غزل کے اشعار کی تشریح کے لیے ہدایات (امتحانی نقطہ نظر سے)

غزل کی تعریف:

غزل کے معنی ہیں ” عورتوں سے باتیں کرنا” یا عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا ۔ عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا۔ اس کے علاوہ ایک مختلف معنیٰ یہ ہیں، غزال ہرن کو کہتے ہیں جبکہ شکار کے وقت ہرن کے منھ سے نکلی درد ناک چیخ کو "غزل” کہتے ہیں۔ اسی لیے غزل کا موضوع عاشق کی آہ و بکا رہا ہے۔ 

طلبا کے لیے ضروری ہدایات

  1.  غزل کے ہر شعر کی تشریح الگ الگ کرنی چاہیے کیوں کہ غزل کا ہر شعر دوسرے سے موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے منفرد ہوتا ہے۔
  2. تشریح سے پہلے تشریح طلب شعر ضرور لکھنا چاہیے۔
  3. جوابی کاپی پر شاعر کا نام لکھنا نہ بھولیں۔ شاعر کے نام کا املا درست ہو۔ اصل نام لکھنے کی صورت میں پورا نام لکھنا چاہیے تاہم تخلص لکھ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔
  4. ہر شعر کی معیاری تشریح کم از کم آدھا صفحہ اور زیادہ سے زیادہ ایک صفحہ پر مشتمل ہونی چاہیے۔
  5. دورانِ تشریح، اقوال، آیات، احادیث اور دیگر حوالہ جات لکھنا تشریح کو مدلّل بنا دیتا ہے ، لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ غلط لکھنے سے بہتر ہے نہ لکھا جائے۔ جہاں کسی بات کا ترجمہ لکھنا مقصود ہو وہ بریکٹ میں لکھنا چاہیے۔ 
پہلی غزل
meer taqi meer

میر تقی میرؔ (1723ء - 1810ء)

شعر 1

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

(بہاولپور بورڈ 2014،گوجرنوالہ بورڈ 2015، فیصل آباد بورد، کشمیر ، 2016ء)

حل لغت:

ہستی: زندگی، وجود

حباب: بُلبُلا، عارضی شے

نمائش: دکھاوا

سراب: دھوکا، فریب

مفہوم :

یہ دنیا، زندگی اک پانی کے بُلبلے کی طرح عارضی ہے۔ اور یہ دنیا کی رونق اک دھوکا ہے۔

  ٭٭٭٭٭

شعر 2

نازُکی اُس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

(گوجرنوالہ  بورڈ 2013، ڈی جی بورڈ ، گوجرانوالہ، ساہیوال بورڈ 2015، فیصل آباد، ساہیوال بورڈ 2016)

حل لغت:

نازُکی : نزاکت، ملائمت

لب : ہونٹ

پنکھڑی : پھول کی پتّی

مفہوم :

اُس کے ہونٹ ایسے نازک اور ملائم ہیں جیسے گلاب کی تازہ پتّی ہو۔ 

 ٭٭٭٭٭

شعر 3

چشمِ دل کھول اُس بھی عالم پر 

یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

(سرگودھا، لاہور، کشمیر بورڈ 2016)

حل لغت:

چشمِ دل : دل کی آنکھ

عالَم : دنیا، جہاں

اوقات: حیثیت

کی سی : کی طرح

مفہوم :

دل کی آنکھ سے اُس جہان کو دیکھو ، اس دنیا کی حقیقت سوائے خواب کے کچھ نہیں! 

     ٭٭٭٭٭

شعر 4

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں 

حالت اب اضطراب کی سی ہے

(فیصل آباد بورڈ 2013، لاہور بورڈ 2015، ملتان، راولپنڈی بورڈ 2016)

حل لغت:

بار بار : مسلسل، کئی بار

حالت: کیفیت،

اضطراب : بے قراری، بے چینی

مفہوم :

اب ایسی بے قراری کی حالت ہے کہ کئی بار محبوب کے درازے پر جا چکا ہوں۔  

 ٭٭٭٭٭

شعر 5

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز 

اسی خانہ خراب کی سی ہے

(بہاولپور بورڈ 2014، کشمیر، واولپنڈی، فیصل آباد بورڈ 2015،گوجرنوالہ، ملتان، ساہیوال بورڈ 2016)

حل لغت:

بولا : بات کرنا، آواز لگانا

خانہ خراب : اُجڑا ہوا، برباد، آوارہ

خانہ : مکان

مفہوم :

 محبوب کی گلی میں جب میں نے آواز لگائی تو وہ بولا کہ یہ آواز تو اُسی برباد شخص کی لگتی ہے۔ 

