انشا پردازی

مضمون نگاری، خوبصورت لکھنے کا فن، نثر نگاری، خوبصورت انداز میں مضمون لکھنا، طرزِ تحریر۔ عبارت آرائی۔ خط لِکھنے کا ڈھنگ۔ عبارت کی خوبی۔ ان سب کو انشا پردازی کہتے ہیں

خطوط نویسی

ہدایات

خط ایک تحریری ملاقات ہے جس سے ہم اپنے اپنے حالات ایک دوسرے کو بتاتے ہیں۔ اسی وجہ سے خط کو” نصف ملاقات”  کہا جاتا ہے۔ اگر چہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پاتے مگر اپنے اور دوسروں کے حالات سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ خط لکھتے وقت ان ہدایات پر عمل کریں:

  •  خط کے آغاز میں پیشانی پر بسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ لکھے۔ 
  •  خط لکھتے وقت یوں سمجھیے کہ آپ جسے خط لکھ رہے ہیں وہ آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے اور آپ کی باتیں غور سے سن رہا ہے۔اس لیے اس کے بڑے یا چھوٹا ہونے کا لحاظ رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے۔
  •  جو کچھ آپ لکھنا یا کہنا چاہتے ہیں وہ مختصر الفاظ میں لکھیں تا کہ اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع نہ ہو۔
  •  خط میں کوئی فضول بات نہ لکھیں۔ مطلب کی باتیں لکھیں اور جو کچھ لکھیں صاف اور خوش خط لکھیں۔
  •   خط کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں مرتب کرنا چاہیے۔ لمبے فقرے اکثر الجھن کا باعث ہوتے ہیں۔ تحریر میں بھدا پن پیدا ہوجاتا ہے۔
  • اسلوب بیان شگفتہ اور بے تکلف ہو۔
  •   علامہ اقبال نے کیا خوب کیا ہے:

دل سے جو بات نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

  • چنانچہ ایک تو خط میں صرف کام کی باتیں لکھنی چاہئیں ، دوسرے تکرار سے بچنا چاہیے اور تیسرے طوالت سے گریز کرنا چاہیے۔
  •  خط کانفس مضمون ایک ہی پیرا گراف کے بجائے حسب ضرورت ایک سے زیادہ پیراگرافوں میں تقسیم ہوتو وہ نظر پر بوجھ نہیں بنتا۔

املا و انشا درست ہو اور حتی الوسع کاٹ چھانٹ سے بچنا چاہیے۔ طلبہ کی رہنمائی کے لیے چند نمونے کے خط شامل کیے جاتے ہیں۔ انھیں بغور پڑھیے اور پھر اسی نداز میں خط لکھنے کی کوشش کیجیے :
خط کی پیشانی کے دائیں طرف اپنا مختصر پتا لکھیے جیسے:
۲۹۱۔ شاد باغ ، منڈی بہاء الدین
اس کے نیچے تاریخ درج کیجیے جیسے: ۵ فروری ۲۰ء


نوٹ: عربی زبان میں خط کو مکتوب لکھنے والے کو کا تب اور جسے خط لکھا جائے اسے مکتوب الیہ کہا جاتا ہے۔

خط کے حصے

عموماً خط مندرجہ ذیل حصوں پر مشتمل ہوتا ہے:
(1) مقام روانگی اور تاریخ (2) القاب (3) آداب و تسلیمات (4) خط کا مضمون (5) اختتام مکتوب (6) کا تب یا خط لکھنے والے کا نام اور پتا (7) 

القاب و آداب

مکتوب الیہالقاب و آدابخاتمہ
والدمحترم ابا جان ! السلام علیکم!آپ کا بیٹا / آپ کی بیٹی
والدہمحترمه امی جان! السلام علیکم !آپ کا بیٹا / آپ کی بیٹی
چچامحترم چچا جان ! السلام علیکم !آپ کا بھتیجا / بھتیجی
چچیمحترمہ چچی جان ! السلام علیکم!آپ کا بھتیجا / بھتیجی
ماموںمحترم ماموں جان ! السلام علیکم!آپ کا بھانجا / بھانجی
ممانیمحترمہ ممانی جان ! السلام علیکم!آپ کا بھانجا / بھانجی
خالومحترم خالو جان ! السلام علیکم!آپ کا فرمانبردار
خالہمحتر مہ خالہ جان ! السلام علیکم!آپ کا فرمانبردار
استاداستاد محترم ! السلام علیکم!آپ کا شاگرد / شاگردہ
دوستپیارے دوست! السلام علیکم!آپ کا صادق
بڑا بھائیمحترم بھائی جان! السلام علیکمآپ کا ننھا بھائی
چھوٹا بھائیپیارے بھائی! السلام علیکم!آپ کا دعاگو
بڑی بہنپیاری آپا جان ! السلام علیکم!آپ کا عزیز بھائی
چھوٹی بہنپیاری بہن ! السلام علیکم!آپ کا بھائی
سہیلیعزیز سہیلی، پیاری سہیلی، سلمیٰ باجی، پیاری فاطمہ! السلام علیکم!آپ کی سہیلی
اجنبیمکرّمی!
محترمی!
شیخ صاحب!
سیّد صاحب!
نیاز مند! خاکسار! خیر اندیش! آپ کا مخلص! خیر طلب
خط

