تحقیق و تنقید: علی احمد


عارف
افتخار عارف

تعارف:پیدائش اور نام

افتخار عارف 21 مارچ 1944 ء کو لکھنو میں پیدا ہوئےجبکہ شناختی کارڈ پہ اُن کی تاریخ پیدائش 21 مارچ 1943ء درج ہے۔ ننھیال نے آپ کا نام ” افتخار حسین” جبکہ ددھیال نے ” شمس عارف”  رکھا۔ لیکن جب آپ شعور کی عمر کو پہنچے تو آپ نے اپنا نام”افتخار حسین عارف ” لکھنا شروع کر دیا۔ اُن کی پہلی غزل بھی اسی نام سے شائع ہوئی۔

خاندان:

والد کا نام پیر بخش اور والدہ کا نام آمنہ بی بی تھا۔ وہ اپنے والد کو’ بابو اور میاں جان’ کہا کرتے تھے۔ افتخار عارف کی والدہ کے بارے میں قراۃالعین حیدر نے ” کارِ جہاں دراز ہے” میں لکھا ہے کہ :

” وہ لکھنوی تہذیب کی شیریں سخن نمائندہ تھیں”

آپ کی والدہ کشمیری النسل اور مغل قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ افتخار عارف کے والد اور والدہ  میں ناچاقی رہی ۔ اسی ضمن میں عائزہ قریشی کہتی ہیں:

” افتخار عارف کے والدین کی ازدواجی زندگی کامیاب نہ تھی۔ جس کی وجہ کثرت ازدواج تھی۔ والدین کی علیحدگی کی وجہ سے افتخار عارف کی پرورش ان کے سوتیلے نانا نے کی۔”

وہ اپنے ایک انٹرویو میں خود کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے میری والدہ کے بعد تین شادیاں کیں۔

افتخار عارف اپنے والی کی شفقت سے محروم رہے۔ اُن کے والد لکھنئو کے آبائی قبرستان میں دفن ہیں جبکہ والدہ نے کینسر کے مرض میں وفات پائی اور کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔ افتخار عارف کے تین سوتیلے بھائی اور تین سوتیلی بہنیں ہیں جو کہ لکھنئو میں مقیم ہیں۔ حقیقی  بہن ایک ہی ہےجس کا نام فاطمہ ہے جن کی شادی مشہور نیوز کاسٹر شکیل احمد کے بیٹے جمیل احمد سے ہوئی۔ افتخار عارف کی بہن ناظم آباد کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔1965ء میں افتخار عارف کی عمر 21 سال تھی جب وہ پاکستان ہجرت کر کے آئے۔

شادی اور اولاد:

22 اکتوبر 1967ء کو آپ کی شادی ریحانہ سے ہوئی ۔ اس بارے میں افتخار عارف کی اپنی رائے ملاحظہ کیجیے:

” میری اور میری بہن دونوں کی شادیاں شادی سے پہلے طے کر دی گئی تھیں۔ ہماری ” ٹھیکرے کی مانگ” تھی۔ چنانچہ ہوش سنبھالنے سے پہلے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ فاطمہ کی شادی جمیل سے ہونا ہے اور ریحانہ میری بیوی ہو گی۔ "

افتخار عارف پاکستان میں اکیلے مقیم ہیں۔ بیوی بچے لندن میں رہتے ہیں۔ افتخار عارف خود بھی 1967ء سے 1977 تک کراچی میں مقیم رہے اور پھر 1977ء سے1990ء تک لندن میں رہے۔

؎عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ ایک عمر چلےا ور گھر نہیں آیا

افتخار عارف کی زندگی زیادہ خوشگوار تو نہیں گزری لیکن باہم عزت و احترام سے گزری۔ ان کے دو بچے ہیں۔ بیٹی تطہیر فاطمہ، جو اب گیتی آرا کے نام جانی جاتی ہیں۔ اور بیٹا علی افتخار ہے یہ دونوں لندن میں مقیم ہیں۔

تعلیم و تربیت:

