Eid Poetry Images | عید تصویری شاعری
عید غزل شاعری
click on image
Introduction:
"Eid Poetry covers a range of feelings, from happiness to sadness, expressed through beautiful words. In Urdu, Sad Eid Poetry shares feelings of longing and reflection, while Eid Love Poetry celebrates the joy and warmth of the occasion. Eid Mubarak Poetry spreads blessings and good wishes. Short 2-line Urdu verses capture the essence of Eid concisely. Accompanied by Eid Poetry Pics in Urdu, these words and images create a meaningful experience for poetry lovers and Urdu speakers.”
عید مبارک شاعری | Eid Mubarak Poetry
ہلال عید ,چاند ، چاند رات اور عید کے موضوع پر بہترین اردو اشعار (عید شاعری)
چوڑیوں نے کلائیوں میں تیری
عید کا راگ چھیڑ رکھا ہے
♥♥
روٹھنے والے اگر اجازت ہو
عید کے روز ملنے آجاؤں
♥♥
رنج و الم کو درد کا راحت کا نام دو
آئی ہے عید آؤ خوشی کا پیغام دو
♥♥
ذرا قریب تو آؤ عید کا دن ہے
کہ ہم سے ربط بڑھاؤ کہ عید کا دن ہے
♥♥
دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
وہ آسمان کا چاند ہے تُو میرا چاند ہے
♥♥
دیکھا جو چاند عید کا تم یاد آگئے
دل میں مسرتوں کے دیے جگمگا گئے
♥♥
دولت سکون قلب کی پا لیں تو عید ہو
ہر ہر نفس لطیف بنا لیں تو عید ہو
♥♥
ہلال عید بھی نکلا تھا وہ بھی آئے تھے
مگر انہیں کی طرف تھی نظر زمانے کی
♥♥
اب دیکھئے اداس نگاہوں کو کیا ملے
ہر سمت پھول بانٹتی پھرتی ہے شام عید
♥♥
اب مزہ آئے گا سب کو عید کا
بچہ بچہ منتظر ہے دید کا
♥♥
نہیں ہجر گوارہ کہ قریب آ جاؤ
عید کا بھی ہے اشارہ کہ قریب آ جاؤ
♥♥
ابھرا نہیں ہے چاند نظر بے قرار
ایسے میں خاک آئے بھلا عید کا مزہ
♥♥
ابرِ رحمت بن کے چھا جاؤ پیامَ عید ہے
چار سو اک نور برساؤ پیامَ عید ہے
♥♥
عید کا چاند دیکھنے والے
آ کہ میری بھی عید ہو جائے
♥♥
عاشقوں کی اُمید کادن ہے
یہ جمالوں کی دید کا دن ہے
♥♥
غمزدہ جو بھی نظر آئے کرو غم اس کادور
مندمل کر دو ہر اک گھاؤ پیام عید ہے
♥♥
اپنا تو کسی طور سے کٹ جائے گا یہ دن
تم جس سے ملو آج انہیں ہو عید مبارک
♥♥
اچھا میں عید منانے کو نکل جاؤں گا
اس طرح بام پہ آؤ کہ یقین آ جائے
♥♥
احباب پوچھتے ہیں بڑی سادگی کے ساتھ
میں اب کے سال عید مناؤں گا کس طرح
♥♥
ادھر سے چاند تم دیکھو ادھر سے چاند ہم دیکھیں
نگاہوں کا تصادم ہو، ہماری عید ہو جائے
♥♥
عید آئی ہے ترے حسن کی تصویر لئے ہوے
حسن ہی حسن ہے جس سمت اٹھتی ہے نظر
♥♥
ادھر ہے فصل بہاراں اور ادھر ہے عیدالفطر
سماں نشاط کا ہے شهر و دشت پر چھایا
♥♥
ارے یہ شرم و حیا اور وہ ہ بھی اپنوں سے
گلے آج تو لگ جاؤ عید کا دن ہے
♥♥
اس سے کیا حاصل دلوں میں شوق کا جذبہ نہ تھا
بندہ پرور عید ملنا تو کوئی بے جا نہ تھا
♥♥
اس عید پہ تم ہی آ جاؤ
اور دید تمہاری ہو جائے
♥♥
اسلام کا انقلاب نہ آیا تھا جب تلک
عیدین میں تمکنت و دلبری نہ تھی
♥♥
ایسی نہ شب برات نہ بقر عید کی خوشی
جیسی کہ ہر اک دل میں ہے اس عید کی خوشی
♥♥
اک چاند کے نکلنے سے ہو گی نہ عید اپنی
بھر پور ظلمتوں کو مٹا لیں تو عید ہو
♥♥
اکیلی تو بھی ہے میرا بھی دور ہے محبوب
گلے تو مل شب ہجراں کہ عید آئی ہے
♥♥
ان دنوں جب عید کا بن کر نقیب آتا تھا تو
دوڑ جاتی تھی ہمارے قلب میں موج سرور
