دو دوستوں کے درمیان مکالمہ

دو ہم جماعتوں کے درمیان مکالمہ

(گوجرانوالہ، فیصل آباد 13 – ساہیوال ، ڈی جی خان، بہاول پور 14 راولپنڈی، ملتان، گوجر انوالہ، لاہور سرگودھا، کشمیر 15 سرگودھا،کشمیر 16)

طیب اور علی دونوں ہم جماعت ہیں اور ایک ہی محلے میں رہتے ہیں ۔ طیب چھٹی کے دن علی  سے ملنے کےلیے اس کے گھر جاتا ہے اور دونوں میں گفتگو کا آغاز ہوتا ہے)
طیب:السلام علیکم !
علی:وعلیکم السلام ! طیب بھائی خیریت ہے؟ آج صبح سویرے کیسے آنا ہوا ؟
طیب:بالکل خیریت ہے جناب! آپ کو کتابوں سے فرصت ملے تو کچھ ہمیں بھی وقت دیں۔
علی:کھل کر بتا میں طیب بھائی ! پہیلیاں کیوں بُجھواہے ہیں۔
طیب:ارے بھائی ! آج چھٹی کا دن ہے اور ہم سب نے مل کر کرکٹ میچ کا پروگرام بنایا ہے۔
علی:وہ تو ٹھیک ہے !لیکن تم تو جانتے ہی ہو کہ امتحان سر پر ہیں اور تیاری کرنی ہے۔
طیب:کوئی لیکن ویکن نہیں چلے گا! امتحان ہم نے بھی دینا ہے۔ چلو اٹھو شاباش
علی: طیب تمھیں معلوم ہے کہ مجھے کھیل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔
طیب:معلوم ہے لیکن ہر وقت کتابی کیڑا بننا بھی ٹھیک نہیں ہوتا ۔ کچھ وقت کھیل کے لیے بھی نکالنا چاہیے۔
علی:جہاں تک میرا خیال ہے کرکٹ کھیلنا سراسر وقت کا ضیاع ہے۔
طیب:تو پھر کیا کھیلنا چاہیے۔ آپ کے خیال میں؟
علی:امتحان جب قریب ہوں تو پھر صرف پڑھائی۔
طیب:پڑھائی کا بھی وقت ہونا چاہیے۔ بس ہر وقت کتابوں میں ہی گھسے رہو۔
علی:وقت انسان کی سب سے قیمتی چیز ہے، اسے کھیل کود میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
طیب:یعنی آپ کا مطلب ہے کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔
علی:میں تو یہی کہوں گا کہ جب امتحان سر پر ہوں تو کھیل کود میں مشغول ہونا ، وقت برباد کرنے کےمترادف ہے۔
طیب:ابھی تو پورے دو ماہ رہتے ہیں امتحان میں ۔ تیاری ہو جائے گی۔
علی:تم خوش فہمی میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو ، بعد میں شرمندگی اٹھاؤ گے۔
طیب:لیکن کھیل کود، سیر و تفریح کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
علی:آپ صبح کی سیر کرلیا کریں، میرا بھی یہی معمول ہے، اس کے علاوہ باقی وقت فی الحال پڑھائی پر توجہ دیں۔
طیب:اس کا مطلب ہے کہ اب کھیل وغیرہ بند ۔
علی:میرا مشورہ تو یہی ہے کہ امتحان کی تیاری کرو کیوں کہ ” محنت سے عظمت ہے”
طیب:محنت تو کھیل میں بھی خوب ہوتی ہے۔
علی:میرے بھائی ! ہم متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے صرف تعلیم کے ذریعے ہی بہتری لا سکتے ہیں۔ لہذا حقائق کی دنیا میں آؤ اور احمقوں کی جنت سے نکلو۔
طیب:ہاں یار ! یہ بات تو ہے۔ اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے وقت ضائع کر کے بڑی غلطی کی ہے۔
علی: پھر کیا فیصلہ کیا ہے؟ میچ کھیلتا ہے یا امتحان کی تیاری کرنی ہے۔
طیب:ان شاء اللہ ! تیاری کرنی ہے۔
علی:مجھے آپ کی بات سن کر خوشی ہوئی
طیب:یار! اگر میں امتحان کی تیاری کے لیے آپ کے پاس آجایا کروں؟
علی:مجھے خوشی ہوگی ۔
طیب:ٹھیک ہے ! کل سے میں کتابیں لے کر آپ کے گھر آجایا کروں گا اور دونوں مل کر امتحان کی تیاری کریں گے۔
علی:جیسے آپ کی خوشی۔۔۔ میں حاضر ہوں۔
طیب:شکریہ، اب اجازت چاہتا ہوں۔
علی:پھر میچ کھیلنے نہیں جاؤ گے آج ؟
طیب:نہیں یار! آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ اب میں فوٹواسٹیٹ کی دکان پر جاؤں گا، کچھ نوٹس وغیرہ لینے ہیں۔
علی:نوٹس لے کر واپس میرے پاس آجاؤ! اکٹھے تیاری کریں گے۔
طیب:ٹھیک ہے میں ایک گھنٹے کے بعد آ جاؤں گا۔
علی:ٹھیک ہے اللہ حافظ
طیب:اللہ حافظ
(طیب، علی کا شکر یہ ادا کر کے چلا جاتا ہے اور طہٰدوبارہ مطالعہ میں مصروف ہو جاتا ہے)

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top