مرتضیٰ برلاس کا یومِ پیدائش
20 جنوری 1934ء
منتخب اشعار
شدتِ کرب نے کملا دیے چہرے کے خطوط
اب نہ پہچان سکیں گے مرے احباب مجھے
♦♦♦
چہرے کی چاندنی پہ نہ اتنا بھی مان کر
وقتِ سحر تو رنگ کبھی چاند کا بھی دیکھ
♦♦♦
دشمنِ جاں ہی سہی دوست سمجھتا ہوں اسے
بد دعا جس کی مجھے بن کے دعا لگتی ہے
♦♦♦
مانا کہ تیرا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں
ملنے کے بعد مجھ سے ذرا آئنہ بھی دیکھ
♦♦♦
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
♦♦♦
مجھے کی گئی ہے یہ پیشکش کہ سزا میں ہوں گی رعایتیں
جو قصور میں نے کیا نہیں وہ قبول کر لوں دباؤ میں
♦♦♦
جنوں کا ذکر مرا عام ہو گیا تو کیا
میں تیرے شہر میں بدنام ہو گیا تو کیا
♦♦♦
ساقی گری کا فرض ادا کر دیا گیا
پانی کا گھونٹ زہر ملا کر دیا گیا
♦♦♦
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی بر جستہ کہہ دیا
♦♦♦
آج وفا کا واسطہ دیتا ہے وہ ستم ظریف
جس نے غرور حسن میں خوف خدا نہیں کیا
♦♦♦
روئے خطاب ہے کسی نازک مزاج سے
چہرے پہ حال لکھیے نگاہوں سے بولئے
♦♦♦
وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا
وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی
♦♦♦
کاش بادل کی طرح پیار کا سایا ہوتا
پھر میں دن رات ترے شہر پہ چھایا ہوتا
♦♦♦
مثال دینی تو اپنی ہی ذات کی دینی
تو پھر غرور ہے کیا عاجزی اگر ہے یہی
♦♦♦
چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے
دریا میں سارا زور ہی طغیانیوں کا ہے
♦♦♦
جو محرک ہے مرے تخلیقِ فن کے واسطے
فکر میں یہ شدت غم دیکھیے کب تک رہے
♦♦♦
جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی جنت کے دکھائے نہ کوئی خواب مجھے
♦♦♦
طنز آمیز نہیں ہے مرا اندازِ سخن
تلخ بے شک ہے مگر بات جدا لگتی ہے
♦♦♦
ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے
شوق سے تو مجھے اب قوتِ پرداز نہ دے
♦♦♦
ہم کہ تجدیدِ عہدِ وفا کر چلے آبروئے جنوں کچھ سوا کر چلے
خود تو جیسے کٹی زندگی کاٹ لی ہاں نئے دور کی ابتدا کر چلے
♦♦♦
یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
خلوص چاہا تو پتھر جواب میں آئے
♦♦♦
ہے یوں تو میرے رقیبوں میں اختل
مرے خلاف مگر اتحاد کتنا ہے
♦♦♦
مآخذ:
اردو کلاسک : عمر جاوید خان
https://www.facebook.com/urduclasikshairi