♥♥
ان کو دیکھا تو پھر اترا نہ گیا
آسماں تک ہی رہا عید کا چاند
♥♥
ان کا انکار گلے ملنے سے
اور میری عید رہی جاتی ہے
♥♥
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیرچبھا عید کا چاند
♥♥
ان کے گھر اترنا تو کہنا ہلالِ عید
روز عید بھی نہ آئے تو شکایت ہو گی
♥♥
آنکھیں اداس اداس تو دل بے نشاط شوق
کس درجه درد ناک ہے اک بے وطن کی عید
♥♥
اور دل میں حسرتوں کا بناؤں گا اک مزار
میں اب کے سال عید مناؤں گا اس طرح
♥♥
اہل جہاں میں دھوم تھی روز سعید کی
مفلس کے دل میں تھی نہ کرن بھی اُمید کی
♥♥
اہل دل اہل یقیں پر نہیں کچھ موقوف
روپ بھرتے ہیں نئے سرو و سمن عید کے دن
♥♥
ایسی ہزار عیدیں مبارک ہوں آپ کو
سو سال تک اسی طرح دیکھیں بہار عید
♥♥
ایک چاند کے عوض مجھے حیرت ہوئی ہے آج
سو چاند ہر طرف سے نمودار دیکھ کر
♥♥
ایک لمحے کو میں نے تجھے دیکھا تھا
عمر بھر میری نظر میں نہ جچا عید کا چاند
♥♥
ایک ہی بات اب لکھوں سندیسوں میں
لوٹ آؤ تمہیں برسوں ہوئے بدیسوں میں
♥♥
اے دوست تجھ پہ عید کی خوشیاں نثار ہوں
جلتی رہے گی شمع تیری انجمن سے دور
♥♥
خدا کرے کہ تجھے عید راس آجائے
تو جس کو چاہے وہ خود تیرے پاس آجائے
♥♥
اے دوست تجھ کو مبارک ہزار عید
تجھ بن منائے کیسے غریب الدیار عید
♥♥
اے دوست تجھے پھر یہ نئی عید مبارک
اور مجھ کو تیرے ملنے کی امید مبارک
♥♥
اے دوستو مبارک پھر وقت عید آیا
ساعت خوشی کی آئی روز سعید آیا
♥♥
اے شمع اپنی روشنی ہنس کر بکھیرنا
جس دم بھی نازک ہاتھوں پہ مہندی لگائے عید
♥♥
اے عید کارڈ خطا نہ کرنا قدموں میں جا گرنا
پوچھیں جو حال میرا جھک کر عید مبارک ادا کرنا
♥♥
اے ماہ تو بتا دے کیسی یہ عید آئی
مسلم کا خوں ہے ارزاں ہر طرف تباہی
♥♥
اے میرے بھولنے والے تیری خوشیوں کی قسم
مجھ کو اب کچھ بھی تیرے غم کے سوا یاد نہیں
♥♥
اے میرے دوست آج پھر تم کو
عید کی ہر خوشی مبارک ہو
♥♥
اے ہلال عید اے چھوٹے سے ٹکڑے نور کے
اے حیا پرور تبسّم آسمانی حور کے
♥♥
اے ہم نشین بهشت بہ داماں ہے شام عید
آ ہم بھی دل کے داغ جلائیں بنام عید
پلکوں پہ آنسوؤں کے ستارے سجا لئے
اس دھج سے حسرتوں نے کیا اہتمام عید
♥♥
اے ہلال عید تو نکلا ہے با صد کروفر
"نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر”
♥♥
آتی ہے روز عید مسرت لئے ہوئے
بیٹھے ہیں تیرے دید کی حسرت لئے ہوئے
♥♥
آج پھر اپنی اداسی پر ترس آیا ہے
آج ہم غم زدوں کی عید ہوئی تیرے بغیر
♥♥
آج پھر چرخ ستم گر کی سیاہ چادر پر
عید کا چاند غریبوں کو رلانے نکلا
♥♥
آج پھر عید آئی ہے اے دوست
آج پھر تیری یاد آئی ہے
♥♥
صرف کچھ مسکراہٹیں ہی نہیں
چند آنسو بھی ساتھ لائی ہے
♥♥
آج پھر عید کا چاند نظر آیا
اب نہ وہ تو ہے اور نہ وہ میں ہوں
♥♥
آج جو چاند کے چہرے پہ تمازت دیکھی
اس کے رخسار سے آنچل کو ڈھلکتے پایا
♥♥
آج عید کل عید صبح عید ہر شام عید
خدا کرے تمہارے لئے ہر لمحے کا ہو نام عید
♥♥
آج کچھ تو اہتمام کر لوں
جمع مینا و جام تو کر لوں
♥♥
ان کے آنے کی گو نہیں اُمید
عید کا احترام تو کر لوں
♥♥
آج کی عید پہ ہے کیا موقوف
ایسی عیدیں ہزاروں دیکھیں آپ
♥♥
آج کے دن صاف ہو جاتا ہے دل اغیار کا
آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا
♥♥
آج محفل میں پھر میں پھر اکیلا ہوں
آج پھر عید آئی ہے اے دوست
♥♥
آج ہم سب ملیں گے گلے سے گلے
