قواعدِ زبان

ہر زبان کے کچھ اصول اور ضابطے ہوتے ہیں، جن کے پیشِ نظر اس زبان کو صحیح طور پر سیکھا، سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ اور زبان کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں جنھیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ اِن پر عبور حاصل کرنے سے ہم اردو زبان کو ٹھیک ٹھاک بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ قواعد کے دو حصّے ہوتے ہیں: 1۔ صرف 2۔ نَحو

قواعد کا وہ حصّہ جس میں مفرد الفاظ و حروف سے بحث کی جاتی ہے یعنی یہ لفظ واحد ہے یا جمع ، مذکر ہے یا مونث، فعل ہے یا حرف، صَرف کہلاتا ہے۔ اس حصّے میں صرف حروف و الفاظ و کلمات ہی موضوع بحث ہوتے ہیں۔ قواعد کاوہ حصّہ جس میں مرکّب جملوں اور عبارتوں سے بحث کی جاتی ہے، نَحو کہلاتا ہے مگر کہتے ہیں کہ:

"صَرف آتی ہے نہ بے عقل کو نَحو آتی ہے”

لفظ

سادہ آواز کو حرف کہا جاتا ہے۔ اردو میں بشمول الف ممدودہ اور ہمزہ حروفِ تہجی کی تعداد اڑتیس ہے۔ ان میں سے سترہ حروف منقوط اور اکیس حروف غیر منقوط ہیں ۔ علاوہ ازیں کچھ مخلوط حروف ہیں جنھیں دو چشمی "ہ” یا بھاری حروف بھی کہا جاتا ہے، ان کی تعداد پندرہ ہے وہ مرکّب آواز جو کچھ سادہ آوازوں سے مل کر بنتی ہے، اسے لفظ کہتے ہیں مثلاً: "علم” ایک لفظ ہے جو تین حروف (ع، ل، م) سے مل کر بنا ہے۔ اسی طرح "کھاٹ ایک لفظ ہے جو تین حروف (کھ، ا، ٹ) سے مل کر بنا ہے۔ جب چند الفاظ ایک خاص ترتیب سے جوڑ دیے جائیں تو وہ جملہ بن جاتا ہے۔

جُملہ

الفاظ کے ایسے مجموعے کو جس کا مفہوم واضح طور پر سمجھ میں آجائے ، جملہ کہتے ہیں۔مثلاً

آج موسم بڑا خوش گوار ہے۔ علم بڑی دولت ہے۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے، وغیرہ۔ جملے کو فقرہ بھی کہتے ہیں۔

♦♦♦

کلمہ اور مہمل

الفاظ دو طرح کے ہوتے ہیں : بامعنی اور بے معنی ۔ با معنی لفظ کو کلمہ اور بے معنی لفظ کو مہمل کہتے ہیں۔ مثلاً پانی وانی ، روٹی ووٹی، چائے وائے  ، غلط سلط ، بات چیت میں، بالترتیب پانی ، روٹی ، چائے  غلط، بات کو کلمہ اور وانی ، ووٹی، وائے ، چیت کو مہمل کہیں گے۔ یادر ہے کہ اگر مہمل پہلے سے زبان زد عام نہیں تو عام طور پر اردو میں مہمل واؤ سے بناتے ہیں۔ جیسے : میزویز،

کرسی ورسی ، کھانا وانا وغیرہ۔

♦♦♦

مر کب اور ہم رتبہ جملے

جب دو یا دو سے زیادہ جملے مل کر کسی ایک مفہوم یا خیال کو ادا کریں تو وہ مرکب جملہ کہلائے گا۔ اگر یہ جملے نحوی اعتبار سے جدا گانہ اور برابر کی حیثیت رکھتے ہوں تو ایسے جملوں کو ہم رتبہ جملے کہیں گے۔ ہم رتبہ جملے حروف عطف کے ذریعے باہم ملے ہوتے ہیں۔

اردو میں ان کی چار قسمیں ہوسکتی ہیں:

  1.  وصلی جملے
  2.  تردیدی جملے
  3.  استدرا کی جملے
  4.  سبی جملے

ذیل میں بالترتیب ہر ایک کی دو دو مثالیں درج کی جاتی ہیں:

وصلی جملے :

  • میں آیا اور وہ چلا گیا۔
  •  سورج صبح کو نکلتا اور شام کو غروب ہو جاتا ہے۔

تردیدی جملے :

  • اسے گھر بھیج دو یا با ہر نکال دو۔
  • حاکم ہمدرد ہونا چاہیے، ورنہ رعایا تباہ ہو جائے گی۔

استدرا کی جملے:

  • وہ وعدے تو بہت کرتا ہے لیکن یاد نہیں رکھتا۔
  •  ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں ، سو وہ بھی نہ ہوا۔

سبی جملے:

  • میں اُن کا ساتھ دوں گا کیوں کہ مصیبت کے وقت انھوں نے میرا ساتھ دیا تھا۔
  • وہ بہت شریر اور نا اہل ہے، اس لیے میں اسے منھ نہیں لگانا۔

♦♦♦

کلمہ کی قسمیں

 (1) اسم (۲) فعل (۳) حرف

اسم:

وہ کلمہ ہے جو کسی شخص کسی جگہ، چیز یا کیفیت کا نام ہو جیسے: محمود۔ لاہور۔ پنکھا یا نام کی جگہ استعمال ہو مثلاً وہ۔ وہاں۔

اسم کا زمانے سے تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اپنے معنی کے لیے دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔

 فعل

وہ کلمہ ہے جو اپنے معنی کے اعتبار سے مستقل ہو، جو کسی کام کا کرنا یانہ کرنا، ہونایا نہ ہونا بتائے اور جس میں تین زمانوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ پایا جائے جیسے: آیا۔ جاتا تھا۔ لکھے گا۔

حرف

حرف وہ کلمہ جو اکیلا تو کچھ معنی نہ دے لیکن دوسرے کلمات کے ساتھ مل کر معنی دے اور ان میں تعلق بھی پیدا کرے۔ وہ اپنے معنی کے اظہار کے لیے دوسرے کلمات کا محتاج ہوتا ہے۔ جیسے: میں گھر سے مسجد تک گیا۔ اس میں سے اور تک دو حرف ہیں۔

♦♦♦

مآخذ:

اُردُو قواعد و اِنشا برائے جماعت نہم ،دہم، پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ، لاہور

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top