نسخہ ہائے وفا، فیض احمد فیض کی شاعری(Faiz Ahmed Faiz poetry) کا کلیات ہے۔ جس میں آپ کی تمام کُتب شامل ہیں۔ ہم نے یہاں فیض کی تمام کُتب سے منتخب اشعار شامل کیے ہیں۔ امید ہے آپ کو ہماری یہ کاوش پسند آئے گی۔
فیض احمد فیض کی غزلیں:
کتاب: غبارِ ایّام
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے، بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہء و ساغر تو ہاؤ ہُو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی
دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکر وطن اپنے رُوبُرو ہی سہی
یہ شہر اُداس اِتنا زیادہ تو نہیں تھا
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اُداس اِتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھِرا کرتے تھے دو چار دِوانے
ہر شخص کا صد چاک لَبادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارداہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رِند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے
جس دھجّی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طِفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے
جس نُور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ زرخانہ جم ہے
حلقہ کئے بیٹھے رہو اِک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
کتاب: مرے دل مرے مسافر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر”
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی
شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایہء شاخِ گل کے تلے
کوئی قصّہ سُناتی رہی رات بھر
ایک امّید سے دل بہلتا رہا
اک تمنّا ستاتی رہی رات بھر
(ماسکو 1978ء)
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
سَہل یوں راہِ وندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
ہم نے دل میں سجا لئے گلشن
جب بہاروں نے بے رُخی ہے
زہر سے دھو لئے ہیں ہونٹ اپنے
لطف ساقی نے جب کمی کی ہے
تیرے کوچے میں بادشاہی کی
جب سے نکلے گداگری کی ہے
"جو گزرے تھے داغؔ پر صدمے”
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
(لندن 1979ء)
سبھی کچھ ہے ترا دیا ہُوا
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہُوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں، کبھی دُوریاں کبھی قربتٰیں
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سَب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا کئی شامِ ہجر کی مُدّتیں
چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں
مری جان، آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر، کہیں لکھ رکھی ہوں مِسرّتیں
(بیروت 1979ء)
غم بہ دل، شکر بہ لب، مَست و غزل خواں چلیے
غم بہ دل، شکر بہ لب، مَست و غزل خواں چلیے
جب تلک ساتھ رہے عمرِ گریزاں چلیے
رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ ملے
سُوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے
جب ستانے لگے بے رنگیء دیوارِ جاناں
نقش کرنے کوئی تصویرِ حسیناں چلیے
کچھ بھی ہو آئینہ دل کو مصفّا رکھیے
جو بھی گزرے، مثلِ خسروِ دوراں چلیے
امتحاں جب بھی ہو منظور جگر داروں کا
محفلِ یار میں ہمراہِ رقیباں چلیے
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وَسوَسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِ گلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاطِ آہِ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا
جو طلب پہ عہدِ وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سرِ عام جن ہُوئے مدّعی تو ثوابِ صدق و صفا گیا
ابھی بادبان کہ تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رُخِ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظِر وہ سکوں جو آکے چلا گیا
کتاب: شامِ شہر یاراں
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گُہر حساب کیے
جو ترےغم نے دل پہ وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے
عمرِ جاوِید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
(1972ء)
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہُوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا
(1974ء)
کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانی دل کا
کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیء دل کا
کس پر نہ کُھلا راز پریشانیء دل کا
دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانیء دل کا
اُترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینہء دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانیء دل کا
کتاب: سرِ وادئِ سینا
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فَضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایہء چشم میں حیراں رُخِ روشن کا جمال
سرخئِ لب میں پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پیئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخر شب
شیشہ مَے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نَے رنگ پہ تھے، اپنے لہو کے دم سے
دل نے لَے بدلی تو مدھم ہُوا ہر ساز کا رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلّم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
(کراچی، 1965ء)
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
کئے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خدوخال تک نہ پہنچے
وہی چشمہء بقا تھا جسے سب سَراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
ترا لطف وجہِ تسکین، نہ قرار شرحِ غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے
چلو فیضؔ دل جلائیں کریں پھر سے عرضِ جاناں
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے
(1966ء)
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پر عدو کی ہے
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پر عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے لطف
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سُبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گِلہ کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
کفِ باغباں پہ بہارِ گُل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے
(1967ء)
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرفِ شناسائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
سازو سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
(اگست 1968ء)
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چَین کی مہلت دو گے کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بدل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبّت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے، کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے
فیضؔ دلوں کے بھاگ میں ہے، گھر بھرنا بھی لُٹ جانا بھی
تم اُس حُسن کے لطف و کرم پر کتنے دن اِتراؤ گے
(اکتوبر 1968ء)
ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند
رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند
تری نظر سے کیا رشتہء نظر پیوند
ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند
نہیں رہا حرمِ دل میں اِک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند
مثال زینہء منزل بکارِ شوق آیا
ہر ایک مقام کہ ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند
شعار کی جو مداراتِ قامتِ جاناں
کیا ہے فیضؔ درِ دل، درِ فلک سے بلند
(نومبر 1970ء)
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
شرحِ بے دردئِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا!
