نثر کی تعریف:

"نثر” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” پراگندہ یا بکھرا ہوا” مگر اصطلاح میں الفاظ کا معینہ ضابطوں کے تحت استعمال "نظم” کہلاتا ہے جب کہ اس کے متضاد کے طور پر "نثر” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ 

 غیر افسانوی ادب(ghair afsanvi adab in urdu) میں فکشن کے علاوہ ہر طرح کی نثری تحریر شامل ہوتی ہے۔

سوانح عمری:

سوانح کا لفظ سانحہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: رُوداد یا کیفیت، چنانچہ سوانح عمری کے معنی ہوئے کسی شخص کی زندگی کے احوال یا  اس کی سرگزشت۔

سوانح نگار کسی شخص کی ولادت سے وفات تک کے حالات چوں کہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موضوع سے پوری طرح آگاہ ہو اور جس شخص کی وہ سوانح عمری ترتیب دے رہا ہے، اس  کے ساتھ اس کا قریبی رابطہ رہا ہو یا اس شخص کا مطالعہ اس طرح کیا ہو کہ اس کا کوئی گوشہ بھی مخفی نہ رہا ہو۔ 

 اس کے ساتھ ساتھ سوانح نگار کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اس شخص کے پورے عہد کا مکمل شعور رکھتا ہو۔ کوئی بھی شخص، خواہ وہ کتنا ہی قد آور  اور عام سماجی و معاشرتی سطح  سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، اُسی ماحول کا پروردہ ہوتا ہے جس میں اس نے زندگی بِتائی ہے اور اسے قدم قدم پر اپنے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، اس  لیے سوانح نگار کو چاہیے کہ وہ اس معاشرے کی تہذیبی و فکری سطح سے مکمل آگاہ ہو۔

اُردو  میں سب سے پہلے مولانا حالی نے باقاعدہ طور پر سوانح عمری لکھی۔ حیاتِ سعدی (1883ء)اردو کی سب سے پہلی سوانح عمری ہے۔

مولانا  حالی نے یادگارِ غالب (1897ء) لکھی جو ان کے استادِ محترم مرزا غالب کی یادگار سوانح عمری ہے اور حیاتِ جاوید (1901ء) ان کے مُرّبی و محسن سرسیّد احمد خاں کی سوانح عمری ہے۔

مولانا شبلی نعمانی: (المامون 1887ء)۔ (سیرت النعمان 1890ء)-(الفاروق 1899ء)۔( الغزالی 1902ء)

افتخار احمد صدیقی: حیات النذیر، 1912ء

رئیس احمد جعفری:سیرتِ محمد علی، 1924ء

سید سلیمان ندوی:حیاتِ شبلی، 1925ء

عبدالمجید سالک: ذکرِ اقبال، 1954ء 

آپ بیتی:

  اپنی زندگی کے حالات و واقعات کا بیان آپ بیتی یا خود نوشت کہلاتا ہے۔ آپ بیتی محض مصنّف کے ذاتی احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ  یہ لکھنے والے کے جذبات و احساسات اور اُن کی روشنی میں مشاہدات و تجربات کی مدد سے اس کے نقطہ نظر کی ترجمان ہوتی ہے۔ عام طور پر مصنّف اپنی آپ بیتی  یادداشتوں اور حافظے کی مدد سے اخیر عمر  کے اس  کے حصے میں لکھتا ہے جب اس کے پاس اتنا مواد جمع ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے الفاظ میں:

’’ سب سے اچھی آپ بیتی وہ ہوتی ہے جس کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوالِ زندگی پر مشتمل ہو۔ ‘‘

آپ بیتی کی مختلف شکلیں ہیں مثلاً رازنامچہ یا ڈائری بھی ایک طرح کی آپ بیتی ہے۔ تُزکِ تیموری، تُزکِ بابری، تزکِ جہانگیری اسی زُمرے میں آتی ہیں۔ رپورتاژ (رپورٹنگ) اور سفر نامہ بھی آپ بیتی ہی کی شکلیں ہیں۔

مولانا جعفر تھانیسری: کالا پانی

حسرت موہانی: قیدِ فرنگ

مرزا فرحت اللہ بیگ: یادِ ایّامِ عشرتِ فانی

مولانا عبدالمجید سالک: سرگزشت

رشید احمد صدیقی: آشفتہ بیانی میری

دیوان سنگھ مفتوں: ناقابلِ فراموش

قدرت اللہ شہاب: شہاب نامہ

جوش ملیح آبادی: یادوں کی برات

احسان دانش: جہانِ دانش

مرزا ادیب: مٹی کا دیا

خاکہ:

 خاکہ کے لغوی معنی ابتدائی نقشہ یا ڈھانچا کے ہیں اور خاکہ کھینچنا کے معنی ہیں کسی کی لفظی تصویر بنانا۔ادبی اصطلاح میں خاکہ ایسی صنفِ نثر ہے جو مختصر ہونے کے باوجود کسی شخصیت کا بھرپور تاثر پیش کرے۔ اسے کسی شخص کی قلمی تصویر بھی کہہ سکتے ہیں۔

