علامہ اقبال کی شاعری (بانگِ درا - 2)

بانگِ دَرا سے منتخب اشعار (2)

حقیقتِ حسن

خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا

جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

 

ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا

شبِ دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا

 

چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا

شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا!

 — 

طلبہ علی گڑھ کے نام

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے

عشق کےدردمند کا طرزِ کلام اور ہے

حسن و عشق

تو جو محفل ہے’ تو ہنگامہ محفل ہوں میں

حسن کی برق ہے تو، عشق کا حاصل ہوں میں

مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے

تری تصویر سے  پیدا مری حیرانی ہے

 —

چاند تارے

ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے

تارے کہنے لگے قمر سے

 

ہو گا کبھی ختم یہ سفر بھی؟

منزل کبھی آئیگی نظر کیا؟

 

جنبش سے ہے زندگی جہاں کی

یہ رسمِ قدیم ہے یہاں کی

 

چلنے والے نکل گئے ہیں!

جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

 

وصال

جستجو  جس گل کی تڑپاتی تھے اے بلبل مجھے

خوبیِ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے

 

میرے پہلو میں دلِ مضطر نہ تھا، سیماب تھا

ارتکابِ جرمِ الفت کے لیے بیتاب تھا

 

عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے میرے

کھیلتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے

 

قید میں آیا تو حاصل مجھکو آزادی ہوئی

دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی

 

سلیمےٰ

صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدہ میں پایا

شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں

عاشقِ ہرجائی

ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبالؔ! تو

رونقِ ہنگامہ محفل بھی ہے’ تنہا بھی ہے

 

دل نہیں شاعر کا’ ہے کیفیتوں کی رستخیز

کیا خبر تجکو، درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں 

 

مجکو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا

نقش ہوں’ اپنے مصوّر سے گِلا رکھتا ہوں میں

 

نوائے غم

آہ! امید  محبت کی بر آئی نہ کبھی

چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی

 

جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے

میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے!

 

انسان

بیتاب ہے ذوق آگہی کا

کھلتا نہیں بھید زندگی کا 

 

 کوئی نہٰیں غمگسارِ انساں!

کیا تلخ ہے روزگارِ انساں!

 

جلؤہ حسن

جلؤہ حسن کہ ہے جس سے تمنّا بیتاب

پالتا ہے جسے آغوشِ تخّیل میں شباب

 

دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے

عقل کرتی ہے تاثّر کی غلامی جس سے

 

آہ! موجود بھی  وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟

خاتمِ دھر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟

 

ایک شام

خاموش ہے چاندنی قمر کی

شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی

 

فطرت بے ہوش ہو گئی ہے

آغوش میں شب کے سو گئی ہے

 

خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا

قدرت ہے مراقبے میں گویا

 

اے دل! تو بھی خموش ہو جا

آغوش میں غم کو لے کے سو جا

 — 

تنہائی

تنہائیِ شب میں ہے حزیں کیا؟

انجم نہیں تیرے ہمنشیں کیا؟

 

کِس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل!

قدرت تری ہم نفس ہے اے دل!

پیامِ عشق

سن اے طلبگارِ درد ِ پہلو! میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا

میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تُو سراپا ایاز ہو جا

 

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا

 

صقلیّہ (جزیرہ سسلی)

غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا

چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

 

درد اپنا مجھ سے کہہ’ میں بھی سراپا درد ہوں

جس کی تو منزل تھا’ میں اس کارواں کی گرد ہوں

 

رنگ تصویر ِ کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے

قصّہ ایّامِ سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

 

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا

خود یہاں روتا ہوں ‘ اوروں کو وہاں رلاؤں  گا

غزلیات سے منتخب اشعار

رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم، تو محرم کے سوا کچھ نہیں!

 

زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟

٭٭٭

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے’ گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

 

اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں؟

نگہ کو نظّارے کی تمنّا ہے’ دل کو سودا ہے جستجو کا

٭٭٭

یوں تو اے بزمِ جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے

اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی

 

 

حسن کی تاثیر پر غالب نہ آسکتا تھا علم

اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

٭٭٭

مثالِ پر توِ مے ، طوافِ جام کرتے ہیں

یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں!

 

خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم! تری

شجر ‘ ہجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں

 

بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!

