تعارف
نام محمد یاسین قلمی نام کیفؔ عظیم آبادی ہے۔08؍جون 1937ء کو پٹنہ کے محلہ شاہ گنج میں پیدا ہوئے – 24؍جنوری 1994ء کو ان کا انتقال ہو گی
منتخب کلام
ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے
♦♦♦
تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو
تشنگی لب پہ سجائے ہوے مر جاؤ گے
♦♦♦
دیوار و در پہ خون کے چھینٹے ہیں جا بہ جا
بکھرا ہوا ہے رنگ حنا تیرے شہر میں
♦♦♦
نکل آئے تنہا تری رہگزر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے
♦♦♦
خوشبوئے حنا کہنا نرمیٔ صبا کہنا
جو زخم ملے تم کو پھولوں کی قبا کہنا
♦♦♦
نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے
میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لیے
ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے
میں بھول سکتا نہیں حسرت نظر اس کی
وہ ایک شخص جو گزرا ہے اضطراب لیے
اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے
اب آ بھی جاؤ نگاہوں میں ماہتاب لیے
یہ چلچلاتی ہوئی دھوپ جل رہا ہے بدن
گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لیے
♦♦♦
پھول ہنسے اور شبنم روئی آئی صبا مسکائی دھوپ
یاد کا سورج ذہن میں چمکا پلکوں پر لہرائی دھوپ
گاؤں کی دھرتی بانجھ ہوئی ہے پنگھٹ سونا سونا ہے
پیپل کے پتوں میں چھپ کر ڈھونڈھتی ہے تنہائی دھوپ
کوئی کرن بھی کام نہ آئی جیون کے اندھیارے میں
میرے گھر کے باہر لیکن لیتی رہی انگڑائی دھوپ
ہم تو سدھ بدھ کھو بیٹھے تھے ہستی کے ویرانے میں
جانے کب زلفیں لہرائیں جانے کب سنولائی دھوپ
♦♦♦
عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں
شب کی آغوش میں سویرے ہیں
میکدے سے وفا کی منزل تک
ہم فقیروں کے ہیرے پھیرے ہیں
مجھ کو مت دیکھ یوں حقارت سے
میں نے رخ زندگی کے پھیرے ہیں
ان کی زلفوں کی نرم چھاؤں میں
زندگی کے حسیں سویرے ہیں
میں ہوں معمار زندگی اے کیفؔ
دونوں عالم کے حسن میرے ہیں
♦♦♦
مآخذ:
اردو کلاسک : عمر جاوید خان
https://www.facebook.com/urduclasikshairi