تعارف

 پیدائش: 22 جولائی 1926ء

وفات: 24 جنوری 1975ء

 محمد زکی کیفی مرحوم بیسویں صدی کے ایک قادر الکلام شاعر اور ادارہ اسلامیات لاہور کے بانی تھے۔

آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع (بانی و مہتمم جامعہ دارالعلوم کراچی) کے سب سے بڑے صاحبزادے اور مفتی محمد رفیع عثمانی، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا ولی رازی کے سب سے بڑے بھائی اور دورِ حاضر کے معروف شاعر سعود عثمانی کے والد گرامی تھے۔

زکی کیفی 22 جولائی 1926ء بمطابق 22 ذوالحجہ 1344ھ کو متحدہ ہندوستان کے مشہور قصبے دیوبند میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد ماجد کے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کا نام "محمد زکی” تجویز کیا۔ تاریخی نام "سعید اختر” رکھا گیا۔

ابتدائی تعلیم دار العلوم دیوبند ہی سے حاصل کی۔ اصلاحی تعلق مولانا اشرف علی تھانوی سے قائم کیا ۔ بچپن ہی میں ان سے بیعت ہو گئے اور ان سے تصوف کی مشہور کتاب پند نامہ عطار سبقا سبقا پڑھی۔

زکی کیفی کے والد مفتی محمد شفیع عثمانی پاکستان کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ زکی کیفی اپنے والد کے دست و بازو اور قیام پاکستان کے پرجوش حامی تھے۔ سرحد ریفرنڈم، لاہور کانفرنس اور حیدر آباد کانفرنس میں وہ اپنے والد کے شانہ بشانہ رہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے دیوبند کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی جو فسادات کے دنوں میں رات کو پہرے دیا کرتی اور مسلمانوں کی حفاظت کرتی۔

قیام پاکستان کے بعد ان کا سارا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا مگر وہ اپنے والد کے ایما پر ہندوستان ہی میں رکے رہے اور ان کے ادھورے کاموں کو نبٹاتے رہے۔

اس اثنا میں عید کے موقع پر انہوں نے اہل خانہ کے نام شعری انداز میں خط لکھا جس میں کمال شاعرانہ مہارت کے ساتھ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا:    ؎

مانا کہ میں دل درد کا خوگر ہی بنا لوں

لیکن جو خلش چھپ نہ سکے کیسے چھپا لوں

آنکھوں میں اندھیرا ہے تو دل ڈوب رہا ہے

ایسے میں بتاؤ کہ میں کس کس کو سنبھالوں

تم عید کی خوشیوں سے کرو گھر میں چراغاں

میں محفل دل اپنے ہی داغوں سے سجا لوں

ماں باپ جدا بھائی بہن پاس نہیں ہیں

ایسے میں بتاؤ کہ میں کیا عید منا لوں

زکی کیفی کا شعری مجموعہ کیفیات کے نام سے ان کی وفات کے بعد ان کے اپنے ہی ادارے سے شائع ہوا۔ جو حمد، نعت، غزل، ملی و قوم نظموں اور قطعات کے ایک منتخب ذخیرے پر مشتمل ہے۔

ان کی شاعری اردو کی غزل گو شعری روایت کا تسلسل ہے۔ وہ جگرؔ اور حسرتؔ کی صف میں کھڑے ہیں۔

زکی کیفی کا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر مرحومین کی یاد میں بکثرت پڑھا اور لکھا جاتا ہے:    ؎

آتی ہی رہے گی تری انفاس کی خوشبو

گلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا

اس آئینہ خانے میں سبھی رنگ ہیں تیرے

اس آئینہ خانے میں تو یکتا ہی رہے گا

ستارے ڈوبنا، شبنم کا رونا، شمع کا بجھنا

ہزاروں مرحلے ہیں صبح کے ہنگام سے پہلے

آپ کی وفات 24 جنوری 1975ء کو ہوئی۔ اس کے مطابق آپ کی شعر گوئی کی عمر تقریبا 20 سال کا عرصہ ہے۔

زکی کیفی ” کیفیات ” نامی ایک خوبصورت اور اچھوتے شعری مجموعے کے شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

♦♦♦


نمونہ کلام

 

 نظم غلاف کعبہ

جس سال غلافِ کعبہ تیار کرنے کی سعادت پاکستان کو حاصل ہوئی اسی سال محمد زکی کیفی نے یہ نظم "غلافِ کعبہ” کہی:

غلافِ کعبہ تری عظمتوں کا کیا کہنا

عروسِ حُسنِ ازل کا لباسِ نور ہَے تُو

گناہگار تِرا کیوں نہ چوم لیں دامن

امینِ رازِ وفا، جلوہ زارِ طُور ہے تُو

کمالِ فرض کا پیکر ہے تیری ہستی بھی

کسی کی ذات میں خُود کو مٹا دیا تُو نے

ہر آن سینہ سپر ہے حرم کی خدمت میں

دلوں میں نقشِ محبت جما دیا تو نے

یہ تیرا جذبہٗ خدمت ہے رشک کے قابل

غبار دامنِ کعبہ تک آ نہیں سکتا

حوادثات کے طُوفاں ہزار ٹکرائیں

تو اپنے فرض کو لیکن بھلا نہیں سکتا

تجھے نصیب ہے قربت حرم کے سینے سے

حریمِ حُسنِ حقیقت کا رازدار ہے تُو

ہے تیرا مقصدِ ہستی حرم کی زیبائش

نگارِ حسن و تجلّی کا پردہ دار ہے تو

درِ حرم کے محافظ ادائے فرض کے بعد

جہاں بھی اہلِ وفا تجھ کو دیکھ پائیں گے

سکوںِ قلب کی خاطر لگا کے سینے سے

ہر اک تار تِرا، تارِ جاں بنائیں گے

غلافِ کعبہ قسم مجھ کو ربِّ کعبہ کی

تجھے جو دیکھا تو آنکھوں میں اشک بھر آئے

تصوّرات کی دنیا میں ایک ہلچل ہے

جو دل میں داغ تھے پوشیدہ وہ نکھر آئے

نہ پُوچھ مجھ سے کہ میں گم ہوں کن خیالوں میں

گزر رہی ہے جو دل پر بتا نہیں سکتا

ٹپک رہے ہیں یہ کیوں اشک آج آنکھوں سے

تری نظر سے نظر کیوں مِلا نہیں سکتا

یہ سوچتا ہوں بھلا مجھ کو تجھ سے کیا نسبت

زمینِ عجز ہوں میں رشکِ آسماں تو ہے

میں ایک راہِ محبت کا راہ گم کردہ

حریمِ منزلِ محبوب کا نشاں تو ہے

شرف مجھے بھی تھا حاصل حرم کی خدمت کا

مگر یہ فرضِ محبت بھلا دیا میں نے

مرا ضمیر بھی بیدار تھا کبھی، لیکن

ہوس کی گود میں اس کو سلا دیا میں نے

مجھے بھی ناز تھا کعبہ کی پاسبانی پر

حرم کے حُسنِ نہاں کا تھا رازداں میں بھی

سرِ نیاز میں تھی شان کج کلاہی کی

غمِ حبیب سے رہتا تھا شادماں میں بھی

غرورِ علم جہالت کی راہ پر لایا

حرم کی راہ سے بیگانہ کر دیا مجھ کو

میں ایک رازِ حقیقت تھا بزمِ دنیا میں

مگر خرد نے اک افسانہ کر دیا مجھ کو

درِ حرم سے جدا ہو کے تیرہ بختی سے

جہاں میں خود کو تماشا بنا دیا میں نے

وہ دل جو مرکزِ انوارِ حق تھا اس دل کو

بُتانِ حرص و ہوس سے سجا دیا میں نے

تھا میرا فرض حرم کا پیام پہنچانا

چمن میں دشت میں صحرا میں خشک میں تَر میں

حرم سے خیر کی دولت لیے ہوئے نکلا

اُلجھ کے رہ گیا لیکن میں دامنِ شر میں

گناہگارِ محبت ہوں اے غلافِ حرم

کھڑا ہوں شرم و ندامت سے سر جھکائے ہوئے

مجھے سنبھال خدا کیلیے سنبھال مجھے

شکستہ دل ہوں قدم بھی ہیں لڑکھڑائے ہوئے

ادا شناسِ وفا اے حرم کے پیراہن

مرے لیے بھی سرِ ملتزم دعا کرنا