کہ ہم تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں

٭٭٭

مارچ 1907ء

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا’ عام دیدارِ یار ہو گا

سکوت تھا پر وہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا

 

گذر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سارا جہان میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

 

کِیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں

تو پیرِ میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منھ پھٹ ہے’ خوار ہو گا

 

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے!

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

 

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گا

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا’ نا پائیدار ہو گا

 

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں’ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے  پیار ہو گا

 

نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی

کہیں سرِ راہگذر بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا!

٭٭٭

 بلادِ اسلامیہ

سر زمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے

ذرّے ذرّے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے

 

دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد

جل چکا حاصل، مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

 

 اے مسلماں ملّتِ اسلامیہ کا دل ہے یہ شہر!

سینکڑوں صدیوں کی کَشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر!

٭٭٭

ستارہ

قمر کا خوف کہ ہے خطرہ سحر تجھ کو

مآلِ حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟

 

چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے

جو اوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے

 

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیُّر کو ہے زمانے میں !

٭٭٭

دو ستارے

لیکن یہ وصال کی تمنّا

پیغامِ فراق تھی سراپا

 

ہے خواب ثباتِ آشنائی

آئین جہاں کا ہے جدائی!

٭٭٭

گورستانِ شاہی

 آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے

کچھ مکدّر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے

 

باطنِ ہر ذرّہ عالم سراپا درد ہے

اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے

 

کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں

جو اتر سکتی نہیں آئینہ تحریر میں

 

بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور

جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور

 

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا

 

ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار

ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار

 

مصر وبابل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں

دفترِ ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں

٭٭٭

فلسفہء غم

(میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے نام)

گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن میں صحابِ زندگی

 

ایک بھی پتّی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں

 

عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں

روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں

 

مرنے والے مرتے نہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

 

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں 

 ٭٭٭

پُھول کا تحفہ عطا ہونے پر

وہ مستِ ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے

کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

٭٭٭

ترانہء ملّی

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

 

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سَو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

 

اے ارضِ پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم

ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

 

سالارِ  کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا

اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا

 

اقبالّ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

٭٭٭

وطنیّت 

(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصّور کے)

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

 

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب  سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

 

بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

 

ہے ترکِ وطن سُنتِ محبوب الہیٰ

دے تو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی

٭٭٭

ایک حاجی مدینے کے راستے میں

قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور

اس بیاباں’ یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دور

 

خوف کہتا ہے کہ "یثرب کی طرف تنہا نہ چل”

شوق کہتا ہے کہ "مسلم ہے’ بیباکانہ چل” 

 

بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا؟

عاشقوں کو روزِ محشر منھ نہ دکھلاؤں گا کیا؟

٭٭٭

سُنے گا اقبالؔ کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سُنا رہے ہیں

٭٭٭

شکوہ

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں؟

فکرِ فردا نہ کروں ‘ محوِ غمِ دوش رہوں؟

 

نالے بلبل کے سنوں’ ہمہ تن گوش رہوں

ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں؟

 

جرات آموز مری  تابِ سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

 

اے خدا! شکوہ ارباب وفا بھی سُن کے

خُوگر حمد سے تھوڑا  سا گِلا بھی سُن لے

 

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

 

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

 

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے!

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!

 

دشت تو دشت ہیں’ دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے!

بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے!

 

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

 

پھر بھی ہم سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں ‘ تو بھی تو وفادار نہیں!

 

رحمتیں ہیں تری اغیار کے شانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

 

آئے عشاق، گئے وعدہ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر!

 

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے!

٭٭٭

چاند

یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں

عاشق ہے تو کسی کا؟ یہ داغِ آرزو ہے؟

٭٭٭

سیرِ فلک

تھا تخیّل جو ہم سفر میرا

آسماں پر ہوا گذر میرا

 

حلقہء صبح و شام سے نکلا

اس پرانے نظام سے نکلا

 

اہل دُنیا یہاں جو آتے ہیں

اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں!

٭٭٭

رام

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

 

تلوار کا دھنی تھا’ شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں’ جوشِ محبت میں فرد تھا

٭٭٭

خطاب بہ جوانانِ اسلام

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟

وہ کیا گردوں تھا ، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟

 

تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سرِ دارا

 

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار’ وہ کردار’ تو ثابت’ وہ سیّارہ

 

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے پائی تھی

ثرّیا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

 

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

٭٭٭ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top