داغؔ دہلوی:

نواب مرزا خان دہلوی 25 مئی 1831 ء کو دہلی میں ہوا۔ اُن کے والد کا نام نواب شمس الدین خاں اور والدہ کا نام وزیر بیگم عرف چھوٹی بیگم تھا۔ 

داغؔ کی وفات 16 فروری 1905 کو ہوئی۔ 

تصانیف:

داغؔ نے بہت سے دیوان لکھے لیکن، اُن کا ایک دیوان  غدر 1857ء  میں تلف ہو گیا تھا۔ داغؔ کی دوسری مطبوعہ تصانیف یہ ہیں:۔

1۔ گلزارِ داغؔ:

 یہ داغؔ کا پہلا دیوان ہے جو 1878ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔

2۔ آفتابِ داغؔ:

 یہ داغ کا دوسرا دیوان ہے جو پہلی بار 1884ء میں مطبع انوار الاخبار ، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ 

3۔ فریادِ داغ:

 یہ داغ کی وہ مشہور مثنوی ہے جس میں داغؔ نے منی بائی حجاب سے اپنے عشق کی داستان رقم کی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1885ء میں مراد آباد سے شائع ہوا۔ 

4۔ مہتابِ داغؔ:

 یہ داغؔ کا تیسرا دیوان ہے۔ یہ حیدر آباد سے شائع ہوا۔ 

5۔ یادگارِ داغؔ:

 یہ داغ ؔ کے کلام کا چوتھا دیوان ہے۔ جسے داغ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد احسن مارہروی نے جمع و مرتب کر کے لاہور سے شائع کیا۔ 

6۔ ضمیمہ یادگارِ داغؔ:

 اس میں داغؔ کا وہ کلام شامل ہے۔ جو بعد میں دستیاب ہوا اور جسے لالہ سری رام نے مرتب کر کے لاہور سے شائع کیا۔ 

7۔ انشائے داغؔ:

 یہ داغؔ کے 140 خطوط کا مجموعہ ہے۔ جو دہلی سے 1941ء میں شائع ہوا۔ 

8۔ زبانِ داغؔ:

 یہ بھی داغؔ کے خطوط کا مجموعہ ہے یہ مجموعہء خطوط 1956ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ 

داغؔ کے کلام کی خصوصیات:

داغؔ نے سادہ اور عام زبان میں شعر گوئی کو فروغ دیا۔  اور صحتِ زبان کے شعور کو عام کیا،شاعری میں زبان، محاورے اور روزمرہ کے صاف استعمال کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اُن کی معیار بندی اصل مسئلہ ہے۔ 

مرزا غالبؔ نے کہا ” ذوق نے اردو کو اپنی گود میں پالا اور داغؔ نہ  صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے”۔ 

اقبالؔ جیسے عظیم شاعر نے اپنی شاعری کی ابتدائی تعلیم اور تزئین کے لیے داغؔ کا انتخاب کیا۔ "بانگ درا” کی غزلیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں  کہ اقبالؔ بھی دبستانِ داغؔ کے ایک رکن ہیں۔  اقبالؔ نے داغؔ کا مرثیہ لکھا اور داغؔ کو ” جہاں آباد ” کا آخری شاعر قرار دیا ہے۔ 

؎ چل بس داغ آہ! میّت اس کی زیب دوش ہے

آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے

داغؔ عشق کی والہانہ سرمستی اور حسن کی بے تابانہ خود سپردگی کے شاعر ہیں۔ داغؔ اردو زبان کے اُن خوش قسمت شعراء میں سے ہیں جن کے بیسیوں اشعار ضرب المثل کی شکل میں  زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ 