خاکہ سوانح عمری کی مختصر ترین شکل ہے۔ ایک عمدہ خاکے کی خوبی یہ ہے کہ  زیرِ تعلیم شخصیت کی وضع قطع، تراش خراش ، چال ڈھال، لباس، نشست و برخاست، طعام و قیام، پسند وناپسند بیان کرنے کے علاوہ اس کی عادات و اطوار اور کار ہائے نمایاں اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ وہ شخصیت قاری کی نظروں  کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔

 ہر چند مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب آبِ حیات میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ضرور ملتے ہیں تاہم اردو کے پہلے باقاعدہ خاکہ نگار مرزا فرحت اللہ بیگ ہیں جنھوں نے  ’نذیر احمد کی کہانی کچھ اُن کی کچھ میری زبانی ‘ کے عنوان سے اپنے استادِ محترم ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ لکھا۔ علاوہ ازیں ’ ایک وصیت کی تکمیل  ‘ اور ’ دہلی کا ایک یادگار مشاہرہ ‘ ان کے ناقابلِ فراموش خاکے ہیں۔

رشید احمد صدیقی: گنج ہائے گراں مایہ۔ ہم نفسانِ رفتہ

مولانا چراغ حسن حسرت: مردمِ دیدہ۔

مولانا عبد المجید سالک: یارانِ کہن

عبد السلام خورشید: وَے صورتیں الہٰی 

مولوی عبد الحق: چند ہم عصر

 جگن ناتھ آزاد: آنکھیں ترستیاں ہیں

محمد طفیل: معظم۔ مکرّم

احمد بشیر: جو ملے تھے راستے میں

رئیس احمد جعفری: دیدو شنید

شاہد احمد دہلوی: گنجینہ گوہر

سعادت حسن منٹو: لاؤڈ سپیکر۔ گنجے فرشتے

ممتاز مفتی: اوکھے لوگ

سفر نامہ:

  سفر نامہ ایک قدیم مگر دل چسپ صنفِ ادب ہے کیوں کہ جب سفر کیا گیا تو دوسروں تک معلومات پہنچانے کی غرض سے سفر و حضر کی رُوداد لکھنے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ سفرنامہ شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں پھرنے کا نام نہیں بلکہ ادبی نقطہءنظر سے کامیاب سفرنامہ وہ ہوتا ہے جس میں مصنّف اپنے ذاتی مشاہدات کے ساتھ ساتھ ان تاثرات کو بھی بیان کرے جو سفر کے دوران میں اس کے دل میں پیدا ہوئے۔ چند مشہور سفر نامے  یہ ہیں:

یوسف خان کمبل پوش:عجائباتِ فرنگ 1847ء

مولانا شبلی نعمانی: روم ومصر و شام

سر عبدالقادر : نقشِ فرنگ 

 محمود نظامی: نظر نامہ

بیگم اختر ریاض الدین: سات سمندر پار۔ دھنک پر قدم

خواجہ حسن نظامی: حجاز و مصر و شام

حکیم سعید: ماورا البحار

ممتاز مفتی: لبیک

ابنِ انشا: چلتے ہوتو چین کو چلیے۔ ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں۔- دُنیا گول ہے

شیخ منظور الہٰی: درِ دل کُشا 

جمیل الدین عالی: دُنیا مرے آگے۔ تماشا مرے آگے

عطا الحق قاسمی: شوقِ آوارگی

مستنصر حسین تارڑ: نکلے تری تلاش میں ۔ اندلس میں اجنبی

طارق محمود مرزا: خوشبو کا سفر

افضل علوی کا سفر نامہ: دیکھ لیا ایران

مکتوب  نگاری:

مکتوب کے لغوی معنی ’لکھا گیا ‘  یا  ’لکھا ہوا ‘ کے ہیں لیکن عام طور پر مکتوب سے مراد خط لیا جاتا ہے۔

خط کو ’نصف ملاقات ‘  کہا جاتا ہے۔ بلکہ مرزا غالب نے تو خط کو دو بدو باتیں کرنے کے مترادف  قرار دیا ہے جیسا کہ وہ اپنے ایک شاگرد مرزا حاتم علی بیگ مہر کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’ مرزا صاحب! میں نے وہ  اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے، ہزار کوس سے بہ زبانِ قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔ ‘ 

 مرزا غالب نے  مکتوب کو جدّت  دی اور اپنے مکاتیب میں عام فہم زبان کا استعمال کیا۔ مرزا غالب کے اردو مکاتیب کے مجموعے ’ اردوئے معلیٰ ‘  اور ’ عودِ ہندی ‘ اردو مکتوب نگاری کا پہلا سنگِ میل ہیں۔

ابو الکلام آزاد: غبارِ خاطر

طنزومزاح:

 پانچ حسّوں کے متعلق تو آپ جانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ،  چھٹی حس  یعنی کامَن سنس، ساتویں حسِّ جمال، اورآٹھویں، حسِّ مزاح ہے۔