 ٭٭٭٭٭

شعر 6

آتشِ غم میں دل بُھنا شاید 

دیر سے بُو کباب کی سی ہے

(بہاولپور بورڈ 2014، سرگودھا، راولپنڈی بورڈ 2015،ڈی جی  بورڈ 2016)

حل لغت:

آتشِ غم : دکھوں کی آگ

دل بُھنا: دل کا جلنا

کباب : قیمے سے بنا ہوا کھانا جو انگاروں پہ بنتا ہے۔ یہاں مراد جلا ہوا

مفہوم :

دکھوں کی آگ میں میرا دل شاید جل گیا ہے کیونکہ کافی دیر سے ایسی بُو آ رہی ہے جیسے کباب بھُن رہا ہو۔  

 ٭٭٭٭٭

شعر 7

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں 

ساری مستی شراب کی سی ہے

(ملتان، 2013، فیصل آباد، بہاول پور، 2015، سرگودھا، ڈی جی، بہاولپور 2016)

حل لغت:

نیم باز : آدھی کھلی ہوئی

مستی : نشہ میں ہونا، خمار میں ہونا، 

مفہوم :

محبوب کی آدھی کھلی ہوئی آنکھوں میں ایسا خمار ہے جیسے شراب میں ہوتا ہے۔  

 ٭٭٭٭٭

دوسری غزل
khwaja haidar ali aatish

خواجہ حیدر علی آتشؔ (1764ء - 1846ء)

شعر 1

رُخ و زلف پر جان کھویا ِکیا 

اندھیرے اُجالے میں رویا کِیا

(ملتان   بورڈ 2013، ساہیوال، سرگودھا بورڈ  2016)

حل لغت:

رُخ : چہرہ

زُلف : بال

جان کھویا کیا: جان قربان کرنا

اجالا : روشنی

رویا کیا : روتا رہا

مفہوم :

محبوب کے چہرے اور زُلفوں پہ جان وار دی، اُن کی یاد میں دن رات روتا رہا۔ 

اور بقول باقی احمد پوریؔ:

دل جگر تھام کر آج روتے ہو کیوں

تم سے کس نے کہا تھا محبت کرو

  ٭٭٭٭٭

شعر 2

ہمیشہ لکھے وصفِ داندانِ یار 

قلم اپنا موتی پرویا کِیا

( )

حل لغت:

وصف: خوبی

دندان:  دانت کی جمع

موتی پرونا: موتیوں کی لڑی بنانا

مفہوم :

شاعر کے قلم نے جب بھی محبوب کے دانتوں کا حُسن بیان کرنا شروع کیا تو گویاموتی پرو دیے۔  

٭٭٭٭٭

شعر 3

کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر 
میں جاگا کیا، بخت سویا کیا
( )

حل لغت:

بسر کرنا: گزارنا

جاگا کیا:  جاگتا رہا

بخت: نصیب، مقدر

سویا کیا: سوتا رہا

مفہوم :

میں کیا بیان کروں کہ میری عمر کیسے گزری، بس اتنا ہے کہ میں تو جاگتا رہا لیکن میرے قسمت سوئی رہی۔

٭٭٭٭٭

شعر 4

رہی سبز بے فکر کِشتِ سُخن
نہ جَوتا کیا میں، نہ بویا کیا
( )

حل لغت:

سبز: تازہ، ہری بھری

بے فکر:  بے پروا، جسے کوئی فکر نہ ہو

کِشت:  کھیتی

سُخن:  بات، شعر کہنا

جَوتا کیا:  کھیتی کے لیے زمین کو تیار کرنا

بویا کیا:  بیج بونا

مفہوم :

شاعر کہتا ہے کہ بغیر کسی باقاعدہ محنت کے میری شاعری کی کھیتی ہری بھری رہی۔ کیونکہ محبوب کے دیے ہوئے غموں میں اتنی تاثیر تھی کہ مجھے سُخنور (شاعر) بنا دیا۔

٭٭٭٭٭

شعر 5

برہمن  کو باتوں کی حسرت رہی

 خدا نے بُتوں کو نہ گویا کیا

حل لغت:

برہمن: ہندوؤں کا عالم، پنڈت

حسرت: وہ خواہش جو پوری نہ ہو سکے

گویا: بولنے والا

بُت: مورتی، جس کی عبادت کی جائے، مجسمہ، مراد محبوب

مفہوم  :

ہم  اس برہمن کی طرح ہیں جو محبوب کی پوجا کرتا ہے ، اسے خدا سمجھتا ہے۔اس سے باتیں کرنا چاہتا ہے لیکن آگے سے کوئی جواب نہیں آتا کیونکہ خدا نے انھیں بولنے سے محروم رکھا ہے۔ 