مٹ گئے آج جتنے شکوے گلے
♥♥
آج ہے عید مسرت اور میں رنجور ہوں
محفل عیش و طرب سے کس قدر میں دور ہوں
♥♥
آسماں پر چاند چمکا عید کا
خوش ہے ہر فرد اس کی دید کا
♥♥
آفاق کی جانب اٹھے ابروئے ہلالی
اور چاند نے چپکے سے کہا عید مبارک
♥♥
آ گئی باغ جہاں میں نیک ساعت عید کی
اک تمنا رہ گئی باقی تمہاری دید کی
♥♥
آمد عید کی خوشی ہو بھلا خاک خوشی
جبکہ حاصل گلے ملنے کی سعادت نہ ہو
♥♥
آنکھیں ہیں اور لطف اب اس کی دید کا
برسوں جو آفتاب رہا چاند عید کا
♥♥
آنگن ہمارے آ کہ یہ تنہائی دور ہو
رونق ہمارے گھر کی بڑھا چاند عید کے
♥♥
کس سے ملیں گے عید ہمارا کوئی تو ہو
تو ہی ہمیں گلے سے لگا چاند عید کے
♥♥
ہے عید اے خدا کیسے منائیں ہم
سنت تیرے نبیؐ کی بجا کیسے لائیں ہم
♥♥
آئی ہے عید جشن مسرت لئے ہوئے
ہر دل ہے انبساط کی دعوت لئے ہوئے
♥♥
آئی ہے عید کیا تمہیں سوغات بھیجوں
مانگو جو آج اشکوں کی برسات بھیج دوں
♥♥
آئیے آئیے یہ آج جھجک کیسی ہے
لیجیے دوں میں سہارا کہ قریب آجاؤ
♥♥
بپا ہے شور ہر ایک سمت عید آئی ہے
مگر یہ شور خوشی کا پیامبر تو نہیں
♥♥
بجھنے لگے چراغ کہ ڈھلنے لگی ہے شب
ہم بھی تیرے خیال سے دامن چھڑا چلے
♥♥
بجھے چراغ جلاؤ کہ عید کا دن ہے
ہمیں یقین دلاؤ کہ عید کادن ہے
♥♥
بچھڑی ہوئی سہیلیاں ملتی ہیں یوں گلے
ہو جس طرح کہ عید کوئی ہم کنار عید
♥♥
بچھڑے ملتے ہیں بعد مدت کے
اس کو روز سعید کہتے ہیں
♥♥
درد اوروں کا بانٹ لینے کو
بزم ہستی میں عید کہتے ہیں
♥♥
بروز عید اداسی ہے میرے دل میں کیوں
گلے جو ملتے تھے ہر عید پر وہ اب ہیں کہاں
♥♥
بڑی خوشی ہے کہ آج ان کا عید نامہ ملا
جواب لکھنا تھا لیکن شکستہ خامہ ملا
♥♥
بنی ہے عید اگر دید دوستاں کے لیے
ملیں گے عید کے دن آپ کے خیال سے عید
♥♥
بنے ہوئے ہیں پیامی غموں کے سب ہی یہاں
نوید عید بہاراں کسی کے پاس نہیں
♥♥
بہاریں جن کے قدموں سے لگی پھرتی ہیں اے کوثر
میرے اُجڑے ہوئے گھر میں بھی آئیں عید کا دن ہے
♥♥
بھول جاؤں میں تجھے بھولنے والے لیکن
یاد آ جاتا ہے تو دیکھتے ہی عید کا چاند
♥♥
بھیگی پلکیں ، لرزاں سانسیں ، بکھری زلفیں
سنوریں گی سب ایک ہی پل میں عید کے دن
♥♥
بے چارگی کے زخم ہیں اور بے بسی کے پھول
دامن میں اور کچھ بھی نہیں عید کے لئے
♥♥
بے قراری اپنی کر دوں اس کی شوخی پر نثار
اور آخر کیا انھیں دوں ارمغان روز عید
♥♥
بے یار روز عید شبِ غم سے کم نہیں
جام شراب دیدہ پُر نم کم نہیں
♥♥
پایا ہے اس نے تیری ہی نسبت سے عید نام
کرتی ہے اپنے آئینے میں تیرا دیدار عید
♥♥
پچھلے برس جو داغ ملے اب انکو دہرائیں کیا
نم آنکھیں اس سال بھی ہیں ہم جشن عید منائیں کیا
♥♥
پردیس میں عید آئی تو کیا ہوگا یہ دل شاد
رہ رہ کے ہر اک گام پہ آتا ہے وطن یاد
♥♥
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
♥♥
پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے
قہقہے لب پہ کچھ سجاؤں گا
مجھ سے ناراض ہے جو مدت سے
عید وہ اس طرح مناؤں گا
♥♥
پہن کر نئے کپڑے گھر پر رہنا
وہ ملنے آہی جائے عید شاید
♥♥
پہنے ہوئے ملبوس حریر آتے ہیں
نخوت کے چلاتے ہوئے تیر آتے ہیں
♥♥
اے مفلسو عید گاہ خالی کر دو
ہٹ جاؤ امیر ابنِ امیر آتے ہیں
♥♥
پھر آج عید ہے اپنے نفسو
چلو کہ ہم بھی منائیں مسرتوں کی بہار
♥♥
پھر آگئی عید مگر دل اداس ہے
خوشیوں کی ہے نوید مگر دل اداس ہے
♥♥
پھر نکلا ہے چاند عید کا
