از: حفیظ ببر

کیا امریکہ کو آگ فلسطین نے لگوائی ہے؟

لاس اینجلس، امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کا ایک مشہور شہر قدرتی خوبصورتی اور گنجان آباد علاقوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ وہاں ہالی ووڈ جیسی فلمی صنعت کا مرکز بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے، لاس اینجلس اکثر آگ لگنے کے واقعات کی زد میں آتا ہے۔ خشک سالی، گرمی کی شدت، اور جنگلات کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے کیلی فورنیا آگ کے لیے انتہائی حساس مانا جاتا ہے، جہاں گزشتہ دہائیوں میں وافر مقدار میں قدرتی آفات رونما ہوتے ہیں۔ اگر ان آفات کی وجوہات کو مدِ نظر رکھا جائے تو اس میں بے شمار قدرتی عوامل جیسے خشک موسم اور تیز ہوائیں موسم پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی اپنی غلطیاں بھی اس کی وجوہات میں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی مثال 2018 میں پیش آنے والی “وولسی فائر” ہے جو لگاتار دو ہفتوں تک جاری تھی۔ جس نے ہزاروں ایکڑ زمین، گھروں، اور قدرتی وسائل کو تباہ کیا تھا۔ یہ آگ تاریخ کی سب سے مہنگی اور خطرناک آفات میں سے ایک تھی۔

حالیہ دنوں کی بات کی جائے تو 7 جنوری سے شروع ہونے والی اس آگ کو “پالیسڈ فائر” کا نام اس کی جغرافیائی جگہ کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ آگ پیسفک پیلسیڈز کے علاقے میں شروع ہوئی تھی۔ یہاں کے رہائش پذیر لوگ جن میں اکثر مشہور شخصیات ہالی ووڈ کے اداکار، موسیقار، اور فلمی صنعت کے لوگ بھی شامل ہیں، جو اکثر اپنے گھروں کی تعمیرات پہاڑی علاقے اور جنگلات کے قریب کیا کرتے ہیں۔ آگ لگنے کے باعث اب تک کی رپورٹز کے مطابق 24 افراد کی جان چلی گئی ہے۔ کیلیفورنیا کے حکام کے اعداد و شمار کے مطابق جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی اس آگ سے، لاس اینجلس اور آس پاس کے علاقوں سے تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ آگ کے تند و تیز شعلوں نے ہزاروں گھروں کو تباہ کر دیا ہے۔ محکمہ جنگلات نے بتایا کہ اب تک 11750 ہیکٹر سے زیادہ ایراضی جل کر خاکستر ہو چکی ہے۔ آگ کی وجہ سے ہالی ووڈ کے اداکار پیرس ہلٹن، بلی کرسٹل، ڈیان وارن بلکہ مشہور ڈانسر و ماڈل نورا فتحی سمیت کئی معروف اداکاروں کی رہائش گاہیں جل کر چکی ہیں۔ انسانوں کے ساتھ سینکڑوں جانور اور پرندے بھی بھسم ہوگئے ہیں، جبکہ متاثر علاقوں سے جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل تا حال جاری ہے۔

اس وقت لاس اینجلس میں پانچ مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے مِیں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرف سے بھی ایمرجنسی ورکز کو حادثے کے مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میکسیکو اور کینیڈا سمیت کئی ممالک کے فائر فائٹرز امریکہ کے ساتھ مل کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس آگ کو تاریخ کی ”سب سے تباہ کن قدرتی آفات میں سے ایک” قرار دیا گیا ہے۔ ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کی مدد سے آگ کے خلاف فضائی آپریشن بھی شروع کیا گیا ہے۔ صدر اور نائب صدر نے آگ کے باعث غیر ملکی دورے منسوخ کر دیے ہیں۔

کیلی فورنیا پر مسلط قدرتی آفات کو بیان کرنے کے بعد اصل مدعے پر آتے ہیں۔ جب سے آگ پھیلنے کا سلسلہ جاری ہوا ہے، جہاں عالمی دنیا اصولی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔ اپنے دیرینہ تفرقے مٹا کر خالص انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہاں ان واقعات نے عالمی سطح پر مختلف رد عمل کو جنم دیا ہے، خاص طور پر پاکستان سمیت مسلم دنیا میں اس قدرتی سانحے پر افسوس کرنے کے بجائے خوشیوں کا سماں بندھا ہوا ہے۔ لوگ اس خوفناک واقعے کا موازنہ فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے کئے گئے ظالمانہ کاروائیوں سے کر رہے ہیں۔

