صغیر ملال کی شاعری

 پیدائش: 15 فروری، 1951ء  

26 جنوری 1992ء کو اردو کے معروف ادیب، شاعر اور مترجم صغیر ملال کراچی میں وفات پاگئے۔

♦♦♦ 

منتخب کلام

 اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی

یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

♦♦♦  

شہر کے بوڑھے لوگ کہتے ہیں

ایسے موسم کبھی نہیں آئے

♦♦♦ 

آتے رہیں گے لوگ کہیں سے یہاں ملالؔ

آتے رہیں گے اور رہیں گے زمین پر

♦♦♦ 

یونہی بدلتا رہے گا وہ تا ابد شکلیں

جو پہلا آدمی پیدا ہوا تھا ، زندہ ہے

♦♦♦ 

چھوٹوں کو چاہیے کہ بڑے جب بھی گر پڑیں

رفتارِ کج نہیں اسے بارِ گراں کہیں

♦♦♦ 

ویران مقبروں پہ کھڑے ہو کے سوچنا

کیا سود مند ہے ؟ کسے کارِ زیاں کہیں؟

♦♦♦ 

ہر قدم پر کوئی نشانی ہے

یہ زمین کس قدر پرانی ہے

♦♦♦ 

جو لوگ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں وہ ملالؔ

کتنے عجیب دور سے آتے ہوئے لگے

♦♦♦ 

میں نے نزدیک سے دیکھا ہے جہانِ کُہنہ

میری گزرے ہوئے لمحوں سے شناسائی ہے

♦♦♦ 

برائے نام سہی سائباں ضروری ہے

زمین کے لیے اک آسماں ضروری ہے

تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر

ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے

ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے

کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے

کہیں پہ نام ہی پہچان کے لیے ہے بہت

کہیں پہ یوں ہے کہ کوئی نشاں ضروری ہے

کہانیوں سے ملال ان کو نیند آنے لگی

یہاں پہ اس لیے وہ داستاں ضروری ہے

♦♦♦ 

فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا

پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا

بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل

کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا

کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت

کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا

جہان کہنہ ازل سے تھا یوں تو گرد آلود

کچھ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا

بشر بگاڑے گا ماحول وہ جو اس کے لیے

نہ جانے کتنے زمانوں نے سازگار کیا

تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکہ ہیں

اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا

نہ سانس لے سکا گہرائیوں میں جب وہ ملالؔ

تو اس کو اپنے جزیرے سے ہمکنار کیا

♦♦♦ 

جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے

پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا

ہاتھوں سے چھو کے پہلے اجالا کریں تلاش

جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا

حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر

اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا

پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے

وحشی نہ ہوں تو اور ہواؤں سے بھی ہو کیا

جب دیکھنے لگے کوئی چیزوں کے اس طرف

آنکھیں بھی تیری کیا کریں باتوں سے بھی ہو کیا

یوں تو مجھے بھی شکوہ ہے ان سے مگر ملالؔ

حالات اس طرح کے ہیں لوگوں سے بھی ہو کیا

♦♦♦ 

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے

شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں

کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو

واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے

پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا

دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

واقعی نور لیے پھرتے ہیں سر پہ کوئی

اپنے اطراف جو سایہ نہیں رہنے دیتے

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملالؔ

کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے

♦♦♦ 

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے

اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے

اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں

اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے

اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب

خاک پر اس کا امیں آب رواں ہوتا ہے

سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں

ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے

ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں

ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے

کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملالؔ

جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے

تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکہ ہیں

اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا

♦♦♦ 

کیوں ہر عروج کو یہاں آخر زوال ہے

سوچیں اگر تو صرف یہی اک سوال ہے

بالائے سر فلک ہے تو زیر قدم ہے خاک

اس بے نیاز کو مرا کتنا خیال ہے

لمحہ یہی جو اس گھڑی عالم پہ ہے محیط

ہونے کی اس جہان میں تنہا مثال ہے

آخر ہوئی شکست تو اپنی زمین پر

اپنے بدن سے میرا نکلنا محال ہے

سورج ہے روشنی کی کرن اس جگہ ملالؔ

وسعت میں کائنات اندھیرے کا جال ہے

♦♦♦ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top