افتخار عارف کا بچپن بہت ہی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ان کی پرورش ان کے سوتیلے نانا نے کی۔ وہ محنت مزدوری کر کے افتخار عارف کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ وہ ایک سنجیدہ طبع انسان تھے اور کتاب کے آدمی تھے۔ یہ ان کے نانا ہی تھے جنہوں نے افتخار عارف کو ناولوں اور مختلف شعرا کے دواوین پڑھنے کی طرف راغب کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ذرا شعور کی عمر کو پہنچے تو ایک آنہ لائبریری کا رُخ کیا۔ روزانہ کتاب لاتے اور کوشش کرتے کہ اسی دن پڑھ لیں تاکہ کرایہ زیادہ ادا نہ کرنا پرے۔ یونیورسٹی میں گئے تو انہیں چار آنے خرچہ ملتا تھاجس میں سے ایک آنہ لائبریری کیلیے اور باقی کے تین آنے "گڑ اور چنوں ” کیلیے۔۔۔اس لیے گھر سےیونیورسٹی  پیدل سفر کرتے۔

افتخار عارف کے ہاں جو ہمیں ایک روحانی شخصیت کا گماں گزرتا ہے اس کے پیچھے بھی اُن کے نانا کی روحانی تربیت کا عمل دخل ہے۔ افتخار عارف کے نانا ایک صوفی منش انسان تھے اور انہیں صوفیہ کرام سے عقیدت تھی۔ افتخار عارف اپنے نانا کے ساتھ قوالی محفلوں اور مزارات پہ حاضری کیلیے جاتے اور خاص طور پہ حضرت مولانا عبدالرحمٰن سندھی لکھنوی سے عقیدت تھی۔ یہی وہ صحبت تھی جہان سے آپ نے عجزو انکسار اور اخلاص و مروت کا درس لیا ، جس پہ آج تک کار بند ہیں۔

افتخار عارف نے ابتدائی تعلیم ، نظامیہ فرنگی محل لکھنو سے حاصل کی۔ چھٹی سے دسویں تک جوبلی سکول لکھنو میں زیرِ تعلیم رہے۔ نیز انٹرمیڈیٹ کا امتحان جوبلی کالج لکھنو سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ میں آپ کے مضامین، سوشیالوجی، سوشل ورک، اردو۔ جنرل سنسکرت اور جنرل انگلش تھے۔ 1965 میں ایم سوشیالوجی کیا۔  انہیں حالات کے بارے میں ممتاز مفتی لکھتے ہیں:

” لکھنو کا لاوارث، مفلس ، ٹوٹا ہوا بچہ، جس میں چشمہ خریدنے کی توفیق نہ تھی۔کتابیں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔”

خدا کے فضل، نانا کی حوصلہ افزائی اور اپنی محنت کے بل پوتے پہ آہستہ آہستہ زندگی میں آگے بڑھتا رہا۔ بلاشبہ اساتذہ کا بھی اہم کردار رہا۔ آپ کے اساتذہ میں، حسن  نقوی، رضوان علی، اختر علی سلہری، علامہ سید علی نقی، پروفیسر مکرجی، غلام مصطفٰی علوی، ڈاکٹر شبیہ الحسن، پروفیسر احتشام حسین، مولوی محمد حسین، علی عباس حسینی اور حامد اللہ افسر میرٹھی شامل ہیں۔ ان میں ہر ایک استاد نابغہ روزگار شخصیت تھی۔

ملازمت:

استاد بننے کے خواہش مند تھے کیونکہ یہ شعبہ انہیں پسند تھا، اس کیلیے مختلف جگہوں پہ کوشش بھی کی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ریڈیومیں نیوز کاسٹر کام کرنے لگے جس کے انہیں 10 روپے ، ایک بلیٹن کے ملتے تھے بعد ازاں ترجمہ کرنے کا کام بھی مل گیا تو تنخواہ 15 روپے بلیٹن ہو گئی۔ ترجمے کا فن ، افضل صدیقی (مرحوم) سے سیکھاجو اس وقت روزنامہ جنگ  کراچی میں تھے۔ عبید اللہ بیگ اور چند دوستوں کے ساتھ مل کر ” کسوٹی” کا آئیڈیا سوچا اور اس طرح ٹی۔ وی کی دنیا میں قدم رکھا ، پھر تو جیسے ٹی۔ وی کے ہی ہو کر رہ گئے۔۔۔ سکرپٹس ایڈیٹر، سینئر پروڈیوسر رہے، اس کے علاوہ، ڈراموں ، موسیقی، لوک اور دستاویزی پروگراموں کی تدوین و پیشکش کا کام بھی کیا۔ٹیلی وژن کے زمانے میں آپ کی شاعرانہ حیثیت کو بھی استحکام حاصل ہوا۔ 1972 میں افتخار عارف کی غزلوں پہ مشتمل طویل دورانیے کا پروگرام ” چپ دریا” کے نام سے پیش کیا گیا جس کو بہت پذیرائی ملی لیکن  بالآخر ٹی۔ وی کا 1968 میں شروع ہونے والا یہ سفر 1977 میں اختتام پذیر ہوا اور آپ نے ٹی۔وی کو خیر باد کہہ دیا۔