عطا ہو پھر مجھے احساسِ فرض کی دولت

نصیب پھر ہو حرم سے مجھے وفا کرنا

دیارِ حُسن و تجلّی کے راہرو تجھ پر

یہ چند اشکِ ندامت نثار کرتا ہوں

خزاں نصیبِ چمن ہوں میں اے نسیمِ حرم

دعائے آمد فصلِ بہار کرتا ہوں

♦♦♦

نعت گوئی میں "خانوادہ عثمانی” کو ہمیشہ سے خصوصی امتیاز حاصل رہا ہے۔

نعتیہ کلام

مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں

مدینہ کے رَھرو بیاباں بیاباں

چلے جا رہے ہیں غَزَلخواں غَزَلخواں

ہے بزمِ تصوّر میں روضے کا منظر

نگاہوں کا عالَم گُلِستاں گُلِستاں

قریب آ گیا ہے دیارِ مدینہ

غمِ زندگی ہے گُریزاں گُریزاں

وہ دنیا کی جنّت مدینے کی بستی

جہاں ذرّہ ذرّہ زَر افشاں زَر افشاں

یہاں ہر نَفَس ہے مُعطّر مُعطّر

یہاں زُلفِ نِکہَت پریشاں پریشاں

یہاں خار و خَس کے جَلو میں ملی ہیں

ہزاروں بَہاریں ، خَراماں خَراماں

یہاں مست ہیں سب بُرے بھی بھلے بھی

ہے سب پر عنایت ، فَراواں فَراواں

یہاں بے بَصَر بھی عَیاں دیکھتے ہیں

نَقوشِ محبّت ، فَروزاں فَروزاں

یہیں سے ملا تھا ، یہیں مل سکے گا

سکونِ دل و جاں ، سکونِ دل و جاں

کرشمے ہیں اُن کی نگاہِ کرم کے

خَیاباں خَیاباں ، بَہاراں بَہاراں

خُدا دن وہ لائے مدینے میں پہنچے

گنہگار کیفی ، پَشِیماں پَشِیماں

♦♦♦

پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی

تنویر صبح رات کے رخ پر بکھر گئی

دشت و جبل سے نور کے کوندے لپک پڑے

کلیوں کے جام پھولوں کے ساغر چھلک پڑے

برگ و شجر نہال ہوئے ، جھومنے لگے

آپس میں ایک ایک کا منہ چومنے لگے

کرنوں کا رقص ہونے لگا برگ و بار پر

فردوس عکس ریز ہے ہر لالہ زار پر

باد نسیم مست ہے نکہت بدوش ہے

یہ نغمہ زن سکوت نوائے سروش ہے

تاریکیوں کا نام مٹا کر جہان سے

اتری عروس صبح نئی آن بان سے

بادل فضائے دہر پہ رحمت کے چھا گئے

آئی صدا کہ سرور کونین آ گئے

پر نور کعبہ اور بھی پر نور ہو گیا

بطحا تمام جلوہ گہ طور ہو گیا

پائی جھلک جو ساقئ کوثر کے نور کی

زمزم سے موج اٹھی شراب طہور کی

اہل ستم کا رنگ اڑا ، زرد ہو گئے

آتشکدوں کی سانس رکی سرد ہو گئے

لات و بل کا دور حکومت گزر گیا

انسانیت کا طوق غلامی اتر گیا

بزم جہاں میں آج یہ کس کا ورود ہے

جبریل کے لبوں پر مسلسل درود ہے

انسانیت نے قرض سب اپنا چکا دیا

تخلیق کر کے جس کو خدا مسکرا دیا

جس کی طلب میں کی تھیں دعائیں خلیل نے

آمد کا اس کی مژدہ دیا جبرئیل نے

صدق و صفا کا پیکر پر نور آ گیا

لے کر حیات تازہ کا منشور آ گیا

