میر تقی میر شاعری(1723-1810)

میر تقی میرؔ
مختصر تعارف

محمد تقی نام۔ میرؔ تخلص، پردادا حجاز سے دکن آئے۔ وہاں سے احمد آباد (گجرات) میں آکر قیام کیا۔ آخر اکبر آباد (آگرہ) میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ میر تقی میرؔ، 1135 ہجری بمطابق 1722ء  میں وہیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ علی متقی کے لقب سے مشہور تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور سیّد امان اللہ سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے، اس لیے اپنے سوتیلے خالو سراج الدین علی خان آرزو کے پاس دلّی چلے آئے اور انہی کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی۔

 یہ وہ زمانہ تھا جب کہ سلطنتِ مغلیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ دلّی میں آئے دن کی خانہ جنگیوں اور بد امنیوں نے میرّ صاحب کو دل برداشتہ کر دیا تھا۔ نواب آصف الدّولہ کی دعوت پر 1782ء میں لکھنؤ گئے۔ کسی بات پر نواب سے اَن بَن ہو گئی اور دربار کا تعلق منطقع ہو گیا۔ 1810ء میں وفات پائی۔ اردو شعراء کا سب سے پہلا تذکرہ "نکات الشعراء”، ذکرِ میرؔ اور "کلیات میرّ” رقم کیے۔ 

میرؔ کی زبان  نہایت صاف، کلام سلیس ۔۔۔کلامِ میر سہل ممتنع کی اعلیٰ مثال ہے۔  تمام عمر مصیبت اور افکار میں گزری، میرؔ نے آپ بیتی کہی ہے جب کہ دوسرے شعرا نے جگ بیتی۔ کلام میں ایسا سوز و گداز ہے کہ خدا کی پناہ۔

میؔر کا سوز و گداز اردو شاعری کے لیے سرمایہ ناز ہے۔اس پوسٹ میں میرؔ کی غزلیں اور  چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

دیوانِ میرؔ: غزلیں اورمنتخب اشعار

برسوں لگی رہی ہیں جب مہرومہ کی آنکھیں

تب ہم سا کوئی صاحب’ صاحبِ نظر بنے ہے

٭٭٭

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سُنیے گا

پڑھتے کسو کو سُنیے گا تو دیر تلک سر دُھنیے گا

٭٭٭

دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھ طریق غزالوں کا

وحشت کرنا شیوہ ہے کچھ اچھی آنکھوں والوں کا

٭٭٭

میرؔ دعا کر حق میں میرے تو بھی فقیر ہے مدت سے

اب جو کبھو دیکھوں اُس کو تو مجھ کو نہ آوے پیار بہت

٭٭٭

محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ

دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف

٭٭٭

ہو گا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ

کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

٭٭٭

دلِ صد پارہ کو پیوند کرتا ہوں جدائی میں

کرے ہے کہنہ نسخہ وصل جوں وصال مت پوچھ

٭٭٭

تاثیر ہے دعا کو فقیروں کی میرؔ جی

ٹک آپ بھی ہمارے لیے ہاتھ اٹھائیے

٭٭٭

بڑے بڑے تھے گھر جن کے یاں آثار ان کے یہ ہیں اب

میرؔ شکستہ دروازے ہیں، گری پڑی دیواریں ہیں

٭٭٭

سہل ہے میرّ کا سمجھنا کیا

ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے

٭٭٭

جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے

جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

٭٭٭

ان اجڑی اجڑی بستیوں میں دل نہیں لگتا

جی میں ہے وہاں جا بسیں ویرانہ جہاں ہو

٭٭٭

عشق تھا جو رسول ہو آیا

ان نے پیغامِ عشق پہنچایا

٭٭٭

عشق حق ہے کہیں ، نبی ہے کہیں

ہے محمدؐ کہیں، علی ؑ ہے کہیں

٭٭٭

عشق عالی جناب رکھتا ہے

جبریل و کتاب رکھتا ہے

٭٭٭

دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے

حیرت نے عشق کی مجھے دیوار کر دیا

٭٭٭

وہ دیکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا

سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا

٭٭٭

اُس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آجاتا ہوں

دل کی پھر دل میں لیے چپکے چلا جاتا ہوں

٭٭٭

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

 

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

 

چشمِ دل کھول اس بھی عالم پر

یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

 

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں 

حالت اب اضطراب کی سی ہے

 

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز

اسی خانہ خراب کی سی ہے

 