لایا ہے پیغام تیری دید کا
♥♥
پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
♥♥
پیش کرتے ہیں تہ دل سے گلہائے مبارک
اس عید کے موقع پر یہ تحفہ ذرا سا
♥♥
تانتے بندھے ہیں مسجد جامع کی راہ میں
گلشن سے کھل رہے ہیں ہر اک کج کلاہ میں
♥♥
تجھ تک اے دوست میرا کس طرح آنا ہو گا
ہائے یہ عید کے دن یونہی گزر جا ئیں گے
♥♥
تجھ کو اے ہمدم مبارک عید ہو
عید خوشیوں کی نئی تمہید ہو
♥♥
تحفہ عید تجھے دیکھ تو کیا دیتے ہیں
خوشبوؤں سے تیری سانسوں کو بسا دیتے ہیں
♥♥
تری دید قابلَ دید ہے
تجھے دیکھنا میری عید ہے
♥♥
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کے درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
♥♥
تم آؤ بام پہ ایسے کہ دید ہو جائے
اسی بہانے سے میری بھی عید ہو جائے
♥♥
تم سے بچھڑے ہو ئے برسوں بیتے
تم سے کہنا ہے یہی آج ہمیں
مانگنا بھول نہ جانا ہم کو
چاند عید کا دیکھ کر گر ہاتھ اُٹھیں
♥♥
تم نہیں ہو تو کیا عید اپنی
تم جو ہوتے تو عید ہو جاتی
♥♥
تمام روز و شب یونہی فروزاں رہیں ہر دم
ہر شب شبِ برات ہر روز روزِ عید
♥♥
تمنا ہے کہ دیکھیں نئی سحر کی رنگینی
اے کاش نوید صبح کے لئے آئے ہلال عید
♥♥
تمنا، آرزو، امید خواہش دل میں اُٹھے تو
سمجھ جاتا ہوں میں کہ شہر میں پھر عید آئی ہے
♥♥
تمہاری صبح حسین ہو شب تو کہ سکو ہنس کر
تمہاری رات منور رخ سحر کی طرح
کوئی بہشت کا پوچھے تو کہ سکو ہنس کر
کہ وہ بھی خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح
♥♥
تمہاری مانگ میں افشاں سجے ستاروں کی
تمہارے ساتھ کسی باوفا کا سایہ ہو
♥♥
تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شائد ہمیں زمانے لگیں
♥♥
تمہارے چاند سے رخسار کی گر دید ہو جائے
قسم ہے اپنی آنکھو ں کی ہماری عید ہو جائے
♥♥
تنخواہ دس بڑھی تو مہنگائی سو روپے
ایسے میں خاک دوستو عیدیں منائیں ہم
♥♥
تنہائیوں کی شام ہے اور عید آئی ہے
اک حسرت ناکام ہے اور عید آئی ہے
لیلیٰ بھی اپنے دیس میں روتی ہے اور قیس
اشکوں سے ہم کلام ہے اور عید آئی
♥♥
تو روح ہر خوشی کی ہے جاں ہر نشاط کی
تیرے جمال وحسن سے ہے مستفید عید
♥♥
تو ہی کر انصاف کر ہم کیا اور ہماری عید کیا
دولت ایمان جن کی ہوچکی تاراج ہے
♥♥
توڑ کے ہائے رشتے سارے عید کی محفل کی آباد
باد صبا اب تو ہی بتا ہم رسم عید منائیں کیا
♥♥
تیرہ شبوں کو پھر سے جگمگائے ہلالِ عید
سندیسہ بہار بن کر آئے ہلالِ عید
♥♥
تیری تصویر پہ لب رکھ کے میری جان جگر
گونگے بہروں کی طرح عید منا لیتے ہیں
♥♥
تیری دید قابل دیدہے
تجھے دیکھنا میری عید ہے
♥♥
تیری زلفوں کا حسیں خم عید کا پُر نور چاند
چند رخ ہیں یہ بھی میرے درد کی تصویر کے
♥♥
تیری زمیں سے دور ترے آسماں سے دور
اپنے وطن سے دور تیرے گلستاں سے دور
کیسی خوشی کہاں کا طرب کیسی لذتیں
آئی ہے آج عید تیرے آستاں سے دور
♥♥
تیرے بغیر عید میں وہ رونقیں کہاں
بیکار سا ہے میرے لئے عید کا سوال
♥♥
تیرے لئے دعائیں تھی اور ذکر تھا تیرا
سامان اشک و آہ سے ہم نے منائی عید
♥♥
ٹوٹا بکھرا دل سنبھلے گا مشکل سے عید کے دن
ساون بھادوں نینا میرے تھم جائیں گے عید کے دن
♥♥
جانے کیوں آپ کے رخسار دمک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند
♥♥
جب بھی ٹھہرا ہے ذرا آ کے عید کا رنگ
دور تک پھیل گیا ہے میری جان عید کا رنگ
♥♥
