غزل کا سودائی رنگ

 اردو  شاعری کا چمن جن خوش رنگ اور معطر گلوں سے مزین ہے۔ ان  میں اگر مرزا محمد رفیع سودا کا ذکر نہ کریں تو تمام رنگ پھیکے اور فضا بوجھل معلوم ہو گی۔میری کہا ں یہ مجال کہ میں ان کی مدح سرائی میں کچھ کہوں،خود میر تقی میر جنہیں تمام بڑے شاعر، بڑا شاعر گردانتے ہیں۔جب ان سے کسی نے پوچھاــــ ـ،ــ”کیوں حضرت !  آج کل شاعر کون کون ہے؟ فرمایا ایک تو یہ خاکسار ۔دوسرا سودا۔”(۱)

میرا موضوع سخن سودا کی غزل ہے لیکن اس سے پہلے سودا کے زندگی نامے سے  واقفیت اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ کسی بھی فنکار کا فن اس کے حالات کا پر تو ہوتا ہے ۔غبار زندگی ،نکھار فن بن کر ابھرتا ہے۔ بہر طور شاعر کا حسن خیال کہیں نہ کہیں  اس کے حالات سے ہی نمود  پاتا ہے،جیسے کنول کا پھول۔۔۔  

آپ کا نام مرزا محمد رفیع  تھا۔سودا تخلص فرماتے۔  ا ٓبائو اجداد کابل کے رہنے والے تھے ۔والد مرزا محمد شفیع کا کاروبار زندگی تجارت تھا۔بغرض تجارت ہندوستان کا رخ کہا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔دلی میں مقیم ہوئے ۔ یہیں اس نور چشم کی ولادت ہوئی جس نے بعد ازاں  اپنا ہونا بحثیت عظیم شاعر منوایا۔مقام پیدائش تو سب کو معلوم لیکن سن پیدائش ابھی بھی معمہ ہے، جمیل جالبی نے مختلف تذکرہ  نگاروں کے بتائے ہوئے سال پیدائش پر بحث کر کے سن ولادت 1706ء متعین کیا ہے۔(۲)

سودا کی آنکھ جس زمیں پر کھلی تھی اس کی سرشت میں اتنی زرخیزی ضرور تھی کہ  وہ اس بیج کو نمود بخشے  اور ایک گھنا ، سایہ دار شجر بنا سکے۔ آپ نے مختلف علوم و فنون ، طب،منطق،فلسفہ،علم الکلام،نجوم،ہیئت،عربی و فارسی،ادب و انشاء گو کہ سب ہی آپ کے شوق کا مرکز بنے۔

مرزاؔکی طبعیت شگفتہ،ٓزاد مزاجی اور تفریح پسندی کی طرف مائل تھی۔ آپ نے کچھ عرصہ ملازمت بھی کی لیکن یہ مزاج آڑے آگیا اور ملازمت سے کنارہ اختیارکرلیا۔  

سودا  شعرو سخن کی جانب متوجہ ہوئے تو سب سے پہلے سلیمان قلی خان داود کے شاگرد ہوئے اور پھر شاہ حاتم کی شاگردی اختیار کی۔مرزا کے سخن کا ستارہ اپنی اوج پہ تھا کہ آپ کے استاد شاہ حاتم نے اپنے دیوان کی تدوین کی تو شاگردوں کے ناموں میں سودا کا نام سرفہرست لکھا،اس بات نے آپ کی شہرت کو مزید چار چاند لگا دییـــ۔ آپ نے سب سے پہلے فارسی میں شعر کہنا شروع کیے لیکن پھرخان آرزو کے کہنے پر اردو کی جانب راغب ہوئے۔مرزا کا طبعی رجحان قصائداور ہجویات کی جانب تھا