بے آسرا نحیف لَبوں کو زبان دی

درِّ یتیم بن کے یتیمی کو شان دی

لُطف و کَرم کی ساری اَدائیں عَطا ہوئیں

زَخموں سے چُور ہو کے دُعائیں عَطا ہوئیں

اِنسانیت کے درد کا درماں کیا گیا

اِحسان و عدلِ زیست کا ساماں کیا گیا

وہ رحمتِ تمام وہ غمخوارِ بے کساں

ہَے جس کو نازِ فقر وہ سلطانِ دو جہاں

فخرُ الرّسُل ہے شافعِ روزِ حساب ہے

اُمّی لقَب ہے صاحبِ اُمّ الکتاب ہے

مظلوم عورتوں کو نئی زندگی ملی

عِفّت ملی، حُقوق مِلے، روشنی ملی

پاکیزگیٔ عِصمت و عِفّت کا پاسباں

احسان و عدل و جُود کا دریائے بیکراں

تزئینِ کائنات ہے جس کے جمال سے

بالا ہَے جو خِرد کے حُدود و خَیال سے

اِک انقلابِ تازہ بپا کر دیا گیا

نسل و وطن کا فرق فنا کر دیا گیا

ادنٰی سا یہ کرشمہ ہے اس فیضِ عام کا

بازار سرد کر دیا سودی نظام کا

روم و عجَم کا فرق مِٹا سب گَلے ملے

جِس نے رُسومِ جہل کُچل دیں قدم تلے

جس نے اگر جلال کے جوہر دکھا دئیے

بدر و اُحد نشانِ عزیمت بنا دئیے

رہزن جو تھے وہ ہادیٔ آفاق بن گئے

جاہل جو تھے معُلّمِ اخلاق بن گئے

ہر بات جس کی بن گئی دستورِ زندگی

تاریکیوں میں جاگ اُٹھا نُورِ زندگی

قُرآن جس کا خُلق ہے وہ رحمتِ تمام

جِس کیلئے ہوا ہے دَو عالم کا اِنصرام

جِس کے غلام فاتحِ ایران و شام ہوں

لاکھوں دُرود اُس پہ، ہزاروں سلام ہوں

♦♦♦

اپنی بد حالی سے یہ کہتے بھی شرماتے ہیں ہم

سر نگوں ہو گئے ظلمت کے نشاں آج کی رات

جہاں سے کفر کی ظلمت مٹانے آئے ہیں

طیبہ کی زمیں وہ مرے سرکار کی دنیا

اے دوست مرے واسطے بس اب یہ دعا کر

جمالِ عالمِ امکاں ، کمالِ فکر و نظر

اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار

اے شہِ ہاشمی لقب قدرتِ رب کے شاہکار

آپ کے در کے ہیں گدا میر و وزیر و تاجدار

آپ کے ذکر و فکر سے روح کو مل گیا قرار

مظہرِ شانِ کبریا ! آپ پہ جان و دل نثار

آپ نہ تھے تو دَہر میں چھائی تھی ہر طرف خزاں

آپ جو آئے ، آ گئی پھر سے جہان میں بَہار

آپ کا طرزِ گفتگو، موج ہے سلسبیل کی !

طرزِ خرام آپ کا ، جیسے نسیمِ مُشکبار !

پھول سے بھی لطیف تر خار تِرے دیار کے

ذرّے تِری زمین کے ماہ و نجوم درکنار

آپ شفیعِ عاصیاں ، آپ پناہِ بے کساں

مرہمِ قلبِ ناتواں ، خستہ دلوں کے غمگُسار

آپ کے دم قدم سے ہے رونقِ بزمِ رنگ و بو

غنچے میں آپ کی ادا ، پھول میں آپ کا نکھار

آپ کی مدح کر سکے ، تاب کہاں زبان کو

آپ ہیں مرکزِ وجود ، آپ ہیں بحرِ بے کنار

کیفی خستہ حال پر اے شہ بحر و کرم !