جب بھی یہ عید کا چاند نظر آتا ہے
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آتاہے
♥♥
جب تو نہیں تو عید بھی کیسے منائیں ہم
اک بار آکے تجھے گلے سے لگائیں ہم
♥♥
جب مٹا سکتی نہیں یہ میرا نقش غربت
کس لئے عارضی پیغام خوشی لائی
♥♥
جس گھڑی عید کا چاند نظر آیا
بعد دعا لب پہ تیرا نام آیا
♥♥
جن سے ملنے کا آسرا ہی نہیں
عید اُن کا خیال لاتی ہے
♥♥
جن کی سانسوں کی ڈور اُلجھی ہو
ان کی قسمت میں عید کیا ہوگی
♥♥
جو ابرو کی تیرے کریں دید آنکھیں
نظر سے گرا دیں مہ عید آنکھیں
جھلک دیتی رہے وہ بات ہے
عید کا دن قہقہوں کی رات ہے
♥♥
جو شخص کھو گیا ہم سے اندھیری راہوں میں
اس کو ڈھونڈ کے لاؤ کہ عید آئی ہے
♥♥
جو قسمت ہم تم جدا ہو تو کیا ہے
نہیں بند ہم پر محبت کی راہیں
♥♥
مہ عید دونوں بہم دیکھتے ہیں
گلے مل رہی ہیں ہماری نگاہیں
♥♥
جہاں ہر غم کے عنواں پر خوشی کا عکس چھا جائے
وہاں بھی تو کسی دن اے ہلالِ عید جاتا ہے
♥♥
چار جانب ہے خامشی چھائی
غم کے سائے لگے ہیں پھر سے بڑھنے
مفلسی کے مزار پر عظمت
عید آئی ہے فاتحہ پڑھنے
♥♥
چاند دیکھا تیری آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ شفق
ملتی جلتی ہے شب غم سے تیری دید اب کے
♥♥
چاند دیکھا سکھ کے چاند کی دید نہ کی
میرے بچوں نے اب کے بھی عید نہ کی
♥♥
چاند دیکھا ہے تو یاد آتی ہے تیری صورت
ہاتھ اُٹھے ہیں مگر حرف دعا یاد نہیں
♥♥
چاند کو دیکھا تو یہ محسوس ہوا ہے ہم کو
ایک خنجر ہے جو سینے میں اتر جائے ہے
♥♥
چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
عید آئی بہاروں کی ردائیں سی لو
♥♥
چپ رہیں تو عذاب جاں ہے عید
اور بولیں تو پھر کہاں ہے عید
ہم غریبوں سے پوچھتے کیاہو
ہم غریبوں کا امتحاں ہے عید
♥♥
چٹکی ہے کلی گلشن میں غنچے مسکراتے ہیں
جس سے سب پھولا پھلا عید مبارک ہو مبارک ہو
چلو سوئے مقدر کو جگائیں عید کا دن ہے
کسی کے آستاں پر سر جھکائیں عید کا دن ہے
♥♥
چمن چمن اداس ہے گلوں میں رنگ و بو نہیں
اس عید کا کیا مزہ جس میں شامل تو نہیں
♥♥
چمن چمن ہے اداسی، اداس راہیں ہیں
ہمارا اپنا گلا ہے ہماری بانہیں ہیں
اے چاند عید کے تقسیم تو نے کیسی کی
کہیں پہ خوشیاں ہی خوشیاں کہیں پہ آہیں ہیں
♥♥
چہرہ کشائے یمن و سعادت مہ صیام
آئینہ دار رحمت رب مجیب عید
♥♥
حرف آخر ہے مرے دوست یہ تمہید نہیں
عید تو عید ہی ہوتی ہے تیری دید نہیں
روز ہی دیکھتا ہوں وہ چهره
روز ہی میری عید ہوتی ہے
♥♥
روزوں نے بھلا دیا تھا دل سے ہر خیال
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آگئیں
♥♥
رہ گیا اپنے گلے میں ڈال کر بانہیں غریب
عید کے دن جس کو غربت میں وطن یاد آیا
♥♥
زندگی کی بہاریں دیکھیں آپ
عیش لیل ونہار دیکھیں آپ
♥♥
آج کی عید پر ہے کیا موقوف
ایسی عیدیں ہزار دیکھیں آپ
♥♥
زمانه ہو غمگین بلا سے تیری
تیرے گھر میں تو عید ہے آئی
♥♥
زندگی ہو گئی نغمہ سرا عید کے دن
ہر طرف ہونے لگا اذن دعا عید کے دن
♥♥
سارا دن اس بے قدرے کے خط پڑھ پڑھ کر
تم بھی چپکے چپکے اختر عید منالو
♥♥
سب سے ملے وہ سینہ بہ سینہ سینہ ہم سے ملائے خالی ہاتھ
عید کے دن جو سچ پوچھو تو عید منائی لوگوں نے
♥♥
سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا
مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا
♥♥
سب نے دیکھا ہے ہلال عید کو
ہم ترستے ہیں تمہاری دید کو
