فیض احمد فیض اردو شاعری کے یاقوت ہیں۔ رومانوی  ہو یا انقلابی شاعری فیض کے بغیر نا مکمل ہے۔ یہاں فیض احمد فیض کے مشہور اشعار (Faiz Ahmed Faiz best poetry)شامل کیے گئے ہیں۔ پڑھیے اور سر دُھنیے!

مشہور قطعات

کتاب: نقش فریادی

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی

Faiz Ahmed Faiz best poetry

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

دل ہے اکثر اداس رہتا ہے

Faiz Ahmed Faiz best poetry

وقفِ حرماں و یاس رہتا ہے

دل ہے، اکثر اداس رہتا ہے

تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو

مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے

سامنا: چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں

Faiz Ahmed Faiz best poetry

چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں

بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنّائیں

کچھ الجھی ہُوئی باتیں، کچھ بہکے ہُوئے نغمے

کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں

کتاب: دستِ صبا

متاعِ لوح و قلم چھِن گئی تو کیا غم ہے

Faiz Ahmed Faiz best poetry

متاعِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں اُنگلیاں میں نے

زباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں مَیں نے

دامنِ یوسف: جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی

جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی

اے اہلِ مصر، وضعِ تکلؔف تو دیکھئے

انصاف ہے کہ حکمِ عقُوبت سے پیشتر

اک بار سُوئے دامنِ یوسف تو دیکھئے!

پھر حشر کے ساماں ہُوئے ایوانِ ہوس میں

پھر حشر کے ساماں ہُوئے ایوانِ ہوس میں

بیٹھے ہیں ذوی العدل، گنہگار کھڑے ہیں

ہاں جُرمِ وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت

وہ سارے خطا کار سرِ دار کھڑے ہیں

ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں

ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں

نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی

نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے

مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی

ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجِل

ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجِل

عَبائے شیخ و قَبائے امیر و تاجِ شہی

ہمیں سے سنّتِ منصور و قیس زندہ ہے

ہمیں سی باقی ہے گل دامنی و کج کُلہی

میخانے کی رونق ہیں، کبھی خانقہوں کی

Faiz Ahmed Faiz best poetry

میخانے کی رونق ہیں، کبھی خانقہوں کی

اپنالی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے

دلدارئِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ

اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے

کتاب: زنداں نامہ

نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے

Faiz Ahmed Faiz best poetry

نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے

وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

فکرِ سود و زیاں تو چھوٹے گی

Faiz Ahmed Faiz best poetry

فکرِ سُود و زیاں تو چُھوٹے گی

مِنّتِ این و آں تو چُھوٹے گی

خیر، دوزخ میں مَے ملے نہ ملے

شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی

صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے

صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے

رنگِ رخسار کی پُھوہار گری

رات چھائی تو رُوئے عالم پر

تیری زلفوں کی آبشار گری

تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر

تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر

تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے

رہی فراغتِ ہجراں تو ہو رہے گا طے

تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں

Faiz Ahmed Faiz best poetry

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں

آگ سلگاؤ آبگینوں میں

دلِ عُشّاق کی خبر لینا

پھول کھِلتے ہیں ان مہینوں میں

کتاب: دستِ تہِ سنگ

یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو

یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو

کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد

کِس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح

کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے

منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے

اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے

نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام

نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ  پیام

کوئی بھی حیلہء ےتسکین نہیں اور آس بہت ہے

اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ

تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عُمر سے ہم نے بھر  پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں

دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے

آگئی فصلِ سُکوں چاک گریباں والو

سِل گئے ہونٹ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے

دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے

کِھل گئے زخم، کوئی پھول کِھلے یا نہ کِھلے

ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دنوں

ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دنوں

کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر

ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا

دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہُو سے پُر

کتاب: سرِ وادئِ سینا

دیدہ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے

دیدہء تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے

کاسہ چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو

اب اگر جاؤ پئے عرض وطلب اُن کے حضور

دست و کشکول نہیں کاسہء سر لے کے چلو

پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا

دیوارِ شب اور عکسِ رُخ یار سامنے

پھر دل کے آئینے سے لَہو پُھوٹنے لگا

پھر وضع احتیاط سے دُھندلا گئی نظر

پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے

عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

دُور جا کر قریب ہو جتنے

دُور جا کر قریب ہو جتنے

ہم سے کب تم قریب تھے اتنے

اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے

وصل و ہجراں بہم ہُوئے کتنے

شامِ شہرِ یاراں

شراب اور پلاؤ کہ کچھ نشہ اُترے

ہزار درد شبِ آرزُو کی راہ میں ہے

کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اُترے

قریب اور بھی آؤ کہ شوقِ دید مٹے

شراب اور پلاؤ کہ کچھ نشہ اُترے

مرے دل مرے مسافر

مقتل میں نہ مسجدِ نہ خرابات میں کوئی

مقتل میں  نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی

ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں

شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے

اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں

پھر کبھی صبر آزما لینا

اپنے انعامِ حُسن کے بدلے

ہم تہی دامنوں سے کیا لینا

آج فرقت زدوں پہ لطف کرو

پھر کبھی صبر آزما لینا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top