تحریر: حمیرا جمیل، سیالکوٹ 

جو ہم مانگتے ہیں یا جو تصور کرتے ہیں. وہ مل جانا یا ہمارے پاس ہونا بہت بڑی نعمت ہے. اکثر اوقات انسان معمولی معمولی سی بات پر دلبراشتہ ہوجاتا ہے. وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے. جہاں تک پہنچنا بے حد مشکل ہوتا ہے.ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنے والا انسان کبھی کبھار تھک ہار کر قسمت پر سوال اٹھاتا ہے…. وہ قسمت جو لکھ دی گئی ہے. لیکن قسمت میں تبدیلی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے. اگر انسان سچے دل سے محنت کرے…. صرف  محنت کرنے والے کی نیت اچھی ہونی چاہیے. ظاہری ٹھاٹ بھاٹ کے چکر میں انسان سے وہ تمام گناہ سرزد ہوئے ہیں. جس کی تلافی شاید ممکن نہیں …… چند پیسوں کے عوض ضمیر بیچ دینا، عزت نفس کا سودا کرنا، حرام کی کمائی کھانا یہ سب برائیاں ہونے کے باوجود نصیب کو رونا…….. میں یہی کہوں گی دوہری شخصیت اور دوہری ذہنیت کے حامل انسان کب خوش ہوسکیں ہیں؟

وہ وقت جس کے انتظار میں صدیوں سے بیٹھا انسان یہ سوچ رہا ہے. میرے حالات کس وقت تبدیل ہوں گے؟ حتیٰ کہ وہ  بہتر حالات میں زندگی گزار رہا ہے.  بہت سارےلوگوں سے اچھا ہے….. مگر ہوس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا. کسی دوسرے کو دیکھ کر اپنا گھر برباد کرنا یا نصیب کے ہاتھوں خود کی شکست تسلیم  کرنا. فلاں کی قسمت بہت تیز ہے. وہ بھی میرے ساتھ ہی رہتا تھا… بہت آگے نکل گیا….میں وہی کا وہی کھڑا ہوں. یہ باتیں ذہن میں لانا اور فکر مند رہنا. کہاں کی عقل مندی ہے؟ جو ترقی کرگیا اُس کے متعلق سوچ کر خود کر بیمار کرنا…… ایک ذی شعور انسان مثبت طریقہ کار اپناتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھاتا. اوروں کے حوالے سے  سوچ کر خود کا مزاج خراب نہیں کرتا…. اللہ نے جو جس کے نصیب میں لکھا ہے وہ بہتر سے بہترین ہے…. محض یقین ہونا چاہیے.. اچھے بُرے حالات ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں. ان حالات سے منہ موڑ کر کسی اور کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنا…. اشرف المخلوقات کو بالکل زیب نہیں دیتا.

قسمت کی دیوی کب کس پر مہربان ہوتی ہے اس کا کسی کو علم نہیں…. حیران ہیں ایک دوسرے کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں. لیکن پھر بھی خاموش ہیں. اور خاموشی دل چیر دینے والی ہے. خود پر لعن طعن کررہے ہیں، خدا جانے کون سا جرم کربیٹھے ہیں؟ جس کی سزا بھگتنے کی تیاری میں ہیں.

انسان بے حد عظیم ہے. عظمت کردار، گفتگو، رویہ، حسن سلوک، اچھے اعمال اور پیار محبت سے ظاہر ہوتی ہے. اگر عظمت کا معیار  ہی درست نہ ہو تو عظمت صرف خاک کے سوا کچھ نہیں؟ دنیا کو جیت لینے کی چاہ ختم ہی نہیں ہورہی…. وہ چاہت جوبے سود ہے. کہیں کسی جگہ سے سہار نہ مل پائے  تو آخری حربہ نصیب کا رونا…… رونے میں درد اور اذیت پیدا کرکے ہمدردی حاصل کرنا ہے.

ہمدردی سے پیٹ نہیں بھرتا یہ خیال دماغ میں لاتے ہوئے. ہاتھ پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا. عزت بھی کوئی شے ہے….خوداعتمادی اور عزت نفس مجروح ہوجانا. یہ سب ایک ہی انسان کے اندر دیکھنے کو مل جائیں تو سونے پر سہاگہ ہے. اکثریت آج بھی اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کے ہاتھوں بے بس ہے… بے بسی کا یہ عالم ہے کہ انسان  خود کی پہچان بھلا چکا ہے. دوسروں کی ترقی اور خوشحالی دیکھ کر جلتا اور کڑھتا ہے.  قسمت کو بہتر بنانے کے چکر میں انسان  دکھاوے کی زندگی گزارنے میں مصروف ہے.

اللہ نے اشرف المخلوقات کو جس قدر نوازا ہے…. وہ شکر گزار ہونے  کے بجائے شکوہ شکایات  کرنے میں سکون محسوس کررہی ہے . شاید کوئی سمجھا سکتا سب کچھ نصیب ہی نہیں ہوتا. بہت کچھ انسان جستجو سے بھی حاصل کرتا ہے. کم تر اور برترکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے…. خودکو مارڈالنے کا یقین دل میں پال لینا. سمجھ داری تو بالکل نہیں ہوسکتی. بشرطیکہ پاگل پن لازمی ہوسکتا  ہے.

دھن دولت کے نشے  میں یہی انسان رشتوں کو کھو ڈالتے ہیں.چند روپے پیسے کے عوض والدین سے نفرت کرتے…. اور صد افسوس کیا کیا کرگزرنے کو تیار ہوتے ہیں؟  ایمان کی کمزوری اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنے  نفس کے آگے لاچار ہے. کوئی عقل و شعور سکھا دیتا کہ یہ دنیاوی مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے. قبر میں تو اکیلے ہی جانا پڑنا ہے. قصور کسی کا بھی نہیں ہے…..

ہر بار کسی غیر کا نام لے کر بدنام کرنے سے بہتر ہے کہ خود اپنی اصلاح کی جائے. اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے. فرق صرف یہ ہے کہ انسان مٹی کا ہو کر بھی پتھر بن چکا ہے. بضد ہے کہ ہم سے اعلیٰ درجے کا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا. حالانکہ سب ایک ہی مٹی سے بنے ہیں. تفریق کو خاطر میں لاکر ہر دفعہ نصیب کا ذکر کرنا فضول معلوم ہوتا ہے. محلات اور جھونپڑی میں رہنے والے سب معزز ہیں. ذات پات کے دائرے بنا کر انسان ذلت کے سوا کچھ نہیں پاسکا. ایک لفظ "قسمت” کہہ کر خود میں تبدیلی نہ لانا….. اور بدنامی قسمت کے سر باندھنا….. کم بختی کے علاوہ کچھ بھی نہیں.

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top