مشقی خطوط کے موضوعات

  1. اپنے بڑے بھائی کو ایک خط لکھے جس میں اپنی چھٹی کے پروگرام کا ذکر کیجیے۔
  2. اپنے دوست کے نام خط لکھیے جس میں کسی ایسی کتاب کا تذکرہ کیجیے جسے آپ نے پڑھا اور اس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو۔
  3. اپنی بہن کے نام ایک خط لکھیے جس میں کسی تاریخی عمارت کی سیر کا حال لکھیے۔
  4.  اپنے دوست کے نام خط میں کوئی ایسا واقعہ بیان کیجیے جس سے آپ کی حاضر دماغی کا اندازہ ہوتا ہو۔
  5.   فرض کیجیے کہ آپ کے چچا جاپان میں ہیں۔ خط لکھ کر ان سے اہل جاپان کے طرز زندگی کے بارے میں پوچھیے ۔
  6.   آپ نے اپنے دوست کو کچھ رقم ادھار دی تھی۔ اب آپ کو ضرورت ہے۔ خط لکھ کر تقاضا کیجیے مگر اس انداز سے کہ آپ کے دوست کو ناگوار نہ ہو۔
  7.  اپنی خالہ کو ایک خط لکھے جس میں یہ بتائیے کہ آپ نے اپنا مکان بدل لیا ہے اور یہ کہ آپ کے نئے محلے دار کیسے ہیں۔
  8. مالک مکان کے نام خط لکھیے جس میں اسے مکان کی مرمت کی طرف توجہ دلائیے۔
  9. سوئی گیس کمپنی کے نام ایک خط لکھیے کہ آپ اپنے گھر میں گیس کا کنکشن لگوانا چاہتے ہیں ۔ اپنی ضروریات کی مکمل تفصیل لکھنا نہ بھولیے۔
  10. کسی فیکٹری کے منیجر کے نام خط لکھے جس میں فیکٹری دیکھنے کی اجازت مانگیے ۔ کسی اخبار کے مدیر کے نام خط لکھ کر ٹریفک کی بدانتظامی کی طرف توجہ دلائیے۔
  11.  اپنے استاد کے نام خط لکھے جس میں اپنی کسی مشکل کے لیے مدد مانگیے۔
  12.  ناراض دوست کو منانے کے لیے خط لکھے۔
  13.  دوست کے نام دوستانہ شکوے کا حامل خط لکھیے۔
  14. اپنی چند پسندیدہ کتابیں منگوانے کے لیے کسی پبلشر کے نام خط لکھیے۔
  15.  بچوں کا کوئی رسالہ اپنے نام جاری کرانے کے لیے ایڈیٹر کے نام خط لکھیے۔

♦♦♦

عرائض نویسی

کسی افسر یا ہیڈ ماسٹر صاحب سے چھٹی لینے یا کسی افسر کے کچھ گوش گزار کرنے کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے عرضی یا درخواست کہتے ہیں۔ درخواست میں جو کچھ لکھا جائے وہ خوش خط صاف اور سادہ ہونا چاہیے۔

 (۱) عرضی لکھنے کے لیے سب سے پہلے افسر کا عہدہ لکھا جاتا ہے۔

 (۲) نئی سطر سے” گزارش ہے” لکھ کر اپنی عرض داشت لکھی جاتی ہے۔

(۳) درخواست کے خاتمے پر عین نوازش ہوگی ۔ مہربانی ہوگی۔ وغیرہ لکھ کر درخواست ختم کی جاتی ہے۔

