حرف

سادہ آوازوں کو تحریری علامات میں لانے کا نام حرف ہے۔ 

ابجد

ہجا میں حروف کی آواز اور ان کی حرکات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے۔ حروف کے مجموعہ کو "ابجد” کہتے ہیں۔ 

(ابجد کا لفظ ابتدائی حروف اب ج د سے بنا ہے)

چوں کہ اردو زبان ہندی، فارسی اور عربی سے مل کر بنی ہے لہذاٰ اس میں ان سب زبانوں کے حروف موجود ہیں۔ 

خاص عربی حروف یہ ہیں:

ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ق

یہ حروف قدیم فارسی اور ہندی یا سنسکرت میں نہیں پائے جاتے لیکن ‘ذ’ قدیم فارسی میں بھی پائی جاتی ہے اور اب بھی بعض فارسی الفاظ ‘ذ’ سے لکھے جاتے ہیں۔

ٹ، ڈ، ڑ، خالص ہندی ہیں۔ عربی فارسی میں نہیں آتے۔

ز، ف، خ، غ، کی آوازیں ہندی میں نہیں عربی فارسی دونوں میں ہے۔

‘ ژ’ خاص فارسی حرف ہے۔ ہندی عربی میں نہیں آتا۔ 

علاوہ ان تین حروف (ٹ، ڈ۔ ڑ) کے چند اور حرف بھی ہیں جو خاص ہندی ہیں اور عربی فارسی میں نہیں آتے۔ اب تک اردو میں یہ سادہ حروف نہیں سمجھے جاتے تھے بلکہ ان میں ہر حرف دو حرفوں کے میل سے ایک مرکب آواز خیال کی جاتی ہے۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدا میں ہم نے اپنی بول چال فارسی حروف میں لکھنی شروع کی، فارسی عربی میں یہ آوازیں نہیں اور نہ ان کے لیے حروف ہیں۔ ضرورت کے لیے ان آوازوں کو دو دو حرفوں کے ذریعے سے ظاہر کرنا پڑا۔ یوں تو یہ دو سادہ آوازیں ہیں مگر مل کر ایک ہو گئی ہیں۔ وہ حرف یہ ہیں۔

بھ، پھ، تھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، ڑھ، کھ، گھ

ان کے علاوہ اردو میں رھ، لھ، مھ، نھ، کی آوازیں بھی ہیں۔ ہندی میں ان آوازوں کے لیے کوئی حروف نہیں۔ مثالیں ان کی یہ ہیں، تیرھواں، کولھو، ملھو، تمھارا۔ چوں کہ ان حروف میں پہلی سادہ آواز (ہ) کی آواز کے ساتھ مل کر آتی ہیں اس لیے معمولی ‘ ہ’ سے امتیاز کرنے کے لیے دو چشمی ‘ھ’ سے لکھتے ہیں۔

 مثلاً کھا اور کہا، دو علاحدہ لفظ ہیں۔ تلفّظ میں بھی اور معنوں میں بھی، لہٰذا املا میں بھی فرق کرنا چاہیے۔ یہ امتیاز بہت ضروری ہے۔ اس حساب سے اردو زبان میں کُل حروفِ تہجّی پچاس ہوتے ہیں۔ 

یہ حرف جو ہرملک کے ساتھ مخصوص کیے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آوازیں آب و ہوا وغیرہ کے اثر سے اس ملک والوں کے گَلوں سے بہ آسانی نکلتی ہیں۔ مگر دوسرے ممالک لے لوگ اسی وجہ سے ان کو ادا نہیں کر سکتے، یا بہ دقّت ادا کرتے ہیں۔

 انسان ک گلا آلہ موسیقی کے اصؤل پر بنا ہو اہے، اور اسی طور پر اس میں تار بھی بندھے ہوئے ہیں۔ سانس کے ہوا ملنے سے زبان ، تالو، ہونٹ اور خلائے دہن کی مدد سے آواز میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