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اِذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر دم دید رہے چشم و نظر دید طلب
پھر شبِ وصل ملاقات نہ ہونے پائی
پھر وہاں بابِ اثر جانئے کب بند ہُوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اک روز قیامت گزری
ایک بھی روزِ مکافات نہ ہونے پائی
(23 مارچ 1971ء)
کتاب: دستِ تہِ سنگ
جشن کا دن
جُنوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے
صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے
طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن
جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے
تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے
وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی
غزل کی دُھن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے
(مارچ 1957ء)
جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں
جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم، نظر پہ کُھلتا نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آگے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گُل سرِ شاخ جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جَزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلُوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیضؔ کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
(لاہور جیل، 31 دسمبر 1958ء)
ترا حُسن دستِ عیسیٰ، تری یاد رُوئے مریم
یہ جفائے غم کا چارہ، وہ نَجاتِ دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہوا کہ مَر مِٹیں ہم، نہ ہُوا کہ جی اٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری، یُوں پھرے ہیں دِن کہ پھر سے
وہی گوشہ قفس ہے، وہی فصلِ گُل کا ماتم
لاہور جیل، فروری 1959ء)
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزر چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
(جولائی 1959ء)
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی
کب ٹھہرے گا دردِ دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنَ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُدھر ایک حرف کُشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو راہ سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
تری امید ترا انتظار جب سے ہے
تری امید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں ترے نام نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے
(بمبئی 1957ء)
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
شرحِ فراق، مدح لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی، ٹکرائیں کس سے جام
کس دل رُبا کے نام پہ خالی سُبو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے، نہ نظر کو تلاشِ بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات ، کہاں تک سُنائیں ہم
شکوے گِلے سب آج ترے رُوبُرو کریں
ہمدمِ حدیثِ کوئے ملامت سنائیو
دل کو لہو کریں کہ گریباں رفو کریں
آشفتہ سر ہیں، محتسبو، منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں
"تر دامنی پہ شیخ، ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں”
کتاب: زنداں نامہ
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
تجھ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاہا تو اور چاہ نہ کی
تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
تھے شبِ ہجر، کام اور بہت
ہم نے فکر دل تباہ نہ کی
کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ
جس سے یاروں نے رسم وراہ نہ کی
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سُرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اُٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل سے آئے ہیں
بادِ خزاں کا شکر کرو، فیضؔ، جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں
شامِ فراق ، اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئی
شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزمِ خیال میں ترے حُسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
جب تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں اُن کے سامنے بات بدل بدل گئی
آخرِ شب کے ہم سفر فیضّ نجانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
( جناح ہسپتال کراچی، جولائی 1953ء)
بات بس سے نکل چلی ہے
بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
یا یونہی بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شبِ ہجر ٹل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے
(منٹگمری جیل، 21 نومبر 1953ء)
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہےجو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
(منٹگمری جیل)
ہم پرتمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
دل نا اُمید تو نہیں، نا کام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے
(منٹگمری جیل، 9 مارچ، 1954ء)
گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نَو بہار چلے
گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نَو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اُداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری مگر شَبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام، فیضؔ، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
(منٹگمری جیل، 29 جنوری، 1954ء)
کتاب: دستِ صبا
کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے
کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی، وہ قربتیں سی، وہ فاصلے سے
کبھئ کبھی آرزو کے صحرا میں، آ کے رُکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی، وہ سارے عُنواں وصال کے سے
نگاہ و دل کو قرار کیسا، نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو اُن سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے
تمہیں کہو ر ند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا
یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں، وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے، رقم کرتے رہیں گے
اسباب غمِ عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانئِ دَوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں تلخٰئِ ایّام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم،مشقِ ستم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنّا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
طوق و دار کا موسم
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
گراں ہے دل پہ غمِ روزگار کا موسم
ہے آزمائشِ حسنِ نگار کا موسم
خوشا نظارہ رخسار یار کی ساعت
خوشا قرارِ دلِ بے قرار کا موسم
یہ دل کے داغ تو دکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجراںِ یار کا موسم
یہی جنوں کا، یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں لگے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری، بِکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
نہ گُل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے، نہ مَے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارتِ گُلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیثِ یار کے عنواں نِکھرنے لگتے ہیں
تو حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن
تو چشمِ صبح میں آنسو اُبھرنے لگتے ہیں
در قفس پہ اندھیرے کی مُہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اُترنے لگتے ہیں
ترانہ
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو اِن سے اُٹھّے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
عجزِ اہلِ ستم کی بات کرو
عجزِ اہلِ ستم کی بات کرو
عشق کے دم قدم کی بات کرو
بزمِ اہلِ طرب کو شرماؤ
بزمِ اصحابِ غم کی بات کرو
ہے وہی بات یوں بھی اور یوں بھی
تم سِتم یا کرم کی بات کرو
خیر، ہیں اہلِ دَیر جیسے ہیں
آپ اہلِ حرم کی بات کرو
ہجر کی شب تو کٹ ہی جائے گی
روزِ وصلِ صنم کی بات کرو
جان جائیں گے جاننے والے
فیضؔ، فرہاد و جم کی بات کرو
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصوّر نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
٭٭٭
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام
ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن!
