اردو شاعری میں واقعات کربلا

سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

مجید امجد

♦♦♦

خون ناحق کی تو خنجر ہی گواہی دے گا

اور جتنے بھی تھے سب ہوگئے قاتل کی طرف

احمد ندیم قاسمی

♦♦♦

ہر طرف قاتلوں کو مجمع ہے

اپنی بستی کو کربلا کیجیے

نا معلوم

♦♦♦

چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے

خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے

مظفر حنفیؔ

♦♦♦

یہ آج جو اک گونج ہے آزادی کی

یہ بھی ہے حسینؑ ابنِ علی کی آواز

جوشؔ

♦♦♦

بخشا خدا نے وہ دل درد آشنا مجھے

ہر معرکہ ہے معرکہ کربلا مجھے

منتظر لکھنوی

♦♦♦

حسینؑ ابنِ علیؑ کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

شہریارؔ

♦♦♦

کوئی قاتل نہیں گذرا ایسا

جس کو تاریخ بچا کر لے جائے

عبید اللہ علیم

♦♦♦

خیموں میں چراغ بجھ رہے ہیں

یہ وقت فرار کا نہیں ہے

سلیم کوثرؔ

♦♦♦

سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

ہمارا نام بھی جینے کا استعارہ ہوا

عرفان صدیقیؔ

♦♦♦

رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ

کہ وقت عصر ہے اور کربلا ہے

عبید اللہ علیمؔ

♦♦♦

آج تک معرکہ صبر و ستم جاری ہے

کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم

عرفان صدیقیؔ

♦♦♦

زمیں جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے

تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے

عبید اللہ علیم

♦♦♦

سنت آلِ نبیؐ کون کرے گا پوری

آج جس شہر کو دیکھا وہی کوفہ نکلا

نا معلوم

♦♦♦

وہ رن مجھ پر پڑا ہے خیر و شر کا

کہ اپنی ذات میں اک کربلا ہوں

سلیم احمد

♦♦♦

تجھ سے ممکن ہو تو اے ناقد ایام کہن

اپنے گمنام خزانوں کو اٹھا کر رکھ لے

رات بے نام شہیدوں کے لیے روتی ہے

ان شہیدوں کا لہو دل سے لگا کر رکھ لے

مصطفیٰ زیدی

♦♦♦

ہزار دشت پڑے لاکھ آفتاب ابھرے

جبیں پر گرد پلک پر نمی نہیں آئی

کہاں کہاں نہ لٹا کارواں فقیروں کا

متاع درد میں کوئی کمی نہیں آئی

زیدیؔ

♦♦♦

پانی پہ کس کے دست بریدہ کی مہر ہے

کس کے لیے ہے چشمہ کوثر لکھا ہوا

ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید

جیسے ورق پہ حرف منور لکھا ہوا

عرفان صدیقی

♦♦♦

جز حسینؑ ابنِ علیؑ مرد نہ نکلا کوئی

جمع ہوتی رہی دنیا سر مقتل کیا کیا

آباد پھر اک کرب و بلا ہو کے رہے گی

یہ رسم بہرحال ادا ہو کے رہے گی

گوپی چند نارنگ

♦♦♦

لٹ گئی دولت ایمان و متاع عرفاں

کیسر و منبر و محراب و کلیسا مددے

پیاس ایسی کہ زباں منھ سے نکل آئی ہے

کوئی قلزم کوئی دریا کوئی قطرہ مددے

حلق اصغر کی طرف ایک کمان اور کھینچی

اے ہواؤں کے رخ اے گردش صحرا مددے

کس طرف سجدہ کروں کس سے دعائیں مانگوں

اے مرے شش جہت قبلہ و کعبہ مددے

مصطفیٰ زیدی

♦♦♦

کرکے آئے تھے یہ اللہ سے پیمان وفا

حق توحید ادا کر گئے یہ مرد خدا

دار پر نعرہ حق ان کی زباں سے نکلا

خوں کے ہر قطرہ نے دی ان کی صداقت کی صدا

مجازؔ

♦♦♦

نظمیں

بہ اندازِ سلام سے اقتباس

حسینؑ میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حسینؑ میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حسینؑ تجھ کو سلام میرا

امجد اسلام امجد

♦♦♦

 

حسینؑ فاتح لیل و نہار بن کے رہا

حسینؑ زیست کا اک شاہکار بن  کے رہا

حسینؑ آئینہ کردگار بن کے رہا

 

حسینؑ بے کس و مظلوم و بے دیار سہی

غریب و مفلس و غمدیدہ و نزار سہی

مگر وہ معنی عز و  وقار بن کے رہا

کیفی اعظمی

♦♦♦

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top