تحریر: حفیظ ببر (لاڑکانہ، سندھ)

ساری بہنوں میں دو بہنیں نمایاں تھیں، ایک مومل اور ایک سومل۔مومل سب سے خوبصورت تھی، لیکن ذہین بھی بہت تھی، لیکن سومل چالاکی کے معاملے میں سب بہنوں میں نمایاں مقام رکھتی تھی۔ جب مومل کی شادی کرنے کا والدین کو خیال آیا تو انہوں نے مومل کو ایسے شخص کے ساتھ شادی رچانے کا سوچا، جو غیر معمولی ذہانت رکھتا ہو۔ دور دراز مقامات سے بہت سے امراء و بادشاہ مومل کے حسن وجمال کی تعریفیں سنتے تھے۔ اپنی قسمت آزمانے آیا کرتے تھے، لیکن مومل اور اس کے گھر والوں کے دل نہ جیت سکے۔ لیکن “رانو سوڈھو” ہی وہ انسان تھا جس نے اپنی بے بہا ذہانت سے مومل کا دل جیت لیااور مومل پہلی نظر میں ہی رانو سے محبت کر بیٹھی، اس طرح دونوں کی داستانِ محبت کا آغاز ہوا۔ لیکن جہاں محبت ہو، وہاں رنجشیں اور ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں، جہاں محبت پنپ رہی ہو وہاں حسد اور جلن بھی پیدا ہوجاتی ہے۔مومل رانو کی آپسی رنجشوں کا فائدہ کسی اور نے لے لیا، سومل نے بگڑتی ہوئی صورت حال کا ناجائز فائدہ لے کر مومل اور رانو کے درمیاں دوریاں پیدا کرنے کا تہیہ کر لیا۔ سومل نے اپنے کارندوں کی مدد سے مومل کے کردار کشی کی۔ جگہ جگہ مومل کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلانا شروع کی جو باتیں کسی طرح رانو تک بھی آن پہنچیں۔ جس کی وجہ سے رانو نے مومل کے پاس آنا جانا چھوڑ دیا۔ مومل رانو کی یہ جدائی برداشت نہیں کر پا رہی تھی اور راتوں کی راتیں اس کا انتظار کرتی رہی، لیکن رانو اس کے پاس پھر نہیں آیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی جو سندھ کے ایک فیمنسٹ شاعر گذرے ہیں۔مومل رانو کی داستان کو شاہ صاحب کی وجہ سے دوبارہ جلا ملی ہے۔اس داستانِ غم کو اپنی مایہ ناز کتاب “شاہ جو رسالو” کے “سر رانو” میں بیان کرتے ہیں:

رُسُ مَ رُسَڻُ گهورِئو، پَرَچُ، مَ وانءُ پَري،
وِڌُمِ، ڦَٽُ فِراقَ جو، جِھَتَ جي ذَري،
لالَڻَ جي لَطِيفُ چئَي، سُونھائِي سَري،
آيَسِ تو ڳَري، تَہ سوڍا سُکِياڻِي ٿِيان.

ترجمہ: “روٹھ مت، اپنی ناراضی کو ختم کر، مان بھی جاؤ، اب دوریوں کی بات نہ کر۔
جدائی کے غم سے میرا دل زخمی ہو چکا ہے، میں بالکل گھائل ہو چکی ہوں۔
لطیف کہتا ہے کہ حقیقی خوبصورتی وہ ہے جو کدورت کو ختم کرے۔
اگر تُو میرے پاس واپس آ جائے، تو ہی میں سکھی اور خوشحال ہو سکتی ہوں”۔

رانو سنی سنائی باتوں کی تصدیق کرنے اور مومل سے صفائی لینے کاک محل آنے کے لیے تیار ہوا تو بذریعہ جاسوسی یہ خبر سومل تک پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ اس نے دو طرفہ چالیں چلائی، ایک بیرونی چال دوسری اندرونی چال۔ بیرونی چال کو کامیاب کرنے کے لیے اس نے ایک شاطر آدمی کو مقرر کیا اور اندرونی چال کا ذمہ خود اٹھایا ۔رانو اتنا سفر کرکے جب رات کے وقت کاک محل کے قریب پہنچا تو سومل کا بھیجا ہوا شاطر انسان اسے راستے میں ملا، اور رانے کو بدظن کیا یہاں تک کہ رانے کو یقین ہو گیا کہ مومل نے اس کے ساتھ بےفائی کی ہے۔