ٹیلی وژن کو چھوڑنے کی ایک وجہ سلیم احمد مرحوم کا یہ سوال تھا کہ افتخار تمہارا کیا خیال ہے کہ لوگ تمھیں کیس حیثیت سے یاد رکھیں گے۔ شاعر یا اداکار؟ یہ حقیقت نہیں سراب ہے۔ لفظ کو معتبر جانو اور اس کے سہارے زندگی کرو۔ شاید یہی وجہ بنی اور وہ شعر کی طرف مکمل طور پر پلٹ آئے۔

لندن میں سکونت کے دوران، اردو مرکز سے منسلک رہے اور اسے بام عروج تک پہنچایا۔ پاکستان آنے کے بعد اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پہ فائز رہے۔ 1995 میں مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین بنائے گئے۔ اور اس وقت بھی مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کے عہدے پہ فائز ہیں۔

افتخار عارف کی ذات میں لکھنو کا تمدن اور ادبی فکری رویےسانس لیتے ہیں۔ وہ جون، عبیداللہ علیم، حمایت علی شاعر، نصیر ترابی اور سلیم احمد کو اپنا استاد گردانتے ہیں۔

اعزازات

فیض انٹرنیشنل ایوارڈ 1988

تمغہ حسن کارکردگی 1989

نقوش ایوارڈ 1994

وثیقہ اعتراف 1994

بابائے اردو ایوارڈ 1995

ستارۂ امتیاز 1999

ہلال امتیاز 2005

شعری مجموعے

بارہواں کھلاڑی

مہر دو نیم

حرفِ باریاب

جہان معلوم

شہر علم کے دروازے پر

کتاب دل و دنیا کلیات:

Written in the Season of Fear

مکالمہ

در کلوندہ

غزل گو ئی

؎غزل بعد از یگانہ سر خرو ہم سے رہے گی

مخاطب کوئی بھی ہو گفتگو ہم سے رہے گی

افتخار عارف شاعری میں اپنا ایک الگ مقام اور علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے غزل میں ایسے ایسے تجربات کیے جو انہی کا خاصا ہیں ۔ جن پہ انہیں تنقید کے نشتر بھی سہنے پڑے لیکن وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت سرخرو ہوئے اور نقادوں کو اُن کا کہا ماننا پڑا۔

افتخار عارف  نے موضوعاتی سطح پر حمد، نعت، مرثیہ، شہر آشوب اور ہجو کے فرد فرد عناصر کو اپنی غزل میں یکجا کردیا ہے۔ اول اول جب افتخار عارف نے اس تجربے کی پہلی غزل "وہی پیاس ہے وہی دشت ” کہی تو ان کے معاصر نے یہ اعتراض کیا کہ یہ لکھنو سے آیا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ غزل اور مرثیے میں فرق ہوتا ہے۔ اس پہ اُن کے محترم استاد سلیم احمد نے کہا کہ ان شاعروں کی باتوں پر کان نہ دھرو، یہ وہی ہیں جو اپنی لولی لنگڑی محبوباؤں  کے قصیدے کہتے ہیں۔ تم کو فخر ہونا چاہیے کہ تمہارا تصورِ  محبوب اعلیٰ و ارفع ہے۔

لیکن اگر ان کی ایسی غزلوں کو بغور مطالعہ کیا جائے جن پہ مرثیہ ہونے کا اعتراض ہوتا ہے تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر اشعار استعاراتی ہیں اور اُن کا پسِ منظر موجودہ حالات و اقعات ہیں۔

افتخار عارف نے ظلم و نا انصافی کے خلاف کھل کے آواز اُٹھائی، شاید یہی وجہ ہے کہ پہلی کتاب میں کربلا کا حوالہ زیادہ ملتا ہے۔