♥♥
سجا کے آنکھوں کو ہا تھوں پہ عید کا تحفہ
بڑے خلوص سے لایا ہے تیرا دیوانہ
♥♥
سن اے حسن تغافل کچھ گریباں چاک دیوانے
تیری گلیوں میں دیتے ہیں صدائیں عید کا دن ہے
♥♥
سنتے ہیں کہ ز ندگی کا نہیں کوئی اعتبار
پھر اس کے بعد عید تلک مر نہ جائیں ہم
♥♥
سنو الفاظ کم ہیں اور تمنائیں ہزار
مبارک ہو میری جانب سے تمہیں عید کی خوشیاں
♥♥
سونا سونا آنگن میرا رہتا ہے جو تم بن جاناں
اپنی خوشبو سے مہکانا آکر اس کو عید کے دن
♥♥
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
♥♥
شاید اس سال میرے گھر کی طرف عید آئے
میں اسی آس پہ بیٹھی ہوں سر راہ کب سے
♥♥
شب اُمید یعنی عید کی رات
کیا قیامت تھی ایزد باری
♥♥
شبنمی ہے میرے کاشانہ دل کا ماحول
اب کہاں برق و شررعید مبا رک ہو تمہیں
زندگی ساز محبت پہ کرے رقص حسین
طالب کیف واثر عید مبارک ہو تمہیں
♥♥
شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تکبیریں
♥♥
شمع کے آنسو سر محفل شہادت پا گئے
سوز غم میں خاک ہوئی جاتی ہے پروانے کی عید
♥♥
شهر میں عید کی آج انجمن آرائی ہے
چار سو عیش ومسرت کی گھٹا چھائی ہے
♥♥
صبا بھی آج تو کچھ نا اُمید آئی ہے
دلوں کے زخم کھلیں گے نوید آئی ہے
اکیلی تو بھی ہے میرا بھی دور ہے محبوب
گلے تو مل شب ہجراں کہ عید آئی
♥♥
صبح عید کی دستک سن کر دروازے پر
روشن روشن کھل اُٹھے پھول میرے آنگن میں
♥♥
صحنِ گلشن میں صبا نے دی صدا
اے گلو عید آئی ہے عید آئی ہے
صرف کچھ مسکراہٹیں ہی نہیں
چند آنسو بھی ساتھ لائی ہے
♥♥
حسرت دید دل زار میں مر جائے ہے
عید پردیس میں بے کیف گزر جائے ہے
♥♥
حسن کے بحر میں امواج تبسم کی بہار
آج تک یاد ہے عید مجھے کشمیر کی
♥♥
حیف صد حیف ہے کہ پہلے کی طرح اب کے بھی
عید آئی تھی مگر عید منائی نہ گئی
♥♥
خاموشی کے ان لمحوں میں آنکھوں سے پھر باتیں ہو نگی
اُٹھے گا چپ چاپ سا وہ جب دید کو میری عید کے دن
♥♥
خدا شاہدہے میری عید ہوتی
گلے سے تو نے لپٹایا تو ہوتا
♥♥
خدا کرے تیرا آنگن یونہی مہکتا رہے
تیرا چہرہ یونہی عمر بھر چمکتا رہے
♥♥
خدا کرے تیرے گلشن میں عید آئی ہو
تیرے لبوں وہ ہر لمحہ مسکرائی ہو
♥♥
خدا کے واسطے میرے قریب تر ہو جا
کہ عید کی نہیں جاتی کرائی جاتی ہے
♥♥
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیوں کر کہ سوگوار ہوں میں
♥♥
خوب رویا میں لپٹ کر غم تنہائی سے
کوئی بھی آ کے گلے سے نہ لگا عید کے دن
♥♥
خط میں لکھا ہے عید کب ہو گی
ہم کو تاریخ لکھ کے بھجوائیں
♥♥
چونکہ جھگڑا تھا اس لئے ہم نے
لکھ دیا آپ جب بھی آجائیں
♥♥
خنک خنک کی مسکرا ہٹ کے ساتھ عید مبارک کہنے والے
مان لے مجھ سے زیادہ خود کو جانتا تو بھی نہیں
♥♥
خورشید ہو گیا مجھے چاند عید کا
نصیب جب تیرے رخ کی دید ہوئی
♥♥
خوشی کا چاند نکلا ہے جہاں میں عید آئی ہے
بڑی امید لے کر تمنا پھر مسکرائی ہے
♥♥
خوشی کا ہے یہ دن کیسا مبارک ہو مبارک ہو
کُھلا ہے غنچہ ہر دل کا مبارک ہو مبارک ہو
♥♥
خوشی کروں نہ کروں عید سر پر تو گئی
یہ اختیار ہے یا جبر سوچتا ہوں میں
♥♥
خوشی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے دیکھے ہیں
ہلال عید بھی ہم کو دریده جامه ملا
♥♥
خوشیاں مناتے پھرتے ہیں سب لوگ عید کی
اور مجھ کو آرزو ہے فقط تیری دید کی
♥♥
خوشیوں کی ہو عید مبارک
یہ روز ہو عید ہو مبارک
♥♥
خوشیوں سے بھرا سندیس ہے میرے لئے یہ عید