دہلی نے بہت سے شاعر اور شاعر گر پیدا کیے۔لیکن دہلی کے جب حالات خراب ہوئے تو آپ نواب عمادالملک کے ہمراہ فرخ آباد چلے گئے،کچھ مدت فرخ آباد میں گزارنے کے بعدسودا فیض آباد پہنچے تو وہاں نواب شجاع الدولہ نے آپ کی خوب خاطر مدارت کی، بعد ازاں نواب آصف الدولہ کے دور میں  اطمینان اور فارغ البالی کی زندگی گزاری،چھ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر تھا۔ سودا  نہ مفلس تھے اور نہ ہی صوفی۔باپ سے خاطر خواہ دولت وراثت میں ملی تھی ،مجموئی طور پر زندگی بڑی فراغت سے گزری،سو طبعیت میں شوخی اور شخصیت میں  اعتماد کا ہونا لازم تھا۔میر تقی میر نے اپنے تذکرہ میں سودا کوــــــــــ ــ  "خوش خلق،خوش خو،گرم جوش،یار باش اور شگفتہ رو لکھا ہے۔”(۳) شاعری کا دیوان لکھتے لکھتے آخر کار یہ رجل با مراد  1781ء کو اپنی زندگی کا دیوان بند کیے اس دنیا سے کوچ کر گیا۔

  غزل کی بات

مرزا محمد رفیع سودا ایک ہمہ رنگ اور ہمہ جہت شاعر تھے۔انہوں نے غزل ،قصیدہ،مرثیہ،مثنوی،رباعی،قطعہ،مسدس،اور مخمس میں اپنی شاعری کے رنگ بھرے۔سودا کو بنیادی طور پر قصیدہ کا شاعر کہا جاتا ہے،یہ بجا کہ سودا کا قصیدہ ان کی پہچان بنا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس زمانے کے تمام روایتی موضوعات کواس کمال فن سے غزل کے پیرہن میں ڈھالا ہے کہ آج بھی  جہاں میر تقی میر کا نام آئے گا سودا کا ذکر  بھی ہو گا۔  اور شیفتہ کا جملہ سنیے۔۔۔!

                             "ان کا قصیدہ غزل سے بہتر ہے اور غزل قصیدے سے بہتر ہے۔”(۴)

اور اس پہ سودا کا اپنا شعر دلیل ہے۔

        وہ  جو کہتے ہیں کہ سودا کا  قصیدہ ہے خوب

       ان کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جائوں گا

سودا کی غزل پہ بات کی جائے تو تذکرہ نگا کہتے ہیں کہ سودا کی غزل واردات قلبیہ سے سراسر خالی ہے۔ان کا انداز بیانیہ اور رنگ خارجی ہیوہ اپنے اندر گہرا نہیں اترتے،اس لیے ان کا کلام  کانوں میں گونج تو پیدا کرتا ہے لیکن رگ جاں میں نہیں بہتا۔اور سند کے طور پر بیانِ واقعہ کی یہ صورت دیکھیے۔

شیخ نے اس بت کو  جس کوچے میں دیکھا شام کو

لے چراغ اب ڈھونڈے ہے واں تا سحر اسلام کو

اور

 عشق سے تو نہیں ہوں میں واقف

 دل کو  شعلہ  سا  کچھ  لپٹتا ہے

♦♦

  اتنا  تو نہیں وہ جو  تیرا  حال  ہے  سودا

کیا جانیے تو نے اسے کس حال میں دیکھا

 جو احباب سودا کی شاعری کو واردات قلبیہ سے عاری جانتے ہیں ان کے جواب میں عبدالباری آسی کا یہ جملہ قابل غور ہے۔

ٌٌٌٌٌ”ایسے استاد جن کا ایک زمانہ  لوہا مانے ہوئے ہے ان کا کلام کیونکر واردات قلبیہ سے خالی ہو سکتا ہے۔سر سے پائوں تک جذبات ہی جذبات ۔اور ادھر سے اُدھر تک واردات ہی واردات ہے۔”(۵)

