تحقیق و تنقید: علی احمد

Untitled design

بانو قدسیہ کا یہ ناول 1981 میں شائع ہوا۔ یہ دور مارشل لا کا دور تھا۔ ہر طرف گھٹن کا سماں تھا۔ لیکن مذہبی فکر پہ مبنی تحریریں  قابلِ قبول تھیں ۔ اس لیے اس ناول کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کچھ مذہبی تصورات کی بنا پہ ناول معرکتہ الآرا ٹھہرا۔ یہ ایک ایسا فلسفیانہ ناول ہے جو تخلیقی طور پر بہت جاندار لیکن نظریاتی طور پہ ذرا کمزور ہے۔

ایسا شاید اس لیے ہے کہ بانو قدسیہ نے انسانوں کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا روحانی حل پیش  کیا ہے۔ البتہ یہ نظریہ کوئی ایسا انوکھا بھی نہیں کہ روحانیت کا انسانی معاشرے میں کیا کردار ہو سکتا ہے اور یہ کیسے ہمارے لیے سود مند ہے۔ جب ہم اس ناول کو ادبی نظر سے دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک بہت مضبوط تخلیقی تجربہ ہے۔ اور کہانی اپنا اثر لازمی چھوڑتی ہے۔

ناول کا موضوع:

یہ ناول اپنے نام کے حساب سے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ‘راجا’ اور ‘گدھ’۔ راجا ہندی میں بادشاہ اور گدھ  اردو زبان کا لفظ ہےیہ ایسا پرندہ جو مردار کو کھاتا ہے۔ بانو قدسیہ نے راجا گدھ کو علامتی طور پہ استعمال کیا ہے۔ اس ناول کی دو بنیادی کہانیاں متوازی آگے بڑھتی ہیں۔ ایک طرف جنگل میں راجہ گدھ اپنی سلطنت کے معاملات کو دیکھ رہا ہے اور دوسری طرف انسان اپنی زندگی کی گنجلکوں کو سلجھانے کی سعی کرتا دکھائی دیتا ۔لیکن راجہ گدھ استعارہ ہے انسانی سرشت کا ۔۔۔ اس ناول کا موضوع ، گدھ کی مردار کھانے کی جبلت کو انسان کی جبلت کے لیے ایک علامت کے طورپر استعمال کیا ہے۔  مجموعی طور پر کہانی کئی نظریات کے گرد گھومتی ہے۔  راجہ گدھ کو کئی حصوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

2

عشقِ لاحاصل:

سیمی، قیوم، آفتاب اور پروفیسر سہیل، یہ چاروں کردار کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ سیمی، اس گھرانے کی لڑکی ہے جو عیش و عشرت میں پلی بڑھی ہے لیکن گھریلو زندگی کی ناچاقیوں اور بے توجہی کا شکار ہےاس صورتحال میں محبت نا آسودہ خواہشات کامداوا کرتی ہے۔  سیمی اور قیوم عشق لاحاصل کا شکار ہوتے ہیں۔  قیوم دیہاتی پس منظر کا نوجوان ہے جو تعلیم کی غرض سے شہر میں مقیم ہے۔قیوم سیمی شاہ سے محبت کرتا ہے اور سیمی، آفتاب کی محبت میں گرفتار ہے۔ آفتاب قالین ساز گھرانے کا دولت مند خوش شکل نوجوان ہے۔

آفتاب خاندانی مجبوریوں کو آڑ بنا کر کسی اور سے بیاہ رچا لیتا ہے۔ پروفیسر سہیل ان میں "کیٹالسٹ” کا کام کرتا ہے وہ اپنے نظریات سے سیمی اور قیوم کو متاثر کر چکا ہے۔   آفتاب کی شادی کے بعد سیمی واپس قیوم کی طرف پلٹتی ہے اور قیوم سے محض اس لیے مراسم بڑھا  لیتی ہے کہ قیوم اور آفتاب ہوسٹل فیلو تھے اور لازماً ان کا آپس میں جنسی تعلق رہا ہو گا۔  لیکن یہ حربہ بھی عشقِ لاحاصل کے نتائج سے اسے محفوظ نہ رکھ سکا اور بالآخر سیمی خود کشی کر لیتی ہے جبکہ قیوم لامتناہی تجسس کی راہ پہ گامزن زندگی کی ٹھوکریں کھاتا اپنی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔

  عشق لاحاصل اسے لا منتاہی تجسس کی طرف دھکیلتا ہے لیکن جو راہ وہ اختیار کرتا ہے وہ ایسی دلدل ہے جس میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ زندگی کے دوسرے دور میں اس کی ملاقات عابدہ سے ہوتی ہے۔ جس میں وہ اپنی محرومیوں کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور جسم کی غلام گردشوں میں بھٹک جاتا ہے۔ قیوم معاشرے کا وہ کردار ہے جس کی شومئی قسمت دیکھیے کہ وہ جس عورت کی طرف بڑھتا ہے وہ پہلے سے ہی کسی اور کی ہو چکی ہوتی ہے اور یوں گدھ کی علامت اس پہ صادق آتی ہے۔

رزقِ حرام حلال کا تصور:

تیسرا نقطہ رزقِ حرام حلال کا تصور ہے اور تھیوری یہ ہے کہ حرام حلال کا ہماری جینز پہ اثر ہوتا ہے وہ اگر نسلوں تک منتقل بھی ہوتی ہیں۔ پوری کہانی اسی نقطے کی تلاش میں ہے۔ قیوم بھی جو یہ حرام خوری کرتا ہے اس کی جینز میں بھی  کہیں کہیں یہ پہلے سے موجود ہے۔ حرام انسان کو دیوانگی کی طرف لے جاتا ہے اور دیوانگی موت کی طرف۔۔۔ سیمی شاہ کا کرادر اس پہ گواہ ہے۔

قیوم گدھ جاتی کا فرد ہے۔ جو مردار پہ پلتا ہے جو کسی اور کا نوچہ ہوا کھاتا ہے کیونکہ خود شکار کرنے کی نا اس میں ہمت ہے اور نہ اس کی سرشت میں یہ شامل ہے۔  اب اس کی ملاقات امتل سے ہوتی ہے جو حرام پہ پلٹی ہے اور حرام ہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہے اور قیوم جو خود بھی روح کا حرام کھانے والوں میں شامل ہے امتل پہ جھپٹتا ہے۔  اب کی بار امتل قتل ہو جاتی اور قیوم ایک بات پھر کسی اور مردار کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔

اب کی بار وہ سوچتا ہے کہ شادی یعنی حلال شے ہی اس کے لیے بہتر ہو گئی  جسکا مشورہ اسے امتل دے چکی ہوتی ہے کہ تم کسی باکرہ لڑکی سے شادی کر لو۔لیکن وہ بھی اسے راس نہ آئی کیونکہ اس کی تمام زندگی حرام پہ گزری تھی۔ وہ باکرہ لڑکی کی  تلاش میں ایک ایسی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے جو اپنے محبوب سے حاملہ ہوتی ہے۔ یوں پھر حرام ،حرام سے جا ملتا ہے۔ یوں قیوم کو اسے طلاق دے کے آزاد کرنا پڑتا ہے۔

ناول کا اختتام:

کہانی اپنے انجام کو آفتاب کی پاکستان واپسی پر اس کے بیٹے کی حالت پر ختم ہوتی ہے جہاں وہ اپنے بیٹے کو پاگل پن کی کیفیت میں لے کر آتا ہے ۔ اب  وہ  اپنے بیٹے کی اس حالت ِ دیوانگی کو دیکھ کر اذیت و کرب تا عمر برداشت کرے گا جو اس کا سیمی کے ساتھ کی گئی زیادتی کا مکافاتِ عمل ہے۔  یوں کہانی دائرے میں مکمل ہوتی ہے۔

خوبیاں اور خامیاں:

ہر ناول بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔  ‘راجہ گدھ’ کی پہلی خوبی کہانی کی روانی ہے جو قاری کو پوار ناول پڑھنے پہ راغب کرتی ہے۔ بانو قدسیہ کو کہانی سنانے کا فن آتا ہے۔ ان کی تحریر قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔

دوسری خوبی کہانی میں کرداروں کو برتنے کا طریقہ ہے جس سے کہانی رومانوی  بھی ہو جاتی لیکن اپنے اصل موضوع سے رو گردانی نہیں کرتی۔  اس کی تیسری خوبی’ سوشل رئیلزم ‘ہے۔  کہانی محض تفریح اور رومانس پہ مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ایسی تخلیق ہے جو سماجی اور نفسیاتی  بصیرتوں پہ بحث کرتی ہے۔  چوتھی خوبی ‘گدھ’ کا استعارہ ہے۔ جو تہہ در تہہ اور پُر معنی ہے۔  بانو نے گدھ کا ستعارہ تخلیق کر کے اسے انسانی نفسیات سے جوڑا ہے۔ اس کے علاوہ نئی تشبیہات  سے متعارف کروایا ہے۔ جو قاری کو متحیر کرتیں ہیں۔

‘راجہ گدھ’ کی پانچویں خوبی یہ ہے کہ اس میں انسانی نفسیات اور جنسیات کے بارے میں بڑی دلیری سے تبادلہ خیال کیا  گیا ہے ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ سب ان کے مشاہدے کی باتیں ہیں۔  اس کے علاوہ   یہ ناول ادب کے قاری کیلیے ایک اہم کتاب ہے۔

مشرقی روحانیت:

اس ناول میں ایک بحث طلب بات  یہ ہے کہ بانو قدسیہ مشرقی روحانیت کی داعی ہیں ۔ اور ان کا یہ خیال ہے کہ اگر انسان کی باطنی آنکھ کھل جائے تو اس کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب روحانیت ایک ایسا موضوع ہے جو تہہ در تہہ کئی معنی و مفاہیم رکھتا ہے۔ جسے تمام پہلوؤں کو ایک ناول میں سمیٹنا نا ممکن ہے۔ اس لیے اس حوالےسے تشنگی باقی رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ  بانو کا ایمان ہے کہ حرام کھانے  سے اجتماعی دیوانہ پن جنم لیتا ہے۔  اب یہ حرام کھانا کھانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اطلاق جنسی رویوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس پہ سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے گو کہ کہانی میں اسے کافی حد تک ثابت کر دیا گیا ہے۔

خلاصہ تحریر:

مختصراً،  مصنفہ کا سلوب بیاں سادہ اور عام فہم ہے۔ گو کہ اسے علامتی ناولوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے لیکن یہ ناول مکمل طور پر علامتی نہیں، اس کا استعارہ عام فہم ہے جو قاری تک با آسانی پہنچ جاتا ہے۔ یہ فکر انگیز پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اصلاحی ،نفیساتی، سماجی اور کلاسیکل ناول ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top