عرشؔ صدیقی کا یومِ  پیدایش

21؍جنوری 1927


منتخب اشعار

اٹھتی تو ہے سو بار پہ مجھ تک نہیں آتی

اس شہر میں چلتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی

♦♦♦ 

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا

اے سنگِ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

♦♦♦ 

ایک لمحے کو تم ملے تھے مگر

عمر بھر دل کو ہم مسلتے رہے

♦♦♦ 

بس یوں ہی تنہا رہوں گا اس سفر میں عمر بھر

جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جاتا ہوں میں

♦♦♦ 

دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر

گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا

♦♦♦ 

زمانے بھر نے کہا عرشؔ جو، خوشی سے سہا

پر ایک لفظ جو اس نے کہا سہا نہ گیا

♦♦♦ 

وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے

اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا

♦♦♦ 

منزلِ مرگ میں جینے کی ادا رکھتا ہوں

یعنی ہر حال میں انداز جدا رکھتا ہوں

♦♦♦ 

میں پیروی اہلِ سیاست نہیں کرتا

اک راستہ ان سب سے جدا چاہئے مجھ کو

♦♦♦ 

ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ

ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا

♦♦♦ 

کیا ساتھ ترا دوں کہ میں اک موجِ ہوا ہوں

بس ایک نفسِ عرضِ تمنا کو رکا ہوں

♦♦♦ 

ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں

ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے

♦♦♦ 

ہم کہ مایوس نہیں ہیں انہیں پا ہی لیں گے

لوگ کہتے ہیں کہ ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے

♦♦♦ 

آنکھوں میں کہیں اس کی بھی طوفاں تو نہیں تھا

وہ مجھ سے جدا ہو کے پشیماں تو نہیں تھا

♦♦♦ 

وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا

زبانیں دشمنوں کی تھیں مگر افسانہ میرا تھا

♦♦♦ 

پھر اسی شہر کا فسانہ چھیڑ

مطربہ طرز عاشقانہ چھیڑ

♦♦♦ 

بیٹھا ہوں وقفِ ماتمِ ہستی مٹا ہوا

زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا

♦♦♦ 

جوشِ جنوں بھی گردشِ دوراں سے کم نہ تھا

دل تھا تو دشت غم بھی گلستاں سے کم نہ تھا

♦♦♦ 

روشنی بن کے ستاروں میں رواں رہتے ہیں

جسم افلاک میں ہم صورت جاں رہتے ہیں

♦♦♦ 

حصارِ دل سے ادھر بھی حقیقتیں ہیں بہت

ترے بغیر بھی جینے کی صورتیں ہیں ہیں

♦♦♦ 

حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستورِ وفا ہے

تو مثل رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے

♦♦♦ 

مہک ہے تیرے شبستاں کی بوئے زُلفِ صبا

چلی ہے بادِ صبا اک شکستہ پا کے لئے

♦♦♦ 

بندھا ہے عہدِ جنوں چشمِ اعتبار کے ساتھ

اسے کہو کہ جئے عزمِ استوار کے ساتھ

♦♦♦ 

عرشؔ میں خود ہوں سدا اپنے سکوں کا دشمن

دست امید بھی بر دوش ہوا رکھتا ہوں

♦♦♦ 

یوں نہ کوئی تری محفل میں پریشاں ہو جائے

جیسے آوازِ صبا دشت میں حیراں ہو جائے

♦♦♦ 

سوزش درد میں ہے عرشؔ قیامت پنہاں

وہ بھی کیا ہوں گے جو اس درد کا درماں ہوں گے

♦♦♦ 

خبر یہ لے کے بدایوں سے آیا ہے راوی

کہ قبر میں بصد آرام سورہا ہوں میں

خبر نہیں کہ مری موت کب ہوئی لیکن

سنا تو میں نے بھی ہے، فوت ہوگیا ہوں میں

♦♦♦ 


مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top