Allama Iqbal Poetry
Allama Iqbal poetry in Urdu is a wonderful treasure that touches people deeply. Allama Iqbal, who was famous for his poetry in Urdu, evoked emotion and passion in his readers. His poems delved into social and human issues and conveyed wonderful messages. It was heavily influenced by Islamic philosophical principles. Allama Iqbal’s Poetry played an important role in the creation of Pakistan, advocating social change. Even today, his poetic message resides in people’s hearts, providing guidance on the ordinary aspects of life.
بالِ جبریل: منتخب اشعار | Allama Iqbal Poetry in Urdu
مردِ ناداں
پُھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر!
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر!
Phool ki patti se cut sakta hai here ka jigar
Mard e nadan pa kalam e narm o nazuk be asar
راز
تُو نے یہ کیا غضب کِیا ! مجھ کو بھی فاش کر دیا
مَیں ہی تو ایک راز تھا سینہء کائنات میں!
Tu ne ye kya ghazab kiya! Mujh ko bhi faash kar diya
Main hi tu aik raaz tha’ seena e kainaat mein!
ساقی
تیرے شیشے میں مَے باقی نہیں ہے؟
بتا کَیا تو مرا سَاقی نہیں ہے؟
Tere sheeshay mein ma’ay baki nahi hai
Bta kyat u mera saaqi nahi hai
رزّاقی
سمندر سے مِلے پیاسے کو شبنم!
بخیلی ہَے یہ رزّاقی نہیں ہے!
Samandar se milay pyase ko shabnum
Bakheeli hai ye razzaqi nahi hai
فکرِ جہاں
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہَے یا میرا؟
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
Agar kaj ru hain anjum, aasmaan tera hai ya mera
Mujhe fikr e jahan kiun ho, jahaan tera hai ya mera
رازداں
اُسے صبحِ ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر؟
مجھے معلوم کَیا! وہ رازداں تیرا ہَے یا میرا؟
Usse subh e azal inkaar ki jurrat hovi kiun kar
Mujhe maloom kya! Wo raazdaan tera hai ya mera?
حجاب
عِشق بھی ہو حجاب میں حُسن بھی ہو حجاب میں !
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
Ishq bhi ho hijab mein, husn bhi ho hijab mein
Ya tu khud aashkar ho ya mujhe aashkar kar
کار جہاں دراز
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟
کارِ جہاں دراز ہے! اب مرا انتظار کر!
Bagh e bahisht se mujhe hukm e safar diya tha kiun
Kaar e jahan daraaz hai! Ab mera intazar kar
شرمسار
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر!
Roz e hissab jab mera pesh ho dafter e amal
Aap bhi sharamsaar ho, mujh ko bhi sharamsar kar
آدمِ خاکی
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکِل اب ہے یا رب پھر وہی مشکِل نہ بن جائے!
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے!
عُروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے!
تری دُنیا
تری دنیا جَہانِ مُرغ و ماہی
مری دنیا فغاںِ صُبح گاہی!
تری دنیا مَین مَحکُوم و مجبُور
مری دنیا میں تیری پادشاہی!
ذرا نم
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بُہت زرخیز ہے ساقی!
Nahi hai na umeed Iqbal apni kisht e veraan se
Zra num ho tu ye matti bohat zarkhaiz hai Saqi!
بادہ و جام
لا پھر اک بار وہی بادہ و جَام اے ساقی!
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی!
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نا رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!
من و تُو
مِٹا دیا مرے ساقی نے عالِم من و تو
پلا کے مجھ کو مے لَااِلہ اِلا ھُو!
بندگی، دُنیا، فیضانِ نظر
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقامِ بندگی دیکر نہ لوں شانِ خداوندی!
تِرے آزاد بندوں کی نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی!
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کِس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی؟
مزید شاعری پڑھنے کے لیے۔۔۔
زمانہ، آشیانہ
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبّت! وہ نگہ کا تازیانہ!
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہء فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے! نا قفس نا آشیانہ!
تری بندہ پروری سے مرے دن گذر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ!
صاحبِ جنوں
خرد کی گتھیاں سُلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحبِ جنوں کر!
Khird ki guthian suljha chukka main
Mere Mola muje sahib e junoon kar
فرسودہ
پُرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہَوا بھی نوخیز!
نکتہ
یہ نکتہ مَیں نے سیکھا بو الحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے
چمک سُورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے!
قِصہ تمام
عِشق کی اک جَست نے طے کر دیا قِصّہ تمام
اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا مَیں
صنم خانے
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونو کے صنم خاکی، دونو کے صنم فانی!
یزداں، فطرت، گستاخ
فِطرت نے مجھے بخشے ہیں جوھرِ ملکوتی!
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
مَیں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!
چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندہء گستاخ کا منھ بند!