تصویری شاعری

حمدیہ اور نعتیہ اشعار

اس شانِ رحیمی نے بہت رنگ دِکھایا

جس وقت جھکی چشمِ گنہگار ذرا سی

٭٭٭

دیتا ہے وہی کافرِ  دیں دار کو روزی

خالی نہیں پھرتا کوئی اللہ کے گھر سے

٭٭٭

تو جو اللہ کا محبوب ہوا، خوب ہوا

یا نبیؐ خوب ہوا، خوب ہوا، خوب ہوا

٭٭٭

خدا دے تو دے آرزوئے محمدؐ

کریں چشم  و دل جستجوئے محمدؐ

٭٭٭

یہ داغ ہے صحابہ (رض) عظام کا مطیع

یہ داغ جانثار ہے آلِ رسولؐ کا

٭٭٭

انتخاب

داغؔ کیا خوفِ صَر صَرِ عصیاں

خاک پائے ابو تُرابؑ ہوں میں

٭٭٭

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

٭٭٭

دیکھ کر وہ داغؔ کی تصویر یہ کہنے لگے

آدمی اچھا ہے اچھی ہو اگر تقدیر بھی

٭٭٭

ہوئے ہیں داغؔ کے مذہب سے حیراں کافر و مومن

کبھی اس حال میں دیکھا، کبھی اس حال میں دیکھا

٭٭٭

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

٭٭٭

بات وہ بات ہے جو دل میں اتر کر جائے

یوں تو کہنے کے لیے اہلِ سخن لاکھوں ہیں

٭٭٭

کیسا وصال، کس کی تسلی، کہاں کا لطف

کچھ ہو نہ ہو بلا سے میرے دل کی خیر ہو

٭٭٭

داغؔ کو تم سے میری جان یہ امید نہ تھی

جھوٹے منھ بھی تو نہ پوچھا کہ پریشاں کیوں ہو

٭٭٭

در و دیوار کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا

ان کے آتے ہی بدل جاتی ہے گھر کی صورت

٭٭٭

ہائے مجبوریاں محبت کی

حال کہنا پڑا ہے دشمن سے

٭٭٭

وہی جھگڑا ہے فرقت کا، وہی قصہ ہے الفت کا

تجھے اے داغؔ کوئی اور بھی افسانہ یاد آتا ہے

٭٭٭

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے

جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے

٭٭٭

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو

بے غرض جو دیا، دیا اس نے

٭٭٭

داغؔ کو کون دینے والا تھا

جو دیا اے خدا، دیا تو نے

٭٭٭

حسرتیں دل کی مِٹی جاتی ہیں

قافلہ ہے کہ لُٹا جاتا ہے

٭٭٭

یہ کہہ کر کیا اس نے شرمندہ مجھ کو

سلامت رہیں بے وفا کہنے والے

٭٭٭

داغؔ، دشمن سے بھی جھک کر ملیے

کچھ عجب چیز ملنساری ہے

٭٭٭

دیکھئے کون گرفتارِ بلا ہوتا ہے

آج وہ زلف پریشان کیے بیٹھے ہیں

٭٭٭

بتوں کے کوچے سے ہم دل فگار ہو کے چلے

شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے

٭٭٭

نالے کرنے دلِ ناکام بُرے ہوتے ہیں

کہ بُرے کاموں کے انجام بُرے ہوتے ہیں

چھیڑ معشوق سے کیجئے تو ذرا تھم تھم کر

روز کے نامہ و پیغام بُرے ہوتے ہیں

٭٭٭

اے داغؔ اسی شوخ کے مضمون بھرے ہیں

جس نے مرے اشعار کو دیکھا، اسے دیکھا

٭٭٭

ملتے ہی بے باک تھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی

پھر گئی پچھتا کے پلکوں تک حیا آئی ہوئی

ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی

اُف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

٭٭٭

کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں

کمی ہے کون سی یا رب ترے خزانے میں

٭٭٭

ملاتے ہو اُسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہلِ ہستی سے

مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

٭٭٭ 

 

