famous poetry in urdu

ہماری شعری روایت میں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو زبان زدِ عام نہ ہوں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ان کا ایک مصرع تو یاد رہ جاتا ہے جبکہ دوسرا نہیں اور ان اشعار کے خالق کے نام بھی معلوم نہیں ہوتے۔ یہاں ایسے ہی چند مشہور اشعار(famous poetry in urdu) آپ کی نذر!

رخِ مصطفےٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ

نہ ہمارے بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں ہے

لطف بدایونی

♦♦♦

چند تصویرِ بتاں ، چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

بزم اکبر آبادی

♦♦♦

اک ٹِیس جگر میں اٹھتی ہے اک درد سا دل میں ہوتا ہے

ہم راتوں کو رویا کرتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے

ضیا عظیم آبادی

♦♦♦

گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے

نگاہِ یار سلامت ہزار میخانے

روش صدیقی

♦♦♦

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

حفیظ ہوشیار پوری

♦♦♦

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے

قابل اجمیری

♦♦♦

شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

♦♦♦

عزیز اتنا ہی رکھو کہ دل بہل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

عبیداللہ علیم

♦♦♦

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

نواب محمد یار خان امیر ٹانڈوی

♦♦♦

شہر میں اپنے یہ لیلیٰ نے منادی کر دی

کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

شیخ تراب علی قلندر کاکوری

♦♦♦

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

مرزا محمد رضا خاں برق

♦♦♦

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

منشی میاں داد خاں سیاح اورنگ آبادی

♦♦♦

تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ 

تندرستی ہزار نعمت ہے

مرزا قربان علی سالکؔ

♦♦♦

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مصطفیٰ زیدی

♦♦♦

بجھ رہے ہیں چراغ و دیر و حرم

دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے

سحاب قزلباش

♦♦♦

مریضِ عشق پر رحمت خدا کی

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

عشرتی

♦♦♦

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

شوق لکھنوی

♦♦♦

سرفروشی کی تمنا  اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

بسمل عظیم آبادی

♦♦♦

آپ کی میری کہانی ایک ہے

کہیے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں

میکش اکبر آبادی

♦♦♦

کس طرح ربط نہ ہو زلف سے دیوانوں کو

ربط ہوتا ہے پریشان سے پریشانوں کو

میر نجف علی نجف

♦♦♦

کون سے زخم کا کھلا ٹانکا

آج پھر دل میں درد ہوتا ہے

ضیاؔ

♦♦♦

مجھ سے جو پوچھتے ہو تو ہر حال شکر ہے

یوں بھی گزر گئی مِری، دوں بھی گزر گئی

فغاںؔ

♦♦♦

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا

صبرِ ایوبؑ کیا، گریہ یعقوبؑ کیا

مضمونؔ

♦♦♦

ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گِلہ دل کا

بس اِک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

قلقؔ

♦♦♦

ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی 

ناداں ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے

آغا شاعرؔ

♦♦♦

دن کٹا جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

اثرؔ 

♦♦♦

آئینہ دیکھ کے یہ دیکھ سنورنے والے

تجھ پہ بے جا نہیں مرتے ، یہ مرنے والے

ناظمؔ

♦♦♦

شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

عظیم دہلوی

♦♦♦

اب تم بھی ذرا حسنِ جہاں سوز کو روکو

ہم تو دلِ بیتاب کو سمجھائے ہوئے ہیں

کیفیؔ چریا کوٹی

♦♦♦

وہ اُن کا وصل میں یہ کہہ کے مسکرا دینا

طلوع صبح سے پہلے ہمیں جگا دینا

بیخودؔ بدایونی

♦♦♦

مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا

اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

میر طاہر علی رضوی

♦♦♦

اگر بخشے زہے قسمت ، نہ بخشے تو شکایت کیا

سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

نواب علی اصغرؔ

♦♦♦

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

محشر بدایونی

♦♦♦

لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے 

الہٰی یہ گھٹا دو دن تو برسے

محمود رام پوری

♦♦♦

وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

شیداؔ

♦♦♦

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

عدیم ہاشمی

♦♦♦

تمھاری ذات سے منسوب ہے دیوانگی میری

تمہیں سے اب میری دیوانگی دیکھی نہیں جاتی

عزیز وارثی

