تعارف 

 حکیم، ماہرِ نجوم اور ممتاز غزل گو شاعر مومن خاں مومنؔ  کا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام محمدمومن تھا۔ مومن ،دہلی کے کوچہ چیلان میں 18؍جنوری 1801ء میں پیدا ہوئے۔ 1851ء میں وہ کوٹھے سے گر کر بری طرح زخمی ہو گئے تھے اور پانچ ماہ بعد 14؍مئی 1852ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔


مومن خاں مومن شاعری

momin khan momin poetry

(منتخب کلام)

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

♦♦♦ 

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

♦♦♦ 

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

♦♦♦ 

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں

قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

♦♦♦ 

تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب

وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب

♦♦♦ 

چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

♦♦♦ 

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی

آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

♦♦♦ 

اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل

میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

♦♦♦ 

ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں

اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے

♦♦♦ 

اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

♦♦♦ 

الجھا ہے پانوں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

♦♦♦ 

مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ

بدنامئ عشاق کا اعزاز تو دیکھو

♦♦♦ 

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ

دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

♦♦♦ 

اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں

دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں

♦♦♦ 

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

♦♦♦ 

ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی

ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ

♦♦♦ 

رازِ نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا

کیا ایک بھی ہمارا خط یار تک نہ پہنچا

♦♦♦ 

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے

♦♦♦ 

بے خود تھے غش تھے محو تھے دنیا کا غم نہ تھا

جینا وصال میں بھی تو ہجراں سے کم نہ تھا

♦♦♦ 

محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا

رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آ گیا

♦♦♦ 

ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار

ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں

♦♦♦ 

کل تم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چرا گئے

کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

♦♦♦ 

اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو

زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو

♦♦♦ 

سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا

آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا

♦♦♦ 

مومنؔ میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں

اس کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب

♦♦♦ 

گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے ایک حرف غلط

لیکن اٹھے بھی تو اک نقش بٹھا کر اٹھے

♦♦♦ 

اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو

یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو

♦♦♦ 

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

♦♦♦ 

غزلیات

دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے

فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

 

تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں

اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے

 

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے

ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

 

ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم

لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

 

کر کے زخمی مجھے نادم ہوں یہ ممکن ہی نہیں

گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے

 

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے

 

ہم نکالیں گے سن اے موج ہوا بل تیرا

اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے

 

صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں

چارہ فرما بھی کبھی قیدئ زنداں ہوں گے

 

منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی

زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے

 

تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے

گل نہ ہوں گے شرر آتش سوزاں ہوں گے

 

غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم

کیا کہیں اس کے سگ کوچہ کے قرباں ہوں گے

 

داغ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ

یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے

 

چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں

ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے

 

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی

پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے

 

سنگ اور ہاتھ وہی وہ ہی سر و داغ جنون

وہ ہی ہم ہوں گے وہی دشت و بیاباں ہوں گے

 

عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومنؔ

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

♦♦♦ 


اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا

مشکل پڑا مرا مرے قاتل کو تھامنا


تاثیر بیقراری ناکام آفریں

ہے کام ان سے شوخ شمائل کو تھامنا


دیکھے ہے چاندنی وہ زمیں پر نہ گر پڑے

اے چرخ اپنے تو مہ کامل کو تھامنا


مضطر ہوں کس کا طرز سخن سے سمجھ گیا

اب ذکر کیا ہے سامع عاقل کو تھامنا


ہو صرصر فغاں سے نہ کیونکر وہ مضطرب

مشکل ہوا ہے پردۂ محمل کو تھامنا


سیکھے ہیں مجھ سے نالۂ نے آسماں شکن

صیاد اب قفس میں عنادل کو تھامنا


یہ زلف خم بہ خم نہ ہو کیا تاب غیر ہے

تیرے جنوں زدے کی سلاسل کو تھامنا


اے ہمدم آہ تلخی ہجراں سے دم نہیں

گرتا ہے دیکھ جام ہلاہل کو تھامنا


سیماب وار مر گئے ضبط قلق سے ہم

کیا قہر ہے طبیعت مائل کو تھامنا


آغوش گور ہو گئی آخر لہولہان

آساں نہیں ہے آپ کے بسمل کو تھامنا


سینہ پہ ہاتھ دھرتے ہی کچھ دم پہ بن گئی

لو جان کا عذاب ہوا دل کو تھامنا


باقی ہے شوق چاک گریباں ابھی مجھے

بس اے رفوگر اپنی انامل کو تھامنا


مت مانگیو امان بتوں سے کہ ہے حرام

مومنؔ زبان بیہودہ سائل کو تھامنا

♦♦♦ 


رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح

اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح


آتا نہیں ہے وہ تو کسی ڈھب سے داؤ میں

بنتی نہیں ہے ملنے کی اس کے کوئی طرح


تشبیہ کس سے دوں کہ طرح دار کی مرے

سب سے نرالی وضع ہے سب سے نئی طرح


مر چک کہیں کہ تو غم ہجراں سے چھوٹ جائے

کہتے تو ہیں بھلے کی ولیکن بری طرح


نے تاب ہجر میں ہے نہ آرام وصل میں

کم بخت دل کو چین نہیں ہے کسی طرح


لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی

قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اسی طرح


پامال ہم نہ ہوتے فقط جور چرخ سے

آئی ہماری جان پہ آفت کئی طرح


نے جائے واں بنے ہے نہ بن جائے چین ہے

کیا کیجیے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح


معشوق اور بھی ہیں بتا دے جہان میں

کرتا ہے کون ظلم کسی پر تری طرح


ہوں جاں بہ لب بتان ستم گر کے ہاتھ سے

کیا سب جہاں میں جیتے ہیں مومنؔ اسی طرح

♦♦♦ 


شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے


پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا

ہم جان سے عناں بہ عنان صدا گئے


پھیلی وہ بو جو ہم میں نہاں مثل غنچہ تھی

جھونکے نسیم کے یہ نیا گل کھلا گئے


اے آب اشک آتش عنصر ہے دیکھنا

جی ہی گیا اگر نفس شعلہ زا گئے


مجلس میں اس نے پان دیا اپنے ہاتھ سے

اغیار سبز بخت تھے ہم زہر کھا گئے


اٹھا نہ ضعف سے گل داغ جنوں کا بوجھ

قاروں کی طرح ہم بھی زمیں میں سما گئے


غیروں سے ہو وہ پردہ نشیں کیوں نہ بے حجاب

دم ہائے بے اثر مرے پردہ اٹھا گئے


تھی بد گمانی اب انہیں کیا عشق حور کی

جو آ کے مرتے دم مجھے صورت دکھا گئے


تابندہ و جوان تو بخت رقیب تھے

ہم تیرہ روز کیوں غم ہجراں کو بھا گئے


بیزار زندگانی کا جینا محال تھا

وہ بھی ہماری نعش کو ٹھوکر لگا گئے


واعظ کے ذکر مہر قیامت کو کیا کہوں

عالم شب وصال کے آنکھوں میں چھا گئے


جس وقت اس دیار سے اغیار بوالہوس

بد خوئیوں سے یار کے ہو کر خفا گئے


دنیا ہی سے گیا میں جوں ہی ناز سے کہا

اب بھی گمان بد نہ گئے تیرے یا گئے


اے مومنؔ آپ کب سے ہوئے بندۂ بتاں

بارے ہمارے دین میں حضرت بھی آ گئے

♦♦♦ 


وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو

وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم

گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی

تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا

سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی

تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا

وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا

میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

♦♦♦ 

مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top