائے۔
  2. جوابی کاپی پر تشریح طلب اشعار لکھے جائیں۔
  3. تشریح سے قبل دو سطور میں شعر کا مفہوم تحریر کریں۔ اس سے شعر کے متعلق آپ سوجھ بوجھ کا اندازہ ہو جائے۔ 
  4. تشریح سے قبل مشکل الفاظ اور تراکیب کے معانی لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
  5. اس کے بعد تشریح کے عنوان کے تحت ہر شعر کی تشریح آدھ صفحے تک کی جائے۔ تشریح میں کسی بھی شاعر کے ملتے جلتے مفہوم والے اشعار کے علاوہ اقوال ، آیات، احادیث ، کہاوتیں، ضرب الامثال وغیرہ کا موقع محل کے مطابق استعمال تشریح  کو موثر اور مدلل بنانے کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اردو کے علاوہ دوسری زبان کے حوالے کی صورت میں چھوٹی بریکٹ میں اردو ترجمہ ضروری ہے۔ حوالے کو مفہوم سے جوڑ کر بیان کرنا چاہیے۔ 

حصہ نظم کا دوسرا سوال۔ خلاصہ

  1. نظم کا خلاصہ نظم کے اہم نکات کا مختصراً بیان ہوتا ہے۔ چناں چہ نظم کے خلاصے میں تفصیل اور طوالت سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک معیاری خلاصہ سات سے دس سطور پر مشتمل ہوتا ہے۔ 
پہلی نظم
altaf hussain hali

مولانا الطاف حسین حالیؔ (1837ء - 1914ء)

حمد

مرکزی خیال:

عظیم شاعر مولانا حالیؔ کہتے ہیں کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے دائرہ قدرت سے باہر نہیں ۔ اللہ قادر ہے اور انسان عاجز ہے۔ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو دل کا غنی کا کر دینا ہے، دل کا سخی بنا دیتا ہے۔ اُن کی نگاہوں میں بادشاہی بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ اُن پر اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ 

خلاصہ:

مسدس حالی ( مدوجزر اسلام) کے شاعر الطاف حسین حالی عرض کرتے ہیں کہ اے خالق ارض و سماوات! اس کائنات پر تیرا ہی قبضہ ہے۔ فرماں بردار اور نافرمان تیرے حکم کے سامنے مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نہ جاننے والا۔ اللہ کے مقبول بندوں کی نگاہ میں شاہی لباس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اللہ کے دائرہ قدرت میں تمام چیزیں سما جاتی ہیں۔ اللہ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان آخر ہو کے رہے گا۔ صبح کی ٹھنڈی ہوائیں اسی کا پیغام کو سر عام کر رہی ہیں۔ 

شعر 1

قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندہ نا فرمان ہے حمد سرا تیرا

حل لغت:

قبضہ: اختیار، قابو

سِوا: علاوہ

بندہ نا فرمان: حکم نا ماننے والا  

حمد سرا: اللہ کی تعریف کرنے والا

مفہوم :

دلوں پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر اختیار ہے وہ اس قدر قدرت رکھتا ہے کہ اس کا ایک نا فرمان بندہ بھی اُس کی تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ 

؎ ہم نے جہنم کی بہت کی تدبیر

لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا

  ٭٭٭٭٭

شعر 2

گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا

بندے سے مگر ہو گا حق کیسے ادا تیرا

حل لغت:

گو : اگرچہ

مقدّم : پہلا، بر تر

حق : بدلہ، صلہ،کسی کام کو جیسا چاہیے ویسا کرنے کا عمل

مفہوم :

اگرچہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سب ے پہلا فرض ہے مگر انسان اس حق کو کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا۔  بقول غالبؔ 

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا

 ٭٭٭٭٭

شعر 3

محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نا محرم

کچھ کَہ نہ سکا جس پر یاں بھید کُھلا تیرا

حل لغت:

محرم : جاننے والا، واقف

نا محرم : ناواقف

یاں: یہاں

بھید : راز

مفہوم :

اللہ کو جاننے والا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نہ جاننے والا۔ جس پر تیرا راز کھلا وہ "کچھ” بیان کرنے سے قاصر ہے۔ 

     ٭٭٭٭٭

شعر 4

جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعتِ سُلطانی 

کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا

حل لغت:

جچنا : اچھا لگنا، پسند آنا

خلعتِ سُلطانی : بادشاہی لباس

کملی : درویشانہ چادر

مگن : محو، کھویا ہوا

گدا : فقیر

مفہوم :

درویش اپنے پھٹے پرانے لباس میں بھی خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ اس کی نظر میں بادشاہی لباس کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی۔ 

کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی

کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

 ٭٭٭٭٭

شعر 5

تُو ہی نظر آتا ہے ہر شے پہ محیط اُن کو

جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گِلا تیرا

حل لغت:

شے: چیز

محیط : چھایا ہوا

رنج و مصیبت : دُکھ اور تکلیف

گِلا : شکایت

مفہوم :

اے اللہ! جو لوگ پریشانی اور تکلیف میں تیرا شکوہ کرتے ہیں، آخر کار تو ہی اُنھیں اس جہاں کا حقیقی خالق و مالک نظر آتا ہے۔ اور انھیں تجھ ہی سے اُمید ہے۔ 

 ٭٭٭٭٭

شعر 6

آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری 

گھر گھر لیے پھرتی ہے پیغام صبا ترا

حل لغت:

آفاق : اُفق کی جمع، دنیا

پھیلنا: بکھرنا

مہک : خوشبو

پیغام : سندیسہ، میسیج

صبا : صبح کی ٹھنڈی ہوا

مفہوم :

تیری ذات کی پہچان جہاں میں کب رُک سکتی ہے، جب کہ صبح کی ٹھنڈی ہوا ہر جگہ تیری ذات کی خبر دے رہی ہے۔ 

پھولوں کی مہک میں تو، انجم کی جھلک میں تو

وہ رنگِ صبا تیرا، یہ شانِ ادا تیری

 ٭٭٭٭٭

شعر 7

ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے

کچھ رنگِ بیاں حالیؔ ہے سب سے جُدا ترا

حل لغت:

بول : بات، قول

رنگِ بیاں : بیان کرنے کا انداز

جُدا : الگ

مفہوم :

اے حالیؔ ! تو جس رنگ میں بھی بات کرے تیرا اندازِ بیاں سب سے جدا ہے اور لوگوں کے دل کو متاثر کرتا ہے۔ 

 ٭٭٭٭٭

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top