آتشِ غم میں دل بھنا شاید

دیر سے بو کباب کی سی ہے

 

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

حباب: بلبلہ

نیم باز: ادھ کُھلا

٭٭٭

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

 

گور کس دل جلے کی ہے فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

 

لڑتی ہے اس کی چشمِ شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

 

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

 

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

 

عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

گور: قبر

آشوب: آفت، فساد

٭٭٭

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

 

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

سو اس عہد کواب وفا کر چلے

 

شفااپنی تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

 

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے

ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے

 

کوئی نا امیدوانہ کرت نگاہ

سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے

 

بہت آرزو تھی گلی کی تری

سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

 

دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

 

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی

حقِ بندگی ہم ادا کر چلے

 

پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے

نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

 

نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے

ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

 

گئی عمر در بندِ فکرِ غزل

سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

 

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

داغ: کسی عزیز کے مرنے کا غم

٭٭٭

پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

 

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں

جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

 

چارہ گری بیماریِ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں

ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

 

مہر و وفا لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں

اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارہ جانے ہے

 

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ، جی اٹھتا ہے دیکھے اسے

یار کے آ جانے کو یکایک عمرِ دوبارا جانے ہے

 

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہت معشوق اپنا

جس بے دل، بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

٭٭٭

جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے

اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے

 

یوں کانوں کان گل نے نہ جانا شمن میں آہ

سر کو پٹک کے ہم پسِ دیوار مر گئے

 

صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں

گویا متاعِ دل کے خریدار مر گئے

 

مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں

تھا جن سے لطفِ زندگی وے یار مر گئے

٭٭٭

ادھر سے ابر جو اٹھ کر گیا ہے

ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

٭٭٭

مجھ سا بے تاب ہووے جب کوئی

بے قراری کو جانے تب کوئی

ہاں مغفرت کرے اس کو

صبر مرحوم تھا عجب کوئی

بعد میرے ہی ہو گیا سنسان

سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی

ایک ہی غم میں ہوں میں ہی عالم میں

یوں تو شاداں ہے اور سب کوئی

شاداں: خوش

٭٭٭

جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

 

مت دشتِ محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو

ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے

گام:قدم

حذر: خوف

رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے

دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے

 

پاس ناموسِ عشق تھا ورنہ

کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

 

وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو

زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے

 

کچھ نہ سمجھے کہ تجھ سے یاروں نے

کس توقع پہ دل لگائے تھے

 

فرصتِ زندگی سے مت پوچھو

سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے

 

میرؔ صاحب رلا گئے سب کو

کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

پاسِ ناموسِ عشق: عشق کی آبرو کا لحاظ

٭٭٭

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میؔر ہوئے

اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں

ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں

ان دنوں تم بہت شریر ہوئے

اپنے روتے ہی روتے صحرا کے

گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے

آب گیر: تالاب، حوض

٭٭٭

تھا ناز بہت ہم کو دانست پر اپنی بھی

آخر وہ بُرا نکلا ہم جس کو بھلا جانا

 

اے شورِ قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جاویں

اس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا

 

برسوں سے مرے اس کی رہتی ہے یہی صحبت

تیغ اس کو اٹھانا تو سر مجھ کو جھکا جانا

 

کب میر بسر آئے تم ویسے فریبی سے

دل کو تو لگا بیٹھے لیکن نہ لگا جانا

 

دانست: سمجھ، عقل

صحبت: ساتھ، ملنا جُلنا

 تیغ: تلوار

٭٭٭

 نکتہ مشتاق یار ہے اپنا

شاعری تو شعار ہے اپنا

 

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

 

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات

اب یہی روزگار ہے اپنا

 

دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور

اس میں کیا اختیار ہے اپنا

 

صرفہ آزارِ میر میں نہ کرو

خستہ اپنا ہے، زار ہے اپنا

 

مشتاق:شوق رکھنے والا

شعار:  نشان، پہچان

روزگار: شغل، مشغلہ

صرفہ: بخل، کنجوسی، کفایت شعاری

٭٭٭

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا

تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

 

میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں

جسے ابر ہر سال روتا رہے گا

 

بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں

کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا

 

بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو

تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا

 

کاہے: کیوں، کیسے

گریہ: آنسو، اشک

مژگاں: مژہ کی جمع، پلکیں

٭٭٭

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

 

