"غبارِخاطر "میں تحریر کیے گئےکلاسک اشعار

اردو کا شاید ہی کوئی ادیب یا قدردان ایسا ہوگا جس نے "غبارِ خاطر” کا مطالعہ نہ کیا ہوگا۔ کتاب جو خطوط کی شکل میں ہے۔جس میں مولانا ابوالکلام آزاد نے سینکڑوں اشعار نقل کیے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد فارسی اشعار کی ہے۔ جبکہ چند اردو کے اشعار بھی تحریر کیے۔ غبار خاطر سے اشعار دیکھیے۔

یہاں قارئین کی خدمت میں اردو کے اشعار پیش ہے۔ 

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش

صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

غالب

♦♥♦

کہیں نہ جائیں گے تا حشر تیرے کوچے سے

کہ پاؤں توڑ کے بیٹھے ہیں پائے بند ترے

شاد عظیم آبادیؔ

♦♥♦

لحد میں سوئے حسینوں کی لے کے تصویریں

پری وشوں سے نہ خالی بغل’ زمیں میں رہی

اسیرؔ

♦♥♦

راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

داغؔ

♦♥♦

کام تھے عِشق میں بہت ، پر میرؔ

ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

♦♥♦

اہلِ معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی

بزم میں اہلِ نظر بھی ہیں، تماشائی بھی

حالیؔ

♦♥♦

لذّتِ معصیتِ عشق نہ پوچھ

خُلد میں بھی یہ بلا یاد آئی!

♦♥♦

سر پر ہجوم دردِ غریبی سے ڈالیے

وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے

♦♥♦

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یا رب، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

♦♥♦

نقصان نہیں جنوں میں، بلا سے ہو گھر خراب

دو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

♦♥♦

کون ایسا ہے جسے دست ہو دل سازی میں؟

شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہُنر سے پیوند

♦♥♦

تھک تھک کے ہر مقام پہ دوچار رہ گئے

تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں!

♦♥♦

دامن اُس کا تو بھلا دور ہے اے دستِ جنوں

کیوں ہے بیکار، گریباں تو مِرا دور نہیں!

♦♥♦

آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ

آخر جئے گا کب تلک اے خضر؟ مر کہیں!

♦♥♦

کبھی حکایت رنجِ گراں نشیں لکھیے

کبھی شکایتِ صبرِ گریزپا کہیے

♦♥♦

سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے

وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے

♦♥♦

ہوس گُل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا

عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے

♦♥♦

ملے جو حشر میں’ لے لوں زبان ناصح کی

عجیب چیز ہے یہ طولِ مُدّعا کے لیے

♦♥♦

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا

یاں’ ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

♦♥♦

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

♦♥♦

دونوں جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کروں

♦♥♦

کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر

اچھے رہے آپ اس سے’ مگر مجھ کو ڈبو آئے

♦♥♦

بیکاریِ جنوں میں ہے سر پیٹنے کا شغل

جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

♦♥♦

ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

♦♥♦

غلطی ہائے مضامین مت پوچھ

لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں

♦♥♦

اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عِشق

رکھی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر  کہاں؟

♦♥♦

کہتے ہُوئے ساقی سے حیا آتی ہے، ورنہ

یُوں ہے کہ مجھے دُردِ تہہِ جام بُہت ہے

♦♥♦

سُنتے ہیں جو بہشت کی تعریف’ سب درست

لیکن خدا کرے’ وہ تری جلوہ گاہ ہو

♦♥♦

خُدایا جذبہ دل کی مگر تاثیر الُٹی ہے

کہ جتنا کھینچتا ہُوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے

♦♥♦

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

♦♥♦

رہے اِک بانکپن بھی بے دماغی میں تو زیبا ہے

بڑھا دو چینِ ابرو پر ادائے کج کلاہی کو

♦♥♦

آنکھوں میں دُوں اُس آئینہ رُو کو جگہ ولے

ٹپکا کرے ہے بسکہ یہ گھر، نم بُہت ہے یاں

♦♥♦

سوداؔ خُدا کے واسطے کر قصہ مختصر

اپنی تو نینداُڑ گئی تیرے فسانے میں

♦♥♦

جاتی ہے کوئی کش مکش اندوہِ عشق کی

دل بھی اگر گیا’ تو وہی دل کا درد تھا

♦♥♦

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

♦♥♦

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار

اے کاش جانتا نہ تِری رہگزر کو مَیں!

♦♥♦

ہے غیبِ غیب، جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

♦♥♦

باتیں جو تم نے آج یہ چھیڑیں ملال کی

پھر کیا رہی نشاط تمھارے وصال کی

♦♥♦

حالت نہ پوچھیے مرے شیب و شباب کی

دو کروٹیں تھیں عالمِ غفلت میں خواب کی

محسن کاکوری

♦♥♦

کمر باندھے ہوئے چلنے پہ یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

میرانشا

♦♥♦

نہ کر اے یاس! یوں برباد میرے خانہ دل کو

اسی گھر میں جلایا ہے چراغِ آرزو برسوں

امیرمینائی

♦♥♦

اب لکھیں گے شکوہ بیداد ہم دل کھول کر

نام اُن کا آسماں ٹھہرالیا تحریر میں

ناظمؔ

♦♥♦

پنجہ شانہ سے تو زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ

دل سے دیوانے کو مت چھیڑ ، یہ زنجیر نہ کھینچ

مومنؔ

♦♥♦

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا

غالبؔ

♦♥♦

لطفِ مَے تجھ سے کیا کہوں واعظ

ہائے، کمبخت! تو نے پی ہی نہیں

داغؔ

♦♥♦

بھول کر، او چاند کے ٹکڑے! اِدھر آ جا کبھی

میرےویرانے میں بھی ہو جائے دم بھر چاندنی

ناسخؔ

♦♥♦

بہت رہا ہے کبھی لطفِ یار ہم پر بھی

گذر چکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی

اکبرؔ

♦♥♦

 

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top