♦♦♦

محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

ماچس لکھنوی

♦♦♦

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

نادر لکھنوی

♦♦♦

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

شھیر مچھلی شھری

♦♦♦

چاندنی چھپ گئی چاند شرما گیا

آپ کا مسکرانا غضب ہو گیا

شیون رضوی

♦♦♦

داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

ڈاکٹر محمد دین تاثیر

♦♦♦

رات تھوڑی سی حسرتیں دل میں بہت

صلح کیجئے بس لڑائی ہو چکی

ممنونؔ

♦♦♦

رسوا اگر نہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے

ایسی نگاہِ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھے

آفتاب رائے رسوا

♦♦♦

کیا لطف ہے جو غیر پردہ کھولے

جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے

پنڈت دیا شنکر نسیمؔ

♦♦♦

لائے اُس بت کو التجا کر کے

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

نسیمؔ

♦♦♦

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہرؔ

♦♦♦

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

موجی رام جوموجیؔ

♦♦♦

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے

قلندرؔ

♦♦♦

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا

چکبستؔ

♦♦♦

ملے گی شیخ کو جنّت مجھے دوزخ عطا ہو گا

بس اتنی سی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہو گا

پنڈت ہری چند اختر

♦♦♦

یہ کہہ دو جا کے واعظ سے اگر سمجھنانے آئے ہیں

کہ ہم دیر و حرم سے ہو کے پھر میخانے آئے ہیں

کرشن چندر حیرت گونڈوی

♦♦♦

اب تو اتنی بھی میسّر نہیں میخانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

دواکر راہی

♦♦♦

نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے

دل سے صبر و قرار جاتا ہے

یک رنگ

♦♦♦

چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

فدویؔ

♦♦♦

ترے عشق کے جب سے پالے پڑے ہیں

ہمیں اپنے جینے کے لالے پڑے ہیں

جھاندارؔ

♦♦♦

تم کو ہم سے خدا، جدا نہ کرے

ہم جدا تم سے ہوں خدا نہ کرے

برقؔ

♦♦♦

برق جو کہتے تھے آخر وہی کر کے اُٹھے

جان دی آپ کے دروازے پر مر کے اُٹھے

برقؔ

♦♦♦

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

وزیر لکھنویؔ

♦♦♦

کس کے آتے ہی ساقی کے یہ حواس گئے

شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں

وزیر لکھنویؔ

♦♦♦

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

نظام رامپوری

♦♦♦

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یونہی تمام ہوتی ہے

امیر اللہ تسلیمؔ

♦♦♦

تڑپتی دیکھتا ہوں جب کوئی شے

اُٹھا لیتا ہوں اپنا دل سمجھ کر

امیر اللہ تسلیمؔ

♦♦♦

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں

جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروّت آ ہی جاتی ہے

ظہیر دہلوی

♦♦♦

چاہت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

ظہیر دہلوی

♦♦♦

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

ظہیر دہلوی

♦♦♦

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

خواجہ فخر الدین سخن

♦♦♦

نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے

پسینہ پوچھیے اپنی جبیں سے

انور دہلوی

♦♦♦

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں

مضطر خیر آبادی

♦♦♦

علاجِ دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا

تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

مضطر خیر آبادی

♦♦♦

زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی

♦♦♦

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی

♦♦♦

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

مولانا ظفر علی خاں

♦♦♦

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

مولانا ظفر علی خاں

♦♦♦

دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے

کہ مجھے شکوہ کوتاہی داماں ہو جائے

بیدم وارثی

♦♦♦

تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے

ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے

بیدم وارثی

♦♦♦

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت

جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

سعید احمد ناطق

♦♦♦

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح

میں نے تمام عمر گذاری ہے اس طرح

سعید احمد ناطق

♦♦♦

عشق کی خاطر سے انساں عشق کے قابل بنا

درد پہلے بن چکا تھا بعد اس کے دل بنا

سعید احمد ناطق

♦♦♦

یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں’

بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں

آغا حشر کاشمیری

♦♦♦

کیا تم نے کہا دل سے کیا دل نے کہا مجھ سے

بیٹھو تو سناؤں میں اک روز یہ افسانہ

آغا حشر کاشمیری

♦♦♦

کہا کسی سے نہ میں نے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسےخبر ہو گئی زمانے کو

قمر جلالوی

♦♦♦

آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے

اک ذرا آپ کو زحمت ہو گئی

سراج لکھنوی

♦♦♦

سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

سید غلام محمد مست کلکتوی

♦♦♦

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

سید غلام محمد مست کلکتوی

♦♦♦

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گلِ گلزار ہوتا ہے

سید غلام محمد مست کلکتوی

♦♦♦

ملے گی شیخ کو جنت مجھے دوزخ عطا ہو گا

بس اتنی بات ہے جس کے لیے حشر بپا ہو گا

ہری چند اختر

♦♦♦

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

حسرتؔ

♦♦♦

غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا

حسرتؔ

♦♦♦

ناکامِ تمنا اس سوچ میں رہتا ہے

یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا

حسرتؔ

♦♦♦

ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا

سیفؔ

♦♦♦

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری دہلوی

♦♦♦

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس کو پیار ہم نے کیا

حفیظ ہوشیارپوری

♦♦♦

وہ اتفاق سے رستے میں مل گیا تھا مجھے

میں دیکھتا تھا اسے اور وہ دیکھتا تھا مجھے

اختر انصاری اکبر آبادی

♦♦♦

کوئی کس طرح رازِ الفت چھپائے

نگاہیں ملیں اور قدم ڈگمگائے

نخشب جارچوی

♦♦♦

ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے

شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے

منظور ندیم بالاپوری

♦♦♦

کسے فرصت کہ فرضِ خدمتِ الفت بجا لائے

نہ تم بے کار بیٹھے ہو نہ ہم بے کار بیٹھے ہیں

آزاد انصاری

♦♦♦

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی

♦♦♦

نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ جاتی ہے

اُن کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں

خاموش غاریپوری

♦♦♦

لڑتے ہیں جا کر باہر یہ شیخ و برہمن

پیتے ہیں میکدے میں ساغر بدل بدل کے

مائل دہلوی

♦♦♦

حسن اور عشق کو جس روز کیا ایجاد

مجھ کو دیوانہ کیا تجھ کو پری زاد کیا

تمکینؔ

♦♦♦

تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

صادقؔ

♦♦♦

رخصت ہوا شباب تو اب آپ آئے ہیں

اب آپ ہی بتایئے سرکار کیا کریں

امیر چند بہار

♦♦♦

نہ ہمدم ہے کوئی نہ اب ہم نشیں ہے

بُرے وقت کا کوئی ساتھی نہیں ہے

جراتؔ

♦♦♦

آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

رندؔ

♦♦♦

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

فکر یزدانی

♦♦♦

دوست ناراض ہو گئے کتنے

اک ذرا آئینہ دکھانے میں

باقی احمد پوریؔ

♦♦♦

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

دیوانہ گورکھپوری

♦♦♦

حسن دیکھا بتوں کا تو خدا یاد آیا

راہ کعبہ کی ملی ہے مجھے بت خانے سے

جلیل انصاری

♦♦♦

گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

میر صادق علی شرر

♦♦♦

درد ہو دل میں تو دوا کیجیے

دل ہی نہ ہو پاس تو کیا کیجیے

سلامت علی بنارسی

♦♦♦

مآخذ: مشہور اشعار گمنام شاعر، خلیق الزماں نصرتؔ

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top