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

٭٭٭

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو آتا ہے جب نہیں آتا

 

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن

جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا

 

صبر تھا ایک مونسِ ہجراں

سو وہ مدت سے اب نہیں آتا

 

عشق کو حوصلہ ہے شرط ارنہ

بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا

 

دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

 

مونسِ ہجراں: ہجر کا ساتھی، جدائی میں اُنس رکھنے والا

ارنہ: ورنہ

ڈھب: طریقہ

غبار: دھول، گرد

٭٭٭

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

 

یہ نشانِ عشق ہیں ، جاتے نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

 

عبث: بے کار، بے فائدہ، فضول 

٭٭٭

دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا

جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا

٭٭٭

تا بہ مقدور انتظار کیا

دل نے اب زور بے قرار کیا

 

دشمنی ہم سے کی زمانے نے

کہ جفا کار تجھ سا یار کیا

 

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

 

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

 

سخت کافر تھا جن نے پہلے میرؔ

مذہبِ عشق اختیار کیا

 

تا بہ مقدور: جہاں تک قدرت ہو

جفا کار: ستم گر، ظالم، بے رحم

٭٭٭ 

 دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لُوٹا گیا

٭٭٭

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک

پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

 

یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

ناداں پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

٭٭٭

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا

موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

 

مہر: محبت

 ٭٭٭

سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں

لیکن اے داغ دل سے تُو نہ گیا

٭٭٭

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی

نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا

کسو: کسی

ستم زدہ: جس پہ ظلم کیا گیا ہو

کج روش: ٹیڑھی چال چلنے والا

٭٭٭

 اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا

چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

 

امیدوارِ وعدہء دیدار مر چلے

آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا

مروت: با وفا

٭٭٭

کہا میں نے کتنا ہے گل کو ثبات؟

کلی نے یہ سُن کر تبسّم کیا

ثبات: قرار، زندگی، ٹھہراؤ

تبسّم: مسکرانا

٭٭٭

اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا

 

عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

 

نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بد نام کیا

 

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

 

سر زد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

 

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

 

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا میخانے میں

جبّہ خرقہ کُرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

 

کاش اب برقعہ منھ سے اُٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے

آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا

 

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھیچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا 

 

پیری: بڑھاپا

تہمت: الزام

عبث: فضول

گام: قدم

قشقہ:تِلک، ٹیکا، جو ہندو ماتھے پہ لگاتے ہیں

٭٭٭

چمن میں گل نے جو کل دعوئ جمال کیا

جمالِ یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

 

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تونے

جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

٭٭٭

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

 

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

 

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

 

ہر زخم جگر داورِ محشر سے ہمارا

انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا

 

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگِہ شیشہ گری کا

 

ٹک میرِؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا

 

تاج وری: بادشاہی

شورش: ہنگامہ، فساد

آشفتہ سری: دیوانگی

مداوا: علاج

داورِ محشر: روزِ قیامت کا بادشاہ

بیداد گری: نا انصافی

کارگہِ شیشہ گری: شیشہ بنانے کا کارخانہ

٭٭٭

 مرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا

خاکِ نا چیز تھا میں، سو مجھے انسان کیا

 

انتہا شوق  کی دل کے جو صبا سے پوچھی

اک کفِ خاک کو لے اُن نے پریشان کیا

 

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

 

 کفِ خاک: مٹھی بھر مٹی

٭٭٭

جو کہو تم سو ہے بجا صاحب

ہم بُرے ہی سہی بھلا صاحب

 

شوقِ رخ یادِ لب غمِ دیدار

جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب

 

کن نے سُن شعر میرؔ یہ نہ کہا 

کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب

٭٭٭

شعر کے پردے میں ، مَیں نے غم سنایا بہت

مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا بہت

 

بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش

درد کھنچا ہے نہایت رنج اُٹھایا ہے بہت

٭٭٭

کاش اُٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ

ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

 

جی سدا ان ابروؤں  ہی میں رہا

کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ

 

چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر

منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

 

جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس ِ حسن

پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ

 

یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ

میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ

٭٭٭

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد

اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد


جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے نا سمجھ

کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد


بیٹھا ہوں میر مرنے کو اپنے میں مستعد 

پیدا نہ ہوں گے مجھ سے جانباز میرے بعد

٭٭٭

٭٭٭

غصے سے اُٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر

جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے

پچھتاؤ گے، سنو ہو؟ یہ بستی اُجاڑ کر

یا رب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے

تسکین دے کہ بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر

٭٭٭

دل کا دینا ہے سہل کیا اے میرؔ

عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط

سہل: آسان

٭٭٭

اب نہیں سینے میں میرے جائے داغ

سوزِ دل سے داغ ہے بالائے داغ

 

دل جلا، آنکھیں جلیں، جی جل گیا

عشق نے کیا کِیا ہمیں دکھلائے داغ

 

وہ نہیں اب میرؔ جو چھاتی جلے

کھا گیا سارے جگر کو ہائے داغ

جائے:جگہ

٭٭٭

کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق

حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق

 

دل لگا ہو تو جی جہاں سے اُٹھا

موت کا نام  پیار کا ہے عشق

 

عشق سے جا نہیں کوئی خالی

دل سے لے عرش تک بھرا عشق

 

کون مقصد کو عشق بن پہنچا

آرزو عشق مدعا ہے عشق

مدعا: مقصد، غایت

٭٭٭

وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک

سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک

 

جب سے لگی ہیں آنکھیں کھلی راہ تکے ہیں

سوئے نہیں ساتھ اس کے کبھو پیار سے اب تک

٭٭٭

رہِ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ

بہت اُس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

 

اُن آنکھوں کے بیمار ہیں میرؔ ہم

بجا دیکھنے ہم کو آتے ہیں لوگ

رہِ مرگ: موت کا رستہ

بیمار: فریفتہ، عشق رکھنے والا

٭٭٭

مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام

دفتر لکھے گئے، نہ ہوا پر سخن تمام

 

اب چھیڑیے جہاں  وہیں گویا ہے درد سب

پھوڑا سا ہو گیا ہے ترے غم میں تن تمام

مشتاق: آرزومند

٭٭٭

کون کہتا ہے منہ کو کھولو تم

کاش کہ پردے ہی میں بولو تم

 

حکمِ آبِ رواں رکھے ہے حسن

بہتے دریا میں ہاتھ دھو لو تم

 

جانا آیا ہے اب جہاں سے ہمیں

تھوڑی تو دور ساتھ ہو لو تم

 

جب میسر ہو بوسہ اس لب کا

چپکے ہی ہو رہو، نہ بولو تم

 

رات گزری ہے سب تڑپتے میرؔ

آنکھ لگ جائے ٹک تو سو لو تم

حکمِ آبِ رواں: بہتے ہوئے پانی سے متعلق شرعی حکم کہ وہ پاک ہوتا ہے۔

٭٭٭

قصہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند

آرامِ چشم مت رکھو اس داستاں سے تم

 

کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی

آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم

٭٭٭

عام حکمِ شراب کرتا ہوں

محتسب کو کباب کرتا ہوں

 

ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو

تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں

 

جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے

جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

بنائے ہستی: زندگی کی عمارت

٭٭٭

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

 

غیر ہی موردِ عنایت ہے

ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں

 

پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق

ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں

موردِ عنایت:عنایت کے قابل

٭٭٭

خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں

آرزوئے جہان ہوتے ہیں

 

کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بِن

گھر میں ہم مہمان ہوتے ہیں

 

دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا

روضے سب گلستان ہوتے ہیں

٭٭٭

رونا آنکھوں کا روئیے کب تک

پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

 

کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے

جگر و دل کباب ہیں دونوں

 

سو جگہ اُس کی آنکھیں پڑتی ہیں

جیسے مستِ شراب ہیں دونوں

 

ایک سب آگ ایک سب پانی

دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

 

آگے دریا تھے دیدہء تر میرؔ

اب جو دیکھو، سراب ہیں دونوں

باب: لائق، شایان، قابل

٭٭٭

جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیاں دیکھیں

بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

 

ترے وصال کے ہم شوق میں ہو آوارہ

عزیز دوست سبھوں کی جدائیاں دیکھیں

 

ہمیشہ مائلِ آئینہ ہی تجھے پایا

جو دیکھیں ہم نے یہی خود نمائیاں دیکھیں

٭٭٭

محبت نے کھویا کھپایا ہمیں

بہت اس نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں

 

گہے تر رہیں، گاہ خوں بستہ تھیں

ان آنکھوں نے کیا کیا دکھایا ہمیں

 