پاکستان جو مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یہاں کی عوام میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جو کسی حد تک جائز بھی ہے۔ اسرائیل اپنے عزائم کو بروئے کار کرنے کے لئے “گریٹر اسرائیل” کی پالیسی کو فروغ دیتا ہے۔ وقفے وقفے سے فلسطین اور اپنے ہمسائے ممالک پر حملے کرکے وہاں سولینز جس میں بوڑھے، بچے اور عورتیں شامل ہیں، ان کو نشانہ ہدف بنا کر انسانیت سوز کاروائیاں کرتا رہتا ہے۔ بحیثیت ایک انسان ایک ہی مذہب کو ماننے والے لوگوں کے درمیاں درد کا رشتہ قائم ہوتا ہے، فلسطین اور پاکستان کے درمیاں بھی یہی فطری تعلق ہے۔ ان کا ماننا ہے بلکہ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ امریکہ کی پالیسیوں، خاص طور پر فلسطین کے مسئلے پر، نے مسلم دنیا کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم پر امریکہ کی حمایت کو مسلم دنیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ لاس اینجلس میں ہونے والی تباہی کو امریکہ کی “سزا” کے طور پر دیکھتے ہیں۔

حالانکہ ان کا رویہ اس بات کو نظرانداز کرتا ہے کہ لاس اینجلس کی آفات کی زد میں معصوم لوگ، بے زبان جانور، اور پرندے تک متاثر ہو رہے ہیں۔ لاکھوں انسان بے گھر ہو گئے ہیں، اور سینکڑوں جانور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انسانی جانوں کے نقصان پر خوشی منانا ایک غیر اخلاقی رویہ ہے، جو ہمارے دین اور اقدار کے خلاف ہے۔ یہ حقیقت بھی ترکِ نظر کی جا رہی ہے کہ امریکہ قدرتی آفات کے وقت بلا امتیاز پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کی مدد کرتا آیا ہے۔ بلکہ آج کی تاریخ تک امریکہ کئی معاملوں میں مستقل بنیادوں پر پاکستانیوں کی مالی پشت پناہی کرتا ہے۔ 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے دوران امریکہ نے بڑی مالی اور انسانی امداد فراہم کی تھی۔ اس وقت پاکستان نے پوری دنیا سے مالی تعاون کی اپیلیں کر رکھی تھیں۔ دوست و دشمن ممالک ہر فرق سے بالاتر ہوکر انسانیت کے ناطے مدد کر رہے تھے۔ تو ایسے میں ہم پر زلزلے اور سیلاب کی جو آفتیں مسلط ہوئی تھیں، کیا وہ ہم پر ہمارے گناہوں کی ملی ہوئی کوئی سزا تھی؟ امداد کرنے والے ممالک جن میں اکثریت غیر مسلم ممالک کی ہے، ہماری مدد کرتے وقت اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتے اور قدرتی آفتوں کو پاکستانی عوام کی سزا قرار دیتے اور کسی طرح مدد نہ کرتے تو پاکستانی عوام کا اس وقت نفسیاتی ردِ عمل کیا ہوتا ؟ اللہ نے کسی قوم پر یا کسی ملک پر اپنی سزا مسلط کر دی ہے اس کا تعین کون کرے گا اور جزا و سزا کے کیا پیمانے ہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا یا یہ اختیار انسان کے دائرے میں آتا ہے کہ نہیں؟

