اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں’، ‘جیوے جیوے جیوے پاکستان’، ‘ہم مصطفوی مصطفوی ہیں’، ‘میرا پیغام پاکستان’ اور ‘ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں’ جیسے خوبصورت ملی نغمات کے خالق جمیل الدین عالیؔ کا یومِ پیدائش     جنوری 20, 1926ء ہے۔

 معروف شاعر، سفر نامہ نگار اور کالم نگار،جمیل الدین عالی کا اصل نام مرزا جمیل الدین احمد خاں اور عالیؔ تخلص ہے۔ آپ 20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے غزلیں، نظمیں، گیت اور دوہے لکھے۔ آپ کے لکھے ہوئے ملی نغمے بھی بے حد مقبول ہوئے جمیل الدین عالی کا انتقال 23 نومبر، 2015ء کو کراچی میں ہوا۔


منتخب اشعار

تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں

ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں

♦♦♦

بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے

کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں

♦♦♦

کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا ان کے بھید

ہم سب کو سمجھانے والے کون ہمیں سمجھائے

♦♦♦

اجنبیوں سے دھوکے کھانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے

اس کے لیے کیا کہتے ہو وہ شخص تو دیکھا بھالا تھا

♦♦♦

کچھ چھوٹے چھوٹے دکھ اپنے کچھ دکھ اپنے عزیزوں کے

ان سے ہی جیون بنتا ہے سو جیون بن جائے گا

♦♦♦

نہ ترے سوا کوئی لکھ سکے نہ مرے سوا کوئی پڑھ سکے

یہ حروف بے ورق و سبق ہمیں کیا زبان سکھا گئے

♦♦♦

ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو

سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو

♦♦♦

کوئی وعدہ وہ کر جو پورا ہو

کوئی سکہ وہ دے کہ جاری ہو

♦♦♦

جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو

برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا

♦♦♦

دوہے

 دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ

چپکے چپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ

♦♦♦

دوہے کبت کہہ کہہ کر عالؔی من کی آگ بجھائے

من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے

♦♦♦

ایک بدیسی نار کی موہنی صورت ہم کو بھائی

اور وہ پہلی نار تھی بھیا جو نکلی ہرجائی

♦♦♦

ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات

یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات

♦♦♦

اک گہرا سنسان سمندر جس کے لاکھ بہاؤ

تڑپ رہی ہے اس کی اک اک موج پہ جیون ناؤ

♦♦♦

اس دیوانی دوڑ میں بچ بچ جاتا تھا ہر بار

اک دوہا سو اسے بھی لے جا تو ہی خوش رہ یار

♦♦♦

کچے محل کی رانی آئی رات ہمارے پاس

ہونٹ پہ لاکھا گال پہ لالی آنکھیں بہت اداس

♦♦♦

نا کوئی اس سے بھاگ سکے اور نا کوئی اس کو پائے

آپ ہی گھاؤ لگائے سمے اور آپ ہی بھرنے آئے

♦♦♦

نیند کو روکنا مشکل تھا پر جاگ کے کاٹی رات

سوتے میں آ جاتے وہ تو نیچی ہوتی بات

♦♦♦

پہلے کبھی نہیں گزری تھی جو گزری اس شام

سب کچھ بھول چکے تھے لیکن یاد رہا اک نام

♦♦♦

پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار

کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گئے سب یار

♦♦♦

روٹی جس کی بھینی خوشبو ہے ہزاروں راگ

نہیں ملے تو تن جل جائے ملے تو جیون آگ

♦♦♦

روز اک محفل اور ہر محفل ناریوں سے بھرپور

پاس بھی ہوں تو جان کے بیٹھیں عالؔی سب سے دور

♦♦♦

ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے

جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے

♦♦♦

شہر میں چرچا عام ہوا ہے ساتھ تھے ہم اک شام

مجھے بھی جانیں تجھے بھی جانیں لوگ کریں بد نام

♦♦♦

سورؔ کبیرؔ بہاریؔ میراؔ ؔرحمنؔ تلسیؔ داس

سب کی سیوا کی پر عالؔی گئی نہ من کی پیاس

♦♦♦

اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں

ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں

♦♦♦

مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top