 سودا کا اسلوب  منفرد نہیں ہے جیسا کہ میر کاہے۔لیکن سودا کی غزل کو جو شے ہمہ رنگ  بناتی ہے ان کا موضوعاتی تنوع ، الفاظ کا چنائو اور بیان کی شوخی ہے۔ مرزا نے بھی اپنے زمانے کے انہی موضوعات کو  غزل کا حصہ بنایا جو دیگر نامور شعراء کے ہاں رائج تھے۔کہاجاتا ہے کہ سودا کے کلام میں درد نہیں ہے،ہاں یہ سچ ہے کہ مرزا صرف حزن و یاس کی تصویر نہیں بنتے، رنگینی بیان کا بھی خیال رکھتے ہیں۔لیکن یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔

 چھیڑ مت باد بہاری کہ میں جوں نکہت گل

 پھاڑ کر کپڑے ابھی گھر سے نکل جائوں گا

♦♦

سودا  خدا  کے واسطے کر قصہ مختصر

اپنی تو نیند اُڑ گئی تیرے فسانے میں

♦♦

ظالم میں کہہ رہا تھا اس خوں سے در گزر

 سودا کا خون ہے  یہ چھپایا نہ جائے گا

اس طرح کے سینکڑوں اشعار سودا کے دیوان  میں موجود ہیںجو  درد کے مارے کراہ رہے ہیں ۔   

مضمون و موضوع

سودا نے ہر اس موضوع کو شعر کے قالب میں سمویا ہے جو اردو شاعری کا خاصا مانے جاتے ہیں ،خواہ وہ حسن و عاشقی ہو یا زاہد و شیخ،فکرِ دوراں ہو  یا تصوف ۔

بقول قاضی افضال حسین،

                      "سودا کی ترجیحات ہم عصر شعراء سے مختلف ہیں۔مثلاً وہ”عشق” کو میر کی طرح ایک واردات یا درد کی طرح ایک ما بعدلاطبیعاتی تصور نہیں سمجھتے۔ان کے نزدیک  یہ گوشت پوست کے دو وجودکے درمیان ربط کی ایک مخصوص نوعیت ہے۔سودا کے اشعار میں محبوب کی صفات  سے زیادہ اس کے اعضاء کی تعریف کی گئی ہے۔”(۶)

 آئے جو بزم میں تو اُٹھا چہرے سے نقاب

 پروانے کو  ہی شمع  سے  بیزار کر چلے 

اور

دیکھے اگر صفائے  بدن کو  تیری  قبا

 کھولے کبھو نہ شرم سے بند قبائے گل    

سودا محبوب کے حسن کا بیاں کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بجز یار کے سب گماں ہو،وہی ہے جس کا حسن اس جہاں کو روشن کیے ہوئے ہے۔جس کا رخِ زیبا صبح کی نوید  ہے ،جس کی مژگاں کا اٹھنا زندگی کی علامت ہے۔چند شعر پیش خدمت ہیں:

  کیا تاب ہے جو منہ پہ تیرے آوے آفتاب

  دیکھے  تو بھر  نگاہ  تو جل جاوے آفتاب

  دیکھے جو منہ تیرا تو یہ کہتا ہے شرم سے

  یا رب پھٹے زمیں تو سما جاوے آفتاب

♦♦

او ر تیغِ نگاہ کا سِحر تو دیکھے۔۔

بلبل  چمن  میں تیغِ نگاہ کس کی چل گئی

  جس گل کو دیکھتا ہوں سو  زخموں سے چور ہے

♦♦

  کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے  سودا

 ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ، چلا میں

سودا کی حسن و عشق کی شاعری میں آفاقیت کا رنگ ہے۔

  سودا نے اپنے یار سے چاہا کہ کچھ کہوں

 ایسی کی نگاہ کی رہی من کی من کے بیچ

سودا بھی جب شیخ و زاہد سے مخاطب ہوتے ہیں تو ان کے انداز میں گہرا طنز ہوتا ہے۔ان کی کبھی ان کرداروں سے نہیں بنی،جب بھی انہیں موقعہ ملتا ہے چھیڑ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ان  اشعار میں ذرا  مرزا کے تیور تو دیکھیے۔

