condom article

لکھنؤ کی ادبی روایت ہمیشہ اپنے نفیس انداز اور دلچسپ استعارات کے لیے مشہور رہی ہے۔ وہاں کی ایک لکھنوی اصطلاح تھی "چھوٹے میاں کی اچکن”، جو کنڈوم کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہ جملہ اپنی سادگی میں گہرائی لیے ہوئے ہے—”چھوٹے میاں” مردانگی کی علامت اور "اچکن” حفاظت کا استعارہ۔ زین، ایک حساس ذہن کا نوجوان، لاہور کی گلیوں میں یہ سوچتے ہوئے چل رہا تھا کہ کیسے آج کے پاکستان میں بھی اسی طرح کے تخلیقی انداز سے مانع حمل جیسے حساس موضوع پر کھل کر بات کی جا سکتی ہے؟
زین نے ہمیشہ اس بات پر غور کیا تھا کہ معاشرتی سطح پر کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم اکثر نظر انداز کرتے ہیں یا جنہیں ہماری شرم و حیا کے تصورات میں ڈھانپ لیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تھا مانع حمل کے بارے میں کھل کر بات کرنا۔ وہ جانتا تھا کہ جہاں دنیا بھر میں اس موضوع پر کھلی گفتگو ہوتی ہے، وہاں پاکستان میں یہ ابھی بھی ایک معیوب موضوع سمجھا جاتا ہے۔

کنڈوم کی تاریخ اور اس کا آغاز

کنڈوم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم مصر میں تقریباً 3000 سال قبل لوگوں نے چمڑے، پودوں کے ریشے، یا جانوروں کی آنتوں کو استعمال کرتے ہوئے مانع حمل کے لیے تدابیر اختیار کیں۔ تاہم، 16ویں صدی میں فرانس کے ڈاکٹر ریگنالد ہارڈی نے سب سے پہلے لاٹن سے کنڈوم تیار کیا تھا تاکہ بیماریوں کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ پھر 19ویں صدی میں ربڑ کی دریافت نے کنڈوم کی تیاری میں مزید بہتری لائی، اور یہ 20ویں صدی کے آغاز میں ایک اہم مانع حمل طریقہ بن گیا۔
پاکستان میں آج کل بھی کنڈوم کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے، خاص طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے، مگر اس کے استعمال میں شرم و حیا کے تصورات نے عوام کو اس کے استعمال سے گریز کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس پر زین ہمیشہ غور کرتا رہا تھا۔

ایک دن زین اپنے دوست عمران کے ساتھ ایک کیفے میں بیٹھا تھا، جب اس نے بات کی کہ وہ فارمیسی سے کنڈوم خریدنے گیا تھا۔ زین نے کہا، "عمران، تمہیں یاد ہے جب میں فارمیسی سے کنڈوم خریدنے گیا تھا؟ دکاندار نے اسے خاکی کاغذ میں لپیٹ دیا تھا۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ضروری تھا؟”
عمران مسکرا کر بولا، "زین، یہ ایک چھوٹی بات ہے۔ لوگوں کو اپنی ذاتی زندگی کو دوسروں سے چھپانے کی عادت ہوتی ہے، اس لیے یہ روایت چل پڑی۔ ہم جب تک اپنی معاشرتی روایات کو سمجھ کر بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔”
زین کو عمران کی باتوں سے اختلاف تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اس ملک میں مانع حمل کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس نے اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "مگر عمران، اس چیز کو اس طرح چھپانا ہماری کمزوری نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہمیں اس بات کو کھلے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے؟”

زین کو اچانک ایک پروگرام کی یاد آئی جس میں اس نے ڈاکٹر سید عزیز الرحمان، جو گرین سٹار کے سی ای او ہیں، کی گفتگو سنی تھی۔ ڈاکٹر عزیز نے "رفتار کے پروگرام” میں اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان میں کنڈوم کی کھپت کو بڑھانے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی بڑھانی چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا، "ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک ہم مانع حمل کو ایک معمول کی بات نہیں مانیں گے، تب تک ہماری آبادی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔”
ڈاکٹر عزیز نے مزید کہا، "پاکستان میں کنڈوم کے استعمال کی ضرورت اس لیے ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہر سال چار ملین غیر منصوبہ بند ی بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ ہماری معیشت اور صحت کے نظام کے لیے ایک بوجھ بن رہا ہے۔”

پاکستان کی آبادی اور اس کے اثرات

پاکستان میں آبادی کا بڑھنا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر سال تقریباً چار ملین بچے پیدا ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک بڑی تعداد وہ ہے جو غیر منصوبہ بندی کے تحت آتی ہے۔ یہ اضافی آبادی نہ صرف وسائل پر دباؤ ڈال رہی ہے، بلکہ اس سے صحت کے نظام، تعلیم، اور معاشی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، پاکستان میں دوران زچگی اموات کی شرح بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ ہر سال تقریباً 22,000 خواتین دوران زچگی اپنی جان گنوا دیتی ہیں، جو کہ دنیا بھر میں ایک سنگین انسانی بحران کے طور پر سامنے آتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بچے جو سکول جانے کی عمر میں ہیں، ان میں سے تقریباً 22 ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ہماری معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں آ رہی ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

کنڈوم کی قیمتوں میں اضافہ اور آئی ایم ایف کا مسئلہ

زین کو فارمیسی سے نکلتے ہوئے ایک اور بات یاد آئی جس پر اس نے دل سے شکایت کی۔ دکاندار نے کنڈوم کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کا سبب آئی ایم ایف کے مطالبات کو بتایا۔ زین نے اس پر فوراً اعتراض کیا، "لیکن یہ تو بالکل غلط بات ہے! آئی ایم ایف ایسا کہہ ہی نہیں سکتا کہ آپ کنڈوم پر ٹیکس لگائیں!” زین نے مزید کہا، "یہ محض ایک حکومت کا بہانہ ہو سکتا ہے تاکہ عوام کو اس اضافے کا جواز فراہم کیا جا سکے، مگر اس سے عوام کی زندگی پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔”
مزید یہ کہ، پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک ارب کنڈوم فروخت ہوتے ہیں، لیکن حالیہ سالوں میں بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ٹیکسوں کی وجہ سے اس کی خریداری میں کمی آئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق، فروخت میں 35 فیصد تک کمی ہو چکی ہے۔

پاکستان میں مانع حمل کی اہمیت

زین سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر عزیز کی باتوں میں کتنی حقیقت تھی۔ آج پاکستان میں جب آبادی 240 ملین سے تجاوز کر چکی ہو اور غیر منصوبہ بند بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہو، تو اس جیسے مسائل پر کھل کر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت تک ہم اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے جب تک اس موضوع پر شرمندگی کی پردہ پوشی ختم نہ ہو جائے۔
زین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دوست عمران کی طرح صرف معاشرتی روایات کی بات نہیں کرے گا بلکہ اس موضوع پر عوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کا ماننا تھا کہ اگر یہ معاشرتی مسئلہ ایک صحت مند گفتگو بن جائے تو پورا معاشرہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

AI کا کہنا ہے؎

چھوٹے میاں کی اچکن، محبت کی رہگزر
ہر لمس میں چھپی ہوئی، حفاظت کی ہمسفر

یہ کہانی نہ صرف ایک سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ ایک مثبت سوچ کو فروغ دیتی ہے کہ معمولی اقدامات سے بڑے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top