تعارف 

  اساتذہ میں شمار اور مستند شاعر راغبؔ مرادآبادی ، سیّد اصغر حسین نام اور راغبؔ تخلص ہے۔ 27؍مارچ 1918ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن مرادآباد ہے۔ ان کی شعری تربیت میں مولانا ظفر خاں کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ رباعی آپ کی سب سے زیادہ پسندیدہ صنف سخن ہے۔ تاریخ گوئی میں ان کو خاص ملکہ حاصل ہے۔ فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ 18؍جنوری 2011ء کو راغبؔ مراد آبادی انتقال کر گئے۔


منتخب کلام

جسے کہتے ہو تم اک قطرۂ اشک

مرے دل کی مکمل داستاں ہے

♦♦♦ 

خدا کاتب کی سفاکی سے بھی محفوظ فرمائے

اگر نقطہ اڑا دے نامزد نامرد ہو جائے

♦♦♦ 

حقیقت کو چھپایا ہم سے کیا کیا اس کے میک اپ نے

جسے لیلیٰ سمجھ بیٹھے تھے وہ لیلیٰ کی ماں نکلی

♦♦♦ 

عجیب انتشار ہے زمیں سے آسمان تک

غبار ہی غبار ہے زمیں سے آسمان تک

وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے

یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک

بساطِ خاک بھی تپاں خلا بھی ہے دھواں دھواں

بس اک عذابِ نار ہے زمیں سے آسمان تک

گرفت پنجۂ فنا میں خستہ حال و خوں چکاں

حیاتِ مستعار ہے زمیں سے آسمان تک

فغان و اشک و آہ کا جگر گداز سلسلہ

بلطفِ کردگار ہے زمیں سے آسمان تک

متاعِ جبر زندگی ہمیں بھی جس نے کی عطا

اسی کا اختیار ہے زمیں سے آسمان تک

فرازِ عرش کے مکیں شکستہ دل ہمیں نہیں

ہر ایک بے قرار ہے زمیں سے آسمان تک

♦♦♦ 

حق بات ہی کہیں گے سر دار دیکھنا

اہلِ قلم کی جرأت اظہار دیکھنا

دیکھیں جنہیں ہیں دیر کے دیوار و در عزیز

ہم کو تو صرف سوئے در یار دیکھنا

کرتا رہا قلم یوں ہی شاخیں جو باغباں

ناپید ہوگا سایۂ اشجار دیکھنا

سرکار آپ پر جو چھڑکتے ہیں جان آج

بچ کر چلیں گے کل یہ نمک خوار دیکھنا

بنیاد جس کی ہے ہوس اقتدار پر

ہونے کو ہے وہ قلعہ بھی مسمار دیکھنا

ڈالا جو تم نے ہاتھ کلاہ عوام پر

لگ جائیں گے سروں کے بھی انبار دیکھنا

♦♦♦ 

ہٹ جائیں اب یہ شمس و قمر درمیان سے

میری زمیں ملے گی گلے آسمان سے

سینے میں ہیں خلا کے وہ محفوظ آج بھی

جو حرف ادا ہوئے ہیں ہماری زبان سے

وہ میرے ہی قبیلے کا باغی نہ ہو کہیں

اک تیر ادھر کو آیا ہے جس کی کمان سے

صیاد نے کیا ہے اسی کو اسیر دام

طائر جو دل گرفتہ رہا ہے اڑان سے

ناکامیوں نے اور بڑھائے ہیں حوصلے

گزرا ہوں جب کبھی میں کسی امتحان سے

کہلائے جس میں رہ کے ہمیشہ کرایہ دار

کیا انس ہو مکین کو ایسے مکان سے

کیوں پیروی پہ ان کی ہو مائل مرا دماغ

غالبؔ کے ہوں نہ میرؔ کے میں خاندان سے

راغبؔ بہ احتیاط ہی لازم ہے گفتگو

دشمن کو بھی گزند نہ پہنچے زبان سے

♦♦♦ 

حکام نہ صدرِ خوش بیاں کی جانب

رینجرز نہ فوج کامراں کی جانب

ہر شخص سے ہو چکے ہیں مایوس عوام

اب ان کی نظر آسماں کی جانب

♦♦♦ 

مانگو اللہ سے معافی جھٹ پٹ

دن امن واماں کے جلد آئیں پلٹ

نوبت نہ کہیں، فاقہ کشی تک پہنچے

ہنگاموں نے کر دی ہے معیشت تلپٹ

♦♦♦ 

قتل و غارت کی گرم بازاری ہے

مرنے اور مارنے کی تیاری ہے

بھائی بھائی کے خون کا ہے پیاسا

اسلام میں کیا یہی رواداری ہے

♦♦♦ 

اپنا ہے یہ شہر جس میں بے بس ہیں عوام

آئے گا زباں پر نہ مری کلانعام

جمہوریت عصر کا اللہ رے نظام

ہر روز ہی قتل ہو رہے ہیں سر عام

♦♦♦ 

کون کسی کا یار ہے سائیں

یاری بھی بیوپار ہے سائیں

یہ بھی جھوٹا، وہ بھی جھوٹا

جھوٹا سب سنسار ہے سائیں

ہم تو ہیں بس رمتے جوگی

آپ کا تو گھر بار ہے سائیں

کب سے اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں

جس کو مجھ سے پیار ہے سائیں

کرودھ کپٹ ہے جس کے من میں

مفلس اور نادار ہے سائیں

ڈول رہی ہے پریم کی نیا

داتا کھیون ہار ہے سائیں

بات کبھی ہے پھول کی ڈالی

بات کبھی تلوار ہے سائیں

گاؤں کی عزت کا رکھوالا

گاؤں کا لمبردار ہے سائیں

♦♦♦ 

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top