فاطمہؔ حسن کی شاعری
اردو کی مشہور شاعرہ فاطمہ حسن 25جنوری 1953ء کر کراچی میں پیدا ہوئیں۔
نمونہ کلام (اشعار)
اُمڈ آیا ہے شور اوروں کے گھر سے
دریچے کھول کر پچھتا رہی ہوں
♦♦♦
کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں
♦♦♦
سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا
وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا
♦♦♦
خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں
♦♦♦
جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں
اب لکھ رہی ہوںان کو حقیقت کے باب میں
♦♦♦
چاروں اور تجھے دھندلے دھندلے چہرے سے
خواب کی صورت جو بھی دیکھا بھول گئی
♦♦♦
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
♦♦♦
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
♦♦♦
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
♦♦♦
بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی
میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں
♦♦♦
بچھڑ رہا تھا مگر مڑ کے دیکھتا بھی رہا
میں مسکراتی رہی میں نے بھی کمال کیا
♦♦♦
پوری نہ ادھوری ہوں نہ کم تر ہوں نہ برتر
انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں
♦♦♦
اور کوئی نہیں ہے اس کے سوا
سکھ دیے دکھ دیے اسی نے دیے
♦♦♦
کوئی نہیں ہے میرے جیسا چاروں اور
اپنے گرد اک بھیڑ سجا کر تنہا ہوں
♦♦♦
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
♦♦♦
غزلیں
1
خواب گروی رکھ دیے آنکھوں کا سودا کر دیا
قرض دل کیا قرض جاں بھی آج چکتا کر دیا
غیر کو الزام کیوں دیں دوست سے شکوہ نہیں
اپنے ہی ہاتھوں کیا جو کچھ بھی جیسا کر دیا
کچھ خبر بھی ہو نہ پائی اس دیار عشق میں
کون یوسف ہو گیا کس کو زلیخا کر دیا
دل کے دروازے پہ یادیں شور جب بننے لگیں
دھڑکنوں کا نام دے کر بوجھ ہلکا کر دیا
کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
اپنے پیاروں کو بچایا درد کی ہر موج سے
آنکھ میں سیلاب روکا دل کو دریا کر دیا
پھول، پودے، پیڑ، بچے گھر کا آنگن اور تم
خواہشوں کے نام پر ان سب کو یکجا کر دیا
غم نہیں لا حاصلی کا عشق کا حاصل ہے یہ
اے حساب زندگی تجھ کو تو پورا کر دیا
ہجر سے ہجرت تلک ہر دکھ سے سمجھوتا کیا
بھیڑ میں رہ کے بھی میں نے خود کو تنہا کر دیا
یہ زمیں حسرتؔ کی ہے اس پر قدم رکھا تو پھر
اتنی جرأت ہو گئی عرض تمنا کر دیا
♦♦♦
2
زمیں سے رشتۂ دیوار و در بھی رکھنا ہے
سنوارنے کے لیے اپنا گھر بھی رکھنا ہے
ہوا سے آگ سے پانی سے متصل رہ کر
انہیں سے اپنی تباہی کا ڈر بھی رکھنا ہے
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
یہ کیا سفر کے لیے ہجرتیں جواز بنیں
جو واپسی کا ہو ایسا سفر بھی رکھنا ہے
ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے
ہوا کے رخ کو بدلنا اگر نہیں ممکن
ہوا کی زد پہ سفر کا ہنر بھی رکھنا ہے
نشان راہ سے بڑھ کر ہیں خواب منزل کے
انہیں بچانا ہے اور راہ پر بھی رکھنا ہے
جواز کچھ بھی ہو اتنا تو سب ہی جانتے ہیں
سفر کے ساتھ جواز سفر بھی رکھنا ہے
♦♦♦
3
کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا
جو اک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا
جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
یقین کرنے لگے لوگ رت بدلتی ہے
مگر یہ سچ بھی کرشمہ نہ ہو خطابت کا
سنوارتی رہی گھر کو مگر یہ بھول گئی
کہ مختصر ہے یہ عرصہ یہاں سکونت کا
چلو کہ اس میں بھی اک آدھ کام کر ڈالیں
جو مل گیا ہے یہ لمحہ ذرا سی مہلت کا
♦♦♦
مآخذ:
اردو کلاسک : عمر جاوید خان
https://www.facebook.com/urduclasikshairi