 (۴) درخواست کے نیچے العارض، عرضے یا درخواست گزار لکھ کر نیچے درخواست گزار کا نام اور پتا لکھنا چاہیے۔

♦♦♦

بیماری کی درخواست، چھٹی کی درخواست

رسید لکھنا

ضروری باتیں

رسید کسی چیز یارقم وغیرہ کی وصولی کی تحریری دستاویز کو کہتے ہیں۔ ایسی دستاویز ہونے کی صورت میں کوئی شخص کسی دوسرے سے دوبارہ کسی چیز یارقم کی واپسی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لین دین کے معاملات میں لکھا پڑھی کر لیا کرو اور اس پر گواہ بھی بنالیا کرو۔ چناں چہ اسی بنا پر ہمارے معاشرے میں رسیدات کا عمدہ تصور موجود ہے۔

 کسی زمانے میں رسیدات یا اشیا کے لین دین کے بارے میں یادداشت کے طور پر لکھی گئی تحریروں کو وہ وثیقہ نویس یا عرائض نویس لکھا کرتے تھے جو بڑے خوش خط ہوا کرتے تھے اور ان کی تحریروں کو اہم دستاویز کی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ آج زمانہ بدل چکا ہے تا ہم دیہات میں، جو پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فی صد سے زیادہ پر مشتمل ہیں، ابھی تک رسیدات اور راہداریاں لکھنے کا تصور موجود ہے۔  اور شہروں میں بھی کہیں کہیں اس کا چلن ہے۔ جب کہ کیش میمو (Cash Memo) رسید ہی کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ بہر کیف ہمارے عزیز طلبہ کو رسید لکھنے کے موضوع سے لازمی طور پر آگاہ ہونا چاہیے۔

رسید لکھنے کے لوازمات

رسید لکھتے وقت درج ذیل امور کو پیش نگاہ رہنا چاہیے:

 (1) رسید کسی بھی نوعیت کی ہو، رسید وہ شخص لکھتا ہے جو رقم وصول کرتا ہے۔

(۲) رسید لکھنے سے پہلے جلی حروف میں "باعث تحریر آنکہ” لکھا جاتا ہے۔

(۳) رسید میں غیر ضروری طوالت سے گریز کیا جاتا ہے اور صرف کام کی باتیں لکھی جاتی ہیں۔

 (۴) رسید صرف ایک جملے پر مشتمل ہوتی ہے چہ جائیکہ وہ قدرے طویل کیوں نہ ہو۔

(۵) رسید کے اختتام پر تاریخ لکھی جاتی ہے۔

رسید میں رقم کو لفظوں میں اور اس کے بعد نصف رقم کو بھی لفظوں میں لکھنا چاہیے تا کہ اس میں تبدیلی نہ کی جاسکے۔ 

رسید کے آخر میں "العبد "لکھنے کے بعد رسید لکھنے والا اپنا نام، ولدیت، قومیت اور سکونت بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں لکھتا ہے۔ اگر رسید کو اہم دستاویز کی شکل دینا مطلوب ہو تو ” العبد” کا قومی شناختی کارڈ نمبر بھی لکھا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات شناختی کارڈ کی مصدقہ نقل بھی منسلک کر دی جاتی ہے۔

"العبد” کے دائیں اور بائیں طرف دو گواہوں کے نام اسی انداز میں لکھے جاتے ہیں جس انداز میں العبد کا نام آتا ہے۔

♦♦♦

Picture77

مکالمہ نگاری

مکالمہ دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کی باہمی بات چیت کو کہتے ہیں۔ اس بات چیت یا گفت گو کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اسی گفت گو سے ہم ایک دوسرے تک اپنے دل کی بات پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔

مکالمہ زبانی بھی ہوتا ہے اور تحریری بھی۔ اس سے ایک دوسرے کے جو ہر و کردار کا پتا چلتا ہے اور کسی کردار کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہی مکالمہ ڈرامے ناول اور افسانے کی جان ہیں۔ انھی کی کامیابی سے ناول، افسانہ اور فلم وغیرہ کی کامیابی کی شہرت پھیلتی ہے اور ان ہی سے ہم ایک دوسرے کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے ہیں۔