شعر 6

مزا غم کے کھانے کا جس کو پڑا

وہ اشکوں سے ہاتھ اپنا دھویا کیا

حل لغت:

مزا: لطف

غم کھانا: دُکھ سہنا

اشک: آنسو

 مفہوم  :

 جو غم کی لذت سے واقف ہو گیا ، اور اسے لطف آنے لگا تو وہ ساری عمر روتا بھی ہے  لیکن محبوب کے غم کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔

شعر 7

زخنداں سے آتشؔ مَحبت رہی

کنویں میں مجھے دل ڈبویا کیا 

حل لغت:

زخنداں: ٹھوڑی، 

  مفہوم  :

آتشؔ کو محبوب کی ٹھوڑی میں پڑنے والے گڑھے سے پیار ہے، یہ ایسا کنواں ہے کہ جس میں میرا دل ہمیشہ ڈوبا رہا، یہ اتنا خوبصورت ہے کہ اس میں دل کھویا رہا۔ 

دل ہوا اس پہ یوں فدا انجمؔ

جیسے کم بخت میرا تھا ہی نہیں

تیسری غزل
1672 2 e1718192053975

مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (1797ء- 1869ء)

شعر 1

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟

آخر اِس درد کی دوا کیا ہے؟

حل لغت:

دلِ ناداں: نا سمجھ دل

  مفہوم  :

اے میرے نادان دل! تجھے کیا ہو گیا ہے تو اتنا بے چین کیوں ہے؟ آخر اس درد کی دوا کیوں نہیں ملتی؟ 

؎ کسی کروٹ سکون پاتا نہیں

یہ دل ہے یا سُلگتا آبلہ

شعر 2

ہم ہیں مُشتاق اور وہ بے زار

یا الہٰی! یہ ماجرا کیا ہے؟

حل لغت:

مشتاق: چاہنے والا

بے زار: تنگ آ جانا، نا خوش

ماجرا: قصہ، واقعہ

  مفہوم  :

ہم تو محبوب کے چاہنے والے ہیں لیکن ہمارا محبوب ہم سے نا خوش ہے، اے میرے خدا! یہ کیا معاملہ ہےکہ ہم اُسے چاہتے ہیں اور وہ اس کے برعکس ہم سے تنگ ہے۔

شعر 3

میں بھی منھ میں زباں رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟

حل لغت:

زبان رکھنا: بولنے کی صلاحیت ہونا

مدعا: مقصد، خواہش، بات

کاش: خدا کرے

   مفہوم  :

 میرے پاس بھی بات کرنے کی صلاحیت ہے، مجھے بھی بات کرنی آتی ہے، خدا کرے تم بھی کبھی پوچھو کہ ہم    کیا کہنا چاہتے ہیں؟

بقول حفیظ شاہد:

آؤ کچھ دیر کہیں بیٹھ کے باتیں کر لیں

پھر نہ آئیں گے یہ لمحات ہماری خاطر

شعر 4

ہم کو اُن سے ہے وفا کی اُمید

جو نہیں جانتے، وفا کیا ہے؟

حل لغت:

وفا: مَحبت، خیر خواہی، ساتھ نبھانا

اُمید: آرزو، توقع

    مفہوم  :

ہم تو اُن سے وفا  کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں جو اس لفظ کے مفہوم ہی سے نا واقف ہیں۔ 

شعر 5

ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہو گا

اور درویش کی صدا کیا ہے؟

حل لغت:

بھلا: نیکی کرنا

درویش: فقیر، خدا کا محبوب بندہ، ولی

صدا: آواز

    مفہوم  :

ہم اللہ والے صرف یہ آواز لگاتے ہیں کہ اگر تو اچھا کرے گا تو خدا بھی تیرے ساتھ اچھا کرے گا۔ 

؎ ہم فقیروں کو بھی کچھ حسن کی خیرات ملے

جس کو دیتا ہے خدا، راہِ خدا دیتا ہے

شعر 6

جان تم پر نثار کرتا ہوں 

میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے؟

حل لغت:

جان: زندگی

نثار کرنا: قربان کرنا

     مفہوم  :

 مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ دعا کیا ہوتی ہے ، البتہ اپنی جان تم پہ قربان کرتا ہوں۔ یعنی دعا  کرنا تو آسان ہے ، جان دینا مشکل کام ہے اور وہ میں کرتا ہوں۔

؎ موت سے کہہ دے جان حاضر ہے

شرط ہے تیرے بھیس میں آئے

شعر 7

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ 

مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے؟

حل لغت:

مانا: تسلیم کرنا

مفت ہاتھ آنا: مفت میں مل جانا

     مفہوم  :