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں

کبھی چھپے ہوئے خنجر کبھی کھنچی ہوئی تیغ

سپاہ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں

وہ جن کی دسخطیں محضر ستم پہ ہیں ثبت

ہر اس ادیب ہر اس بے ادب سے واقف ہیں

یہ رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم

درازئ شب غم کے سبب سے واقف ہیں

نظر میں رکھتے ہیں عصر بلند بامیٔ مہر

فرات جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں

کوئی نئی تو نہیں حرف حق کی تنہائی

جو جانتے ہیں وہ اس امر رب سے واقف ہیں

افتخار عارف کا نمایاں ترین رنگِ غزل سیاستِ دوراں،زمانے کی منافقت،  درباری فضا ، رزق کی مصلحت، مٹی کی محبت، عافیتِ جاں، وغیرہ ہیں۔

؎ یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے

یہاں وعدوں کی ارزانی بہت ہے

؎ یہ وقت کی کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

؎  ہوا بھی ہو گئی میثاقِ تیرگی میں شریک

کوئی چراغ نہ اب رہ گزر میں رکھا جائے

؎  وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پُرانا تھا

؎ ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال

اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی

اورایسے بہت سے اشعار ان کے شدت احساس کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کہیں وعدوں کی ارزانی کا رونا ہے تو کبھی غرور کا سر نیچا، کبھی اپنوں کا گلہ تو کبھی رزقِ حلال کی جستجو کی ترغیب۔۔۔افتخار عارف نے ہمیشہ حق سچ کا عَلم اُٹھایا ہے۔

فیض کا لہجہ دھیما اور شعریت رومانوی تھی، حبیب کا لہجہ تلخ اور اشعار انقلابی۔۔۔ افتخار کے یہاں ملا جُلا تاثر ملتا ہے۔ نہ ایسے دھیمے ہیں کہ فیض کا رنگ جھلکے اور نہ ایسے تلخ کہ جالب کا گمان ہو۔

افتخار عارف ، اکثر دربدری اور بے گھری کاذکر کرتے ہیں۔ شاید یہ اُن کی ذاتی زندگی کا پر تو بھی ہے جو اُن کی شاعری میں اُمڈ آیا ہے۔ اسی نوع کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے :

؎ مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

؎عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ اک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

؎یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں بس رہا تھا وہی گھرمرا نہ تھا

؎پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون سے خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے تجربے ان کے اپنے ہیں۔ اور وہ دربدری کے کرب و بلا سے گزرے ہیں۔

اسی موضوع سے متصل مٹی کی محبت بھی ہے مٹی کی محبت ہی اپنے گھر کا رستہ دکھاتی ہے اور انسان نا جانے کیا کیا صعوبتیں سہنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے ۔ افتخار عارف کی غزل میں مٹی سے محبت کا اظہار جا بجا  ملتا ہے اور وہ نا صرف اپنے وطن سے محبت کے قائل ہیں بلکہ اس کے لیے ہمیشہ دعا گو بھی رہتے ہیں۔

چند اشعار دیکھیے:

؎  مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اُتارے ہیں کہ جو واجب بھی نہیں تھے

؎مری زمین مرا آخری حوالہ ہے

سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے

جب ہم افتخار عارف کی غزل کو پڑھتے ہیں تو عاشق مزاج لوگوں کے ذوق کی تشفی نہیں ہوتی حالانکہ غزل کا مزاج ہمیشہ سے ہی رومانیت کے زیرِ اثر رہا ہے اور حتیٰ کہ غزل کا معنی ہی ” عورتوں سے یا عورتوں کی باتیں” کرنا کیا جاتا ہے۔ لیکن افتخار عارف ذرا مختلف قسم کی غزلیات کہتے ہیں جس کی ان کے پاس اپنی دلیلیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی محبت اور محبت کے معاملات کے موضوعات سے جان بوجھ کر کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔انہیں لہجے کی رومانوی شاعری بالکل پسند نہ ہے۔ کہیں کہیں چند غزلیں ایسی ملتی ہیں لیکن وہ بھی ہجر کے لہجے میں گوندھی ہوئی۔ ایسے ہی رنگ میں رنگے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

؎ ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

؎دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

؎رنگ تھا روشنی تھی قیامت تھا

جس پہ ہم مر مٹے قیامت تھا

اور بالآخر رومانوی شاعری سے آخری رشتہ بھی ٹوٹ گیا

؎اور پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ گیا

وہ جو یک رشتہء محبت تھا

افتخار عارف کی ماورائیت متصوفانہ خیالات سے تشکیل پاتی ہے، حمد ، نعت اور دوسری منور ہستیوں کے نام غزل کو منور کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں افتخار عارف ” افتخار عارف” ہے۔

