غزل کے اشعار کی تشریح کے لیے ہدایات

غزل کی تعریف:

غزل کے معنی ہیں ” عورتوں سے باتیں کرنا” یا عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا ۔ عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا۔ اس کے علاوہ ایک مختلف معنیٰ یہ ہیں، غزال ہرن کو کہتے ہیں جبکہ شکار کے وقت ہرن کے منھ سے نکلی درد ناک چیخ کو "غزل” کہتے ہیں۔ اسی لیے غزل کا موضوع عاشق کی آہ و بکا رہا ہے۔ 

طلبا کے لیے ضروری ہدایات

  1.  غزل کے ہر شعر کی تشریح الگ الگ کرنی چاہیے کیوں کہ غزل کا ہر شعر دوسرے سے موضوع اور مفہوم کے اعتبار سے منفرد ہوتا ہے۔
  2. تشریح سے پہلے تشریح طلب شعر ضرور لکھنا چاہیے۔
  3. جوابی کاپی پر شاعر کا نام لکھنا نہ بھولیں۔ شاعر کے نام کا املا درست ہو۔ اصل نام لکھنے کی صورت میں پورا نام لکھنا چاہیے تاہم تخلص لکھ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔
  4. ہر شعر کی معیاری تشریح کم از کم آدھا صفحہ اور زیادہ سے زیادہ ایک صفحہ پر مشتمل ہونی چاہیے۔
  5. دورانِ تشریح، اقوال، آیات، احادیث اور دیگر حوالہ جات لکھنا تشریح کو مدلّل بنا دیتا ہے ، لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ غلط لکھنے سے بہتر ہے نہ لکھا جائے۔ جہاں کسی بات کا ترجمہ لکھنا مقصود ہو وہ بریکٹ میں لکھنا چاہیے۔ 
پہلی غزل

حسرتؔ موہانی (1875ء - 1951ء)

شعر 1

مصیبت بھی راحت فزا ہو گئی ہے
تِری آرزو رہنما ہو گئی ہے

(بہاولپور بورڈ 2015)

حل لغت:

مصیبت: مشکل ، دکھ ، تکلیف

آرزو: تمنٗا، خواہش

راحت فزا: خوشی کو بڑھانے والی

رہنما: رہبر، لیڈر، راہ دکھلانے والی، قائد

مفہوم و تشریح:

عاشق کو محبوب سے ملنے والی ہر تکلیف خوشی کو بڑھانے کا سبب بن گئی ہے۔ دل میں محبوب کی چاہت کا پیدا ہونا ہر عاشق کے لیے رہنمائی ثابت ہوتا ہے۔ 

حسرت موہانی پہلے مصرع میں اپنے محبوب کی طرف سے ملنے والی ہر مشکل اور تکلیف کو اپنے لیے باعثِ راحت جانتے ہوئے مسرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ جب سے محبوب سے محب کا تعلق قائم ہوا تب ہی سے تکالیف اور مصیبتیں محب کے لیے خوشی کا باعث ہو گئی ہیں۔ 

دوسرے مصرع میں شاعر محبوب کے عشق کو اپنے لیے رہبر اور قائد قرار دیتا ہے۔ محبوب کی الفت کی تمنا  ہی اب شاعر کی رہنمائی کر رہی ہے۔ عشق کے اس پُر خطر رستے میں محبوب کی تمنا راہ دکھاتی ہے۔ 

محبوب کی چاہت کی آرزو راحت میں بدل چکی ہے اور اس راہ عشق میں معشوق کی آرزو ہی رہنمائی کرتی ہے۔ 

؎ سارے عُشاق کے لیے انجمؔ

رہبر و رہنما تری خواہش

٭٭٭٭٭

شعر 2

یہ وہ راستا ہے دیارِ وفا کا
جہاں بادِ صر صر صَبا ہو گئی ہے

(کشمیر بورڈ 2016، بہاولپور بورڈ 2016، فیصل آباد بورڈ 2016، گوجرانوالہ بورڈ 2016، بہاولپور بورڈ 2015)