  دکھائوں گا تجھے زاہد اس آفتِ جاں کو

  خلل دماغ میں ہے تیرے پارسائی کا

♦♦

   کیا جانیے شیخ کعبہ گیا یا سوئے دیر

   اتنا تو جانتے ہیں کہ پیمانہ لے گیا

سودا کو زاہد و شیخ کی پارسائی پہ بھی شک ہے ان کے خیال میں یہ سب بہروپ ہیںنقلی لبادے اوڑھے ہوئے ہیں۔ان کے خیال میں پارسائی صرف ظاہر کی بات نہیں، کہیں اندر کا معاملہ ہے۔  

   کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ   

   کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا  

دل کا کعبہ تو مسمار ہوتا رہتا ہے ۔جس کے دوبارہ تعمیر ہونے کا بھی امکان نہیں اور اے  شیخ تجھے کعبہ کے ٹوٹنے کا غم ہے،حیرت ہے! سودا  شیخ کو دلیل سے سمجھانے کی کوشش میں ہیں کہ دلوں کے ٹوٹنے  کاغم کھائو ، اصل کعبہ تو یہ دل ہیں۔

لو جی !اب ناصح کی شامت آ گئی،جسے ہر دم ،وقت بے وقت  دوسروں کی اصلاح کا خمار چڑھا رہتا ہے۔کبھی میخانے سے روکتا ہے کبھی کوئے یار میں دیوار بن جاتا ہے۔سودا بھی ناصح سے نالاں دکھائی پڑتے ہیں۔

    بدنام تو عبث مجھے  کرتا ہے ناصحا

    مدت ہوئی بتوں سے سروکار اُٹھ گیا

♦♦

    تیرے سخن کو میں  بسروچشم  ناصحا

     مانوں ہزار بار اگر دل سے بس چلے

سودا کتنے میٹھے لب و لہجے میں ناصح کی بات کو ٹالتے ہیں کہ سخن تو تمھارہ قبول لیکن دل کو نہیں لگتا۔اب دور رہو تو بہتر ہے۔۔۔۔۔!

تصوف

سودا کے ہاں تصوف بہت کم کم ملتا ہے،زندگی بڑی خوش باش گزری تھی اور مزاج میں بھی شوخی تھی اس لیے اس طرف رجحان کم ہی رہا۔سودا کی نظر کثرت کی تماشائی تھی،جبکہ تصوف کثرت میں یک رنگی دیکھنے کا نام ہے۔لیکن سودا کے ہاں چند اشعار ایسے ملتے ہیںجن کا رخ مجاز سے حقیقت کی جانب ہے جن میں سے تصوف کی خوشبو آتی ہے۔ بْقول ڈاکٹر نفیس اقبال،

            "سودا کے قطعات میںدنیا کی بے ثباتی،استغنا اختیار کرنے کی تلقین،لالچ سے گریز کرنے جیسے صوفیانہ  خیالات ملتے ہیں”(۷)

  بھلاگل تُو تو ہنستا ہے ہماری بے ثباتی پر

   بتا روتی ہے کس کی ہستی موہوم پر شبنم

   اس دور کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا احساس شدت سے ملتا ہے  تو سودا بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ 

    خواہش جنہیں ہے ملک کی ان کو نہیں یہ فہم

     دو گز  زمیں  نداں  تِہ سنگ ہے  وسیع

خالص تصوف کا خیال ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں تو کیوں ہم محل سرا کی تمنا کرتے ہیں۔

اسلوب و فن

مرزا  سودا  کے اشعار میں الفاظ  بلحاظِ معنی اس طرح  پیوست ہیں کہ  انکی معنویت  میں ربط ہے۔ بیان میں دلکشی  اور سادگی ہے،لب و لہجہ نرم اور صوتی آہنگ موجود ہے۔سودا جا بجا تشبیعات اور استعاروں کا استعمال کرتے ہیں۔تلمیحات  اور امیجری  بھی آپ کے اشعار کا اہم حصہ ہے۔