؎گریہ نیم شبی کی نعمت جب سے بحال ہوئی

ہر لحظہ امیدِ حضوری بڑھتی جاتی ہے

؎راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

افتخار عارف نے ہمیشہ تسلیم و رضا کو اپنا شیوہ بنایا جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ انہیں سرورِ کائنات سے خاص محبت ہے۔ نعت کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

؎ہم سارے یادگارِ زمین و زمانہ لوگ

اک صاحبِ زمین و زمانہ کے دم سے ہیں

؎ذرا ہوں منسوب ہوا ہوں مہر کے ساتھ

روشن رہنا مجھ پہ واجب آتا ہے

شاعری پڑھیں:

نقادوں کی رائے

فیض احمد فیض فرماتے ہیں:

Iftikhar Arif

” افتخار عارف کے کلام میں میرو غالب سے لے کر فراق و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں۔ لیکن آپ نے ان بزرگوں سے استفادہ کیا ہے، کسی کے ہاتھ پہ بیعت نہیں کی۔

حتیٰ کہ غزل جیسی کافر صنف میں بھی کچھ انفرادی بڑھت کی ہے۔ آج کل غزل سے جو دراز دستیاں کی جارہی ہیں اُن پہ توجہ دینے کی بجائے غزل کے سبھی تلازمے برقرار رکھے ہیں۔ لیکن نہ چلتی ہوئی بحروں کا سہارا لیا ہے نہ روندی ہوئی زمینوں پر انحصار کیا ہے، نہ لفظی چٹخاروں سے داد وصول کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے بدل میں کم مستعمل بحریں استعما ل کی ہیں اور نفس مطالب کو قافیہ بند کرنے کی بجائے غیر متوقع اور بر محل سلیقی سے شعر کو جگمگا دیا ہے”

پروفیسرڈاکٹر سیّد ابو الخیر کشفی کی رائے ہے:

"افتخار عارف کی شاعری کا بنیادی موضوع رزقِ جلیل ہے۔ یہی رزق جلیل قربت خسروانہ میں بھی ہمیں مرنے نہیں دیتا بلکہ حیات ابدی کا سراغ دیتا ہے۔ افتخار عارف کی شاعری کا موضوع رزقِ حلال اور وہ گوشہء عافیت ہے جو مکان کو گھر بناتا ہے اور ان دونوں کا حصول ہمیشہ اس منزل تک پہنچاتا ہے کہ موت ہمارے جسم کو چھوتی ہے مگر ہمارے وجود کے مرکز سے دور رہتی ہے۔

غزل کے رموز و علائم شاعری کو ‘بیان’ بننے نہیں دیتے اور شعر اپنے مرتبہء عالی سے نیچے نہیں اترتا۔ افتخار عارف کی علامتوں میں ان کے موضوعات کو سمیٹنے کی قوت موجود ہے۔ علی کی علامت کے مرکزیہ کے گرد اور کئی دائرے موجود ہیں۔ حسین، کربلا، فرات، صبر، استقامت۔ کربلا ایک گزرا ہوا واقعہ نہیں بلکہ زندگی کا ایک مرحلہ مستقل ہے۔ "

پروفیسر فتح محمد ملک کہتے ہیں:

"افتخار عارف نے اقبال کی شاعری سے اردو شاعری کا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ کر ایک نئے انداز کی ترقی پسند شعری روایت کی بنیاد ڈالی ہے”

مشتاق احمد یوسفی کا خیال ہے کہ:

"اُن کے ہاں صرف تراکیب اور ڈکشن کا شکوہ ہی نہیں، لہجے کا شکوہ اور ایک شائستہ، فن شعلگی اور ہمہمہ بھی ہے۔ ان کا لہجہ ان کے حرف کا اعتبار اور سمپورن ٹھاٹ ہے۔ ان کے زخمی مگر خوددار و خود آگاہ لہجے سے ان کے شعر میں وہ ٹھرڈ ڈائمنشن (تیسرا بُعد) پیدا ہوئی ہے جو اچھی شاعری کی شرط اور شناخت ہے۔ ان کے لیجے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ان کا پنا منفرد اور پُر اعتماد لہجہ ہے۔”

ممتاز مفتی ، افتخار عاف کے بارے میں کہتے ہیں:

