کلیشے (CLICHE)
ادبی اصطلاح میں کوئی ایسا لفظ جو بار بار استعمال کے بعد اپنی قدرومنزلت کھو بیٹھے۔ کوئی ایسا قول یا جزو و کلام جو کثرت استعمال سے بے معنی ہو کر رہ گیا ہو اور لکھنے اور بولنے والے اسے بلا تکلف، بغیر سوچے سمجھے، لکھتے اور بولتے رہتے ہوں۔ وہ باتیں، تراکیب، اضافتیں جو بار بار استعمال کرنے سے اپنی تازگی کھو کر گھسنے پٹے کلمات میں تبدیل ہو کر رہ جائیں انھیں کلیشے کہا جاتا ہے۔
اردو میں اس کے لیے لفظ "مِبذِلہ” (جمع مبذلات) لایا گیا ہے جو کسی نہ کسی حد تک کلیشے کا مفہوم ادا کرسکتا ہے۔ ایسے الفاظ جنھیں بے محل اور بے محابا برتا جائے وہ کلیشے بن جاتے ہیں۔ مثلاً ، بارشِ سنگ
♦♦
مستشرق (ORIENTALIST)
مغرب کا ایسا ادیب جو مشرقی علوم میں نہ صرف دل چسپی لیتا ہو بلکہ اس میں مہارت رکھتا ہو اسے مستشرق کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، میری این شمل، گیرئیرسن، ولیم گل کرائسٹ، ڈاکٹر لائٹز، نکسلن، پروفیسر ہیرو جی کتاوکا اور بہت سے نام لیے جاسکتے ہیں۔
♦♦
مقدمہ (PREFACE)
مصنف، مؤلف یا مرتب کی کتاب کے تعارف کے طور پر جو ابتدائی تحریر ملتی ہے۔ اسے مقدمہ کہتے ہیں۔ مقدمہ کے مترادف تقریظ، ابتدائیہ، پیش لفظ، دیباچہ ایسے لفظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مقدمہ یا دیباچہ مصنف خود بھی لکھ سکتا ہے یا کسی فن کے ماہر سے لکھوا سکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ قاری مقدمہ یا فہرست سے کتاب کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کر لے۔
♦♦
نشست (SITTING)
ادبی تقریبات کے لیے چند دوستوں کا اکٹھے مل بیٹھنا نشست کہلاتا ہے۔ مجلس، بزم، انجمن، محفل، بیٹھک، اجلاس، فنکشن، جلسہ وغیرہ میٹنگ یعنی نشست کہلاتے ہیں۔
♦♦
نقالی (IMITATION)
نقالی کو افلاطون کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ افلاطون عالمِ مثال کا قائل تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس مادی دنیا کی تمام چیزیں حقیقی عالم کی نقلیں ہیں۔ شاعر مادی دنیا کی نقل کرتا ہے۔ ارسطو نے بعض اپنے استاد کے نظریات کے بعض حصوں کو اپنی کتاب Poetics میں ہدفِ تنقید بھی بنایا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے تمام فنون حقیقت کی نقل ہیں۔
♦♦
یو ٹوپیا (UTOPIA)
یوٹوپیا، نہ ہونا، نا ممکن، نا قابل عمل، کہیں نہ ہونا اور عنقا وغیرہ کے مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ ایسا منصوبہ جو صرف خیالی ہو اس کی تکمیل نا ممکن ہو اسے یو ٹوپیا کہتے ہیں ۔ ایسا خواب جس کی تعبیر نہ ہو اسے بھی یوٹوپیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ادب میں یہ اصطلاح افلاطون کے حوالے سے "مثالی ریاست کے نقشے” کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے یعنی ایسی مثالی ریاست جو سوچی سمجھی تو جاسکے مگر حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہ ہو۔
♦♦
اساطیر/دیومالا (MYTHOLOGY)
قدیم افسانوی قصوں ، داستانوں اور دیوی دیوتاؤں کے بارے میں روایتوں کو اساطیر، دیومالا، اور علم الاصنام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یونانی، مصری اور ہندی، دیو مالا کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ماورائے عقل قصے کہانیوں کو دیو مالائی کہنے کا رواج بہت قدیم ہے۔ داستانوی ادب میں اساطیری کہانیوں کا ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں میں اساطیری روایت موجود ہے۔ وہ دورِ جدید میں بھی اساطیر دیو مالائی طرز اسلوب اپنائے ہوئے تھے۔
♦♦
تمثال آفرینی (IMAGERY)
حُسن تخیل کسی نہ کسی نقش کا شاہکار ہوتا ہے۔ تمثال آفرینی کا مفہوم یہ ہے کہ لفظوں کی ایسی صورت جو چشم خیال کے نتیجہ میں قاری کو متاثر کرے اور اس کے ذہن پر کندہ ہو جائے۔ تخلیق کار قاری کے لیے کیفیات کا ایسا پیکر تیار کرے کہ چشمِ خیال اسے دیکھتی ہی رہ جائے۔ یہ امیج تشبیہات و استعارات کی وجہ سے یوں سامنے آتے ہیں کہ وہ پڑھنے والے کی آنکھوں سے اس کے دل میں اُتر جاتے ہیں۔ لفظوں کا ایسا چناؤ جس سے ادراک کا خیال پیدا ہو جائے تو اسے تمثال کا نام دیا جاتا ہے۔
♦♦
اعیان (IDEA)
زندگی جذبات و احساسات سے پروان چڑھتی ہے۔ ہم جو چیز دیکھتے ہیں یہ عالمِ اعیان میں موجود ہے۔ ہم ایک درخت دیکھتے ہیں در حقیقت اس کا آئیڈیا عالمِ اعیان میں موجود ہے۔ یونانی مفکرین نے عالمِ اعیان یا عالم امثال کو تخلیق کاروں سے جوڑا ہے۔ مادی دنیا کی تمام چیزیں عالمِ امثال کی نقل ہیں۔ تخلیق کار مادی دنیا اور اس کی اشیاء کی نقل پیش کرکے درحقیقت نقل در نقل کا مرتکب ہے۔ افلاطون کے نطریہ اعیان پر بہت تنقید ہوئی ہے۔
♦♦
پلاٹ (PLOT)
کسی ڈرامے ، افسانے، داستان یا ناول کے واقعات کو اس طرح مرتب کرنا کہ وہ ایک تخلیقی شہ پارہ نظر آئے، اسے پلاٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ مربوط و مبسوط واقعات کا ایسا سلسلہ جوافسانے، داستان، ناقل میں تخلیق کار کا تیار کردہ نظر آتا ہے پلاٹ کہلاتا ہے۔ یہ شعوری کاوش ہے جو فکروفن کو اچھے انداز میں جوڑ دیتا ہے۔ پلاٹ مربوط واقعات کے تسلسل کی وجہ سے ایک منطقی اور فطری انجام تک پہنچتا ہے۔ اسے منصوبہ بندی کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ حسن ترتیب اور خاص تکنیک سے واقعات کو باہمی ربط کے ساتھ انجام تک پہنچانے کا نام پلاٹ ہے۔
♦♦