اگر کسی انسان کو کینسر ہوا ہے یا کسی کے گڑدے خراب ہوگئے ہیں تو اس کے بیٹے کو یہ کہا جائے کہ اس کا باپ اپنی گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے تو کیا اس کا بیٹا یہ بات مان لے گا؟ اگر یہ اصول بنایا جائے تو پھر پوری دنیا میں جاپان کے لوگ طویل عمریں پا رہے ہیں۔ وہ لوگ ملاوٹ، کرپشن اور دھوکہ دہی سے تقریباً پاک ہوتے ہیں، وہ پاکستانیوں کی طرح بے موت نہیں مر رہے ہوتے۔ کیا اس بات کو ہم لوگ مان لیں گے کہ ملاوٹ اور کرپشن سے پاک جاپانی لوگوں کا ایمان بہرحال ہم پاکستانیوں کے ایمانوں سے مضبوط ہے؟ لیکن نہیں جاپانی لوگ کافر ہیں جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ جنت کے اصل مالک تو پاکستان اور مسلم دنیا کے باشندے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستانی معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں پر شخص کرپٹ ہے۔ کوئی ملاوٹ والا دودھ بیچ رہا ہے۔ کوئی بوسیدہ سبزیاں بیچ رہا ہے، کوئی مردہ گوشت کا کاروبار کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں بے شمار بیماریاں پھیلتی ہیں اور عمر کی اوسط پہلے کے مقابلے بہت کم ہوگئی ہے۔ دل کی شریانیوں کا سکڑ جانا، کم عمری میں ذیابیطس، بلڈ پریشر اور مختلف بیماریوں سے ہمارا جواں نسل مر رہا ہے تو اس کا الزام کس پر عائد کریں؟ ہم میں سے ہر انسان دوسرے شخص کا بالواسطہ قتل کر رہا ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی قوم، گناہوں کے ملبوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہم خود ایک سزا بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ تڑپ تڑپ کے جی کر یونہی مرتے جا رہے ہیں، کس ظالم کو ہاتھ اٹھا کر دہائی دیں؟ بحیثیت ڈاکٹر چند پئسوں کی خاطر ایک غریب مریض کو مہنگی دوائی لینے پر مجبور کرتے ہیں یا مہنگے اسپتالوں میں مرض کا علاج کرنے سے زیادہ ہسپتال کے مالکان کو پئسہ کمانے کی فکر ہوتی ہے۔ وکیل ہو یا جج انصاف کی لوڑ کسی پاکستانی کو نہیں ہوتی۔ سب اپنے اپنے ذاتی مفاد کو ملحوظِ نظر رکھتے ہیں۔ کسی کی ماں مر جائے اس کا ڈیٹھ سرٹیفکیٹ لینے جائیں تو بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا۔ شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ فنانس ڈپارٹمنٹ میں کس طرح ذلیل و خوار ہوتی ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی۔ کرپشن ہماری نس نس میں سرایت ہو چکی ہے۔ بحیثیت پاکستانی قوم ہم تعفن زدہ ماحول میں اپنے ہی گناہوں کی سزا بن کر جہنم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اس بات کا اعتراف کیا ہے؟

اگر کسی انسان پر مصیبت ٹوٹ پڑے، کسی کو بزنس لاس ہوجائے اور اس کا دیوالہ ہو جائے، کسی کی بیوی کو کوئی ڈرائیور لاپرواہی سے کچل دے اور وہ بچاری ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہو یا کسی کے بیٹے کو پولیو ہوجائے تو بجائے ہمدردی کرنے کو ہم ایسے انسانوں کو یہ باور کروائیں کہ ان کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے وہ اس کے گناہوں کی ہی سزا ہے ۔ تو بتائیں ہم میں سے کون ایسا شخص ہوگا جو گناہوں سے پاک ہو اور اپنی راست بازی کی وجہ سے دنیا کی مصیبتوں سے بچا ہوا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے، بلکہ عام انسان تو دور کی بات ہے، انبیاء تک کو مصیبت سے معاف نہیں کیا گیا، قصہ ایوب پڑھ لیں کیسے ایک نبی پر مصیبت کے پہاڑ گرائے گئے تھے، مگر اللہ کا وہ نیک بندہ دوسرے انسانوں پر الزام لگانے کے بجائے ہر وقت اللہ کی رحمت کا طلب گار بنتا تھا۔

کیلی فورنیا کی آگ نے بلا فرق و امتیاز کلیساؤں کے ساتھ مسجدوں تک کو جلا دیا ہے۔ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان لوگوں کے گھر بھی جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ لاس اینجلس کی آبادی تقریباَ چالیس لاکھ تک ہے، وہاں سو فیصد امریکی لوگ نہیں رہتے۔ بلکہ دیگر ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین بھی رہتے ہیں۔ ہمارے سینکڑوں پاکستانی لوگ بھی اس حادثے کا شکار ہوئے ہونگے جو کسی نہ کسی طرح وہاں روزگار یا پڑھائی کے سلسلے میں رہتے ہونگے۔ جب کسی جگہ آگ لگتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے والا مسلمان ہے یا عیسائی امریکی ہے پاکستانی، بلکہ وہ سب کو جلا راکھ کر دیتی ہے۔ آگ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