” افتخار عارف میری دانست میں پہلا تخلیق کار ہے جس نے بر ملا کہہ دیا کہ فنکار وحشتوں کا تابع ہوتا ہے۔۔۔ پہلا شاعر جس نے وحشتوں کے ساتھی کی آرزو کا برملا اظہار کردیا، بھید کھول دیا۔ سیانے کہتے ہیں اگر کسی شخصیت کی حقیقت کا جاننا ہو تو اسے اکیلے میں دیکھو جب اسے یقین ہو کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ایک دن افتخار عارف کو اکیلے میں دیکھا، دیکھتا ہی رہا۔ میں نے دیکھا، اداسی ، اکتاہٹ، بے چینی، دکھ کی بھیک، یا اللہ! اس خوش باش، بے فکرے، رنگیلے شاعر میں اتنا دکھ بھرا اضطراب کیوں ہے؟ اس روز مجھے پتہ چلا کہ یہ کنول آنسوؤں کی جھیل سے پیدا ہوا ہے۔ اکیلے میں اس کا سینہ شق ہو جاتا ہے۔ ایک ویرانی ایک خلا؟ افتخار عارف کو جان لینا چاہیے کہ صرف ایک چیز ہے جو اسے اس فنا کی دست برد سے بچا سکتی ہے۔۔۔ تخلیق! تخلیق! تخلیق!”

اختر الایمان فرماتے ہیں:

"عصر جدید کے شاعروں  میں جو نام ابھر کر سامنے آئے ہیں اُن میں افتخار عارف کا نما سر فہرست ہے۔ ان کی شاعری عصری ہونے کے ساتھ کلا سیکی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس عہد کے بعض لکھنے والوں کو پڑھ کر اُن پر فارسی یا عربی شاعر کا دھوکہ ہوتا ہے مگر افتخار عارف کو پڑھ کر افتخار ہی ذہن میں آتے ہیں کوئی دوسرا شاعر نہیں۔ انھیں اردو شاعری کا خوش آئند مستقبل کہا جا سکتا ہے۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔”

نمائندہ غزلیات

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے

میں گر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں

میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے

وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے

مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

اب بھی توہین اطاعت نہیں ہوگی ہم سے

دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ

رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے

دل کے معبود جبینوں کے خدائی سے الگ

ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے

اجرت عشق وفا ہے تو ہم ایسے مزدور

کچھ بھی کر لیں گے یہ محنت نہیں ہوگی ہم سے

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا

کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں

وہ ایک خواب کہ اب تک نظر نہیں آیا

کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ

سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا

دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے

یہ چاہتے تھے مگر دل ادھر نہیں آیا

عجیب ہی تھا مرے دور گمرہی کا رفیق

بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا

حریم لفظ و معانی سے نسبتیں بھی رہیں

مگر سلیقۂ عرض ہنر نہیں آیا

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو

ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو

ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

تم نے پوچھا تو ہوتا بتلا سکتا تھا میں

آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ

آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر

ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں نظمیں گیت

ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے

بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

ہوا بھی ہو گئی میثاق تیرگی میں فریق

کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو

یہ التزام بھی عرض ہنر میں رکھا جائے

نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں

نشان مہر کمان سپر میں رکھا جائے

وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب

لحاظ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش

عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے

ہمیں بھی عافیت جاں کا ہے خیال بہت

ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن

جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے

میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت

جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

ستارۂ سحری ڈوبنے کو آیا ہے

ذرا کوئی مرے سورج کو با خبر کر دے

قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں

مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے

میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا

اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے

مری زمین مرا آخری حوالہ ہے

سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے

شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے

شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے

نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محور گردش سفاک سے خوف آتا ہے

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا

اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے

خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے

قامت جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعت عشق

اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے

ان دنوں عالم افلاک سے خوف آتا ہے

رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان

امت سید لولاک سے خوف آتا ہے

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا

مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

موج ہوائے شہر مقدر جواب دے

دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا

پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں

کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ تھا

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے

اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

کتابیات

عارف، افتخار ،  حرفِ باریاب، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،   1996       

عارف، افتخار،  جہانِ معلوم ، مکتبہ دانیال   ، کراچی،  2005

عارف، افتخار ، کتابِ دل و دُنیا،  مکتبہ دانیال   ، کراچی،   2012

عارف، افتخار ،  مہرِ دو نیم ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ، 1985

عارف، افتخار ،  شہرِ علم کے دروازے پر ، مکتبہ دانیال   ، کراچی،   2005

امیر، رؤف،  اقلیمِ ہنر  (افتخار عارف :شخصیت و فن)،  2003

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top