آپ کا امتی تو ہے ، گرچہ ہے وہ گناہگار

♦♦♦

پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے

پوچھا ہے دُشمنوں نے جب اپنے شعور سے

پِنہاں ملی دلوں میں عقیدت حضور سے

اُس جانِ جاں کا نام مبارک لبوں پہ ہے

دل آشنا ہے عالمِ کیف و سرور سے

فیضانِ عام ساقئِ کوثر کا دیکھئیے

ہم بے پئے ہیں مست شرابِ طَہور سے

چھائی ہوئی تھی ظلمتِ شب دور دور تک

آتی ہے اب نویدِ سحر دور دور سے

اِس کا اثر اگر مِرے کردار میں نہ ہو

کیسے کہوں مجھے ہے محبّت حضور سے؟

سائے میں ہیں اک ایسے رؤف و رحیم کے

جس نے ملا دیا ، ہمیں رب غفور سے

دولت خدا نے دی جنھیں عشقِ رسول کی

دُنیا سے اُن کو کام نہ حُور و قُصور سے

وہ صرف کور چشم نہیں۔ تِیرہ بَخت ہیں

جو کسبِ فیض کر نہ سکے اُن کے نور سے

آمد سے اُن کی زیست کی قدریں بدل گئیں

دُنیا حسین بن گئی ، اُن کے ظہور سے

آسودہ آ کے منزلِ بَطحا میں ہو گیا

جلووں کا کارواں جو چلا کوہِ نور سے

کیفی پڑھا درود تو محسوس یہ ہوا

جیسے گزر رہا ہوں اک سَیلِ نور سے

♦♦♦

قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی

قسمت سے مل گئی ہے قیادَت حضور کی

الله کا کرم ہے ، عنایت حضور کی

دو حرف ہیں خلاصۂ عرفان و آگہی

وحدانیت خدا کی، رسالت حضور کی

بھر لی ہیں ہر گدا نے سعادت سے جھولیاں

نگری رہے ہمیشہ سلامت حضور کی

گُل کی مِہک صبا کی روَش چاندنی کی رو

یہ سب کی سب ہیں گردِ لطافت حضور کی

پڑھ پڑھ درود نُطق بھی سرشار کیوں نہ ہو

اِس میں جھلَک رہی ہے فصاحت حضور کی

آمد کا مژدہ دے کے گئے تھے خلیل بھی

سمجھا گئے مسیح علامت حضور کی

ربِّ کریم ! شانِ کریمی کا واسطہ

جنّت میں ہو نصیب رَفاقَت حضور کی

ہر دور میں جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ

ہوتی ہے آشکار صداقت حضور کی

حاتَم کا ذکر کیا وہ زمانہ گزر گیا

جاری ہے آج تک بھی سخاوت رسول کی

قرباں ہم اُس پہ وہ ہمیں محبوب کیوں نہ ہو ؟

ایمان ہے خدا پہ ، امانت حضور کی

بوبکر و عمر پہ یہ انعام ختم ہے

ہر آن مل رہی ہے سعادت حضور کی

کیفؔی ! خدا نصیب کرے اپنے فضل سے

اُلفت کے ساتھ ساتھ اطاعت حضور کی

♦♦♦

اشعار و غزلیات

شبنم ! تجھے اجازتِ اظہار ِغم تو ہے

تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے

صحرا میں کیوں نہ اڑتے بگولےکا ساتھ دوں

دشتِ وفا میں کوئی مرا ہمقدم تو ہے

منزل نہ مل سکی،نہ ملے، کوئی غم نہیں

ہرراہِ شوق میں مرا نقشِ قدم تو ہے

میں دل فگار، آبلہ پا ، خستہ تن سہی

لیکن مرا مذاقِ طلب تازہ دم تو ہے

ڈر ہے نگاہِ لطف یہ پردہ اٹھا نہ دے

قائم ہمارے ضبط کا اب تک بھرم تو ہے

♦♦♦

پُورا ہُوا ہے عزمِ سفر مُدّتوں کے بعد

جھلکا دُعا میں رنگِ اثر مُدّتوں کے بعد

دیکھی ہے اُن کی راہگذر مُدّتوں کے بعد

مُجھ کو ملی ہے اپنی خبر مُدّتوں کے بعد

اب جلوہ گاہِ یار ہے آنکھوں کے سامنے

روشن ہوا چراغِ نظر مُدّتوں کے بعد

کرنے دو شوخیاں اُسے اب سنگِ در کے ساتھ

مچلا ہَے آستاں پہ یہ سَر مُدّتوں کے بعد

اے دل ترانہ سَنج ہو شُکرِ وصال میں

اب شِکوۂِ فراق نہ کر مُدّتوں کے بعد

ڈستی رہی ہیں دل کو شبِ غم کی ظُلمتیں

آیا نظر جمالِ سحر مُدّتوں کے بعد

اُن کی تجلّیاں تو ہَیں ہر آن نو بہ نو

ملتا ہے اِذنِ دید مگر مُدّتوں کے بعد

برہم نظامِ زیست بڑی مُدّتوں سے ہے

اے زُلفِ یار اب تو بِکھر مُدّتوں کے بعد

آنکھوں کے جام خُشک تھے، اب کوئے یار میں

دیکھی بہارِ دیدہ تر مُدّتوں کے بعد

اب کیوں نہ زُلف و رُخ کے فسانے سُنائیں ہم

بدلا ہے رنگِ شام و سحر مُدّتوں کے بعد

احباب پُوچھتے ہیں کہ کیفی کو کیا ہُوا