ہم جس نبی کے ماننے والے ہیں وہ رحمت للعالمین ہیں۔ اور جس قرآن کے پیروکار ہیں وہ کتاب کسی ایک مذہب کے لئے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک سارے انسانوں کے لئے نازل ہوئی ہے۔ اس میں یہ بات اصولی طور پر بیان کی گئی ہے کہ کسی ایک انسان کی سزا کسی دوسرے انسان کو نہیں ملتی۔ سورہ الانعام کی آیت 164 میں وارد ہے کہ “ولا تکسب کل نفس الا علیہا، ولا تزر وازرۃ وز اخری”۔ اس آیت میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کسی کے جرم کی سزا دوسرے معصوم شخص کو نہیں ملتی۔ گناہوں کا ملبہ اس کی اپنی ذات پر گرے گا۔ جرم کرنے والا گناہوں کا بوجھ خود اپنی ذات پر اٹھائے گا۔ اس آیت کو پاکستانی عوام کے زاویے سے دیکھا جائے تو اسرائیل کی حکومت جس نے امریکہ کی حکومت کی مدد سے فلسطین کی عام عوام پر حملے داغ کر بچے، بوڑھے، عورتوں سمیت وہاں کی غیر مسلح عوام پر ظلم کیا ہے۔ تو اس کی سزا کس کو ملنی چاہیے، حکومتی امراء کو جنہوں نے غلط فیصلے کیے یا عام عوام کو؟ یہاں پر ظالم نیتن یاہو اور جوئے بائڈن جیسے لوگ ہیں، جن کی غلط حکمت عملیوں کے باعث فلسطین پر ظلم ہو رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطین میں بھی حماس نام کا ایک باغی گروہ ہے وہ بھی وقفے وقفے سے اسرائیل پر حملے کر کے، عسکری لوگوں کے ساتھ ساتھ، نہتے سولینز کو بھی مار رہے ہیں۔ ایران ہو یا حماس اگر وہ اسرائیل پر کوئی حملہ کرکے بے شمار لوگوں کو مارتے ہیں تو ہماری پاکستان عوام خوش ہوتی ہے اور ان کی بہادری کے سہرے گائے جاتے ہیں اور اگر اسرائیل کے حملے میں فلسطینی مرتے ہیں تو ہم دکھ کے مارے غصب ناک ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہمارا دہرا معیار ہے۔ اگر دونوں جانب سولین لوگوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں تو ہم کسی کی موت پر یا کسی کو آفت میں مبتلا دیکھ کر خوشی کا اظہار کریں گے، تو یہ پست ترین سوچ اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

بالکل اسی طرح فلسطین پر حملہ امریکہ میں بسی سول سوسائٹیز کی وجہ سے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ہر انسان میں مادہ رحم رکھا ہے ۔ جو کسی جانور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تو کیسے ممکن ہے کہ فلسطین پر کئے گئے حملوں میں امریکہ کی 33 کروڑ عوام ملوث ہوگی۔ کیا کثرتِ انسان کی اتنی گری ہوئی سوچ ہو سکتی ہے؟ فلسطین پر حملے، نہ تو اسرائیل کی عوام سے پوچھ کر کیے جاتے ہیں نہ امریکہ کے لوگوں سے اجازت لے کر حملے کیے جاتے ہیں۔ تو ہم ایک انسان ہونے کے ناطے مصیبت کے اس نازک وقت میں امریکیوں کے لئے دعائے خیر کرنے کے بجائے ان کو مزید برباد کرنی کی بد دعا کیوں دیں۔ بدلتے ہوئے عالمی ماحول کی وجہ سے یہ آفتیں ہم پر بھی آتی ہیں۔ تو ایسے وقت میں اللہ سے پناہ مانگنے اور صحیح حکمت عملی کرنے کے بجائے اگر ہم ایک دوسرے کو تکلیف میں پا کر خوشی منائیں گے، تو یہ غیرانسانی عمل ہوگا، اور روزِ قیامت ہم سے اس کے متعلق ضرور باز پرس ہوگی۔

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top