حل لغت:

دیارِ وفا: وفا کا دیس

بادِ صر صر: تیز اور گرم ہوا

صَبا: ہلکی ہلکی چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا

مفہوم و تشریح:

وفا کے دیس میں نقشِ محبوب پر چلنا ہر عاشق کی دلی مراد ہوتی ہے۔ اس مقام پر گرم ہوا بھی عاشق کے لیے ٹھنڈی ہوا  بن جاتی ہے۔ 

ہر عاشق کے لیے وفا کا دیس اس قدر پسندیدہ اور دل کو بھانے والا ہوتا ہے کہ اُس کی جانب جانے والے راستے میں اٹھنا بیٹھنا اور چلنا غرض ہر قدم زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔ گو کہ دیارِ عشق کا یہ رستہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ قدم قدم پر آزمائشیں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر اس راہ کا مسافر ثابت قدم رہتا ہے اور صبر کے ساتھ منزل کی جانب بڑھتا رہتا ہے تو کوئی پریشانی، تکلیف کا باعث نہیں بنتی۔  یہی وجہ کہ زمانے کی گرم ہوا بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہو گئی ہے۔ محبوب کی گلی کا کانٹا بھی پھول کی پتی ہے۔

٭٭٭٭٭

شعر 3

میں درماندہ اُس بارگاہِ عطا کا
گناہ گار ہوں اک خطا ہو گئی ہے

(گوجرانوالہ بورڈ 2016، لاہور بورڈ 2015، ملتان بورڈ 2016، لاہور بورڈ 2016، ڈیرہ بورڈ 2016)

حل لغت:

درماندہ: ٹھکرایا ہوا، مصیبت زدہ

بارگاہِ عطا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ جو عطا کرنے والی ہے

خطا: غلطی

مفہوم و تشریح:

 میں ایک مصیبت زدہ ٹھکرایا ہوا انسان ہوں۔ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے اُسی کی بارگاہ سے ملا ہے۔ میں گناہ گار ہوں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔

شاعر اپنی درماندگی اور بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں  کہ وہ ایک مصیبت زدہ ٹھکرایا ہوا انسان ہے لیکن اُس کے پاس جو کچھ بھی ہے۔ وہ خالقِ کائنات کی بارگاہِ عطا سے ملا ہے۔ اللہ نے انسان کو تخلیق فرمایا اور سرفرازی سے نوازا۔ 

دوسرے مصرع میں شاعر  اپنے گناہ گار ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے خالق و مالک ! تُو نے ہمارے بابا آدم کو تخلیق کیا۔ اُنھیں اپنی نعمتوں سے نوازا اور فرشتوں کا اُن کے حضور جھکنے کا کہا۔ انھیں رہنے کے لیے جنت عطا فرمائی ، مگر شیطان نے انھیں گمراہ کیا اور آدم و حوا سے نے خدا کے حکم سے رو گردانی کرتے ہوئے اُس درخت کا پھل کھا لیا جس سے منع کیا گیا تھا۔ تو انھیں جنت سے در بدر کر دیا گیا۔ اب وہ زمین پر آ کر معافی کا طلب گار ہے۔ 

؎ بندہ ہے گناہ گار رحمٰن ہے مولا

بندے پہ کرم کرنا تری شان ہے مولا

در اصل گناہ کرنا ابنِ آدم کی سرشت میں ہے اور معاف کرنا خدا کی صفت ہے۔ 

٭٭٭٭٭

شعر 4

تِرے رُتبہ دانِ محبت کی حالت
تِرے شوق میں کیا سے کیا ہو گئی

(بہاولپور بورڈ 2016، ساہیوال بورڈ 2016، فیصل آباد بورڈ 2016)

حل لغت:

رُتبہ دانِ محبت: محبت میں مرتبہ پانے والا

حالت: کیفیت،

شوق: ذوق، عشق، محبت

کیا سے کیا ہوگئی: حالت کا بدلنا، کچھ اور بن جانا

مفہوم و تشریح:

      اے محبوب! میں تیری محبت میں ایسے مرتبے پہ پہنچ چکا ہوں کہ تجھے پانے کی چاہت میں میری حالت کسی دیوانے سے کم نہیں ہے۔ اگر تجھے ادراک (سمجھ) نہیں تو خود آ کر دیکھ لے۔

شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے کہ تیرے عشق میں مجھے ایسے مرتبے اور بلندیاں نصیب ہوئیں کہ مجھے خود اپنی خبر نہ رہی ہے۔ شاعر کی نظروں میں ہمہ وقت محبوب ہی سمایا ہوا ہے۔ اس لیے وہ محبت کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔

؎ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

(اقبالؔ)

شاعر کہتے ہیں اے محبوب! تیرے عشق میں میری حالت کیا سے کیا ہو گئی ہے، تُو نے کبھی اس پہ نظر نہیں کی۔ اُردو شاعری میں محبوب ہمیشہ لا پروائی برتتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اُس کا عاشق کس قسم کی جذباتی کیفیات سے گزر رہا ہے۔ عشق ، عاشق کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔  اور محبوب کے غم میں اُس کی حالت غیر ہو گئی ہے۔ لیکن محبوب کو کچھ فکر نہیں۔ 

اذیت ، مصیبت، ملامت بلائیں

تِرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

(دردؔ)

اور بقول امجد اسلام امجدؔ

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم

دونوں کو پھرامجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم

٭٭٭٭٭

شعر 5

پہنچ جائیں گے انتہا کو بھی حسرتؔ
جب اس راہ کی ابتدا ہو گئی ہے

(راولپنڈی بورڈ 2016، ڈی جی بورڈ 2016، کشمیر بورڈ 2016)

حل لغت:

انتہا: آخری حد۔ انجام

ابتدا: شروع، آغاز

حسرت: شاعر کا تخلص ہے۔ جبکہ اس کے معنی ایسی خواہش جو پوری نہ ہو سکی ہو۔

مفہوم و تشریح:

      کسی کام کا آغاز کر لیا جائے تو آخر کار اُس کا انجام ہو ہی جاتا ہے۔ عشق کے راستے میں قدم رکھ دیا جائے توعاشق با مراد (خواہش کا پورا ہونا) ہو ہی جاتا ہے۔

شاعر اس غزل کے مقطع میں بیان کرتا ہے کہ اگر تمھاری طلب سچی ہے  اور عشق کے راستے پہ صدقِ دل کے ساتھ چل پڑا ہے تو ایک روز منزل کو پا لے گا۔ 

؎ یہ عشق نہں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جب انسان کسی سفر کا آغاز کر دیتا ہے تو اس راہ میں جو بھی مشکلات اور رکاوٹیں  آتی ہیں اگر اُن کا مقابلہ ہمت کے ساتھ کیا جائے تو مشکلیں آساں ہو جاتی ہیں اور انسان منزل کو پا لیتا ہے۔ لیکن چلنا شرط ہے۔ مقصد سے سچی لگن ہو تو انسان اپنے مقصد کو ضرور پا لیتا ہے۔ 

"مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں”

٭٭٭٭٭

دوسری غزل

جگر ؔمراد آبادی (1890ء - 1960ء)

شعر 1

آدمی آدمی سے مِلتا ہے
دل مگر کم کسی سے مِلتا ہے

(فیصل آباد بورڈ 2015، سرگودھا بورڈ 2016)

حل لغت:

آدمی: انسان ، بشر

ملنا: ملاقات کرنا

مفہوم و تشریح:

انسان اس دنیا میں لحاظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن دلوں میں فاصلے اور دوریاں بہت پائی جاتی ہیں۔

پہلے مصرع میں شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا کی چہل پہل دیکھ کر اور انسانوں کو ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر دل کو راحت محسوس ہوتی ہے لیکن جب یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے تو بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ لوگ محض دنیانوی ضروریات کے تحت ایک ددسرے سے ملتے ہیں جب کہ ان دلوں میں دُوریاں پائی جاتی ہیں۔ 

