تعارف 

یوم  پیدائش ،20 جنوری 1925

لندن میں ایک طویل عرصے سے مقیم اکبر حیدر آبادی (اکبر علی خان) کا شمار غزل اور نظم کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش حیدر آباد میں 1925 کو ہوئی، یہیں پر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے وہ 1955 میں آکسفرڈ چلے گئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ آرکیٹیک کے علمی اورعملی سفر میں وہ برابر شعر کہتے رہے، ان کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

انگلستان میں انہیں ن،م راشد اور فیض احمد فیض کی صحبت حاصل رہی جس نے ان کی شعری تخلیقات کو ایک نئی جلا بخشی-

اکبر حیدر آبادی نے اپنی عمر کے باسٹھ سال برطانیہ میں گذارے لیکن ان کی شعری تخلیقات میں ترک وطن کا درد تازہ اور نمایاں رہا۔ یہ درد کسک کا تو باعث رہا لیکن اندوہناک نہیں ثابت ہوا۔ یہ درد در اصل اپنی زمین سے رشتہ اور وابستہ یادوں سے عبارت رہا۔ 7 اکتوبر 2014 کو وفات پائی۔


منتخب کلام

آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے

ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے

♦♦♦

یوں بھی اک جشن آرزو کرنا ، دل کو رو رو لہو لہو کرنا

جن سے اک آشنا مہک آئے ،ان ہواوں سے گفتگو کرنا

♦♦♦

اکبر کرہء ارض کی مسموم فضا سے

تہذیب کے اوزوں کی چادر کو بچائیں

♦♦♦

ہے کیا فنا میں بھی رنگِ ثبات، سوچتا ہوں

حیات ہے کوئی بعد حیات ؟ سوچتا ہوں

♦♦♦

مری نظر میں ہے ماضی کا طمطراق مگر

میں آنے والے شب و روز کا قصیدہ ہوں

♦♦♦

 اجنبیت ہے مقدر میرا

نہ زمیں میری نہ ہے گھر میرا

♦♦♦

دولت ملی ، مکان ملا ، نوکری ملی

شہرت ملی، وقار ملا ، دوستی ملی

اک جسم تھا کہ جس کوملیں ساری نعمتیں

اک روح تھی کہ جس کو فقط تشنگی ملی

♦♦♦

گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا

بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا

مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے

مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا

سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا

سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا

دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے

اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا

ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے

یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا

بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے

تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا

چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی

جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا

بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ

وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا

♦♦♦

کسی سے پہلے پہل ہم جوآشنائے گئے

امید و بیم کے کتنے دیے جلائے گئے

کسے خبر کہ پرستش کے ہیں عوامل کیا

نہ جانے کیسے صنم تھے کہ جو خدائے گئے

کہاں وہ پہلا سا احساس گرم و سرد اکبر

کہ اب مزاج ہمارے بھی موسمائے گئے

♦♦♦

اے چرخ اپنا مد مقابل مجھے سمجھ

میں عقل بھی ہوں تو نہ فقط دل مجھے سمجھ

اکبر نہ ڈھونڈو مجھ کو حدوں کے حصار میں

رہتی ہے جو سفر میں وہ منزل مجھے سمجھ

♦♦♦

مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

placeholder

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top