دلِ پُر اضطراب نے مارا

اسی خانہ خراب نے مارا

دیکھ کر جلوہ غش ہوئے موسیٰ

داغؔ مجھ کو حجاب نے مارا

٭٭٭

محشر میں وہ نادم ہوں خدا یہ نہ دکھائے

آنکھوں نے کبھی اس کو پشیماں نہیں دیکھا

کیا داد ملے اس سے پریشانئ دل کی

جس بت نے کبھی خوابِ پریشاں نہیں دیکھا

٭٭٭

جنبش میں یوں ہیں وہ لبِ نازک نفس کے ساتھ

جیسے ہلے نسیم سے پتّی گلاب کی

٭٭٭

دل مبتلائے لذّتِ آزار ہی رہا

مرنا فراقِ یار میں دشوار ہی رہا

٭٭٭

جب جوانی کا مزا جاتا رہا

زندگانی کا مزا جاتا رہا

٭٭٭

عالمِ یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت

دل سلامت ہے تو حسرت بہت، ارمان بہت

سوچیے دل میں تو ہے عشق نہایت دشوار

نہ سمجھیے تو یہی کام ہے آسان بہت

بزمِ احباب میں اے داغؔ کبھی تو ہنس بول

دیکھتے ہیں تجھے ہر وقت پریشان بہت

٭٭٭

میں گنہ گار، اگر عشقِ مجازی ہے گناہ

میں خطا وار اگر اس کو خطا کہتے ہیں

٭٭٭

راہ پر اس کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

٭٭٭

بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں

کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

الٰہی ! کیوں نہیں اٹھتی قیامت، ماجرا کیا ہے؟

ہمارے سامنے، پہلو میں  وہ دشمن کے بیٹھے ہیں

٭٭٭

دردِ دل کا کوئی پہلو جو نکالوں تو کہوں

اپنے روٹھے ہوئے دلبر کو منالُوں تو کہوں

شبِ ہجراں میں جو کچھ اس سے ہوئی ہیں باتیں

تیری تصویر کو سینے سے لگا لوں  تو کہوں

میں ہوں بے تاب، وہ بد مست فسانہ ہے دراز

دل کو تھاموں تو کہوں ، ان کو سنبھالوں تو کہوں

٭٭٭

دل گیا، تم نے لیا، ہم کیا کریں

جانے والی چیز کا غم کیا کریں

معرکہ ہے آج حُسن و عشق میں

دیکھئے وہ کیا کریں، ہم کیا کریں

اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات

اِس نبا پر فِکر عالم کیا کریں

٭٭٭

زاہد مزا تو تب ہے عذاب و ثواب کا

دوزخ میں بادہ کش نہ ہوں، جنّت میں تو نہ ہو

٭٭٭

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

مری جاں! چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

٭٭٭

یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی

اس لیے روٹھ رہے ہیں کہ منائے کوئی

حال افلاک و زمیں کاجو بتایا ہے تو کیا

بات وہ ہے جو ترے دل کی بتائے کوئی

٭٭٭

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

ابھی سِن ہی کیا ہے جو بے باکیاں  ہوں 

انھیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے

سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو

وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

٭٭٭

کام دنیا میں نکلتا نہیں آسانی سے

جس کو ہم سہل سمجھ لیتے ہیں مشکل ہے وہی

٭٭٭

وہ عیادت کو مری آتے ہیں، لو اور سنو

آج ہی خوبیِ تقدیر سے حال اچھا ہے

٭٭٭

آپ کا اعتبار  کون کرے

روز کا انتظار کون کرے

تم تو ہو جان اک زمانے کی

جان تم پر نثار کون کرے

داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے

ایسی صؤرت کو پیار کون کرے

٭٭٭

رنج کی جب گفتگو ہونے لگی

آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی

ہے تری تصویر کتنی بے حجاب 

ہر کسی کے روبرو ہونے لگی

نا امیدی بڑھ گئی ہے اس قدر

آرزو کی آرزو ہونے لگی

٭٭٭

اچھی صورت پہ غضب کے آنا دل کا

یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا

تم بھی منھ چوم لو جو بے ساختہ  پیار آ جائے

میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانا دل کا

حور کی شکل ہو تم، نور کے پتلے ہو تم

اور اس پر تمھیں آتاہے جلانا دل کا

بعد مدت کے یہ اے داغؔ سمجھ میں آیا

وہی دانا ہے، کہا، جس نے نہ مانا دل کا

٭٭٭

غضب کیا، تری وعدے پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

٭٭٭

لے چلا جان مری، روٹھ کے جانا تیرا

ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا

تو جو اے زلف! پریشان رہا کرتی ہے

کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانہ تیرا

٭٭٭

یوں وفا اُٹھ گئی زمانے سے

کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

٭٭٭

وعدے پہ انتظار کیا، ہم نے کیا کِیا

جھوٹے کا اعتبار کیا، ہم نے کیا کِیا

کہہ دیں گے ہم تو داورِ محشر سے صاف صاف

اچھّوں کو دل سے پیار کیا، ہم نے کیا کِیا

٭٭٭

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وفا کریں گے، نبھائیں گے، بات مانیں گے

تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بے درد، اور درد رہا

مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا

٭٭٭

مبارک خضر کو ہو عمرِ جاوِید

یہ تھوڑی سی گزر جائے تو اچھا

٭٭٭

دل نا کام کے ہیں کام خراب

کر لیا عاشقی میں نام خراب

کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا

وہ بھی دشوار، ناتمام، خراب

٭٭٭

کس کس کی چاہ کیجیے، کس کس کی آرزو

اک دل ہزار غم میں گرفتار ہو گیا

اے داغؔ ! کیا بتائیں محبت میں کیا ہوا

بیٹھے بٹھائے جان کو آزار ہو گیا

٭٭٭

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں

اگر نہ آگ لگا دوں تو داغؔ نام نہیں

الہٰی! تو نے حسینوں کو کیوں کیا پیدا

کچھ ان کی ذات سے دُنیا کا انتظام نہیں

٭٭٭

جان جاتی دکھائی دیتی ہے

اُن کا آنا نظر نہیں آتا

٭٭٭

عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

یہ مزا تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی

نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا

٭٭٭

 

خاطر سے یا لحاظ سے مَیں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں

الٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں

سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو، مہمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلّتیں ہوئیں

لیکن اسے جتا تو دیا، جان تو گیا

ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

٭٭٭

 دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں

دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں

٭٭٭

جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں

مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں

٭٭٭

تجھ سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں

اے محبت ترا جواب نہیں

روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں

زندگی کا کوئی حساب نہیں

٭٭٭

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

 حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار کی

کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

کیوں کر نہ آئے خلد سے آدم زمین پر

موزوں وہیں وہ خوب ہے، جو شے جہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