مردانِ حُر، مولائے کُل، نگاہِ عشق و مستی
حضورِ حق میں اسرافیلؑ نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا!
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دُنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہَے بینا!
وہ دانائےسُبل ختم الرُسل مولائے کُل جس نے
غبَارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقان وہی یٰسین وہی طاہا!
حرفِ راز، خودی، عالم بشریت، کن فیکون
وہ حرفِ راز کہ مجھکو سِکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں!
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیء افلاک میں ہے خوار و زبوں
عجب مزا ہے مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ رہوں!
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفےٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریّت کی زد میں ہے گردُوں!
یہ کائنات ابھی نا تمام ہَے شاید
کہ آرہی ہَے دمادم صَدائے کُن فیکوں!
راہ گذر، تیرا امام (لندن میں لِکھے گئے )
تُو ابھی راہ گذر میں ہَے قید مقام سے گذر!
مِصر و حجاز سے گذر’ پارس و شام سے گذر!
جِس کا عمل ہَے بے غرض اس کی جزا کُچھ اور ہَے
حُور و خیام سے گذر’ بادہ و جَام سے گذر!
تیرا امام بے حضور، تیری نَماز بے سُرور
ایسی نَماز سے گذر’ ایسے امام سے گذر!
سراغِ زندگی، مَن کی دُنیا، قلندر کی بات
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھکو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن
اپنے مَن میں ڈوب کر پا جَا سُراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بَن، اپنا تو بَن!
مَن کی دنیا؟مَن کی دُنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیَا سُود و سَودا مکر و فن
مَن کی دُنیا ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دَھن جاتا ہَے دَھن!
پانی پانی کر گئی مجھکو قلندر کی یہ بات
تو جُھکا جب غیر کے آگے نہ مَن تیرا نہ تن!
مکتب، شاہیں بچے، درویشی
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا!
کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہَے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہَے تیری بے نیازی کا!
سوز، بے باک، جُنوں
دِل سے سوز سے خالی ہَے’ نِگہ پاک نہیں ہَے
پھر اس میں عَجب کیا کہ تو بیبَاک نہیں ہَے
کیا صُوفی و مُلّا کو خبر میرے جُنوں کی
اُن کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہَے!
کافر و زندیق
اگر عشق ہو’ تو ہَے کُفر بھی مُسلمانی
نہ ہو’ تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق!
مومن، عیّاری
کافر ہَے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسَا
مومن ہَے تو بے تیغ بھی لڑتا ہَے سپاہی!
خداوند اے یہ تیرے سَادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہَے سُلطانی بھی عیّاری!
محبّت زمانہ ساز
ہوئی نہ عام جَہاں میں کبھی حکُومت عِشق
سبب یہ ہَے کہ محبّت زمانہ ساز نہیں
عشق بتاں، خاکِ مدینہ و نجف
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار ِ دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف!
خیرہ نہ کر سکا مجھے جَلوہء دانشِ فرنگ
سُرمہ ہَے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
سیاست
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہُوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہَے چنگیزی!
دامنِ یزداں
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک!
دلِ بینا، جنّت
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نُور، دل کا نُور نہیں
عِلم میں بھی سُرور ہَے لیکن
یہ وہ جنّت ہَے جس میں حُور نہیں
خودی، انجم شناس
خودی وہ بحر ہَے جس کا کوئی کنارہ نہیں !
تو آبجُو اسے سمجھا اگر تو چَارہ نہیں !
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے!
کہ خاکِ زندہ ہَے تُو تابِع ستارہ نہیں
مدرسہ و خانقاہ
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صَدا لَا اِلہَ اِلّاَ اللہ
حدیثِ دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ!
اُٹھا مَیں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!
خرد، ذوقِ سفر
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سِوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہَے تیرا
حیات و ذوقِ سفر کے سِوا کچھ اور نہیں
نگاہ، شاعری
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے!
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے!
بُتوں سےتجھ کو اُمیدیں، خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے!
کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے!
میرِ کارواں
نہ تُو زمیں کے لیے ہَے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہَے تیرے لیے تُو نہیں جہاں کے لیے
نِگہ بلند’ سخن دل نواز، جَاں پُر سوز
یہی ہَے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
محرمِ راز
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ مَیں ہوں محَرمِ رازِ دُرونِ میخانہ!
افلاک
افلاک سے آتا ہَے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہَے
شمشیرو سناں اوّل’ طاؤس و رباب آخر!
میخانہء یُورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سُرور اوّل دیتے ہیں شراب آخر!
راہی
ہر شَے مُسافِر ہر چیز راہی!
کیا چاند تارے’ کیا مُرغ و ماہی!
بندگی
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہء خدا بن یا بندہء زمانہ
اے لَا اِلہ کے وارث باقی نہیں ہَے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ!