؎ الہٰی آبرو رکھنا بڑا نازک زمانہ ہے

دلوں میں کفر رکھتے ہیں بظاہر دوستانہ ہے

دوسرے مصرع میں کہتے ہیں دل کا تعلق بہت کم لوگوں سے ہوتا ہے۔ محبت ہر ایک شخص سے نہیں کی جا سکتی، یہ تو خدا کی نعمت ہے۔ اک تنہائی کا احساس ہے جو شاعر کو رنجیدہ رکھتا ہے۔ کہ چہرے پہ تو مسکراہٹیں ہوتی ہیں جب کہ دلوں میں زنگ لگے ہیں۔ 

؎ اک مقدس کام کرنا چاہتا ہوں

میں محبت عام کرنا چاہتا ہوں

٭٭٭٭٭

 

شعر 2

بھول جاتا ہوں مَیں ستم اُس کا
وہ کچھ اس سادگی سے مِلتا ہے

(ساہیوال بورڈ 2016، فیصل آباد بورڈ 2016، لاہور بورڈ 2014)

حل لغت:

بھول جاتا ہوں: فراموش کر دیتا ہوں

ستم:  ظلم

سادگی: سادہ انداز

مفہوم و تشریح:

میرا محبوب مجھ سے اس قدر محبت اور اپنائیت سے ملتا ہے کہ میں اُس کا ہر ظلم اور دُکھ بھول جاتا ہوں ، جو وہ مجھے دیتا ہے۔ 

محبت بھی کیا شے خدا نے بنائی ہے کہ محبوب کی ہر ادا محب/عاشق کو بھلی لگتی ہے ، اُس کے ظلم و ستم بھی عاشق کے لیے راحت کا سامان بن جاتے ہیں۔  محبوب کاسامنے ہونا ہی تمام غم و الم سے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اُس پہ سوا یہ کہ وہ ایسی سادگی سے ملتا ہے کہ جیسے اُس نے کچھ کیا ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں محبوب نے جو بھی ظلم ڈھائے ہوں اسے کون یاد رکھے۔ 

؎ گَلے سے ملتے ہی جتنے گِلے تھے بھول گئے

وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا

بات صرف اتنی ہے محب، محبوب کے حسن و جمال میں اس قدر کھو گیا ہے کہ اُس کی اس بے نیازی پہ بھی اُسے پیار آتا ہے۔ 

؎ یہ تبسّم، یہ تکلّم، یہ تغافل، یہ ادا

یہی انداز تو دیوانہ بنا دیتے ہیں

٭٭٭٭٭

شعر 3

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ، تیری ہنسی سے ملتا ہے

(سرگودھا بورڈ 2015، گوجرانوالہ بورڈ 2016)

حل لغت:

 

مفہوم و تشریح:

اے محبوب! آج تمھاری ہنسی دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ  پھولوں میں جو رنگ ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے تیری مسکراہٹ ہے۔ 

شعر 4

سلسلہ فتنہ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے مِلتا ہے

(ڈیرہ بورڈ 2015، ملتان بورڈ 2016، سرگودھا بورڈ 2016، بہاولپور بورڈ 2016)

حل لغت:

سلسلہ: تعلق، واسطہ

فتنہ: فساد

قیامت: روزِ محشر

خوش قامتی: لمبا قد جو خوبصورت لگے

مفہوم و تشریح:

اے محبوب! تمھارا قد ایسا لمبا ہے جیسے روزِ حشر ۔۔۔ جو دیکھنے والوں میں نفسا نفسی کا باعث بنتا ہے۔ 

شعر 5

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل، اسی سے ملتا ہے

(کشمیر بورڈ 2016، ڈیرہ بورڈ 2016، راولپنڈی بورڈ 2016، ساہیوال بورڈ 2016، بہاولپور بورڈ 2015)

حل لغت:

ٹوٹ کر: نہایت شوق سے، بے حد

اُسی سے: محبوب سے

مفہوم و تشریح:

