دکان دار اور خریدار کے درمیان مکالمہ

دکان دار اور خریدار کے درمیان مکالمہ

گوجرانوالہ ساہیوال، بہاول پور 13 ء فیصل آباد14ء، راولپنڈی ، بہاول پور، ساہیوال 15 ، لاہور، بہاول پور، ڈیرہ غازی خان ، ساہیوال، بہاول پور، کشمیر16

(دُھسہ:موٹی اُونی چادر کو کہتے ہیں)

  (چہری روڈ پر شہر کی مشہور کپڑے کی دکان ہے۔ دکان دار کپڑوں کے تھان الماریوں میں رکھنے میں مصروف ہے۔ ایک گاہک دکان میں داخل ہوتا ہے اور اس سے ہم کلام ہوتا ہے )

خریدار:السلام علیکم ! جناب

دکان دار : وعلیکم السلام ! بھائی صاحب تشریف لائے۔

خریدار:ایک عدد رومال مل جائے گا ؟

دکان دار : جی ضرور مل جائے گا، آپ کون سا رومال لینا پسند کریں گے؟

خریدار:سوتی رومال دکھا دیں۔

دکان دار : یہ لیں جناب !نہایت خوب صورت ،نرم رومال ہیں،آپ ان میں سے رنگ پسند کر لیں۔

خریدار:رومال تو اچھے لگ رہے ہیں، قیمت کا پتہ چلے تو لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کریں۔

دکان دار : آپ بالکل تسلی رکھیں ۔ قیمت نہایت مناسب ہے۔

خریدار:پھر بھی کچھ تو اندازہ ہو۔ مفت میں تو نہیں دیں گے نا!

دکان دار : مفت ہی سمجھیں جناب! آپ صرف دو سو روپے دے دیں۔ 

خریدار:بھائی صاحب ! قیمت کچھ کم کر لیں ۔ کچھ زیادہ لگ رہی ہے۔

دکان دار : یہ دیکھیں جناب ! سامنے لکھا ہوا ہے” ایک دام، واحد کلام “ہم مناسب قیمت پر ایک ہی بات کرتے ہیں۔بے شک آپ کسی اور دکان پر جا کر تسلی کرلیں ۔

خریدار:یہ تو اچھی بات ہے۔ چلو آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ رومال دے دیں، آئندہ میں کپڑوں کی خریداری کے لیے آپ کی دکان پر ہی آیا کروں گا۔

دکان دار :آپ کی عزت افزائی ہے جناب! اس کے علاوہ ہماری دکان پر کشمیری شالیں ، دُھسے ، موسم کے لحاظ سےہر قسم کے کپڑے، جرابیں اور بنیان وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔

خریدار:ایک دُھسہ لینا ہے والد صاحب کے لیے، دکھا دیں۔

دکان دار :  (شوکیس میں سے دھسے نکالتا ہے ) یہ لیں جناب خالص بھیٹر کی اون کے دُھسے ہیں ، پسند فرمائیں۔

  خریدار:واقعی ، دھسے تو لا جواب ہیں۔

  دکان دار:آپ بے فکر ہو کر لے جائیں ۔ والد صاحب پسند کریں گے۔ یہ دیکھیں اسکا بارڈ رکتنا مہینہے اور ایک ہی تانے بانے کا بُنا ہوا ہے۔

خریدار:آپ شالوں کا ذکر بھی کر رہے تھے ۔ وہ دکھانا ذرا …

دکان دار : بالکل جناب !شالیں بھی بیچنے کے لیے ہی رکھی ہوئی ہیں، یہ لیں پسند کریں۔

خریدار: ٹھیک ہے بھائی ! اب شال کی اور دُھسے کی قیمت ذرا الگ الگ بتانا۔

دکان دار :پہلے آپ تسلی سے شال کو دیکھ لیں (دکان دار شال کھول کر دکھاتا ہے ) یہ دیکھیں نہایت نفیس اور خالص پشمینے کی نرم شال ہے۔

خریدار:ہاں! ( یہ بات تو ہے ) واقعی شال تو بہت عمدہ ہے۔

دکان دار :جی ہاں جناب۔ خالص کشمیری شال ہے۔ اگر اس کا رنگ خراب ہو جائے تو ہم ذمہ دار ہیں۔

خریدار:آپ کا شکریہ ! اب ذرا قیمت بتادیں۔

دکان دار : شال کی قیمت آپ کے لیے تین ہزار روپے ہے۔

خریدار : اوردُھسے کی کیا قیمت ہے؟

دکان دار : دُھسا آپ کے لیے دو ہزار روپے کا ہے۔

 خریدار : آپ فی الحال یہ دھسہہی دے دیں۔ 

دکان دار : جیسے آپ کی مرضی ، رنگ کون سا ہو ؟

خریدار : سیاہ رنگ والا دے دیں۔ 

دکان دار : یہ لیں جناب ! شال پسند نہیں آئی آپ کو ؟

خریدار :پسند تو ہے۔ لیکن تنخواہ مل جائے تو دوبارہ آؤں گا۔ گھر والوں کے لیے بھی کپڑے خریدنے ہیں۔ 

دکان دار : آپ کی قدر دانی کا شکریہ جناب! آپ کی اپنی دکان ہے، جب جی چاہے تشریف لائیں۔

خریدار: شکریہ بھائی صاحب! اس کا بل بنا دیں۔

دکان دار : یہ لیجیے بل  کل رقم بائیس سوروپے ہے۔

خریدار:پیسے دیتے ہوئے ) یہ لیجیے بائیں سوروپے۔

دکان دار: ( گن کر) ٹھیک ہیں ۔ شکریہ 

خریدار : شکریہ بھائی صاحب ! اللہ حافظ

دکان دار:اللہ حافظ

گا ہک ہاتھ میں شاپر اٹھا کر گھر کی جانب چل دیتا ہے

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top