حفیظ ببّر (لاڑکانہ، سندھ)
(ان کا تعلق لاڑکانہ، سندھ سے ہے۔ انھوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا ہے۔ فلسفہ اور دور حاضر کے متفرق سماجی موضوعات ان کے علمی دائرہ کار میں شامل ہیں۔)
بسمل ڈرامہ تو اپنے انجام تک پہنچا، لیکن ناظرین کی ڈرامے بازیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اس کہانی نے سوشل میڈیا اور ٹی وی میڈیا پر طوفان برپا کر دیا ہے۔ پئسے کی لالچ میں دوسروں کی زندگیاں جہنم بنانے والی عورت کو کوسا جا رہا ہے تو کہیں پر اس مرد کو نشانہ تنقید بنایا جا رہا ہے جو مزے کی خاطر دوسری شادی کر کے اپنی زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔ مطلب کہ اس موضوع پر ایک لامتناہی بحث کا سلسلہ چھڑ چکا ہے۔ ڈرامہ میں پیش کئے گئے کرداروں کو لوگ اپنے آس پاس محسوس کرنے لگے ہیں۔ بنیادی طور پر کہانی ایک ایسی نوعمر دوشیرہ “معصومہ” کے گرد گھومتی ہے جو مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے، مگر دل میں بڑی خواہشات رکھتی ہے۔ دولت کی لالچ میں شادی شدہ باس (توقیر) سے خفیہ شادی کر لیتی ہے۔ معصومہ کو ہر وہ چیز میسر ہو جاتی ہے، جس کی وہ طلبگار ہوتی ہے، لیکن توقیر کی بیوی (ریحام) اور اس کا بیٹا (موسیٰ) یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتے اور دل برداشتہ ہوکر موسیٰ خودکشی کر دیتا ہے۔ اپنے بیٹے کی اس طرح کی اچانک موت کے بعد توقیر معصومہ کو طلاق دے کر، اس کو دی گئی ساری دولت دھوکے سے واپس چھین لیتا ہے اور معصومہ کے شکم سے پیدا ہونے والا بچہ بھی جبراً چھین لیتا ہے۔ میرا مقصد ڈرامہ کی کہانی کو بیان کرنا ہرگز نہیں۔ یہ مختصر تفصیل بتانے کا مقصد مجھے “بسمل” ڈرامہ کے مصنف زنجبیل عاصم شاہ کے پیش کردہ معاشرتی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
“میرے پاس تم ہو “کی طرح یہ کہانی بھی خاتون کے منفی کردار کی عکاسی کرتی ہے۔ جہاں عورت کا وہ روپ دکھایا گیا ہے، جس کو دیکھنے کے بعد مردوں سے زیادہ خواتین کو ایسی عورتوں سے شدید نفرت ہو جاتی ہے اور شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک ٹی وی شو میں بیٹھی تین خواتین کہانی کار کی کاوشوں کی تعریف کرتی ہیں کہ جس طرح انہوں نے معصومہ جیسی سنگ دل، لالچی اور حریص خاتون کو کہانی کے اختتام پر ایک عبرت ناک سزا دی اور مصنف پہلی قسط سے آخری قسط تک ناظرین کے جذبات سے خوب کھیلتا رہا اور اور تفریح مہیا کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔
اس کہانی سے کئی طرح کے معاشرتی پہلو نکلتے ہیں اور کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا دوسری شادی کرنا جرم ہے؟ یا دوسری شادی کرنے کے کوئی آداب مقرر کیے گئے ہیں؟ اگر معصومہ کو صرف اس وجہ سے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ اس نے پئسوں کی لالچ میں ایک سوچا سمجھا منصوبہ تیار کرکے شادی شدہ اپنی باپ کی عمر جتنے ایک شخص کو، اپنے حسن کے جلوؤں سے مکاری کر کے پھنسایا اور سرگوشی میں شادی کرنے کے لئے اسے آمادہ کیا۔ تو اس میں تنہا معصومہ جیسی لڑکیوں کا قصور نہیں ہوتا۔ ان کی لالچ کے پیچھے ہماری سوسائٹی کا دہرا معیار کارفرما ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ اس گھر میں کرنا چاہتا ہے، جہاں وہ عیش کی زندگی گذار گذار سکے۔ مگر ان کے بیٹے کو مناسب رشتہ نہیں ملتا، کیونکہ بیٹی دینے والے بھی یہی دیکھتے ہیں کہ لڑکا کم تنخواہ پر پرائویٹ جاب کرتا ہے اور کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ جس طرح ہم اپنی بیٹی کے بہتر مسقبل کے خواہاں ہوتے ہیں، تو دوسرے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو محفوط ہاتھوں میں سونپنا چاہتے ہیں۔
لین دین کے ان چکروں میں پڑ کر لوگ زیادہ لالچی اور بہت حریص ہوگئے ہیں۔ پہلے لڑکی کی خوبصورتی اور اس کی اچھی سیرت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اب اگر لڑکی اسسٹنٹ کمشنر یا آڈٹ آٖفیسر ہے، تو سرکاری مراعات اور اوپر کی کمائی دیکھ کر ایسی خواتین کو بھی دل سے قبول کیا جاتا ہے جو دیکھنے میں چاہے خوبصورت نہ ہوں۔ بدمزاج اور چڑچڑی بڑی عمر کی خواتین کے لیے نوجواں لڑکوں کے رشتے باسانی سے میسر ہیں۔ کیونکہ اب لوگوں کا بنیادی مسئلہ پئسہ ہوگیا ہے۔ اب لڑکیوں کو خواب میں پرستان سے اڑتے ہوئے خوبصورت شہزادے نظر نہیں آتے۔ بلکہ ایسے رشتے کی کھوج ہوتی ہے جہاں مرد کا اپنا بزنس ہو، محل نما گھر ہو اور چار چار گاڑیاں رکھنے والا سادہ سی شکل کا بندہ ہی کیوں نہ ہو، بس اس کے پاس پئسہ ہونا چاہئے۔ اگر آپ اچھی خاصی دولت کے مالک ہیں، پھر چاہے آپ ادھیڑ عمر کے ہیں یا آپ کی دو سے زائد شادیاں ہو چکی ہیں، پھر بھی آپ کسی نو عمر لڑکے سے زیادہ خوبصورت اور جوان ہیں۔ اب خوبصورتی کی کسوٹی پیسہ بن چکی ہے۔ آپ اپنی بیوی کو برانڈیڈ چیزیں، مہنگے فون، جیولری، بیرون ملک کے ٹوئرز اور بینک بیلنس مہیا کر سکتے ہیں تو آپ کی بڑھتی ہوئی عمر آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، درجنوں جواں عمر لڑکیاں آپ جیسے رشتوں کی تلاش میں پریشان پھرتی رہتی ہیں۔ یہ حق آپ کو اپنی دولت نے دیا ہے، دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ یہی رواج ہے، یہی آج کل کی ریت بن چکی ہے، کئی معصومہ جیسی خواتین توقیر جیسے مردوں کی لذت کا سامان بن چکی ہیں۔ کئی ریحام جیسی عورتوں کے گھر ٹوٹ چکے ہیں اور کئی معصوم بچے باپ کے ہوتے ہیں یتیمی کی زندگیاں گذار رہے ہوتے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ کوئی گھر ٹوٹتا ہے تو اس کا الزام کسی ایک فریق پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب اپنے اپنے حصے کی اینٹ اکھاڑتے ہیں، تبھی کسی گھر کی عمارت گر رہی ہوتی ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم سب اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف معصومہ جیسی لالچی خاتون ادھیڑ عمر کے شادی شدہ مرد کو اپنے حسن کے جادو سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دوسری طرف ادھیڑ عمر کا توقیر جس کی بیوی کی جوانی ڈھل چکی ہے اور کسی کنواری لڑکی کے سڈول جسم سے اپنی لذت کی پیاس بجھانے کے سپنے سجائے بیٹھتا ہے۔ پھر اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لئے خود سے ایک لاجک بنا کر، دوسری شادی کی خواہش کو جائز قرار دیتا ہے۔ اپنے پلان کے تحت معصومہ، توقیر کی آنکھوں کی جھوٹی تعریف کرتی ہے تو توقیر کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ وہ رومانس کی اعلیٰ سطح کو چھو لیتا ہے۔ بوڑھی بیوی سے ایسے وقت میں اپنی تعریف کی خواہش رکھتا ہے، جب وہ جوانی کی عمر کو پار کر چکی ہوتی ہے۔ بال چاندی بن چکے ہوتے ہیں اور چہرے پر بڑھتی عمر کے ظالم نشاں نمایاں طور پر نظر آنے لگتے ہیں۔ جب بیوی اس کی وہ تعریف نہیں کر پاتی جیسی تعریف معصومہ نے کی تھی۔ تو ایسے میں توقیر کا شریر نفس اسے دوسری شادی کرنے پر ابھارتا ہے اور جھوٹے دلیل بنا کر اسے معصومہ کے ساتھ شادی کرنے کو اسے ذہنی طور پر تیار کرتا ہے۔
دوسری طرف ریحام اور موسیٰ بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ معصومہ کے آنے سے پہلے ریحام اپنے شوہر کے قرب و دولت کی بلا شرکتِ غیر وارث تھی۔ لیکن توقیر کی دوسری شادی کرنے کے بعد بے بہا دولت کی برابر کی وارث اور ایک ریحام عورت ہونے کے ناطے مرد کو دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہوا دیکھ کر گھبرا جاتی ہے اور قطعی طور پر اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ اپنی ادھیڑ عمری اور معصومہ کی خوبصورت جوانی کا موازنہ کرنے لگتی ہے تو معصومہ کو خود سے بہتر حالت میں دیکھتی ہے تو یہ برداشت نہیں کر پاتی۔ پھر توقیر پر بے وفائی کا اور اس کے ساتھ دھوکہ کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ حالانکہ مذکورہ حالات میں توقیر کی اس طرح دوسری شادی کرنا، واقعی غیر مناسب عمل تھا، تاہم توقیر کو ہم بے وفا نہیں کہہ سکتے۔ مرد دوسری شادی نہیں کر سکے گا، یہ نکاح نامہ کے کسی خانے میں نہیں لکھا ہوتا، نہ ہی مرد نے حلفاَ دوسری شادی نہ کرنے کی پہلے سے کوئی قسم کھائی ہوتی ہے۔
اس کے بعد ریحام زار و قطار رو کے اپنے آنسوؤں سے، اپنے بیٹے کو اس کے باپ کے خلاف کر دیتی ہے۔ بیٹا باپ کے سامنے اس کا باپ بن جاتا ہے، اور اس کا کوئی لحاظ نہیں کرتا۔ اپنے باپ کو بے وفا، دھوکہ باز، مکار اور عیاش پرست انسان جیسے القابات سے پکارتا ہے۔ دونوں فریقین کے مابین ایک جنگ چھڑ جاتی ہے۔ باپ اپنی نافرمان اولاد اور منہ پھٹ بیوی کے ناروا سلوک کی وجہ سے نئی نویلی دلہن کے مزید قریب ہو جاتا ہے۔ معصومہ ہر طرح کا جائز و ناجائز ہربہ استعمال کرنے لگ جاتی ہے تاکہ اس کا شوہر ریحام اور موسیٰ سے کنارہ کر کے صرف اسی کا ہوکے رہ جائے۔ یعنی جنگل کے قانون کا سماں بن جاتا ہے، جہاں ہر فریق کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اگر اس کو زندہ رہنا ہے تو سامنے والے کا مرنا ہر حال میں ضروری ہے۔ موسیٰ معصومہ کے باپ کے جنازے میں شریک لوگوں کے سامنے ہتھیار تان کر اسے مارنے کی دھمکی تک دیتا ہے اور اسے محلے والوں کے سامنے ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ جس طرح محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے، یہ لوگ بھی ہر طرح کی نیچ حرکت کئے جاتے ہیں۔ انا کی اس جنگ میں دونوں طرف بھاری نقصان ہوتا ہے۔