مکالمہ ایک فطری بات چیت بھی ہے اور مصنوعی گفت گو بھی۔ بہر حال مصنوعی مکالمے میں بھی فطرت کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ روز مرہ بول چال اور لب ولہجہ کے ساتھ اشارات ایک اچھے مکالمے کی جان ہیں۔ الجھاؤ اور تکلفانہ گفت گو مکالمے کو بے مزہ کر دیتی ہے۔ خیال رکھنا چاہیے کہ گفت گو شرافت و تہذیب کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھے ۔ مخاطب کے مرتبے اور درجے کا خیال رکھا جائے۔ ضرورت کے مطابق اشارات کے ساتھ آواز کی نرمی سختی اتار چڑھاؤ بھی زیر نظر رہنا چاہیے۔

 گفت گو کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ بات سے بات خود بخود نکلتی آئے۔ ایک ہی بات بار بارہ ہرانے سے بھی گفت گو میں پھیکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ زبان کا روز مرہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ زبان جس قدر روز مرہ کے مطابق ہوگی اتنی ہی مؤثر ہوگی۔

♦♦♦

کہانی لکھنا

ضروری باتیں

کہنے کی چیز کو کہانی کہتے ہیں۔ کہانی کا مترادف لفظ قصہ یا حکایت ہے اور داستان قصے کہانی کی قدیم ترین قسم ہے۔ کسی زمانے میں قصہ خوانی یا داستان گوئی ایک باضابطہ فن ہوا کرتا تھا، جوعربی و فارسی سے اردو میں منتقل ہوا اور بڑی عظیم پاک وہند کے طول وعرض میں پھیل گیا۔ بڑے بڑے شہروں میں داستان سنانے کے لیے باقاعدہ جگہیں اور وقت مقرر ہوا کرتے تھے ، جہاں لوگ کشاں کشاں آتے اور بڑے انہماک سے داستان سنتے تھے۔ انشااللہ خاں انشاؔ  کا یہ شعر اسی ماحول کی عکاسی کرتا ہے:

سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

کہانی سننا سنانا انسان کی جبلّت ہے۔ ہر چند آج سائنس کے کمالات نے انسانی معاشرے کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے تاہم اسے آج بھی پسند کیا جاتا ہے ، خاص طور پر بچوں میں تو یہ آج بھی مقبول ہے اور دنیا کی کسی زبان کا ادب بھی قصے کہانیوں سے خالی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بچوں کے میگزین نکلتے ہیں جن میں نت نئے قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنھیں پسند کیا جاتا ہے۔
جہاں تک ہمارے یہاں وسطی اور ثانوی سطح کے نصاب کا تعلق ہے تو کہانی یا تو کسی عنوان کے تحت لکھنے کو کہا جاتا ہے یا اس کا نتیجہ پیش نظر ہوتا ہے۔ بہر کیف کہانی لکھتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا لازمی طور پر خیال رکھا جاتا ہے:

  1.  کہانی کو بالعموم فعل ماضی میں لکھنا چاہیے کیوں کہ کہانی میں گزرے ہوئے زمانے کا کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ 
  2.  کہانی کے واقعات میں منطقی ربط تسلسل اور ترتیب کو قائم رکھنا چاہیے۔ (۳) کہانی لکھنے سے قبل اس کا عنوان جلی حروف میں تحریر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ عنوان آپ کو خود تجویز کرنا ہو تو کہانی کے مجموعی مضمون اور تاثر کو سامنے رکھیے اور اس کے مرکزی خیال کو کہانی کا عنوان بنادیجیے۔
  3. زبان سادہ اور روزمرہ کے مطابق ہونی چاہیے۔
  4.   اگر آپ کو کسی خاکے کی مدد سے کہانی لکھنے کو یا کہانی مکمل کرنے کو کہا گیا ہے تو بعض طلبہ محض خاکے کی خالی جگہوں کو پر کرنے ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیے گئے اشارات کو پھیلا کر کہانی مکمل کی جاتی ہے، جو خاکے سے کہیں زیادہ طویل ہوتی ہے۔
  5.   کہانی کے آخر میں اس کا نتیجہ بھی لکھیے جو بالعموم ایک عالمگیر سچائی (Universal Truth) کی صورت میں ہوتا ہے۔

 جیسے: "سانچ کو آنچ نہیں : ” اتفاق میں برکت ہے۔ جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ جس کا کام اُسی کو ساجے۔ سچ کی برکت۔جھوٹ کی سزا۔ لالچ بُری بلا ہے۔ دودھ میں پانی۔ ہَرنی کی دعا۔ احسان کا بدلہ احسان۔ نادان کی دوستی۔ عادت کی خرابی۔ نا اتفاقی کا انجام۔ عقل مند بیوی۔ کوّے کا انتقام۔ نیبو نچوڑ۔ ایسے کو تیسا۔ انگور کھٹّے ہیں۔ دو بکریاں۔ بے وقوف کچھوا۔ گیڈر کی مکاری۔ شیر کا گھر۔ دیانت داری کا صلہ۔  