کہتے ہیں اب بھی شعر مگر مُدّتوں کے بعد

♦♦♦

شراب و شیشہ و ذکر بتاں کا وقت نہیں

اٹھو اٹھو کہ یہ خواب گراں کا وقت نہیں

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کا شیدائی

خطا معاف یہ حسن بیاں کا وقت نہیں

روش روش پہ خزاں کی نقیب ہے یارو

چمن بچاؤ غم آشیاں کا وقت نہیں

بڑھو کہ بڑھتی چلی آرہی ہے شام حیات

عمل کا وقت ہے آہ و فغاں کا وقت نہیں

سنو وہ نغمہ جو روح حیات کو گرمائے

سکوں ہو جس سے اب اس داستاں کا وقت نہیں

وہ نبض ڈوب چلی ہے وہ آنکھ پتھرائی

خدا کا نام لو یاد بتاں کا وقت نہیں

♦♦♦

ملک و ملت پر فدا عمر رواں کرتے چلو

یہ حیاتِ چند روزہ جاوداں کرتے چلو

ہر قدم پر ساتھ لے کر دولتِ فتح و ظفر

ہر تباہی کو نصیب دشمناں کرتے چلو

آنے والوں کے لیے بن کر چراغِ آگہی

اپنا ہر نقش قدم منزل نشاں کرتے چلو

اپنی تیغِ صف شکن باطل پہ لہراتے ہوئے

داستان ابنِ قاسم پھر بیاں کرتے چلو

پھر ذرا شمشیر جوہر وار کے جوہر کھیلیں

پھر اسے گلبار،گل رخ، گل فشاں کرتے چلو

جذبۂ شوقِ شہادت ہے متاعِ زندگی

اس کا چرچا کارواں در کارواں کرتے چلو

خالد و ضرار کی دینی حمیت کی قسم

بتکدوں سے پھر بتوں کو بے نشاں کرتے چلو

سکۂ حق ہی چلے گا ارضِ پاکستان میں

یہ حقیقت اہل باطل پر عیاں کرتے چلو

زندگی کیفی اسی حسنِ عمل کا نام ہے

کفر کو نابود حق کو جاوداں کرتے چلو

♦♦♦

زمانہ منقلب ہے انقلاب آیا ہی کرتے ہیں

اندھیرے رات میں کچھ دیر کو چھایا ہی کرتے ہیں

مہ و خورشید کو بھی لگ ہی جاتا ہے گہن اک دن

پھر اس کے بعد پیہم نور برسایا ہی کرتے ہیں

خزاں کے بعد دورِ فصلِ گل آتا ہے گلشن میں

چمن والو! خزاں میں پھول مرجھایا ہی کرتے ہیں

جنھیں عزمِ جواں ملتا ہے راہِ زندگانی میں

مصائب، راہِ منزل ان کو دکھلایا ہی کرتے ہیں

سکھا دیتی ہے قدرت جن کو اندازِ جہانبانی

وہ ہر الجھی ہوئی گتھی کو سلجھایا ہی کرتے ہیں

لگن ہو جن کے دل میں وہ پہنچ جاتے ہیں منزل تک

حوادث راستے میں دام پھیلایا ہی کرتے ہیں

جو چلتے ہیں انہیں کو راہ میں ٹھوکر بھی لگتی ہے

یہ ٹھوکر کھا کے خوش قسمت سنبھل جایا ہی کرتے ہیں

جواں ہمت سبق لیتے ہیں دنیا میں حوادث سے

زبوں ہمت جو ہوتے ہیں وہ پچھتایا ہی کرتے ہیں

یہ دنیا عیش و غم کی دھوپ چھاؤں سے عبارت ہے

خوشی ہو یا الم دونوں گزر جایا ہی کرتے ہیں

وہی ہیں مرد جن پر یاس کے سائے نہیں پڑتے

وہ بڑھ کر تند طوفانوں سے ٹکرایا ہی کرتے ہیں

♦♦♦

راہ ِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم

لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے

اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم

راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا

راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم

دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے

ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم

مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی

لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم

صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا

دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم

صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو

عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم

عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے

جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم

♦♦♦

انتخاب : نیرہ نور خالد

مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top