مولانا حالی نے مرزا غالب کو حیوانِ ظریف لکھا ہے تو محض اس بنا پر کہ مرزا غالب کی فطرت میں شوخ چشمی، طنز ومزاح اور لطیفہ گوئی کی حِسّ غیر معمولی طور پر موجود تھی اور ان کی کوئی بات بھی لطف و ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی۔ سرسیّد احمد خاں، علامہ اقبال، آغا حشر کاشمیری کا بھی یہ یہی حال تھا اور ان کی تمام زندگی ساغرِ ظرافت سے لبریز رہی۔:

طنزو مزاح زبان و ادب کے دو رنگ ہیں جو نظم و نثر دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں لفظ کبھی ساتھ ساتھ بولے جاتے ہیں اور کبھی الگ الگ۔ ان دونوں لفظوں میں معنوں کے اعتبار سے فرق ہے۔

ڈاکٹر اشفاق احمد ورک طنزومزاح کا فرق یوں واضح کرتے ہیں: 

’’ طنزو مزاح بیک وقت دو مختلف چیزیں بھی ہیں اور لازم وملزوم بھی۔ انگزیزی ادب میں  تو یہ دونوں اپنی اپنی خصوصیات ، مزاح اور تاثیر کے اعتبار سے نمایاں طور پر الگ الگ پہچانی جاتی ہیں جب کہ اردو ادب میں ان دونوں میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ انھیں جدا کرنا کارِ دشوار ہے۔طنز فن کی ضرورت ہے جب کہ مزاح طنز کا لازمہ ۔ مزاح کا مقصد محض ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے جب کہ طنز کا مقصد سوچنے کی دعوت دینا اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔ ‘‘

 اردو ادب میں طنزو مزاح کی صحت مند اور خوش گوار روایت کا آغاز مرزا غالب سے ہوتا ہے۔ مرزا غالب کے بعد  اودھ پنچ اور اودھ اخبار نے بھی فروغ دیا۔ ان کے بعدمزاح نگاروں میں  مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پَطرس بخاری، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خاں، ابراہیم جلیس، سیّد ضمیر جعفری۔ محمد خالد اختر، عطا ء الحق قاسمی اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک شامل ہیں۔ سیّد ضمیر جعفری کیا خوب کہتے ہیں

غم نے کب آدمی کو چھوڑا ہے

خوب ہنس لو کہ وقت تھوڑا ہے

مضمون:

 مضمون کے لغوی معنی ہیں   ’ ضمن میں لیا گیا ‘ لیکن اصطلاح میں مضمون اس عبارت یا تحریر کو کہتے ہیں جو کسی خاص بحث پر لکھی جائے۔ دوسرے لفظوں میں مضمون غیر داستانوی ادب کی وہ نثری صنف ہے جس میں کسی خاص موضوع پر اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔

اردو میں مضمون نویسی کا باقاعدہ آغاز سرسیّد احمد خاں (1817ء-1898ء) سے ہوا۔ انھوں نے علمی و تحقیقی، اخلاقی و اصلاحی، ملکی و سیاسی اور مذہبی و تاریخی مضامین کے علاوہ سوانح و سیرّ اور ادبی و تنقیدی موضوعات پر بکثرت مضامین لکھے۔

 انھوں نے ’ تہذیب الاخلاق ‘ کا اجرا ہی مضامین لکھنے کے لیے تھا۔  وہ نہ صرف خود لکھتے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی اس جانب راغب کیا۔ حالی سے شرر تک بہت سے دوستوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔

مضمون، مقالہ اور انشائیہ میں فرق:

  مضمون اور مقالہ درحقیقت ایک ہی صنف کے دو روپ ہیں۔ دونوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ مضمون قدرے مختصر ہوتا ہے اور پانچ چھے صفحات سے زیادہ طویل نہیں ہوتا اور اس کا اسلوب تاثراتی اور مفہوم سادہ و سلیس ہوتا ہے جب کہ مقالہ مضمون کی نسبت کہیں زیادہ طویل اور عالمانہ و فاضلانہ ہوتا ہے اور اس میں ایک تو مضمون کی نسبت گہرائی ہوتی ہے اور دوسرے وہ تحقیقی نوعیّت کا ہوتا ہے۔ 

 انشائیہ بھی مضمون ہی کی ایک دوسری شکل ہے مگر ایک انشائیے کا انداز مضمون کے منطقی انداز کے برعکس غیر رسمی ہوتا ہے اور اسے کہیں  سے بھی شروع کر کے کہیں بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔  دوسرے انشائیے کی زبان شستہ ورواں ہونے کے بجائے زیرِ لب تبسّم کا اندازلیے ہوئے شگفتہ اور غزل کی طرح رمز وکنائے کی زبان ہوتی ہے اور انشائیہ لازمی طور پر انشائیہ نگار کے داخلی جذبات و تاثرات کا ترجمان ہوتا ہے یعنی اس میں مصنف کی ذات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ 

مآخذ: کتاب، کلیدِ اُردو

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top