shakeeb jalali poetry

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حُدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہ دیوار پر دیوار گرے

کسی کا جسم اگر چُھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری، مثلِ شمع جلنے لگی

 

جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا

پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

مری گرفت میں آکر نِکل گئی تِتلی

پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مُٹھی میں

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں

اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو

 

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں

پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو

شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

اس بت کدے میں تو جو حسین تر لگا مجھے

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

 

میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا شکیب

اپنی ہی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے

تونے کہا نہ تھا کہ کشتی پہ بوچھ ہوں

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ، مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام

اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں

 

چوما ہے میرا نام لَب سُرخ نے شکیب

یا پھر پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

تو اس میں ڈوب کے شاید اُبھر سکے نہ کبھی

مرے حبیب مری خامشی سمندر ہے

رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے

پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے

 

دل میں پرائے درد کی اک ٹِیس بھی نہیں

تخلیق کی لگن ہے تو زخموں کو پالیے

 

احساس میں رچائیے قوس قزح کے رنگ

ادراک کی کمند ستاروں پہ ڈالیے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top