ریحام غلط فیصلے کرتی ہے۔ اپنے بیٹے کو اپنی پارٹی بنا لیتی ہے، اس کی ذہن سازی کرتی ہے، اس کے دل میں زہر بھرتی ہے لیکن ریحام کان پلان خود اس کے گلے پڑ جاتا ہے اور موسیٰ خودکشی کر دیتا ہے۔ تو دوسری جانب غصے میں ریحام معصومہ کے والد پر اتنا ذہنی ٹارچر کرتی ہے کہ وہ برداشت نہیں کر پاتا، اس طرح ریحام کی وجہ سے دو مرد مر جاتے ہیں۔ مطلب یہ لوگ ساتھ بیٹھ کر دو باتیں کرکے مصلحانہ طریقے سے اپنے مسائل حل کرنے کے بجائے، ایک دوسرے کے میدانوں میں گھس کر کھلے وار کرکے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
انا، خود غرضی اور ذاتی مفاد جب رشتوں پر بھاری پڑ جاتے ہیں تو پھر تحمل، برداشت اور رواداری رخصت ہو جاتی ہے۔ لالچ اور انا کے بیچ نہ معصومہ جیسی خواتین کو کچھ ملتا ہے، نہ توقیر جیسے مردوں کو تسکین ملتی ہے۔ نہ ہی ریحام جیسی خواتین سکون حاصل کر پاتی ہیں، جو اپنی دولت اور مرتبے میں کسی کو شریک کرنا نہیں چاہتی۔ دوست احباب رشتے ناطے سب بدل جاتے ہیں۔ بچپن سے محبت کی دعویٰ کرنے والے زوہیب جیسے دوست بھی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دیتے ہیں۔ تو کبھی مومل اور اس کے گھر والے عین اس وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، جب ان کے ساتھ کی ریحام و موسیٰ کو اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے پرائے سبھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ سمیر انجان کا ایک شعر ہے کہ “پل بھر میں کیسے بدلتے ہیں رشتے، ہر اپنا بیگانہ لگتا ہے”، یہ کہانی کچھ ایسا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ شوہر معصومہ کو طلاق دے کر اسے بالکل کنگلا کر کے تباہ کر دیتا ہے، تاکہ وہ ریحام کے ساتھ نئے سرے سے زندگی کی شروعات کر سکے، مگر ریحام جو پہلے کسی خاتون کو اپنے مرد کے ساتھ شریک کرنا نہیں چاہتی تھی، لیکن اب اپنے ہی شوہر کو تنہا چھوڑ کر الگ دنیا بسا لیتی ہے۔
-
ک، گ، ل اور م پر ختم ہونے والے ہم آواز الفاظ
-
غالب کی شاعری کی خصوصیات
-
غبار خاطر سے اشعار
-
اردو شاعری میں کربلا
-
شکیب جلالی کی شاعری
-
اردو کے مشہور اشعار | famous poetry in urdu
-
غمگین شاعری | Sad Poetry In Urdu Text
-
دوستی پر اشعار | Friendship Poetry in Urdu
-
محبت پر اشعار | love poetry in urdu text
-
7. ہم آواز الفاظ
-
مرے دل مرے مسافر(تنقیدی جائزہ)
-
کچھ دست صبا کے بارے میں
-
مقدمہ "نقش فریادی" ن م راشد (15 نومبر 1941)
-
عید شاعری 2024
-
حیدر دہلوی کی شاعری(1906-1958)
-
حکیم منظور کی شاعری(1937-2006)
-
جاوید اختر کی شاعری(1945)
-
ڈاکٹر ریحان اعظمیؔ | Rehan Azmi poetry
-
صغیر ملالؔ | Sagheer Malal poetry
-
میلہ رام وفاؔ | Mela Ram Wafa poetry
-
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری | Farman Fatehpuri poetry
-
محسنؔ بھوپالی | Mohsin Bhopali poetry
-
منصورؔ آفاق
-
واصف علی واصفؔ
-
راغبؔ مراد آبادی
-
مومن خاں مومنؔ | Momin Khan Momin poetry
-
فاطمہ تاج
-
ظفرؔعلی خان
-
شریف کنجاہیؔ
-
عبدالرحمٰن جامیؔ
-
سیّد عابد علی عابد
-
اکبر حیدر آبادی
-
مرتضیٰ برلاس
-
جمیل الدین عالیؔ
-
غالب عرفانؔ
-
عرشؔ صدیقی
-
کیفؔ عظیم آبادی
-
مولانا محمد زکی کیفیؒ
-
فاطمہ حسنؔ
-
محسن نقوی شاعری | Mohsin Naqvi Poetry (249+)
-
پسندیدہ اشعار | deep poetry in urdu (150+)
-
احمد مشتاق شاعری(1933ء)
-
قادر نامہ غالب
-
میر تقی میر شاعری
-
داغؔ دہلوی شاعری