تعارف
واصف علی واصفؔ، 15؍جنوری 1929ء پاکستان کے مشہور صوفی دانشور، شاعر، ادیب اور کالم نگار واصف علی واصف کی تاریخ پیدائش ہے۔ واصف علی واصف، خوشاب پنجاب ( پاکستان) میں پیدا ہوئے۔۔ واصف علی واصف، 18؍جنوری 1993ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔
منتخب اشعار
تُوؐ نظر پھیرے تو طوفاں زندگی!
تُو نظر کردے تو بیڑا پار ہے!
♦♦♦
واصفؔ مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد
ہر دور پر محیط ہوں جس زاویے میں ہوں
♦♦♦
جلوۂ ذات سے آگے تھی فقط ذات ہی ذات
بندگی رقصِ سرِ دار سے آگے نہ بڑھی
♦♦♦
بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
قریب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی
♦♦♦
اپنے شاداب حسیں چہرے پہ مغرور نہ ہو
زرد چہروں پہ جو لکھے ہیں سوالات سمجھ
♦♦♦
میں آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں
خود آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں
♦♦♦
وہ آنسوؤں کی زُبان جانتا نہ تھا واصفؔ
مجھے بیان کا نہ تھا حوصلہ ، میں کیا کرتا
♦♦♦
قاتل بھی یار تھے میرے مقتول بھی عزیز
واصفؔ میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہوا
♦♦♦
چلے ہو ساتھ تو ہمّت نہ ہارنا واصفؔ
کہ منزلوں کا تصوّر میرے سفر میں نہیں
♦♦♦
خرد کو ہونا ہے رُسوائے ہر جہاں واصفؔ
جنوں کی صُبح درخشاں، جنوں کی شام حسیں
♦♦♦
میرے غم خانہء خیال میں آ
حُسنِ کامل ذرا جلال میں آ
♦♦♦
کُھلی جو آنکھ پسِ مرگ تو یہ راز کُھلا!
کہ ایک خواب کے عالم میں خواب تھے کتنے
♦♦♦
واصفؔ یہ کس مقام پہ لایا مُجھے جنوں!
اب اُن کی جستجو ہے نہ اپنی تلاش ہے
واصفؔ جہانِ فکر کی تنہائیاں نہ پُوچھ!
اہلِ قلم کے واسطے خلوت بھی انجمن
♦♦♦
مجھ کو تو مرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دُنیا ہے گِلہ کوئی نہ شکوہ ہے خُدا سے
♦♦♦
کب رات کٹے کب ہو سحر کہہ نہیں سکتے
کب ہو گا دعاؤں میں اثر کہہ نہیں سکتے
♦♦♦
واصفؔ دیارِ عشق میں لازم ہے خامشی!
مر کر بھی لب پہ آئے نہ ہر گز گِلے کی بات
♦♦♦
نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرفِ کُن ہوں فرمایا گیا ہوں
♦♦♦
ملا ہے جو مقدّر میں رقم تھا
زہے قسمت مرے حصؔے میں غم تھا
غزلیات
♦♦♦
میرا نام زینتِ داستاں ، مَیں کسی کے حسن کا پاسباں
میں کسی کی بزم کا ہوں نشاں، میں دیارِ یار کی بات ہوں
میں خبر کے دام کا دام ہوں، میں خرد کدے کا امام ہوں
میں علیؑ ولی کا غلام ہوں، اُسی تاجدار کی بات ہُوں
میرا نام واصفِؔ با صفا۔۔۔ میرا پیر سیّدِ مرتضےٰ
میرا ورد احمدِؐ مجتبےٰ’ میں سدا بہار کی بات ہوُں
♦♦♦
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
مَیں سوزِ مَحبت ہوں مَیں ایک قیامت ہوں
مَیں اشکِ ندامت ہوں ‘ میں گوہرِ یکدانہ
میں واصفؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
♦♦♦
ہم اپنے آپ میں ہی تجھے ڈھونڈتے رہے
تیرے مسافروں کا سفر گھر میں کٹ گیا!
کچھ اس طرح سے مجھ کو ملی دادِ تشنگی!
میرے قریب آ کے سمندر سمٹ گیا!
پہلا قدم ہی عشق میں ہے آخری قدم
محرومِ عشق ہے جو ارادے سے ہٹ گیا
♦♦♦
رازِ دل آشکار آنکھوں میں
حشر کا اِنتظار آنکھوں میں
وہ بھی ہو گا کِسی کا نُورِ نظر
جو کھٹکتا ہے خار آنکھوں میں
لے کے اپنی نگاہِ میں قلزم
آ مری ریگ زار آنکھوں میں
رات کیسے بسر ہوئی واصفؔ!
دن کوہے خمار آنکھوں میں!
♦♦♦
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا تیرے دیدار کی صُورت
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا!
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
دل ہاتھ ہی رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت!
صُورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی!
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکارؐ کی صورت
واصفؔ کو سرِدار پُکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت
♦♦♦