♦♦♦

مضمون نگاری

اظہار مطلب کے دو ہی طریقے ہیں: ایک تقریر، دوسرا تحریر۔ تقریر کا تعلق زبان سے ہے اور تحریر کا قلم سے۔ دونوں صورتوں میں بیان کا مربوط ہونا ضروری ہے۔ اگر بیان مربوط ہو تو تحسین کے لائق ہے وگرنہ نفرین کا سزاوار۔ اس لیے جو مضمون بیان کرنا یا لکھنا ہو، اسے سوچیے ، مواد کو وسعت دیجیے اور ایک مؤثر ترتیب سے مرتب کیجیے۔

جب مضمون کا مواد جمع اور مربوط ہو جائے تو اسے مختصر سی تمہید کے ساتھ زیبِ قرطاس کیجیے۔ زبان کو روزمرہ اور محاورے کی چاشنی سے آراستہ کیجیے اور خدا کا نام لے کر لکھتے جائیے ۔ قرآنی آیات، احادیث، قول اقوال اور برمحل وموزوں اشعار بھی مضمون کے حسن کو بڑھا دیتے ہیں ،مگر ان کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابر ہو۔

مضمون کو نہایت درجہ خوش خط لکھیے تا کہ آسانی سے درست طور پر پڑھا اور سمجھا جا سکے ۔ مضمون کو مکمل کر لینے کے بعد ایک دفعہ ضرور پڑھیے تاکہ وہ الفاظ جو لکھنے میں چھوٹ گئے ہوں، دوبارہ لکھے جاسکیں۔ املا کی غلطیاں بھی درست کی جاسکیں اور وہ خیالات جو لکھنے سے رہ گئے ہیں اور پڑھتے ہوئے یاد آئے ہیں، انھیں بھی تحریر کیا جا سکے۔

اقسام: ہر مضمون زندگی کے کسی نہ کسی شعبے سے متعلق ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے مضمون کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

 ادبی :

 ایسے مضامین جوادب سے متعلق ہوں مثلاً : کسی ادبی مجلس کی کارکردگی ،شعرا کے لطائف۔ شعر وسخن وغیرہ

 اخلاقی :

 ایسے مضامین جو اخلاق سے متعلق ہوں جیسے : انصاف ، صلہ رحمی سچائی کا بول بالا ، نیکی اور پارسائی وغیرہ

 معاشرتی:

 ایسے مضامین جو معاشرت سے متعلق ہوں مثلاً : اتفاق و اتحاد، گداگری، جہیز ایک لعنت ہے، رسوم وروایات، اطاعت والدین تعلیم نسواں، حب وطن، یوم آزادی، محنت کی برکات، پابندی وقت ، خوشامد، اپنی مدد آپ، تمباکو نوشی کے نقصانات، برسات کا موسم ، سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریاں وغیرہ

 سوانحی:

 ایسے مضامین جو کسی شخصیت کے احوال سے متعلق ہوں جیسے : سرسید احمد خاں، علامہ اقبال ، قائد اعظم، مادر ملت فاطمه
جناح ، لیاقت علی خاں، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا ظفر علی خاں وغیرہ

سیاسی :

 ایسے مضامین جن کا تعلق سیاست سے ہو جیسے: جمہوریت،آمریت اور مسئلہ کشمیر وغیرہ 

سائنسی :

 ایسے مضامین جو سائنس سے متعلق ہوں جیسے : انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹیکنیکل ایجوکیشن ، ٹیلی وژن ، موبائل فون ، کمپیوٹر دور حاضر کی ضرورت اور سائنس کے کرشمے وغیرہ

تاریخی :

 ایسے مضامین جن کا تاریخ سے تعلق ہو جیسے : ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ۔تحریک آزادی وغیرہ 

جغرافیائی:

 وہ مضامین جو زمیں اور اہل زمیں کے حالات سے متعلق ہوں جیسے : جاپان کے لوگ، آتش فشاں پہاڑ ہیم اور تھور، زلزلے
اور سیلاب کی تباہ کاریاں وغیرہ

