(پیدائش : 17 جنوری 1937ء – ـ وفات 21 دسمبر 2006ء)

♦♦♦ 

مشہور اشعار(حکیم منظور کی شاعری)

 اگرچہ اس کی ہر اک بات کھردری ہے بہت

مجھے پسند ہے ڈھنگ اس کے بات کرنے کا

♦♦♦ 

اپنی نظر سے ٹوٹ کر اپنی نظر میں گم ہوا

وہ بڑا با شعور تھا اپنے ہی گھر میں گم ہوا

♦♦♦ 

باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی

اب کہ وہ بازار میں ہے اب تو بکنا ہے اسے

♦♦♦ 

چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا

وہم تھا میرا کہ پتھر آئینہ ہو جائے گا

♦♦♦ 

دیکھتے ہیں در و دیوار حریفانہ مجھے

اتنا بے بس بھی کہاں ہوگا کوئی گھر میں کبھی

♦♦♦ 

گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم

اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا

♦♦♦ 

ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں

اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو

♦♦♦ 

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا

وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا

♦♦♦ 

اتنا بدل گیا ہوں کہ پہچاننے مجھے

آئے گا وہ تو خود سے گزر کر ہی آئے گا

♦♦♦ 

جو میرے پاس تھا سب لوٹ لے گیا کوئی

کواڑ بند رکھوں اب مجھے ہے ڈر کس کا

♦♦♦ 

مجھ میں تھے جتنے عیب وہ میرے قلم نے لکھ دیئے

مجھ میں تھا جتنا حسن وہ میرے ہنر میں گم ہوا

♦♦♦ 

نہ جانے کس لیے روتا ہوں ہنستے ہنستے میں

بسا ہوا ہے نگاہوں میں آئینہ کوئی

♦♦♦ 

ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا

دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے

♦♦♦ 

شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی

زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیئے

♦♦♦ 

تیری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں

تیرے ہاتھوں میں دیکھا ہے خنجر بھی

♦♦♦ 

تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی

تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی

♦♦♦ 

خوشبو کا کوئی گھر ہے نہ کوئی گھرانہ ہے

اسکا سخی مزاج کہ پیغمبرانہ ہے

ثابت ہیں بس اسی سے سمندر کی وسعتیں

وہ ایک قطرہ جسکی ادا باغیانہ ہے

♦♦♦ 

اُڑان کی ہے حد اگر تو پھر اُڑان کس لئے

لکھی گئی ہے وُسعتوں کی داستان کس لئے

یہ ہاتھ کس لئےاگر نہ لکھ سکوں جوچاہوں میں

وہی کہوں جو تو کہےتو پھر زبان کس لئے

♦♦♦ 

آفتابوں کا بڑھاپا، برفزاروں کی خوشی

سبز پتوں کیلئے آزارِ جاں لکھا گیا

♦♦♦ 

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top