بچھڑے ہووں کی استداح ہے پیام عید
♥♥
خوشیوں کے لمحات میں ، عالم جذبات میں
تم ہمیں بھی یاد رکھنا عید کے لمحات میں
♥♥
داغ دل زخم جگر رگ جان عظمت
سوچتا ہوں کہ تجھے عید پہ تحفہ کیا دوں
♥♥
دامان شوق دولت گل سے سجائیں ہم
آؤ کہ جشن عید محبت سے منائیں ہم
♥♥
دامن میں میرے جتنے محبت کے پھول ہیں
تم کو خوشی میں عید کی کرتا ہوں پیش میں
♥♥
درد کتنے، غم جہاں کتنے
کیا اسی دن کو عید کہتے ہیں
♥♥
دستور ہے دنیا کا مگر یہ تو بتاؤ
ہم کس سے ملیں کس سے کہیں عید مبارک
♥♥
دشت غربت میں ملیں کسی سے گلے عید کے دن
تیری تصویر ہی سینے سے لگا لیتے ہیں
♥♥
دل سے رخصت ہر اک اُمید ہوئی
آج ہم غمزدوں کی عید ہوئی
♥♥
دل کے جذبات کھینچ لاتی ہے
جو جوانی میں عید آتی ہے
♥♥
دل میں ہزار درد ہیں آنکھیں ہیں اشک بار
تھا یوم عید کا یہی تحفہ میرے لئے
♥♥
دلکش سحر عید کی تمہید یہ ہی ہے
میں تشنہ الفت ہوں میری عید یہ ہی ہے
♥♥
دلوں کو جوڑنے والی حسین ساعت کو
ہم اہلِ قلب و نظر میٹھی عید کہتے ہیں
♥♥
دنیا سرور و نور کی لہروں میں غرق ہے
کس درجہ جاں فزا ہے نسیم بہار عید
♥♥
دنیا کو ایک عرصہ سے تھا انتظار عید
شکر خدا کہ پھر نظر آئی بہار عید
♥♥
دوستوں سے دور جا کر کیا مزہ ہے عید کا
دوستوں کی دید حاصل ہو تو پھر ہو عید بھی
♥♥
دیتا ہوں تہہ دل سے یہ گلہائے مبارک
اس عید کے موقع پہ یہ تحفہ ہے ذراسا
♥♥
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آ گئے
اس محویت میں عید ہماری گزر گئی
♥♥
دیکھا ہلال عید تو مانگی یہی دعا
یا رب میری جمیلہ کو مجھ سے جدا نہ کر
♥♥
دیکھا ہلال عید تو محسوس یہ ہوا
لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا
♥♥
دیوانو چلو شہر میں پتھر بھی ہیں ناپید
جنگل میں لہو روئیں گے اور عید کریں گے
♥♥
دے انہیں جنبش کبھی عہدِ وفا کے واسطے
تیرے ہونٹوں میں نہاں میرا ہلال عید ہے
♥♥
ذرا دم کو بھلا دو قصہ درو جدائی تم
بجھے دل سے سہی لیکن مناؤ عید کا دن ہے
♥♥
رات آنکھوں میں گزرتی ہے تو دن بے چین سا
کس طرح سے کٹ رہی ہے کیا سناؤں عید پر
♥♥
راستوں میں بچھی رہیں نظریں
وہ نہ آئے انہیں نہ آنا تھا
♥♥
رقص کرتا تھاکانٹوں سے گلے مل مل کے
عید صحرا میں منائی تیرے دیوانے نے
♥♥
رقیبوں سے نہ ملتے عید اتنی گرم جوشی سے
تمہارے پھول سے رخ پر پسینے آگئے
♥♥
رنگ و جمال خون شہیداں نہ بھولنا
جس دم تمہارے ہاتھوں پہ مہندی لگائے عید
♥♥
ظالم بتا خوشی نہیں کیا عید کی تجھے
جاری دل غریب پہ ہے آج بھی عتاب
♥♥
عالم دوری میں ہمدم یوں نظر مل جائے گی
میں یہاں اور وہ وہاں دیکھیں گے مہتاب عید کا
♥♥
عجب یاس میں عید کا دن گزارا
خدا کی قسم تم بہت یاد آئے
♥♥
عشرت عید ہے کیا بے سر و ساماں ہونا
اپنے کاشانے کا یاد آ گیا ویراں ہونا
♥♥
عشرت قتل گاہ اہل تمنا مت پوچھو
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
♥♥
عشرت میکده مبارک ہو
مجھ کو ساز ِ بہار دے ساقی
♥♥
عشرتیں زندگی میں ہوں لاکھوں
عيد کی ہر خوشی مبارک ہو
♥♥
عید اس کی کیا، اسے کیا ہو خوشی
منتظر ہو جو تمہاری دید کا
♥♥
عید ان کی ہے جنہیں ہے پاس ناموس وطن
عید ان کی ہے جنہیں دین ھدیٰ کی لاج ہے
♥♥
عید آتی ہے ہر اک سال چپکے چپکے
اور دبے پاؤں گزر جاتی ہے مل کے سب سے
♥♥
عید آتی ہے دل دکھاتی ہے
یاد بچھڑے ہوؤں کی لاتی ہے
جن سے ملنے کا آسرا ہی نہیں