مضامین کے لیے دیگر عنوانات

محسن انسانیت ﷺ ۔ ہمارے ہمسائے۔  ریل گاڑی۔ میرا سکول۔ شہید ملت لیاقت علی خاں۔  مولانا حالی۔              رسم و رواج کی پابندی۔ صنعت و تجارت۔ مولانا ظفر علی خاں۔  دیہاتی زندگی۔  عید الفطر۔  عید الاضحیٰ۔ تجارت ۔ کرپشن ( بد عنوانی)۔  ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ امتحان کی تیاری ۔سائیکل۔ قومی اتفاق۔  کاہلی۔  ہمارے مہمان۔ طالب علم کے فرائض ۔ پانی کی اہمیت۔  میرے دوست۔ زمینی آلودگی۔ فضائی آلودگی۔ جمہوریت۔                         زندگی کا نا قابل فراموش واقعہ۔   کھیلوں کی اہمیت۔ گلاب کا پھول۔ جہیز ایک لعنت۔ میرا پسندیده استاد۔

  تو ہم پرستی۔  دیانت داری۔  تندرستی ہزار نعمت ہے۔   طالب علم کے فرائض۔ ورزش کے فائدے۔ دہشت گردی۔عیادت مریض۔ سکول میں میرا پہلا دن۔  سکول میں میرا آخری دن۔ مسلمانوں کے تہوار۔  سردی کا موسم۔  موسم گرما۔ توانائی کا بحران۔ مل جل کر کام کرنے کے فائدے۔  ایک پاکستانی بازار ۔  چاندنی رات کا نظارہ ۔ مرزا غالب۔  کمپیوٹر، عہد حاضر کی اہم ضرورت۔ علم کے فائدے۔ عیدین۔ پابندی وقت۔ خوشامد۔ اپنی مدد آپ۔  اردو ہے جس کا نام۔  برسات کا موسم۔  ایک میلے کی سیر ۔تعطیلات موسم گرما۔ محنت کی برکات

♦♦♦

تفہیمِ عبارات

ابلاغ میں زبان بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں طلبہ کی زبان دانی کی صلاحیت واخذ کا جائزہ لینے کے لیے نصاب کے علاوہ کسی بھی تحریر مضمون یا نظم کا کوئی اقتباس دے دیا جاتا ہے، جس کے حوالے سے عبارت کے آخر میں چند سوالات ترتیب دے کر طلبہ سے ان کے جوابات لکھنے کو کہا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ غیر نصابی عبارت کے مفہوم کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں طلبہ پر لازم آتا ہے کہ وہ درج ذیل باتوں کو پیش نظر رکھیں :
ضروری باتیں

  1.  سب سے پہلے عبارت کو ایک یا دو مرتبہ غور سے پڑھیے اور عبارت کے مفہوم اور نفس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
  2.  پوچھے گئے تمام سوالوں کے جواب بالعموم عبارت کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں، جو ذراسی سوچ بچار کے بعد ذہن میں آجاتے ہیں۔ 
  3.  اگر بفرض محال کسی سوال کا جواب عبارت میں موجود نہیں تو ایسی صورت میں عبارت کے مجموعی تاثر کے پیش نظر جواب دیجیے۔
  4.   تمام جواب عبارت کے مطابق ہوں۔ حقائق کو مسخ مت کیجیے۔
  5.  آپ کے جوابات کو سوالات کے عین مطابق ہونا چاہیے یعنی جس قدر سوال پوچھا گیا ہے، اسی قدر اس کا جواب دیں اور جواب کو غیر ضروری طول ہرگز نہ دیں۔
  6. جواب دیتے وقت عبارت کا اصل جملہ نقل کرنے کے بجائے اسے ہمیشہ اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کریں لیکن جواب کو اپنی لیاقت بگھارنے کی کوشش میں نہ تو مشکل بنانے کی کوشش کیجیے اور نہ ہی عبارت کو مسخ یا بے ربط کیجیے۔
  7.  اگر معروضی طرز کا سوال ہے تو درست ترین جواب کے گرد دائرہ لگائیے۔
  8.  اگر عبارت کا عنوان بھی پوچھا گیا ہے تو یادرکھیے کہ سب سے بہتر عنوان وہ ہوتا ہے جو اصل عبارت کے مجموعی تاثر کو ظاہر کرتا ہے اور اصل عبارت پڑھنے کے بعد ذہن سے نکلتا ہے، بصورت دیگر اس ضمن میں اصل عبارت کا پہلا یا آخری جملہ پڑھ لینا بھی سودمند ہوتا ہے، عین ممکن ہے کہ عنوان وہاں مستور ہو۔
  9.  عنوان کو مختصر ترین ہونا چاہیے اور فقط ایک عنوان دینا چاہیے۔
  10.   آیند و صفحات میں ہم نے طلبہ کی مزید رہنمائی کے لیے نمونے کی چند ایک غیر نصابی عبارتیں مع سوالات دے دی ہیں اور ان میں سے چھے عبارات کے سوالات اور ان کے جوابات بھی لکھ دیے ہیں۔ تفہیمِ عبارت کے سوال میں عام طور پر پانچ سوالات پوچھے جاتے ہیں، اس لیے ہم نے بھی ہر عبارت سے متعلقہ پانچ سوال ہی پوچھے ہیں لیکن ممکن ہے کہ پانچ سے زیادہ سوال پوچھ لیے جائیں ۔ بہر کیف طلبہ ان عبارات ، سوالات اور ان کے جوابات کو بغور پڑھیں اور ان کی روشنی میں تفہیمِ عبارت کے سوال پر عبور حاصل کریں۔

