تعارف
(پیدائش: 17 ستمبر 1906ء – وفات: 20 جنوری 1971ء)
اردو کے نامور شاعر‘ ادیب‘ نقاد‘ محقق‘ مترجم اور ماہر تعلیم سید عابد علی عابد 17 ستمبر 1906ءکو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا پھر مجلس وضع قانون (پنجاب) میں بطور مترجم کام کیا۔ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔ پھر دیال سنگھ کالج سے وابستہ ہوئے، یہ وابستگی تقریباً 25 برس جاری رہی۔ اس دوران 1947ء سے 1954ء تک وہ اس کالج کے پرنسپل رہے۔ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مجلس ترقی ادب سے وابستہ ہوئے۔
20 جنوری 1971ء کو سید عابد علی عابد لاہور میں وفات پاگئے
منتخب کلام
دَمِ رُخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
♦♦♦
عابدؔ وہ میرے شعر میں روشن ہے آج کل
جس حرفِ آتشیں کی خریدار ہے بہار
♦♦♦
شوق سے خود جو مرے راہ نما ہوتے ہیں
مری قسمت کہ وہی آبلہ پا ہوتے ہیں
♦♦♦
بُت کے راندے ہوئے ، اللہ کے ٹھکرائے ہوئے
آخرِ کار درِ پیرِ مغاں تک پہنچے
♦♦♦
ابھی سنتا ہوں میں کچھ اور دنیائیں بھی ہیں عابدؔ
معاذ اللہ اسی دنیا میں انسانوں پہ کیا گزری ؟
♦♦♦
عابدؔ زمانہ ہم کو مٹاتا چلا گیا
ہم نقشِ زندگی کو اُبھارے چلے گئے
♦♦♦
ہائے وہ شانِ تغافل کہ ہے مجھ سے مخصوص
ہائے وہ عرضِ تمنا کہ تمہیں تک پہنچے
♦♦♦
غزلیات
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
ان کے مرنے کا نام تاج محل
یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل
یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مَل
آ رہی ہے صدا پپیہے کی
جس نے سر پر اٹھا لیا جنگل
کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی
سانوری نار مدھ بھری چنچل
نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار
کیسے کیسے برس گئے بادل
پیار کی راگنی انوکھی ہے
اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل
بات نرمی سے یوں وہ کرتے ہیں
جیسے لہرائے ریشمی آنچل
بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں
نین کالے ہیں تیرے بن کاجل
مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل
کبھی بدلا نہ کام دیو کا روپ
وہی سج دھج رہی وہی چھل بل
لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول
لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل
کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل
کوہ کن سے مفر نہیں کوئی
بے ستوں ہو کہیں کہ بندھیاچل
ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے
خود بخود گر پڑیں گے راج محل
میں نے ہائے جو کی وہ بات ہے اور
تیری چاہت میں جی نہ تھا بے کل
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
♦♦♦
واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
یہی بندے کی خطا ہے مجھے معلوم نہ تھا
غم دوراں کا مداوا نہ ہوا پر نہ ہوا
ہاتھ میں کس کے شفا ہے مجھے معلوم نہ تھا
نغمہء نے بھی نہ ہو بانگ بط مے بھی نہ ہو
یہ بھی جینے کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
میں سمجھتا تھا جسے ہیکل و محراب و کنشت
میرا نقش کف پا ہے مجھے معلوم نہ تھا
اپنے ہی ساز کی آواز پر حیراں تھا میں
زخمہء ساز نیا ہے مجھے معلوم نہ تھا
جس کی ایما پہ کیا شیخ نے بندوں کو ہلاک
وہی بندوں کا خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
خطبہ ترغیب کا ردا ہے اے دوست
شعر کہنے کی سزا ہے مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا
یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا
وہ مجھے مشورہء ترک وفا دیتے تھے
یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
چہرہ کھولے نظر آتی تھی عروس گل نار
منہ پہ شبنم کی ردا ہے مجھے معلوم نہ تھا
کفر و ایماں کی حدیں کس نے تعین کی تھیں
اس پہ ہنگامہ بپا ہے مجھے معلوم نہ تھا
یہی مار دو زباں میرا لہو چاٹ گیا
رہنما ایک بلا ہے مجھے معلوم نہ تھا
عجب انداز سے تھا کوئی غزل خواں کل رات
عابدؔ شعلہ نوا ہے مجھے معلوم نہ تھا
♦♦♦
مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جاۓ گی
دل کو غم ہو کہ سکوں رات گزر جاۓ گی
دیکھنا یہ کہ انداز سحر کیا ہوں گے
یوں تو ارباب جنوں رات گزر جاۓ گی
نہ رکا ہے نہ رکے قافلہء لیل و نہار
رات کم ہو کہ فزوں رات گزر جاۓ گی
میں ترا محرم اسرار ہوں ات صبح بہار
جا کے پھولوں سے کہوں رات گزر جاۓ گی
مژدہء صبح مبارک تمھیں اے دیدہ ورو
میں جیوں یا نہ جیوں رات گزر جاۓ گی
رات بھر میں نے سجاۓ سر مثگاں تارے
مجھ کو تھا وہم کہ یوں رات گزر جاۓ گی
صبح اٹھ کر تجھے رہ رو سے لپٹنا ہو گا
رہبر تیرہ دروں رات گزر جاۓ گی
♦♦♦
گردش جام نہیں رک سکتی
جو بھی اے گردش دوراں گزرے
صبح محشر ہے بلاۓ ظاہر
کسی صورت شب ہجراں گزرے
کوئی برسا نہ سر کشت وفا
کتنے بادل گہر افشاں گزرے
ابن آدم کو نہ آیا کوئی راس
کئی آذر کئی یزداں گزرے
اے غم تری راہواں سے
عمر بھر سوختہ ساماں گزرے
وہ جو پروانے جلے رات کی رات
منزل عشق سے آساں گزرے
غم ہستی کے بیابانوں سے
کچھ ہمیں تھے ججو غزلخواں گزرے
غم کے تاریک افق پر عابدؔ
کچھ ستارے سر مژگاں گزرے
♦♦♦
مآخذ:
اردو کلاسک : عمر جاوید خان
https://www.facebook.com/urduclasikshairi