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
فیضؔ ان کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
دل میں اب یوں ترے بُھولے ہُوئے غم آتے ہیں
دل میں اب یوں ترے بھُولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہُوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
ایک اک کر کے ہُوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقصِ مَے تیز کرو، ساز کی لَے تیز کرو
سُوئے مَے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں
کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں
اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فُرقت سے کہو
دل بھی کم دُکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
اگست 1952ء: روشن کہیں بہار کے امکاں ہُوئے تو ہیں
روشن کہیں بہار کے امکاں ہُوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہُوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزل خواں ہُوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہُوئے تو ہیں
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہُوئے تو ہیں
ہاں کج کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں
اہل قفس کی صبحِ چمن میں کُھلے گی آنکھ
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہُوئے تو ہیں
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں، راحتِ جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں نا صبح
گفتگو آج سرِ کوئے بُتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارضِ لیلیٰ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سُبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے
حُسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہر گھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
کیسے مانیں حرم کے سَہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے
قرضِ نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم
اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
کچھ اپنے دل کی خُو کا بھی شکرانہ چاہیے
سَو بار اُن کی خُو کا گِلا کر چکے ہیں ہم
کتاب: نقش فریادی
عشق مِنّت کشِ قرار نہیں
عشق مِنّت کشِ قرار نہیں
حُسن مجبورِ انتظار نہیں
تیری رنجش کی انتہا معلوم
حسرتوں کا مری شمار نہیں
زیرِ لب ہے ابھی تبسّمِ دوست
منتشرِ جلؤہ بہار نہیں
اپنی تکمیل کر رہا ہوں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
فیضؔ زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہُوا گر وفا شعار نہیں
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
دل رہینِ نیاز ہو جائے
بے کسی کار ساز ہو جائے
مِنّتِ چارہ ساز کون کرے؟
درد جب جاں نواز ہو جائے
عشق دل میں رہے تو رُسوا ہو جائے
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
عمر بے سُود کٹ رہی ہے فیضّ
کاش افشائے راز ہو جائے
ہمّتِ التجا نہیں باقی
ہمّتِ اِلتجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اِک تری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
تیری چشم اَلم نواز کی خیر
دل میں کوئی گِلا نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ، جم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
مجھ سے وہ روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
وفائے وعدہ نہیں، وعدہ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے رُوٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اِک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہِ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی، اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہدِ ترکِ مَحبّت ہے، کِس لیے آخر
سکونِ قلب اِدھر بھی نہیں اُدھر بھی نہیں
رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مِرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی نہ ہو سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے
جانے کس کس کو آج رو بیٹھے
تھی، مگر اتنی رائگاں بھی نہ تھی
آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے
تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے
عشق کی آبرُو ڈبو بیٹھے
ساری دنیا سے دُور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
نہ گئی تیری بے رُخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
فیضؔ ہوتا رہے جو ہونا ہے
شعر لکھتے رہا کرو بیٹھے
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حُسنِ دو عالم سے
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حُسنِ دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرّے ذرّے کا جگر چیرا
مگر یہ چشمِ حیراں، جس کی حیرانی نہیں جاتی
مری چشمِ تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
سرِ خسرو سے نازِ کجکلاہی چھِن بھی جاتا ہے
کلاہِ خسروی سے بوئے سُلطانی نہیں جاتی
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے؟
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سُنا ہے
سب ان کو سُنانے کے دن آرہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ لُٹنے لُٹانے کے دن آرہے ہیں
ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی
نگاہیں چُرانے کے دِن آرہے ہیں
صَبا پھر ہمیں پُوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں
چلو فیضؔ پھر سے کہیں دل لگائیں
سُنا ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں