عشق کا سحر، کامیاب ہوا
مَیں ترا، تو مرا جواب ہوا
دل کی ہر چیز جگمگا اُٹھی
آج شاید وہ بے نقاب ہوا
٭٭٭
ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا، تڑپائیے گا
ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا
٭٭٭
دل ہمارا ہے ، یا تمھارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
٭٭٭
جب ملی آنکھ، ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
٭٭٭
اب اُن کا کیا بھروسہ وہ آئیں یا نہ آئیں
آ، اے غمِ محبت تجھ کو گلے لگائیں
اشعار بن کے نکلیں جو سینہ جگر سے!
سب حُسنِ یار کی تھیں بے ساختہ ادائیں
٭٭٭
کیا غرض مجھ کو ترے دل پہ اثر ہے کہ نہیں
میں پرستارِ محبت ہوں، خبر ہے کہ نہیں؟
نہیں معلوم، محبت میں اثر ہے کہ نہیں
جو اِدھر ہے مری حالت وہ اُدھر ہے کہ نہیں؟
٭٭٭
عشق، رنگِ حُسن سے ہے بے نیاز
حُسن، کیفِ عشق سے خالی نہیں
شوق سبھی دل میں رہے ہمراہِ دوست
اب تو اتنی بھی جگہ خالی نہیں!
٭٭٭
غمِ عاشقی کا صِلا چاہتا ہوں
خود اپنی نظر سے گرا چاہتا ہوں
٭٭٭
ہائے رے مجبوریاں، ترکِ محبت کے لیے
مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور اُن کو سمجھاتا ہوں مَیں
٭٭٭
شائستہ غرورِ تمنا نہ کیجئے
ایسی نگاہ سے مجھے دیکھا نہ کیجئے
دیوانہ کر کے، دیجئے پھر مجھ کو اذنِ ہوش
ہشیار کر کے، پھر مجھے دیوانہ کیجئے
ہر جلوہ ہے بجائے خود، اک دعوتِ نگاہ
کیا کیجئے، جو تیری تمنّا نہ کیجئے
٭٭٭
دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے
آہ ہوتی ہے، واہ ہوتی ہے
وہ بھی ہے اک مقامِ عشق جہاں
ہر تمنّا، گُناہ ہوتی ہے
حاصلِ حُسن و عشق اُسے سمجھو
وہ جو پہلی نگاہ ہوتی ہے
٭٭٭
محبت کیا ہے، تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا
٭٭٭
ندرت پسند کتنے، عشاقِ خوش نظر ہیں
سینے تمام ویراں، آنکھیں تمام تر ہیں
٭٭٭
دل میں ہجومِ شوق کا عالم نہ پوچھیے
گنجائشِ خیالِ رُخِ یار بھی نہیں
٭٭٭
شبِ وصل کیا مختصر ہو گئی
ذرا آنکھ جھپکی، سحر ہو گئی
نگاہوں نے سب رازِ دل کہہ دیا
انھیں آج اپنی خبر ہو گئی
الہٰی بُرا ہو، غمِ عشق کا
سُنا ہے کہ ان کو خبر ہو گئی
٭٭٭
نگاہِ شوق منے محشر میں صاف تاڑ لیا
کہاں وہ چھپتے کہ آنکھوں میں تھے سمائے ہوئے
٭٭٭
کہنے سُننے کی غمِ عشق میں حاجت ہی نہیں
آنکھ سے ٹپکے گی، دل میں جو محبت ہو گی
٭٭٭
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
دھڑکنیں دل کی سبھی کچھ کہہ گئیں
دل کو میں خاموش کرتا ہی رہا
٭٭٭
یہ کیا مقامِ عشق ہے ظالم کہ اِن دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
٭٭٭
دنیائے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
٭٭٭
یا رب نگاہِ شوق کو دے اور وسعتیں
گھبرا اٹھے جمالِ جہت آشنا سے ہم
او مستِ نازِ حُسن، تجھے کچھ خبر بھی ہے
تجھ پر نثار ہوتے ہیں کِس کِس ادا سے ہم
٭٭٭
اپنے فروغِ حُسن کی دکھلا کے وسعتیں
میرے حدودِ شوق بڑھا کر چلے گئے
آئے تھے دل کی پیاس بُجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
لب تھر تھرا کے رہ گئے’ لیکن وہ اے جگرؔ
جاتے ہوئے نگاہ مِلا کر چلے گئے
٭٭٭