خودی، تقدیر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے بتا تیری رضا کیا ہَے!
اگر ہوتا وہ مجذُوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اُس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہَے!
آداب، سحر، رزق
جب عِشق سکھا تا ہَے آدابِ خود آگاہی
کُھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی!
عطّار ہو’ رومی ہو’ رازی ہو’ غِزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَر گاہی!
اے طَاہر ِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی!
وقتِ قیام
یہ مِصرع لکھ دیا کِس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ نَاداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا!
جستجو
تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہَے
کھوئی ہوئی شے کی جستجُو کر
عقل عیّار
عقل عیّار ہَے سو بھیس بنا لیتی ہَے
عِشق بیچارہ نہ مُلّا ہَے’ نہ زاہد ‘ نہ حکیم!
ستاروں سے آگے
ستاروں سے آگے جہاں اَور بھی ہیں
ابھی عِشق کے امتحاں اَور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اَور بھی ‘ آشیاں اَور بھی ہیں!
اگر کھو گیا اک نشمین تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اَور بھی ہیں!
تُو شاہیں ہَے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسمَاں اَور بھی ہیں
اِسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اَور بھی ہیں
داستانِ حرم
غریب و سَادہ و رنگیں ہَے داستانِ حرم
نہایت اِس کی حسینؑ ابتدا ہَے اسماعیلؑ!
نعمتِ دیدار
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہَے؟
خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہَے؟
عِلم کی حَد سے پرے بندہء مومن کے لیے
لذّتِ شوق بھی ہَے’ نعمتِ دیدار بھی ہَے
صاحبِ ادراک
حَادثہ وہ جو ابھی پردہء افلاک میں ہَے
عکس اُس کا مرے آئینہ ادراک میں ہَے
نہ ستارے میں ہَے’ نَے گردشِ افلاک میں ہَے
تیری تقدیر مرے نالہء بے باک میں ہَے!
زمانہء عقل کو سمجھا ہوا ہَے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہَے صاحبِ ادراک !
مردِ قلندر، آوارگانِ راہ
نہ تخت و تاج میں ‘ نے لشکر و سپاہ میں ہَے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہَے!
وہی جہاں ہَے ترا جس کو تُو کرے پَیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہَے!
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہَے جس کا
وہ مُشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہَے!
گُستاخ، آدم
کی حق سے فرشتوں سے اقبالؔ کی غمّازی
گُستاخ ہَے کرتا ہَے فطرت کی حنا بندی!
خاکی ہَے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رُومی ہَے نہ شامی ہَے کاشی نہ سمر قندی!
سِکھائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اِس نے
آدم کو سِکھاتا ہَے آدابِ خداوندی!
اک جہاں اور
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحبِ ہوش
اک جَہاں اَور بھی ہَے جس میں نہ فردا ہَے نہ دوش!
علم کا مقصود
عِلم کا مقصود ہَے پاکیء عقل وخرد
فقر کا مقصود ہَے عفّتِ قلب و نگاہ
لا مکانی
مکانی ہوں کہ آزادِ مکاں ہوں؟
جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مَست
مجھے اتنا بتادیں مَیں کہاں ہوں!
بے یقینی
سُن اے تہذیب حاضِر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہَے بے یقینی!
بے باکی
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہَے
تری پرواز لولاکی نہیں ہَے
یہ مانا اصل شاہینی ہَے تیری
تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہَے!
قلب و نظر
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری!
خودی، خدائی
خودی کی جلوتوں میں مُصطفائیؐ
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کُرسی و عَرش
خودی کی زد میں ہَے ساری خدائی
رونقِ محفل، مقامِ دِل
وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے
مری بجلی مرا حاصل کہاں ہَے
مقام اُس کا ہَے دل کی خلوتوں میں
خدا جانے مقامِ دل کہاں ہَے!
چراغِ راہ
ترے سینے میں دم ہَے دل نہیں ہَے
ترا دم گرمیء محفل نہیں ہَے
گذر جَا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہَے’ منزل نہیں ہے!
محبت کا جُنوں
مُحبّت کا جُنوں باقی نہیں ہے
مُسلمانوں میں خُوں باقی نہیں ہَے
چراغِ رہگذر
دُرونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہَے!
دُعا (مسجدِ قرطبہ میں لکھی گئی)
منتخب اشعار
ہَے یہی میری نَماز ہَے یہی میرا وضُو
میری نواؤں میں ہَے میرے جگر کا لہُو!
راہِ محبّت میں ہَے کون کسی کا رفیق
سَاتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزُو!
مسجدِ قرطبہ (منتخب اشعار)
عِشق دمِ جبرئیل، عِشق دلِ مصطفےؐ
عِشق خدا کا رسُول، عِشق خدا کا کلام!