محبوب میرے پاس ہو کر بھی میرا نہیں بنتا، اس کے باوجود مجھے اُس سے بے حد محبت ہے۔

شعر 6

کاروبارِ جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

(راولپنڈی بوڑد 2015، لاہور بورڈ 2016)

حل لغت:

کاروبارِ جہان: دنیانوی معاملات

سنورتے ہیں: درست ہوتے ہیں

ہوش: سمجھ، عقل، شعور

بے خودی:اپنی ذات سے بے خبر

مفہوم و تشریح:

عقل، شعور جب عشق کے ساتھ ملتا ہے تو تمام دنیاوی کام درست ہو جاتے ہیں۔

شعر 7

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہمسائیگی سے ملتا ہے

(کشمیر بورڈ 2015)

حل لغت:

روح: جان

مزا: لطف، سرور

محبت: پیار، عشق

ہمسائیگی: پڑوس، ہمسایہ

مفہوم و تشریح:

دل ایسی جگہ ہے جہاں محبت کا مقام ہے اور روح کو محبت کا جو بھی مزا آتا ہے وہ اس لیے کہ روح ، دل کی پڑوس میں رہتی ہے۔ 

 

تیسری غزل

فراقؔ گورکھ پوری (1896ء - 1982ء)

شعر 1

سر میں سودا بھی نہیں، دِل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

حل لغت:

سودا: شوق، جنون، عشق

تمنّا: آرزو، خواہش

ترکِ محبت: محبت کو چھوڑنا

بھروسا: یقین، اعتماد

مفہوم وتشریح:

اے محبوب! اب وہ  دیوانہ پن(عشق) بھی نہیں اور دل میں تمھاری آرزو بھی نہیں لیکن یہ جو محبت سے توبہ کی ہے، یہ توبہ کب ٹوٹ جائے اس بات کا بھروسا بھی نہیں۔ 

شعر 2

اک مدّت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں

حل لغت:

مدت: عرصہ، وقت

یاد: خیال،سوچ

مفہوم و تشریح:

اے محبوب! بہت وقت سے  اگرچہ ہمیں تمھاری یاد تک نہیں آئی لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم تمھیں بھول گئے ہیں۔ 

شعر 3

یُوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانہِ عشق
مگر اے دوست، کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

حل لغت:

ہنگامے اٹھانا: شور مچانا، تماشا کرنا

دیوانہ عشق: عشق میں دیوانے ہونے والے

ٹھکانا: اعتبار، بھروسا

مفہوم و تشریح:

ویسے تو محبت کرنے والے تماشا نہیں کرتے لیکن ایسے عاشقوں کا کوئی بھروسا بھی نہیں کہ کب چرچا کرنے لگیں۔ 

شعر 4

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سَوا
آج ہی خاطرِ بیمار شکیبا بھی نہیں

حل لغت:

غفلت: بھول، بے اعتنائی، لا پروائی

پہلے سے سَوا: پہلے سے بڑھ کر

خاطرِ بیمار: عشق میں مبتلا دل

شکیبا: تسلی، صبر

مفہوم و تشریح:

آج محبوب کی آنکھیں ہم سے بہت لا پروائی برت رہی ہیں۔ اور آج ہی مجھ بیمارِ عشق کو تسلی دینے والا کوئی نہیں ہے۔ 

شعر 5

رنگ وہ فصلِ خزاں میں ہے کہ جس سے بڑھ کر
شانِ رنگینی حُسن ِ چمن آرا بھی نہیں

حل لغت:

فصلِ خزاں: خزاں کا موسم

شانِ رنگینی: شوخ انداز، خوب صورتی

حسنِ چمن آرا: باغباں کا حسن

مفہوم و تشریح:

خزاں کے موسم میں وہ خوب صورتی اور رنگینی پائی جاتی ہے جو بعض اوقات بھر پور  بہار کے موسم میں بھی نظر نہیں آتی۔ 

شعر 6

بات یہ ہے کہ سکونِ دلِ وحشی کا مقام
کنجِ زنداں بھی نہیں، وُسعتِ صحرا بھی نہیں

حل لغت:

دلِ وحشی: پاگل دل

کنجِ زنداں: قید خانے کا کونہ

وسعت: پھئلاؤ، وسیع ہونا

صحرا: ریگستان، ویرانہ

مفوم و تشریح:

اصل بات یہ ہے کہ اس بے چین دل کو نہ تو قید خانے کے کسی کونے میں سکون ہے اور نہ ہی صحرا کی وسعت میں ۔۔۔

شعر 7

ہم اُسے منھ سے بُرا تو نہیں کہتے کہ فراقّ
دوست تیرا ہے، مگر آدمی اچھا بھی نہیں

حل لغت:

منھ سے بُرا کہنا: بُرائی بیان کرنا

مفہوم و تشریح:

اے فراقؔ! ہم تیرے دوست کے بارے میں کچھ بُرا تو نہیں کہتے لیکن ایک بات سچ ہے وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔

چوتھی غزل

اداؔ جعفری (1924ء - 2015ء)

شعر 1

یہ فخر تو حاصل ہے، برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

حل لغت:

فخر: اعزاز

برے: خراب

بھلے: نیک

قدم چلنا: ساتھ وقت گزارنا

مفہوم و تشریح:

ہمیں اس بات کا فخر ہے، کہ زندگی کہ چند لمحات ہم نے تیرے ساتھ گزارے ہیں، چاہے لوگ ہمیں اچھا سمجھیں یا بُرا۔۔۔

شعر 2

جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں

حل لغت:

چراغ: دیا، لیمپ

مقدر: قسمت، نصیب

ازل: کائنات کی تخلیق کا پہلا دن

دل کا کنول: دل کا پھول

مفہوم و تشریح:

کائنات کی تخلیق کے پہلے ہی دن  سے چراغوں کے مقدر میں جلنا لکھ دیا گیا ہے۔ جب کہ اک ہمارا دل ہے کہ نہ  کھِلتا ہے نہ بجھتا ہے۔ 

شعر 3

نازک تھے کہیں رنگِ گل و بوئے سمن سے
جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں

حل لغت:

نازک:حساس

رنگ گُل: پھول کا رنگ

بوئے سمن: چمبیلی کی خوش بو

جذبات: احساساتِ دل

سانچے: ڈھانچہ، جس میں چیزیں بنائی جاتی ہیں

مفہوم وتشریح:

ہم پھولوں کے رنگ اور خوش بو سے بھی زیادہ حساس ہیں۔ مچلتے جذبات کے باوجود ہم نے اپنے آپ کو آداب کی حدود میں رکھا ہوا ہے۔ 

شعر 4

تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں

حل لغت:

سرِ شام: شام ہوتے ہی

ہنگامِ سحر:صبح کے وقت کی رونق

خورشید: سورج

مفہوم و تشریح:

شام ہوتے ہی کتنے ستارے( نمایاں انسان) ڈوب جاتے ہیں اور صبح کے آتے ہی کتنے سورج( وہ لوگ جن کے دم سے بھلائی ہے) ڈھل جاتے ہیں۔

شعر 5

جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں

حل لغت:

جھیل گئے: برداشت کر گئے

تیور: انداز، تیزی

کڑی دھوپ: سخت دھوپ

خنک چھاؤں: تھنڈی چھاؤں

مفہوم و تشریح:

جو لوگ برے وقت کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتے ہیں  وہ اکثر اچھے وقت میں بے چین ہوتے ہیں۔ 

شعر 6

اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

حل لغت:

شمع: دیا، چراغ

گردشِ دوراں: زمانے کی چال

چال: فریب، پلاننگ، دھوکا

مفہوم و تشریح:

اہلِ زمانہ نے ہماری جلائی ہوئی اک شمع کو بجھا دیا تو ہم نے ایک اور جلا لی، زمانے نے ہمارے خلاف طرح طرح چالیں چلیں لیکن اصل میں ہم نے زمانے کے ساتھ چال چلی ہے۔ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top