♦♦♦

1۔ عبارت

"پنجاب کی حدوداُن دنوں میں غزنی کی حد تک پھیلی ہوئی تھیں اور راجا یہاں کا جے پال تھا۔ جب مسلمانوں کے قدم آگے بڑھتے معلوم ہوئے تو اس نے غزنی پر ایک بھاری فوج سے چڑھائی کی۔ چناں چہ دفعۃً  ملغان پر جا کر ڈیرے ڈال دیے اور پشاور سے کابل تک برابر لشکر پھیلا دیا۔ ادھر سے سبکتگین بھی نکلا۔ چناں چہ دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں اور ایک دوسرے کی پیش قدمی کی منتظر تھیں کہ دفعہ آسمان سے گولے پڑنے لگے یعنی بے موسم برف گرنی شروع ہو گئی۔ وہ لوگ تو برف کے کیڑے تھے ، انھیں خبر بھی نہ ہوئی ۔ ہندوستانی بے چارے اپنے لحاف اور رضائیاں ڈھونڈنے لگے ، مگر وہاں رضائی کا گزارہ کہاں؟ سیکڑوں اکڑ کر مر گئے، ہزاروں کے ہاتھ پاؤں رہ گئے ، جو بچے اُن کے اوسان جاتے رہے ۔“

سوالات

  1.  پنجاب کی حدو د غزنی تک پھیلی ہوئی تھیں کس زمانے میں؟
  2.  جے پال کون تھا اور سبکتگین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
  3.   وہ لوگ تو برف کے کیڑے تھے ۔ کون لوگ برف میں رہنے کے عادی تھے؟ 
  4. وہاں رضائی کا گزارہ کیوں نہیں تھا ؟ وہ لوگ جاڑے میں کیا اوڑ ھتے تھے؟
  5. جے پال اور سبکتگین میں جنگ کیوں نہ ہوئی ؟


جوابات

  1. جس زمانے میں جے پال پنجاب کا راجا تھا تو پنجاب کی حدود غزنی تک پھیلی ہوئی تھیں۔
  2. جے پال پنجاب کا راجا تھا اورسبکتگین غزنی کا حکمران تھا۔ یہ وہ سبکتگین ہے جس کا بیٹا محمود غزنوی ہے، جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے۔
  3. غزنی کے لوگ برف کے کپڑے تھے یعنی وہ لوگ برف میں رہنے کے عادی تھے۔
  4.  غزنی کے لوگ جاڑے میں گرم کپڑے اور اونی کمبل اوڑھتے تھے۔ رضائی سے ناواقف تھے۔ 
  5.  کیونکہ برف باری نے راجا جے پال کی فوج کے اوسان خطا کر دیے اور فوجی وہاں سے بغیر جنگ کیے پنجاب کی طرف واپس بھاگ گئے ۔

