علامہ اقبال کی نظمیں بچوں کے لیے

اس پوسٹ میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی سات نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ یہ تمام نظمیں علامہ اقبالؔ نے بچوں کے لیے لکھیں اور یہ نظمیں اُن کی کتاب "بانگِ دَرا” سے منتخب کی گئی ہیں۔ 

ایک مکڑا اور مکھی

(ماخوذ)

بچوں کے لیے

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے

اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی

حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا 

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا

مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے

تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا

منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا

اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا

مکھی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن

میں آپ کے گھر آؤں یہ امید نہ رکھنا 

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا 

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی

پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ

ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسيجی

بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں

سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے

پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا 

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

 

 ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 32-33، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

پہاڑ اور گلہری

(ماخوذ  از ایمرسن)

بچوں کے لیے

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!

یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!

خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!

جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے

زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا!

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!

نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں

نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

 

 ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 34، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

ایک گائے اور بکری

(ماخوذ)

بچوں کے لیے

اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں

تھی سراپا بہار جس کی زمیں

کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں

ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

تھے اناروں کے بے شمار درخت

اور پیپل کے سایہ دار درخت

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں

طائروں کی صدائیں آتی تھیں

کسی ندی کے پاس اک بکری

چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا

پاس اک گائے کو کھڑے پایا

پہلے جھک کر اسے سلام کیا

پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں

گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی

ہے مصیبت میں زندگی اپنی

جان پر آ بنی ہے کیا کہیے

اپنی قسمت بری ہے کیا کہیے

دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں

رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

زور چلتا نہیں غریبوں کا

پیش آیا لکھا نصیبوں کا

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے

اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے

ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے

کن فریبوں سے رام کرتا ہے

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں

دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

بدلے نیکی کے یہ برائی ہے

میرے اللہ تری دہائی ہے

سن کے بکری یہ ماجرا سارا

بولی ایسا گلہ نہیں اچھا

بات سچی ہے بے مزہ لگتی

میں کہوں گی مگر خدا لگتی

یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

یہ ہری گھاس اور یہ سایہ

ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں

یہ کہاں بے زباں غریب کہاں

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں

لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

اس کے دم سے ہے اپنی آبادی

قید ہم کو بھلی کہ آزادی

سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا

واں کی گزران سے بچائے خدا

ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا

ہم کو زیبا نہیں گلہ اس کا

قدر آرام کی اگر سمجھو

آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

گائے سن کر یہ بات شرمائی

آدمی کے گلے سے پچھتائی

دل میں پرکھا بھلا برا اس نے

اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی

دل کو لگتی ہے بات بکری کی

 

ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 35-37، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

بچے کی دعا

(ماخوذ  )

بچوں کے لیے

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!

 

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!

 

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

 

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

 

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

 

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

 

ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 37، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کوپر)

بچوں کے لیے

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا

 

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اڑنے چگنے میں دن گزارا

 

پہنچوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

 

سن کر بلبل کی آہ و زاری

جگنو کوئی پاس ہی سے بولا

 

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

 

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کروں گا

 

اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل

چمکا کے مجھے دیا بنایا

 

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

 

ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 38، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

 ماں کا خواب

(ماخوذ )

بچوں کے لیے

میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں

اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں

لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال

قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی

تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے

دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں

خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں

اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر

مجھے اس جماعت میں آیا نظر

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا

کہا میں نے پہچان کر میری جاں

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں

جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار

پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی

جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب

دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب

رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری

نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا

دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟

ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے!

 

ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 39-40، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

پرندے کی فریاد

بچوں کے لیے

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی

اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم

شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت

آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا

آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں

ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں

کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں

ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں

میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں

ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں

جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے

دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے

دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے

میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے

 

ماخذ: کتاب: بانگِ دَرا، صفحہ 40-41، شاعر: علامہ اقبال، مطبع: شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور۔ 1977

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top