اگرچہ غالبؔ کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن اگر وہ مفت میں مل رہا ہے تو اس میں کیا برا ہے۔ 

چوتھی غزل
bahadur shah zafar e1718192446838

بہادر شاہ ظفرؔ (1775ء- 1862ء)

شعر 1

لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں

حل لغت:

اجڑنا: ویران ہونا، تباہ ہونا

دیار: ملک، شہر ، علاقہ

عالم: دُنیا

ناپائیدار: عارضی، فانی، ختم ہونے والی

     مفہوم  :

اس شعر میں بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں کہ اس اُجڑی ہوئی دنیا اور شہر میں میرا دل نہیں لگتا۔ ظاہر ہے کہ ویرانے میں انسان کا جی کیسے لگے؟ جب کہ وہ فطری طور ہر معاشرت پسند ہے۔ تنہائی اور ویرانوں میں اس کا دل کیسے لگے؟ جس کی اپنے دل کی نگری آباد ہو، اسے دنیا جہاں آباد نظر آئے گا اور جس کی دل کی نگری ہی اجڑ چکی ہو، اسے دنیا کی رونقوں  میں بھی بے رونقی نظر آئے گی۔ بقول ناصرؔ

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

دوسرے مصرعے میں کہتے ہیں کہ یہ دنیا ہے ہی ایسی جگہ جہاں قسمت کسی کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ دنیا فانی ہیں ، اس لیے اس دنیا میں قیام بھی عارضی ہے اور وقتِ مقرر پر ہر کسی کو چلے جانا ہے۔ 

شعر 2

عُمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

حل لغت:

عمرِ دراز: لمبی عمر

آرزو: تمنا، خواہش

چار دن: ذرا سی مدت، کچھ دن

کٹ گئے: گزر گئے  

     مفہوم  :

 شاعر کہتے ہیں کہ اس قدر مختصر زندگی لے کر آئے تھے۔ حالانکہ ہم نے لمبی عمر مانگی تھی لیکن چند دن کی ہی مہلت ملی۔ جو آدھی خواہشوں میں اور آدھی اُن کے مکمل ہونے کی حسرت میں گزر گئی۔ 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

شعر 3

بلبل کو باغباں سے نہ صَیّاد سے گِلہ 

قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں

حل لغت:

باغباں : مالی، پودوں کی دیکھ بھال کرنے والا

صیاد: شکاری

گلہ: شکوہ ، شکایت

فصلِ بہار: بہار کا موسم

     مفہوم  :

 بلبل کو نہ تو مالی سے کوئی گلہ ہے نہ اور ہی شکاری سے شکایت ہے۔ یہ بلبل کی قسمت ہی ہے کہ بہار کا موسم جو آزادی کا موسم ہے ، اس میں بھی قید لکھی ہوئی ہے۔ بلبل سے مراد شاعر خود ہیں، مالی سے مراد دوست احباب ہیں جبکہ شکاری اس وقت کے انگریز حکمران تھے جو شاعر کو قید رکھنا چاہتے تھے۔ 

بتا ہمدم یہ کیسی ہیں بہاریں

کہ جن میں پھول زخموں کے کھلے ہیں

شعر 4

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغ دار میں

حل لغت:

حسرت : ایسی تمنا جو پوری نہ ہو سکے

دلِ داغ دار: زخمی دل، غم زدہ دل

     مفہوم  :

 میرے دل نے بہت دُکھ سہے ہیں ، اب مزید حسرتوں یعنی ادھوری خواہشات کے ٹھہرنے کی کوئی جگہ باقی نہیں ہے۔ 

یہ نشانِ عشق ہیں جاتے نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا 

شعر 5

دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی

پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

حل لغت:

کنجِ مزار: مزار کا کونا

شام ہو گئی: موت آگئی۔ زندگی کا آخری وقت

     مفہوم  :

 زندگی کے دُکھ سہتے سہتے اب موت کے قریب ہیں ۔ اب قبر کے ایک کونے میں آرام وسکون کے ساتھ سوئیں گے۔ 

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 

شعر 6

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ، دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کُوئے یار میں

حل لغت:

بد نصیب: بد قسمت

کوئے یار: محبوب کی گلی ، یہاں مراد اپنا پسندیدہ وطن یا شہر ہے

     مفہوم  :

 بہادر شاہ ظفرؔ کہتے ہیں میں کس قدر بد قسمت انسان ہوں ۔ مرنے کے بعد قبر کے لیے اپنے وطن کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی۔ 

مٹی نصیب ہو نہ سکی کوئے یار کی

آخر اٹھا دیے گئے اس کی گلی سے ہم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top