٭٭٭

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت

سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت

اس واسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ

اک درد کے خوگر نہ ہوں بیمارِ محبت

کچھ تذکرہء عشق رہے حضرتِ ناصح

کانوں کو مزہ دیتی ہے گفتارِ محبت

٭٭٭

ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا

حقیقت میں جو دیکھنا تھا نہ دیکھا

وہ کب دیکھ سکتا ہے اس کی تجلّی

جس انسان نے اپنا جلوا نہ دیکھا

تری یاد ہے یا ہے تیرا تصوّر

کبھی داغؔ کو ہم نے تنہا نہ دیکھا

٭٭٭ 

دن گزارے عمر کے انسان ہنستے بولتے

جان بھی جائے تو میری جان! ہنستے بولتے

آسماں برسوں رلاتا ہے، لگا دیتا ہے چپ

دیکھ لیتا ہے اگر اک آن ہنستے بولتے

٭٭٭

زہر بن کے دوا نہیں آتی

مر رہا ہوں قضا نہیں آتی

خبرِ دل رُبا نہیں آتی

اُس طرف کی ہوا نہیں آتی

غمزے آتے ہیں’ ناز آتے ہیں

ایک تم کو وفا نہیں آتی

٭٭٭

ہم  نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا

پھر کلیجا رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا

٭٭٭

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا

وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

لیجئے سنئے اب افسانہ فرقت مجھ سے

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں

ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

٭٭٭

اُن آنکھوں کی آنکھوں سے لوں میں بلائیں

میسر ہے جن کو نظارہ تمھارا

رُکاوٹ نہ ہوتی تو دل ایک ہوتا

تمھارا ہمارا، ہمارا تمھارا

٭٭٭

خاموش سنتی رہتی ہے پہروں شبِ فراق

تصویرِ یار کو ہے مری گفتگو پسند

٭٭٭

آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی

میں بھی ہمراہ زمانے کے بدل جاؤں گا

٭٭٭

غم اس پر آشکار کیا، ہم نت کیا کِیا

غافل کو ہوشیار کیا، ہم نے کیاکِیا

وعدے پہ انتظار کیا، ہم نے کیا کِیا

جھوٹے کا اعتبار کیا، ہم نے کیا کِیا

٭٭٭

اقرار سے زیادہ ہے انکار آپ کا

ہر دم نہیں نہیں ہے تو ہاں کبھی کبھی

میری مجال ہے جو کروں عرضِ مُدّعا

نظروں میں بات ہوتی ہے پنہاں کبھی کبھی

٭٭٭

عرضِ وفا پہ دیکھنا’ اُس کی ادائے دلفریب

دل میں کچھ اعتبار سا’ آنکھ میں کچھ ملال سا

٭٭٭

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ناز والے نیاز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں

٭٭٭

آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمھارے سامنے

تم ہمارے سامنے ہو ہم تمھارے سامنے

حشر کے دن بھی ہو شرحِ غم تمھارے سامنے

سب خدا کے سامنے ہوں ہم تمھارے سامنے

٭٭٭

ہم سے پوچھے کوئی دنیا میں ہے کیا شے اچھی

رنج اچھا ہے غم اچھا ہے ملال اچھا ہے

٭٭٭

جذبِ دل آزما کے دیکھ لیا

اس نے کچھ مسکرا کے دیکھ لیا

٭٭٭

آغاز کو کون پوچھتا ہے

انجام اچھا ہو آدمی کا

٭٭٭

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

٭٭٭

ہائے وہ دن کہ میسر تھی ہمیں رات نئی

روز معشوق نیا’ روز ملاقات نئی

بات کرتی نہیں لے لیتی ہے چٹکی دل میں

یہ تو ہے آپ کی تصویر میں اک بات نئی

٭٭٭

وہ چال چال ہے جو تمھارے چلن میں ہے

وہ بات بات ہے جو تمھارے سخن میں ہے

٭٭٭

 خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں

مجھے یقین ہوا، مجھ کو اعتبار آیا

٭٭٭

شوق کہتا ہے ابھی عرضِ تمنا کیجئے

دل یہ کہتا ہے کہ پڑتی نہیں ہمت میری

کیا جدائی کا اثر ہے کہ شبِ تنہائی

میری تصویر سے ملتی نہیں صورت میری

٭٭٭

نہ دلاسا، نہ تسلّی، نہ تشفّی ، نہ وفا

دوستی اس بُتِ بد خو سے نباہیں کیوں کر

٭٭٭

 بتانِ ماہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں

جسے برباد کرتے ہیں اُسی کے دل میں رہتے ہیں

خدا رکھے محبت نے کیے آباد دونوں گھر

میں اُن کے دل میں رہتا ہوں، وہ میرے دل میں رہتے ہیں

کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد ! بتا دینا

تخلص داغؔ ہے، وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں

٭٭٭

اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمھارا کیا ہے

آنکھ نرگس کی، دہن غنچے کا، حیرت میری

٭٭٭

کون بے کس کی زمانے میں خبر لیتا ہے

دل نے سینے میں بہت شور مچایا تنہا

٭٭٭

بلائے عشق تو دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

مرا رقیب بھی رویا  گلے لگا کے مجھے

٭٭٭

ہم تو اس آنکھ کے ہیں دیکھنے والے دیکھو

جس میں شوخی ہے بہت اور حیا تھوڑی سی

٭٭٭

 یوں مصوّر یار کی تصویر کھینچ

کچھ ادا کچھ ناز کچھ تقریر کھینچ

٭٭٭

نہ اترائیے دیر لگتی ہے کیا

زمانے کو کروٹ بدلتے ہوئے

٭٭٭

شبِ وصل ضد میں بسر ہو گئی

نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی

شبِ وصل ایسی کِھلی چاندنی

وہ گھبرا کے بولے سحر ہو گئی

٭٭٭

لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد

ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں

داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا 

وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں

٭٭٭

 

مآخذ: منتخب کلام داغ دہلوی، مرتّب، ڈاکٹر نثار ترابی، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد

یہ بھی پڑھیے۔ شکریہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top