ہاتھ ہَے اللہ کا بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کُشا کار سَاز
عقل کی منزل ہے وہ عِشق کا حاصِل ہے وہ
حلقہء آفاق میں گرمیءِ محفِل ہَے وہ
باقی نہیں ہے!
رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہَے!
وہ دل’ وہ آرزو باقی نہیں ہَے!
نَماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہَے!
طارق کی دُعا (انتخاب)
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنھیں تُونے بخشا ہَے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دَریا
سِمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہَے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہَے لذّتِ آشنائی!
شہادت ہَے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کُشائی!
لینن (خدا کے حضور میں) منتخب اشعار
ہَے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات!
تُو قادر و عادل ہَے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بُہت بندہء مزدُور کے اوقات
فرمانِ خُدا (فرشتوں سے)منتخب اشعار
اٹھو میری دُنیَا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے دَر و دیوار ہِلا دو
سُلطانیء جمہُور کا آتا ہَے زمانہ
جو نقشِ کُہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جِس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
فقر و شاہی
حکیمی نا مسلمانی خودی کی
کلیمی رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دُوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی!
ذوق و شوق (منتخب اشعار)
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہَے عِشق
عِشق نہ ہو تو شرع و دیں بُتکدہء تصوّرات!
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عِشق صبرِ حسینؑ بھی ہے عِشق!
معرکہء وجُود میں بد رو حنین بھی ہے عِشق!
مَیں’ کہ مری غزل میں ہَے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سَر گزشت کھوئے ہوؤں کی جستجُو!
لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب!
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!
شوق ترا گر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیَام بھی حجاب! میرا سُجود بھی حجاب!
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مُراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو! عِشق حضور و اضطراب!
عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہَے فراق
وصل میں مرگِ آرزو! ہجر میں لذّتِ طلب!
جاوِید کے نام (منتخب اشعار)
ہوئی نہ زاغ میں پَیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ!
حیا نہیں ہَے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تِری رہے بے داغ!
ایک نوجوان کے نام (منتخب اشعار)
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہَے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں!
نہیں تیرا نشیمن قصِ سلطَانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہَے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں!
جوشِ جُنوں
اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو سُنایا
یہ شعرِ نشاط آور پُر سوز و طربناک
مَیں صورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہَے مرا جوشِ جنوں میری قبا چاک!
ساقی نامہ (منتخب اشعار)
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے!
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
تمدّن تصوّف شریعت کلام
بتانِ عجم کے پُجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی!
بُجھی عِشق کی آگ اندھیر ہے!
مُسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہَے!
مُجھے عشق کے پَر لگا کر اُڑا
مری خاک جُگنو بنا کر اُڑا
خِرد کو غلامی سے آزاد کر!
جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر!
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے!
دلِ مرتضےٰ سوزِ صدّیق دے!
جِگر سے وہی تیر پھر پار کر!
تمنّا کو سینوں میں بیدار کر!
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر!
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر!
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عِشق میری نظر بخش دے
سمجھتا ہے تو راز ہَے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہَے زندگی
حوادث
مری صُراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
مَیں اپنی تسبِیح روز و شب کا شمار کرتا ہُوں دَانہ دَانہ
روح ارضی آدم کا اِستقبال کرتی ہَے (منتخب اشعار)
کھول آنکھ’ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گےتُجھے دُور سے گردُوں کے ستارے!
خدائے زندہ
ترا تن رُوح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تری نا رسَا ہے
تنِ بے رُوح سی بیزار ہَے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے!
جبریل و ابلیس(منتخب اشعار)
گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصّہ ء آدم کو رنگیں کر گیا کِس کا لہو؟
مَیں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط! اللہ ھُو اللہ ھُو اللہ ھُو!
اندازِ بیاں
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہَے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
جاوید کے نام - لندن میں(منتخب اشعار)
دیارِ عشق میں اپنا مقام پَیدا کر!
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر!
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تُجھ کو
سکُوت ِ لالہ و گُل سے کلام پَیدا کر!
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے!
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پَیدا کر!
جوانوں سے
محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
شاہیں کا جہاں
پرواز ہَے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اُور ہے شاہیں کا جہاں اَور
جرمِ ضعیفی
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہَے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!
شاہیں (منتخب اشعار)
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہَے اک بہانہ!
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دُنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ!
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں مَیں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ!
باغی مرید (منتخب اشعار)
ہَم کو میسّر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن!
میراث میں آئی ہَے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن!
:Reference
ڈاکٹر محمد اقبالؔ، بالِ جبریل، طبع چہار دہم، جون، 1965ء
پاکستان ٹائمز پریس لاہور میں چھپوا کر ڈاکٹر جاوید اقبال بار ایٹ لاء نے شائع کی۔