رانو جلدی سے کاک محل کی طرف لپکا، جہاں سومل اپنی چال چلنے کو پہلے سے تیار تھی۔ جب مومل کو روتے روتے نیند آگئی تھی، سومل نے مردوں کا حلیہ بناکر، شاہی مردانہ لباس پہن کر مومل کے ساتھ ایسے سوگئی کہ دیکھنے والی آنکھ دھوکہ کھا جائے۔ رانو مومل کو ڈھونڈھتا جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو مومل کے ساتھ ایک اجنبی مرد کو سوتا ہوا دیکھا، تو اس کو مومل کی بے وفائی کا یقین ہوگیا، لیکن وہ خون کے آنسو پی گیا اور خاموشی سے وہاں چلا گیا، لیکن جاتے ہوئے بطور نشانی کمرے میں اپنی لاٹھی رکھ دی اور دل شکستہ ہو کر وہاں سے چلا گیا۔

صبح ہوئی تو مومل نے رانو کی لاٹھی دیکھ کر سمجھ گئی کہ رانو یہاں آیا تھا۔جلدی سے باہر دوڑی تو ریت پر رانو کے اونٹھوں کے نشانات بھی دیکھے تو حیران ہوگئی کہ رانواگر یہاں تک آیا تھا تو پھر مجھ کو بتائے اور ملے بغیر کیوں واپس چلا گیا۔مومل اس صدمے میں بے حال ہوگئی اور سارا دن روتی رہتی تھی۔ شاہ صاحب نے اس کی منظر کشی اس طرح کی ہے:

وَيٺِي نِتُ نِهارِيان، راڻا ! تُهِجو راهُ
موٽائَي ماڳنِ تَي، آڻِيندَوءِ اللهُ
سوڍا تو ڳَرِ ساهُ، ناتَ راڻا گهڻا راڄَ ۾

ترجمہ: “اے رانو! تیری راہوں میں دیدیں لگا کر تمہارا راستہ دیکھتی رہتی ہوں

کاش میرا اللہ تمہیں جلد واپس میری طرف تجھے لوٹائے

رانو! ایک تجھ میں میری جان اٹکی ہوئی ہے، ورنہ اس جہاں میں رانے تو بہت مل جاتے ہیں”

پھر جب محبت نے اسے زیادہ تڑپایا تو رانو کی طرف اپنا قاصد بھیجا اور بے رخی کی وجہ جاننے کی کوشش کی۔ رانو نے بتایا کہ وہ بڑی محبت کے ساتھ مومل سے ملنے آیا تھا، لیکن مومل کوغیر مرد کے ساتھ سوتے ہوئے دیکھا تو اس کا دل ٹوٹ گیا، اور نشانی کے طور پر اپنی لاٹھی وہاں چھوڑ آیا ۔ اب اس کا مومل سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔قاصد نے جب سارا معاملہ مومل کو بتایا تو مومل کو یقین نہیں آیا، اس نے اپنی ذہانت سے جلد معلوم کر لیا کہ کیا معاملہ ہوا تھا۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس کی اپنی بہن نے اس کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلا کر، اپنے لوگوں کی مدد سے رانو کے سامنے مومل کی کردار کشی کی۔ پھر مردانہ حلیہ اختیار کرکے اس کے ساتھ سو کر رانو کو بدگمان کیا ۔یہ سب جان کر مومل نے رانے کو پیغام بھیجا کہ کس طرح اس کے ساتھ اس کی بہن نے دشمنی کی ہے اور اس کے خلاف جھوٹی باتیں مشہور کی اور خودمرد بن کر اس کے ساتھ سوگئی اور قسم کھا کر کہا کہ وہ اس کا دامن پاک ہے۔ وہ ہر طرح کا الزام برداشت کر سکتی ہے لیکن اس غلیظ الزام کی متحمل نہیں بن سکتی اور رانو کو اپنی پاک دامنی کا یقین دلایا کہ وہ صرف اور صرف اس کی ملکیت ہے، رانو کے علاوہ آج تک کسی نے اسکو چھوا تک نہیں ہے، نہ بھول کے بھی ایسا کبھی سوچ سکتی ہے۔لیکن رانو نے پیغام بھیجا کہ سُنی سنائی باتوں کو تو وہ بھی جھٹلا سکتا تھا، لیکن اس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور پیغام رساں کو بڑا سخت پیغام بھیجا کہ مومل کو کہو کہ بے وفائی کرنے سے بہتر تھا کہ وہ کہیں مر جاتی۔ اب رانو کا کاک کے ساتھ رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔مومل دل کے ہاتھوں بہت مجبور ہوئی اور بار بار اپنے قاصدوں کو بھیجتی رہی یہ باور کروایا کہ رانو کے علاوہ دنیا کے سارے مرد اس کے بھائی ہیں۔ بلکہ وہ خود اس صورت حال سے بہت غمزدہ ہے کہ سگے رشتوں نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔وہ اپنوں کی ستم ظریفی پر پہلے ہی خون کے آنسو رو رہی ہے، اس لئے مزید اس کو نہ تڑپایا جائے اور بلکہ ناراضگی کو چھوڑ کراسے پہلی سی محبت دی جائے، کیونکہ مومل کی زندگی رانو سے شروع ہو کر رانو پر ختم ہوتی ہے، رانو کے سوا اس کا جینا عبث ہے، لیکن رانو پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس نے پیغام رساں کو طنزیہ پیغامات بھیجے اور کہا کہ مومل سے کہو کہ گناہ کرکے اتنی بے باکی سے وہ محبت کا ایسے حق نہ جتاتی پھرے، بلکہ وہ محبت کی قصور وار ہے، لہذا پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔لیکن مومل نے کہا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتی ہے وہ اسے دھوکہ نہیں دے سکتی۔ان کی باہمی داستان اب تو سبھی کو معلوم ہوگئی ہے اور وہ اپنی سہیلیوں کے طعنے مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ ایسی تہمتوں کی وجہ سے اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ہے۔ رانو کی بے رخی نے مومل کا جینا دشوار کردیا تھا ۔ اس کے اپنے گھر والے اس کو اتنی باتیں سناتے تھے کہ اس کا دل چاہاکہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر دے، کہ شاید اس طرح رانو کو اس کی وفا پر یقین آجائے۔