  برق دیکھی ہو جس نے سو جانے

   مجھ دل بے قرار کی صورت

اور

   آدم  کا  جسم جب عناصر  سے مل بنا

   کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا

پہلے شعر میں سودا نے  دلِ بے قرار کو  برق سے تشبیع دی ہے، اور دوسرے میں آگ استعارہ ہے دل کا۔شدت ِ جذبات کو بیان کرنے کا کیا خوب انداز ہے۔اور الفاظ کے چنائو میں  ایک  جمالیاتی ترتیب ہے ۔

   بولا وہ جسے تیری تصویر نظر آئی

    یہ خواب زلیخا کی تصویر نظر آئی

اس شعر میں  سودا محبوب کے حسن کو  زلیخا سے سے تعبیر کرتے ہیں،ٓپ نے تلمیحات کو بارہا استعمال کیا ہے۔غزل گوئی کے بنیادی عناصر میں  پیکر تراشی اہم جزو ہے۔اور سودا نے خوب نبھایا ہے۔

   لختِ جگر کو  یارو  دیکھو  میری مژہ  پر

    اب دار ہے تو یہ ہے ،منصور ہے تو یہ ہے

"کہتے ہیں سودا خیال بندی اور مضمون آفرینی میں بیدل سے متاثر تھے”(۸) سودا کی اشعار میں ایک صوتی آہنگ بھی سننے کو ملتا ہے،جیسے۔

   اب تو اسے دل دے چکا سودا 

   آگے قسمت ہے ہوتی ہو سو ہو

♦♦

  پوچھا کسی نے مارا تُو سودا کو کس لیے

   بولا مجھے  وہ گھورے تھا ہر آن

یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تمام الفاظ آپس میں ازل سے پیوسط ہیں۔آپ کے لب ولہجہ میں شدت نہیں نرمی ہے۔بیان سادہ اور دلکش ہے،یہ اشعارملاحظہ فرمائیے۔

    جاں تو حاضر ہے اگر چاہیے

    دل تجھے دینے کو جگر چاہیے

♦♦

    ہزار قول کریںیہ نباہ کا سودا

   مجھے بتاںکی صحبت کا اعتبار نہیں

♦♦

   یارو  وہ جو شرم سے نہ بولا تو کیا ہوا

   نظروں میں سو طرح کی حکایات ہو گئی

ان تمام اشعار میں سودا نے بالکل سادگی سے تمام مدعا بیان کر دیا  ہے،اور بات  میں کوئی الجھائو پیدا نہیںکیا۔شیخ چاند لکھتے ہیں،

"سودا کے ذخیرہ غزل پر نظر ڈالی جائے تو وہ بلحاظ مضامین و موضوعات اور بلحاظ زبان و اسلوب خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ اس کی غزل بھی انہین مروجہ رسمی مضامین و لوازمات کی حامل ہے جو فارسی غزل کی تقلید سے اردو میں رس بس گئے تھے۔ـ”(۹)

♦♦

کتابیات

۱۔  دیوانِ میر،لاہور،فیروز سنز،طبع اول،۲۰۱۰ء،ص۳۳

۲۔  نفیس اقبال،ڈاکٹر،اردو شاعری میں تصوف۔میر،سودا  اور درد کے عہد میں،لاہور،سنگِ میل پبلیشر،۲۰۰۷ء،ص ۱۷۳

۳۔  افضال حسین،قاضی،مرزا محمد رفیع سودا،نیو دہلی،ساہتیہ اکادمی،طبع اول،۱۹۹۰ء، ص۳۳

۴۔ رضیہ شیریں،”سودا کی غزل”مقا لہ  ایم۔اے اردو،پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج،لاہور،۱۹۶۱ء

۵۔ آسی،عبدالباری،مقدمہ کلیات سودا،

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top