تعارف

(پیدائش: 26 جنوری، 1926ء- وفات: 3 اگست، 2013ء)

ڈاکٹر صاحب کا اصل نام سید دلدار علی اور قلمی نام فرمان فتح پوری ہے۔


 فرمان فتح پوری کی شاعری  (منتخب کلام)

 

نعت رسولِؐ مقبول

میں حرم کا مسافر ہوں میرا سفر کیوں نہ ہو وجہ تسکین قلب و نظر

میرے آقا ادھر، میرے مولا اُدھر، میرے مطلوب و مقصود کا گھر اُدھر

ورد سجنک ہر نفس، ہر قدم، لا شریک لک اور طواف حرم

پھر صفا اور مروہ کا گشت بہم سعی کے نام سے رحمتوں کا سفر

بہر سجدہ جبیں مضطرب اس طرف، بہر نظارہ مضطر نگہہ اس طرف

سنگ اسود ادھر، سبز گنبداُدھر، اب میں ایسے میں جاوں تو جاوں کدھر

گاہے رکن یمانی کو بوسہ دیا گاہے اسود کے کونے سے لپٹا ہوا

دونوں ہاتھوں سے پردے کو تھامے ہوئے گڑگڑایا کیا رکھ کے چوکھٹ پہ سر

پڑھ کے نفلیں جو بعد طواف حرم میں چلا جانب شہر خیرالامم

آنکھیں موتی پرونے لگیں دمبدم، دل کی دھڑکن ہوئی تیز سے تیز تر

باب جبریل سے جوں ہی داخل ہوا، مجھ کو روضے کی جالی نے تڑپا دیا

فرط جذبات سے دل امڈنے لگا، ایک رقت سی طاری ہوئی جان پر

سجدہ شکر کیسے میں لاؤں بجا، اس قدر اوج پر اور مقدر مرا

ان کا منبر جہاں، ان کا حجرہ جہاں اور ان کا در ہے وہیں میرا سر

مجھ کو چوری چھپے جب بھی موقع ملا، جالیاں چھو کے ہاتھوں کو چوما کیا

دوستو مجھ کو جو چاہو دے لو سزا، میں خطا وار ہوں یہ خطا ہے اگر

ان کی بندہ نوازی پہ تن من فدا، مجھ گنہگار کا اورر یہ مرتبہ

پاس بلوا لیا اور دکھلا دیا، اپنے دربار دربار کا کروفر

کیا بیاں ہو اس اکرام و احسان کا، سر نہ اٹھے گا سجدے سے فرمان کا

کھل گیا ایک اک غنچہ ارمان کا، ایک اک آرزو ہوگئی بارور

♦♦♦ 

چاہت کے پرندے دل ویراں میں آۓ

صیاد کسی صید کے ارماں میں آۓ

وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہو نا

اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آۓ

سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج

پگھلاۓ مجھے برف کی دکاں میں آۓ

سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر

ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آۓ

نغمہ ہے تو پھوٹے کبھی ساز رنگ جاں سے

آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آۓ

ہے جسم تو بن جاۓ مری روح کا مسکن

ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آۓ

ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو

ہے موج بلاخیز تو طوفان میں آۓ

شعلہ ہے تو پگھلاۓ میرے شیشہء جان کو

ہے بادہء کون ناب تو مژگاں میں آۓ

امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے سے کسی کے

ہے زہر تو بازار سے سامان میں آۓ

ہے درد تو سیلاب بنے پار لگاۓ

درماں ہے تو بن کر دوا افنجان میں آۓ

غنچہ ہے تو کھل جاۓ مرے دل کی صدا پر

خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آۓ

کہتی ہے تو احساس کی کلیوں سے بھی کھیلے

ہے پھول تو تخیل کے گل دان میں آۓ

فرمانؔ وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے

آۓ مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آۓ

♦♦♦ 

نہ میں شکوہ سنج قسمت نہ میں شاکی زمانہ

مجھے غم کے پاس لایا مرا شوق والہانہ

وہی اک جزب صادق وہی اک عزم کامل

جو قفس کی تیلیوں سے بھی بنا لے آشیانہ

♦♦♦ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top