لیکن مومل نے شکست ماننے سے قبل، آخری بار کسی قاصد کی مدد حاصل کیے بغیر خود رانو کو راضی کرنے کے لئے میدان میں اتری، اس نے جوگیوں کا روپ اختیار کیا۔ مردانہ وضع قطع کے ساتھ رانو کے محل تک پہنچ گئی۔حتیٰ کہ رانو بھی اس بہروپ پن سے دھوکہ گیا، اور مومل اپنی ذہانت سے رانو کی نفسیات پر ایسا جادو کیا کہ رانو اجنبی جوگی کاگرویدہ ہوگیااور جوگی کو کچھ دنوں تک محل میں مہمان بننے کی درخواست کی۔ پہلے تو مومل نے انکار کیا، لیکن اپنے منصوبے کی کامیابی پر مسکرا کر مہمان بننے کے لئے ہاں کردی اور یوں مومل اس کے محل میں رہنے لگی۔لیکن اپنی شناخت چھپانا اتنا آسان نہیں ہوتا،بالخصوص ایسے انسانوں کے ساتھ نہیں چھپایا جا سکتا ،جن کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہو۔ مومل جو رانو کی محبت میں جوگی بن گئی تھی، رانو کے ساتھ محبت کے موضوع پر باتیں کرنے لگی اور اس کے دل کو ٹٹولنے لگی تو رانو کو اس بات پر تھوڑا شک ہوا، اور بالاخر جب یہ دونوں محو گفتگو تھے تو مومل نے کوئی بات کرنے کے دوران اپنے بازو کو تھوڑا سا اٹھایا تو اس پر رانو کی نظر پڑ گئی اور وہ سارا معاملہ سمجھ گیا کہ یہ ایک عورت ہے بلکہ اس کی مومل ہے۔ پھر راز افشا ہونے کے بعد رانو کچھ کہے بغیر محل چھوڑ کر چلا گیا۔

مومل مایوس ہوکر اپنے کاک محل واپس آ گئی۔ اس نے اپنی طرف سے تمام تر کوششیں کی۔ قاصد بھیجے، منتیں کی، عرض و مناجات سے روٹھے محبوب کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ گھر چھوڑا، بہنوں اور سہیلیوں تک کو چھوڑ کر خود بھیس بدل کر رانو کے ساتھ رہنے لگی، اس طرح وہ نہ یہاں کی رہی نہ وہاں کی رہی۔ نہ جانے کتنی راتیں گذر گئی وہ اس غم میں مرتی گئی، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ تو مومل نے اب سوچا کہ ایسی زندگی سے بہتر ہے کہ وہ خود کو مار ڈالے۔ اس منظر کو شاہ لطیف نے اس شعر کے ساتھ یوں بیان کیا:

راڻا تنهنجي راڄ ۾ مون چوڏهون چنڊ ڏٺو،

نه هيس داڻو پيٽ ۾ نه اکين ان ڏٺو

وڃي راڻي کي چئجو مومل رات مري وئي

ترجمہ: “رانا! تیرے راج میں چودھواں چاند میں نے دیکھا،
نہ پیٹ میں کوئی دانہ، نہ آنکھوں نے کوئی اناج دیکھا۔
اب جاکر رانے سے کہنا! اس کی مومل رات مر گئی”

مومل نے آگ کا بڑا الاؤ تیار کروا کر فلک بوس شعلوں میں چلانگ لگانے کو تیار ہوگئی۔ وہاں کسی طرح رانےکو خبر ہوگئی اور وہ بھی اپنی سواری پر موقعہ پر پہنچ گیا اور مومل کو دور سے آوازیں دینے لگا کہ مومل خدا کے لئے تمہیں میری محبت کی قسم آگ میں نہ کودنا اور زار و قطار رونے لگا۔ معافیاں مانگنے لگا اور کہا کہ اب وہ تم سے راضی ہوگیا ہے، تم ضد چھوڑو اور میرے پاس واپس چلی آؤ۔ مومل نے جواب دیا کہ رانا تم سے سچی محبت تھی اور ہمیشہ رہے گی، اس بات کا یقین دلانے کے لیے مجھے کسی بھی طرح آگ سے گزرنا ہوگا، ورنہ زندہ رہی تو تم ساری زندگی میرے کردار پر کیچھڑ اچھالتے رہو گے۔ یہ کہہ کر وہ آگ میں کود کر اپنی جان دے دی۔ رانو نے بہت پچھتایا اور خود کو بہت کوسنے لگا کہ اس نے کیوں مومل پر بے وجہ شک کیا اور اس کو مرنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ بدکردار ہوتی تو اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے خود کو ایسے نہ مارتی۔ اور سوچا کہ ایک عورت ہو کر وہ اپنی سچائی کو ثابت کر سکتی ہے اور وہ تو مرد ہے، یہ سوچ کے اس نے بھی آگ میں چلانگ لگا کر مومل کے ساتھ فنا ہوگیا۔

ہر داستان کی طرح اس داستان سے بھی ہمیں ایک عظیم سبق ملتا ہے۔ کہ دو لوگ جو ایک دوسرے کے لئے بنے ہوں، ان کو یہ بات ضرور ذہن نشین کرنی چاہیے کہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ آپ کو مل جائیں گے۔ جذبات کے طوفان میں بہہ کر اپنے دل کی داستان ہر کسی کے سامنے کھول کر بیان نہ کریں۔ ہر انسان آپ کا ہمدرد نہیں ہوتا، بلکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آپ کا ہمدرد بننے کا ڈھونگ کرکے آپ کے پیٹھ پر چھرا کھونپ دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف عورت کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ اپنے دل میں کسی رنجش جو مستقبل جائے پناہ نہ دے ورنہ سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف مرد کے لیے یہ پیغام بھی پنہاں ہے کہ جہاں آنکھوں دیکھی حقیقت انسان کو گمراہ کر سکتی ہے وہاں بغیر تحقیق کے سامنے والے کے دلائل سنے بغیر یک طرفہ فیصلہ کرنا کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ رشتوں کے مابین فاصلہ پیدا کرنے سے ہمیشہ گریز کریں۔ فاصلے جب بڑھ جاتے ہیں تو وقت کے ساتھ، انسان کے ذہن پر بیرونی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں، اس لئے رشتوں کے درمیاں ناچاقی کو فوراً حل کرنا چاہیے۔ اگر رنجشوں کو طول دیں گے تو کسی تیسرے کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے گا اور کسی رشتے میں جب تیسرا کردار آجاتا ہےتو رشتہ بکھر جاتا ہے۔ مومل اگر آغاز میں ہی رشتے کو اتنا پیچیدہ نہ بتاتی تو اسے بعد میں اتنے منت و سماجات نہ کرنے پڑتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو مومل کی طرح اپنےروٹھے ہوؤں کو منانے کی آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن رانو کی طرح اپنی ذات پر شک کی دبیز تہہ نہ ڈال دی جائے کہ انسان حقیقت کو حقیقت دکھائی نہ دے۔

اگر آپ پسند کریں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
شاعری پڑھیے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top