 بعد ازاں یہ ہوا کہ تصاویر مختلف اصوات کی قائم مقام ہو گئیں اور انھیں تصویروں کی یادگار یہ حرف ہیں جو اب بھی کسی قدر ان سے مشابہ ہیں۔ 

مثلاً ‘الف’ کے معنی بیل کے سر کے ہیں۔ چوں کہ "ا” کی آواز اس لفظ کے آغاز میں تھی توا س آواز کے ظاہر کرنے کے لیے گائے کا سر بنا دیتے تھے۔  بعد ازاں خود یہ لفظ بجائے الف کی پہلی آواز کے تحریر میں ایک حرف قرار پایا۔

 یہی وجہ ہے کہ فارسی، عربی، عبرانی زبانوں کے حروف در حقیقت الفاظ ہیں، یا ہر حرف کئی آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں دو اصلاحیں عمل میں آئیں۔ تصویر رفتہ رفتہ مختصر سی صورت میں رہ گئی۔ نام اس کا اگرچہ قریب قریب وہی رہا مگر وہ مختصر صورت اب نام کی بجائے نہیں بلکہ اس کا نام میں جو آواز پہلے نکلتی ہے، اس کی بجائے ہے۔

 مثلاً الف کو لیجیے اس کی صورت (گائے کا سر) مختصر ہو کر (ا) رہ گئی ہے۔ اور الف کے بولنے میں جو سب سے پہلے سادہ آواز نکلتی ہے، اس جگہ استعمال ہوتی ہے۔ 

اسی طرح ‘ب’ در حقیقت بیت ہے جس کی ابتدائی شکل ایک مستطیل مکان کی سی تھی اور اس کے نیچے نقطہ ایک شخص تھا جو مکان کے دروازے کے سامنے بیٹھا تھا۔ اب رفتہ رفتہ اس کی شکل ایک پڑی لکیر ہو گئی اور وہ آدمی نقطہ رہ گیا۔

‘ ج’ جمل یعنی اونٹ ہے ۔ اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار اور اس کی نکیل زور سے کھینچے تو اس کے سر اور گردن کی شکل بعینہ ‘ج’ کی سی ہو جائے گی۔

‘ پ’ (ف) عبرانی میں منھ کے معنی میں ہے۔

‘د’ (عبرانی دالت) دروازہ۔

‘ ہ ‘ دریچہ۔

‘ ع’ (عین) کے معنی آنکھ کے ہیں چناں چہ (ع) کا سرا با لکل آنکھ کے مشابہ ہے۔

‘ن ‘ (نون) مچھلی۔ مشابہت ظاہر ہے۔ 

‘ م’ (میم پانی کی لہر) صورت سے ظاہر ہے۔

‘ س ‘ عبرانی میں دانت کو کہتے ہیں (س) کا دندانہ با لکل دانت کے مشابہ ہے۔

‘ و’ (واؤ) کے معنی آنکڑے کے ہیں جس کی صورت ‘و ‘ سے ملتی ہے۔ 

غرض اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حروف دراصل الفاظ ہیں جو دو یا دو سے زائد آوازوں سے مرکب ہیں اور ہر  ایک بہ لحاظ اپنی اوّل سادہ آواز کے ایک علامت مقرر کر لیا گیا ہے۔ مثلاً ‘ الف’ میں تین  آوازیں ا ل ف کی ہیں مگر اب اس کے بولنے میں جو آواز پہلے نکلتی ہے اس کی بجائے مقرر کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے حروف کے متعلق قیاس کر لیا جائے۔ ابتدا میں اس سادہ آواز کے لیے اس شے کی تصویر کھینچ دی جاتی تھی۔ مگر اب ایک چھوٹی سی علامت جو کسی قدر اصل کے مشابہ ہے، بجائے اس آواز کے مستعمل ہے اور نام ان کے قریب قریب وہی ہیں جو اصل اشیا کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حروف تہجی بولنے میں درحقیقت الفاظ ہیں۔ 

ماخذ (Reference): قواعدِ اُردو، مرتب: ڈاکٹر مولوی عبد الحق، پبلشرز، انجمن ترقّی اُردو پاکستان، کراچی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top