عید ان کا خیال لاتی ہے
♥♥
عید آگئی قرار دل وجاں لئے ہوئے
کیف و طرب کا جشن فروزاں لئے ہوئے
♥♥
عید آئی حسین چراغ جلے
یاد مچلی تو دل کے داغ جلے
عید آئی سب نے پہنے طرب خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں
♥♥
عید آئی ہے اے لباس کہن
اب تیرے چاک پھر سلائیں گے
♥♥
عید آئی ہے بڑی دھوم کے ساتھ
یار یاروں سے بغل گیر ہوئے
ذرے عشرت کی شرابیں پی کر
چاند تاروں سے بغل گیر ہوئے
♥♥
عید آئی ہے تو آج میری زہرہ جبین
دل کے جذبوں سے تیرا نام لیا ہے میں نے
تو کہ اس اُجڑے ہوئے دل کی حسیں خواہش ہے
تیرے بارے میں بہت غور کیا ہے میں نے
♥♥
عید آئی سلگتی ہوئی تنہائیاں لے کر
آج پھر اداسی پر ترس آ رہا ہے
♥♥
عید بہاراں کی آمد کوثر سے ویرانے تک
ہجر ز دوں پر کیا گزری ہے وصل کا موسم آنے تک
♥♥
عید پر جو آپ آ جائیں
میری بھی عید ، عید ہو جائے
♥♥
عید تو اب غم کا اک پیغام ہے اپنے لئے
عید کی خوشیاں مبارک تم کو ہوں جان وفا
♥♥
عید تو ہوتی ہے اس کی جس کا دلبر پاس ہو
ہم سے تو بچھڑے صنم ہیں کیا ہماری عید ہے
♥♥
عید روزہ دار کی ہے روزہ خوروں کی نہیں
عید مومن کی ہے بے ایمان چوروں کی نہیں
♥♥
عید سر پر آچکی ہے اک نظر اس سمت بھی
ہو سکے تو چند سکے عید کے کھاتے میں ڈال
♥♥
عید کا چاند دیکھ کر ہم نے
تیرے دیدار کی دعا مانگی
♥♥
عید کے چاند! غریبوں کو پریشان نہ کر
تجھے کو معلوم نہیں زیست گراں ہے کتنی
♥♥
عید کا چاند فلک پر نظر آیا جس دم
میری پلکوں پہ ستارے تھے تیری یادوں کے
♥♥
عید کا چاند ہے خوشیوں کا سوالی اے دوست
خوشیاں بھیک میں مانگے سے کہاں ملتی ہیں
♥♥
دست سائل میں اگرکاسہ غم چیخ اٹھے
تب کہیں جا کے ستاروں سے گراں ملتی ہے
♥♥
عید کا دن بھی یونہی بیت گیا
ہم کبھی جیتے اور کبھی مرتے رہے
♥♥
عید کا دن پھر آیا ہمدم
لیکن تم نہ آئے دیکھو
یوں تڑپانا ٹھیک نہیں
کیا کرتے ہو کچھ تو سوچو
♥♥
عید کا دن تو نہیں ہے انجم
آج کیوں اس قدر اداس ہو
♥♥
عید کا دن جب بھی آئے گا
میری آنکھوں میں اشک لائے گا
Eid Sad Poetry
چند لمحوں کے لئے عید جو آ جائے
دل کے ویرانے میں کھل جائیں گے کچھ گل بوٹے
♥♥
نور و نگہت کی نئی دنیا میں کھو جائیں گے
غمِ دوراں سے ذرا دیر کو رشتے ٹوٹے
♥♥
ان کی طرف گزر ہو تو کہہ دینا اے صبا
کرتا تھا انتظار کوئی سوگوار عید
♥♥
اس مسرت میں رہے تجھ کو خیال
عید کے دن بھی ہیں کچھ دل پر ملال
♥♥
اس مہرباں کی نظر عنایت کا شکریہ
تحفہ دیا عید پہ ہم کو فراق کا
♥♥
ابھی ابھی تو سلائی ہیں حسرتیں
بہر خدا قریب نہ آئے ہلال عید
♥♥
اشک بن کر بکھر گئی عید
آگے بابا گزر گئی ہے عید
♥♥
افسوس صد افسوس کہ پہلے کی طرح اب بھی
عید آئی مگر عید منائی نہ گئی
♥♥
امیروں کے لئے ہر روز روز عید ہے
غریب خوش ہوں تو جانیں کہ عید آئی
♥♥
اب تیرے اس دل نومید میں کیا رکھا ہے
عید آیا کرے اب عید میں کیا رکھا ہے
♥♥
ابھی اسیر قفس ہیں رہا ہونے تو دو
رہا ہوئے تو ہم عیدیں ہزار کر لیں گے
♥♥
اپنے احساس کی لحد کے قریب
عید گاہوں کو ڈھونڈتا ہوں میں
♥♥
اپنے بیگانے گلے ملتے ہیں سب عید کے دن
اور تو مجھ سے بہت دور ہے اس عید کے دن
♥♥
اس بچے کی عید نہ جانے کیسی ہو گی
جس کی جنت ننگے پاؤں پھرتی ہے
♥♥
طرح شام عید ہوا جلوہ بار چاند
غم فراق کو لگ جائیں چار چاند
♥♥
ہلالِ عید کو دیکھو تو روک لو آنسو
جو ہو سکے تو محبت کا احترام کرو
♥♥