تعارف

پنڈت بھگت رام کے بیٹے اور  پنڈت جے داس کے پوتے،ناول نویس ،شاعر،صحافی اورحکومت پنجاب سے راج کوی کاخطاب پانے والے  پنڈت میلہ رام،میلہ رام وفاؔ  کےنام سےجانےجاتےہیں۔

26، جنوری 1895ء کو سیالکوٹ  میں پیداہوئے۔19 ؍ستمبر 1980ء کو انتقال کر گئے۔


میلا رام وفا شاعری(منتخب اشعار)

اک بار اس نے مجھ کو دیکھا تھا مسکرا کر 

اتنی تو ہے حقیقت باقی کہانیاں ہیں

♦♦♦ 

گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی

تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی

♦♦♦ 

برسوں سے ہوں میں زمزمہ پردازِ محبت

آئی نہ جواباً کبھی آواز محبت

♦♦♦ 

کہنا ہی مرا کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ بھی تمہیں دھوکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

♦♦♦ 

اتنی توہین نہ کر میری بلا نوشی کی

ساقیا مجھ کو نہ دے ماپ کے پیمانے سے

♦♦♦ 

عالم ہے ترے پرتو رخ سے یہ ہمارا

حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں

♦♦♦ 

تم بھی کرو گے جبر شب و روز اس قدر

ہم بھی کریں گے صبر مگر اختیار تک

♦♦♦ 

دن جدائی کا دیا وصل کی شب کے بدلے

لینے تھے اے فلک پیر یہ کب کے بدلے

♦♦♦ 

جل مرا آگ محبت کی اسے کہتے ہیں

جلنا دیکھا نہ گیا شمع کا پروانے سے

♦♦♦ 

محبت بھی ہوا کرتی ہے دل بھی دل سے ملتا ہے

مگر پھر آدمی کو آدمی مشکل سے ملتا ہے

♦♦♦ 

مجھ پہ پھول چڑھائے کیوں کوئی مجھ پہ شمع جلائے کیوں

کوئی میرے پاس بھی آئے کیوں کہ میں حسرتوں کا مزار ہوں

♦♦♦ 

دیا رشکِ آشفتہ حالوں نے مارا

ترے حسن پر مرنے والوں نے مارا

♦♦♦ 

دیارِ حسن میں پابندیٔ رسمِ وفا کم ہے

بہت کم ہے بہت کم ہے بحد انتہا کم ہے

♦♦♦ 

دعوئ مجذوببیت کیا مجھ سے کرے منصور وفاؔ

بک اٹھنا ہے سہل مگر بکتے جانا سہل نہیں

♦♦♦ 

حلقۂ گرداب ہے گہوارہ‌ٔ عشرت مجھے

ذوقِ آسائش مرا منت کش ساحل نہیں

♦♦♦ 

ہائے عالم شبِ فرقت مری مایوسی کا

دیتی ہے موت کی امید دلاسے مجھ کو

♦♦♦ 

آج اغیار وفاؔ سے نہ الجھ بیٹھے ہوں

طور آتے ہیں نظر بزم طرب کے بدلے

♦♦♦ 

تیرا پردہ بھی اٹھا دے گی مری رسوائی

تیرا پردہ ہے مرے خاک بہ سر ہونے تک

♦♦♦ 

اس دورِ تگ و دو میں وفاؔ کون سنے گا

کتنی ہی دل آویز ہو آوازِ محبت

♦♦♦ 

کسی درد مند کی ہوں صدا کسی دل جلے کی پکار ہوں

جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گئی وہ بہار ہوں

کوئی مجھ پہ پھول چڑھائے کیوں کوئی مجھ پہ شمع جلائے کیوں

کوئی میرے پاس بھی آئے کیوں کہ میں حسرتوں کا مزار ہوں

بھلا مجھ پہ ڈھائیں تو ڈھائیں کیا ستم اب زمانہ کی آندھیاں

میں بجھا ہوا سا چراغ ہوں میں مٹا ہوا سا غبار ہوں

کہوں کیا ہے کیا مری زندگی یہ ہے زندگی کوئی زندگی

وہ ہے دشمن دل و جاں مرا دل و جاں سے جس پہ نثار ہوں

شب و روز لب پہ ہے اے وفاؔ یہ دعا کہ موت ہی دے خدا

جو یہی ہے میرے نصیب میں کہ اسیر‌ دام بلا رہوں

♦♦♦ 

مآخذ:

اردو کلاسک : عمر جاوید خان

https://www.facebook.com/urduclasikshairi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top