♦♦♦

2۔ عبارت

"سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا آغاز کیا۔ فوجی طاقت سے برِّ اعظم کے آزادی طلب عوام کو انگریزوں نے کچلا، مگر جذ بہ حریت نہ دب سکا۔ ۱۸۵۷ء تک چنگاریاں چمکتی اور بجھتی رہیں۔ آخر مئی ۱۸۵۷ء کو چنگاری نے شعلہ بن کر فضا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ آگ اور خون کا طوفان اٹھا۔ اس قیامت خیز ہنگامے میں عوام کا نقصان تو اتنا ہوا جس کا اندازہ لگانا
مشکل ہے مگر کمز ور عوام نے ایک مرتبہ استحصالی طاقت کو مزا چکھا ہی دیا۔ توپ و تفنگ نے مظلوم عوام کے تاریخ و ثقافت کے بھرے بھرے محل کھنڈر کر دیے، لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا، ملک کا نقشہ پلٹ دیا۔ اب کی مرتبہ یہاں کے قومی رہنماؤں نے سرد جنگ کے بعد گرم معر کے کی تیاری کرلی۔ کانگرس تحریک خلافت اور مسلم لیگ اسی جنگ کے ادارے بنے۔ ان تنظیموں نے عملی حکمتوں سے عوام کو بیدار کیا۔ صفوں کو منتظم بنایا اور دشمن کو للکارا اور نئے نئے مورچے بنائے ۔ پہلی جنگ عظیم میں آزادی کے امکانات ابھرے، دوسری جنگ عظیم کے بعد جد و جہد کامیابی کے قریب پہنچ گئی۔ اس مرحلے میں صدیوں حکومت کرنے والی قوم نے قائد اعظم کی قیادت میں علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ڈھونڈ نا شروع کی۔ اس راہ میں خون کے سمندر اور آگ کے جنگل ملے اور قوم بسم اللہ کہ کر آگے بڑھی۔ یہ پیش قدمی اللہ کی مدد اور ملت کے اتحاد تنظیم اور ایمان، قائد اعظم کی بصیرت و تدبیر کی بدولت منزل تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ اللہ نے وہ دن دکھایا کہ اللہ اکبر کی گونج میں آزادی کا سورج نکلا اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اسلامی عقائد وافکار، اسلامی تہذیب و ثقافت، اسلامی قانون و نظام عدل و حکومت کے لیے اللہ نے اپنے محبوب نبی آخر الزماں ﷺ کے طفیل مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر سر بلندی و افتخار سے نوازا۔“


سوالات 

  1.  سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے بارے میں ایک مختصر پیرا گراف لکھیے۔
  2.   ۱۸۵۷ء میں آزادی کے علم برداروں کا کیا نقصان ہوا؟ چند سطروں میں لکھیے۔
  3.  علامہ اقبال مرحوم کے خواب سے کیا مراد ہے؟
  4.  سرد جنگ کسے کہتے ہیں؟
  5.  تہذیب و ثقافت سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟


جوابات

1.   نواب سراج الدولہ بنگال کا جب کہ ٹیپو سلطان میسور (دکن) کا حکمران تھا۔ یہ دونوں حکمران آزادی اور حریت کے علمبردار تھے اور کسی صورت میں بھی انگریزوں کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہ تھے ، چناں چہ دونوں نے انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑیں مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ علامہ اقبالؒ نے اس پس منظر میں کیا خوب کہا ہے:
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم ننگ دیں، ننگ وطن

2.  ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں آزادی کے علم برداروں کا جتنا نقصان ہوا، اس کا صحیح انداز ولگانا مشکل ہے مگر لاکھوں لوگ جس میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، مارے گئے ۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہو گئے ، ان کے گھر بارلٹ گئے اور جائیدادیں برباد ہوگئیں۔ تاریخ و ثقافت اور تہذیب و تمدن کے محلات کھنڈر بن گئے۔ گو یا ملک کا نقشہ ہی پلٹ گیا۔

3.   علامہ اقبال نے یہ خواب دیکھا تھا کہ برعظیم کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں ایک آزادا اور خود مختار مملکت کا قیام عمل میں آئے۔

4.   سرد جنگ ، ہتھیاروں کی مدد سے کھلم کھلا جنگ نہیں ہوتی بلکہ ایک عرصہ دراز تک عوام کے نظریات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی اور مخالفین کو اپنی بات منوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

5.   ہر سوسائٹی کے کچھ اصول اور رسوم و روایات ہوتی ہیں، انھیں تہذیب کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے کلچر کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح عقائد و نظریات اور افکار اور نظام عدل و حکومت کے لیے جو قرینے اپنائے جاتے ہیں، اسے ثقافت کہتے ہیں جیسے : اسلامی تہذیب و ثقافت سب سے الگ اور تمام مذاہب سے جدا گانہ ہے

♦♦♦

آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top