بٹھا اس کی خاطر میں نقشِ وفا

نہیں تو اٹھا لے خدایا ہمیں

 

ہوئی اس گلی میں تو مٹی عزیز

ولے خواریوں سے اٹھایا ہمیں

 

جوانی دوانی سنا کیا نہیں

حسینوں کا ملنا ہے بھایاہمیں

 

نہ سمجھی گئی دشمنی عشق کی

بہت دوستوں نے جتایاہمیں

 

کوئی دم کل آئے تھے مجلس میں میرؔ

بہت اس غزل پہ رُلایا ہمیں

خوں بستہ: خون آلود

خاطر: دل

ولے: (متروک) لیکن کا مخفف

٭٭٭

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

 

یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے

یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں

 

نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی

جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں

٭٭٭

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

 

مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی

کون اس طرح موا حسرتِ دیدار کے ساتھ

 

کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ

دل کو اک ربط سا ہے دیدہء خوں بار کے ساتھ

 

میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی

جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

دماغ: حوصلہ، تاب، برداشت

دیدہء خوں بار: خون برسانے والی آنکھ

بعینہ: با لکل اسی طرح

٭٭٭

ہم جانتے تو عشق نہ کرتے کسو کے ساتھ

لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ

 

ہم زرد کاہ خشک سے نکلے ہیں خاک سے

بالیدگی نہ خلق ہوئی اس نمو کے ساتھ

 

مجروع اپنی چھاتی کو بخیہ کیا بہت

سینہ گتھا ہے میرؔ ہمارا رفو کے ساتھ

زرد کاہ: خشک گھاس

بالیدگی: نشوؤنما، افزائش

مجروح: زخمی

بخیہ کرنا: اُدھیڑنا

گُتھنا: اُلجھنا، پرویا جانا

٭٭٭

نہ باتیں کرو سرگرانی کے ساتھ

مری زیست ہے ،مہربانی کے ساتھ

 

جلا جی بہت قصہ میرؔ سن

بلا سوز تھا اس کہانی کے ساتھ

سرگرانی: خفگی، ناراضی

بلا سوز: بہت دکھ

٭٭٭

ہو گئی شہر شہر رسوائی

اے مری موت تو بھلی آئی

 

یک بیاباں برنگِ صورتِ جرس

مجھ پہ ہے بیکسی و تنہائی

 

سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن

دستِ قدرت یہ میں کہاں پائی

صورتِ جرس: گھنٹے کی آواز

دستِ قدرت: طاقت، قابلیت، اختیار

٭٭٭

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

 

آرزو اس بلند و بالا کی

کیا بلا میرے سر پہ آئی ہے

 

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

 

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے

دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

 

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم

واں وہی ناز و خود نمائی ہے

٭٭٭

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

 

ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج

اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی

 

مینہ تو بوچھاڑ کا دیکھا ہے برستے تم نے

اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

 

بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا

پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی

 

اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی

منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی

 

سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا

سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی

 

آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے

درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی

 

اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل

حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

پراگندہ مزاج: پریشان حال

حیف صد حیف: نہایت افسوس کے اظہار کے لیے

سر گزشت: آپ بیتی

٭٭٭

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے

زمیں سخت ہے آسماں دور ہے

 

تمنائے دل کے لیے جان دی

سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

 

پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ

کسو کا مگر خون منظور ہے

 

دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج

گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے

 

بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ

بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے

٭٭٭

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

٭٭٭

کیا کروں شرح خستہ جانی کی

میں نے مر مر کے زندگانی کی

 

حالِ بد، گفتنی نہیں میرا

تم نے پوچھا تو مہربانی کی

 

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق

نہ ملی ایک بوند پانی کی

 

جس سے کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل

ابتدا پھر وہی کہانی کی

خستہ جانی: تباہ حالی

گفتنی: کہنے کے لائق

٭٭٭

مشہور چمن میں تری گُل پیرہنی ہے

قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے

 

لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک

آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے

 

ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن

اِن بو الہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے

گُل پیرہنی: خوش لباسی، سرخ لباسی

بو الہوس: بہت ہوس رکھنے والا، شہوت پرست

٭٭٭

مآخذ:

میر ؔکے نشتر از مسعود الرحمٰن خاں ندوی

انتخابِ میرؔ  از ناصر کاظمی

دیوانِ میرؔ از میر تقی میرؔ، مرتب یاور عظیم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top