حَرفے چَند

  جب مجھے اسلم کولسری ؔ (Aslam Kolsari) پہ تحقیقی مقالہ لکھنے کا کہا گیا، تب تک میں نے صرف آپ کا ایک شعر ہی سن رکھا تھا۔ 

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے

 کس کی  ماں نے کتنا  زیور بیچا  تھا

 یہ شعر ، شاعر کے خیال کی بلندی کا شاہد ہے لیکن میں تذبذب کا شکار تھا کہ کہیں میں اپنا وقت  تو ضائع نہیں کر وں گا۔ خیر اس سوچ کے با وجود میں اردو بازار میں تھا اور میرے ہاتھ میں آپ کی چار کتابیں بھی تھیں۔ جوں  جوں میں شعر پڑھتا گیا توں توں مجھے یقین آیا کہ میرا وقت ضائع نہیں ہو گا۔ مجھے ایک” شاعر” کو تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملے گا  اور میرے علم اور خیال کو وسعت ملے گی۔  

اسلم ؔ کولسری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہیں تمام ادبی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔انھوں نے بہت سی اصناف میں شاعری کی لیکن اس مقالے میں صرف ان کی غزل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اب تک آپ کے نو شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ تحقیق کے دوران مجھے جس مشکل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا وہ مواد کی تلاش تھی۔اس لیے مقالے کی تحقیق میں اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو، تو اُسے تحقیق کے میدان میں مجھے نو وارد جان کر صرفِ نظر کیجیے گا۔

زیرِ نظر مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب اسلمؔ کولسری کے حالات ِ زندگی اور شخصیت پر  مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں اسلمؔ کولسری کی غزل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں چند احباب کی آرا بھی پیش کی گئی ہیں۔ تیسرے باب میں مقالے کا لبِ لباب  (محاکمہ) پیش کیا گیا ہے۔ 

اب جب کہ یہ مقالہ جانچنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، سب سے پہلے میں نگرانِ مقالہ اُستادِ محترم ڈاکٹر اختر شمار  کا تہِ دل سے ممنوں ہوں جن کی شفقت اور مجھ پہ بے حد اعتماد کی وجہ سے یہ مقالہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اور میں اُردو ادب کے تمام اساتذہ کا شکر گزار ہوں جن کی شاگردی میں میری ادبی و علمی استعداد میں اضافہ ہوا۔ میں  اسلمؔ کولسری صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن سے ملاقات سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور میں اپنے دوستوں کا بھی ممنون ہوں۔جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ خداوندِقدوس ان سب کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے! آمین

                                                                                                                                   علی احمد

ایف سی کالج (یونیورسٹی) لاہور


باب اول

 اسلمؔ کولسری سوانح اور شخصیت

ہمارے لیے خود اعتماد ہونے کیلیے یہی حقیقت کافی ہے کہ ہم جیسا نہ کوئی پہلے پیدا ہوا نہ آیندہ ہو گا۔ ہر انسان ایک ایک شناخت رکھتا ہے۔اسی لیے خدا نے ہر شخص کے مختلف خوبیوں سے نوازا ہوا ہے اب یہ انسان پہ منحصر ہے کہ وہ ان خوبیوں کو  کس حد تک پہچانتا ہے اور اُسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ میرے خیال میں انسان کی معراج یہی ہے کہ وہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچان کے زندگی کا سفر نہایت احسن طریقے سے طے کرتا ہے۔

اسلم ؔکولسری شاعری کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جوسچا شاعر ہے۔ کیونکہ جب اُسے لگتا ہے کہ یہ شعر الہامی  کیفیت سے پرے ہے تو وہ کُھلے دل سے اس بات کا اقرار کرتا ہے۔ وہ بلا شبہ ایک بلند پایا شاعر ہے لیکن  دنیائے اد ب میں اُسے وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ حقدار ہے۔ اسلمؔ کولسری کا پنا ایک رنگ ہے وہ نئے نئے  الفاظ کو غزل کا حصہ بناتا ہے۔ اُس کی شاعری پہ گاؤں کی زندگی کا گہرا رنگ ہے۔ وہ گاؤں کے روشن پہلوؤں کا پرچار کرتا ہے۔ وہ شہر کے ہجوم سے گھبراتا ہے۔ ز ندگی نے اُسے شہر میں لا پھینکا۔ لیکن اگر اسلم شہر نہ آتا تو وہ شاید محمد اسلم ہی رہتا کبھی اسلمؔ کولسری نہ بن سکتا۔وہ ایک انتہائی محنتی انسان ہے  جس کی زندگی بہت کٹھن گزری جب کہ وہ خود کو ایک سست انسان گردانتا ہے۔ جو بھی بات ہو، اسلمؔ کولسری کی شاعری میں ایک پیغام ضرور ہے۔

سادہ سی بات ہے کہ خد اکا اُس پر کرم ہے کہ وہ گمنام ہو کر بھی  ایک اچھا انسان اور با کمال شاعر ہے۔ وہ اردو سائنس بورڈ سے بھی منسلک رہا اور اپنی پیشہ وارانہ  ذ مہ داریوں کو خوب نبھایا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی شاعری پہ اس دور کے ممتازادباء نے اچھے لفظوں میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اسلم ؔ کولسری کے اب تک نو مجموعے شائع ہو چکے ہی۔ جن کے نام یہ ہیں:

۱۔     نخلِ جاں

۲۔     کاش

۳۔     ویرانہ

۴۔     نیند

۵۔     جیوان

۶۔     برسات

۷۔     عنبر

۸۔     پنچھی

۹۔     کومل

یہ کتابیں قاری کو کم پیسوں میں اچھی شاعری مہیا کرتی ہیں۔ اسلمؔ کولسری کی شاعری پہ بات اگلے باب میں ہو گی۔پہلے ہم مقالے کے تقاضوں کے پیشِ نظر اُن کی سوانح اور شخصیت پہ ایک نظر کر لیں۔

خاندانی پسِ منظر:

اسلم ؔ کولسری پچھلی کئی پشتوں میں اپنے خاندان کے پہلے شاعر ہیں۔وہ یکم اگست ۱۹۴۶ء کو چودھری رحمت علی اور عالم بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔

بچپن:

اسلم کولسریؔ ٗ اوکاڑہ سے ۸ میل کے فاصلے پہ واقع ایک گاؤں” چک نمبر۱۶/۴۔ایل ۔کولسر "میں پیدا ہوئے۔یہ گاؤں ملتان روڈ پہ واقع تھا جہاں آج کل اوکاڑہ کینٹ ہے۔ یکم اگست ۱۹۴۶ء (میٹرک کی سند کے مطابق) کا دن آپکا یومِ پیدائش قرار پایا۔اسلم کولسریؔ کے اپنے بیا ن کے مطابق یہ کوئی حتمی تاریخ نہیںہے کیونکہ ان دنوں تاریخِ پیدائش کے اندراج کروانے کا رواج نہیں تھا۔

آپ کے والد چودھری رحمت علی کی تین بیٹیاں تھیں اور کوئی بیٹا نہیں تھا۔ گاؤں میں ایک بزرگ ،حکیم جان  محمدرہا کرتے تھے جو بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے اور حکمت بھی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے شادی نہیں کی تھی اور اکیلے رہتے تھے۔ ایک دن اسلم کولسری کے والد اُن کے پاس گئے اور کہا کہ دعا کریں کہ میرے یاں اولادِ  نورینہ پیدا ہو تو وہ میں ٓپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔پھر جب اسلم صاحب کی پیدائش ہوئی تو وعدے کے مطابق انہیں حکیم جان محمد کو دے دیا گیا۔ اسلم کولسری کابچپن ادھر ہی حکیم صاحب کے پاس گزرا۔ اسلم صاحب کہتے ہیں:

جب رات کو میری آنکھ کھلتی تو میں دیکھتا کہ وہ سجدے میں رو رہے ہیں۔ پھر آنکھ کھلتی تو چائے   کی’ شوں شوں ٗ سے۔ حکیم جان محمد بڑی شاعرانہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ اکثر شعر پڑھ کر اسلم کولسری کا جگایا کرتے۔

اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

اسلم اٹھو، تمہیں باہر بلبلیں بلا رہی ہیں۔ اور پھر اسلم صاحب کو ہر پرندہ ہی بلبل دکھائی دیتا۔

حکیم صاحب کے یاں، شیرازیؔ، اقبال ؔ اور اسی طرح کی اور بہت سی کتابیںپڑی ہوتی تھیں۔ وہ بیت بازی کا  بھی اہتمام کیا کرتے ۔بچپن سے ہی اسلم صاحب کو بہت سے اشعار یاد ہوتے۔بچپن میں بالکل شرارتی نہیں تھے۔ اُس کی وجہ یہ تھی بابا جی ذرا جلالی طبیعت کے مالک تھے۔اس لیے اسلم صاحب ، مقید سے رہے۔

 اسلم کولسری ؔ جب چار سال کے ہوئے تو انہیں سکول داخل کروا دیا گیا۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ اس طرح فروری میں امتحان دے کر اگلی جماعت میںترقی پاگئے۔ بابا جی، اسلم صاحب کو ڈاکٹر بنا نا چاہتے تھے۔ اسلم کولسری ؔ کے ایک ماموں تھے جن کا نام چودھری برکت علی تھا۔ وہ مڈل سکول میں سیکنڈ ہیڈماسٹر تھے۔ جب اسلم  کولسریؔ ملنے آتے اور اُن کا ٹیسٹ لیتے تو وہ بڑے عجیب جواب دیتے۔ انہوں نے بابا جی، سے کہا کہ اگر میں  اسے اپنے پاس لے جاؤں تو یہ لڑکا ضرور پنجاب میں بورڈ ٹاپ کرے گا۔ وہ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن بابا مجھے اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ تب آپ چھٹی جماعت میں زیرِ تعلیم تھے۔ آخرکار فیصلہ یہ ہوا کہ ساتویں پاس کرنے کے بعد اسلم صاحب اپنے ماموں کے پاس چلے جائیں گے۔

اسلم کولسری کہتے ہیں:

"میری طبعیت عجیب تھی۔ آج بھی ان لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ بابا جی کے پاس سے جانے کے بعد میں اداس رہنے لگا۔گاؤں میری رگ رگ میں رچ بس گیا تھا۔ مجھے وہ درخت یاد آتے، وہ گلیاں، وہ تنکے۔۔۔

رات کو جب چانددیکھا کرتا تو سوچتا کہ میرے بہنیں بھی دیکھ رہی ہوں گی، ہماری نگائیں مل رہی ہیں ہم نہیں مل رہے۔۔۔”

 اداسی اور ماموں کے سخت رویے کی وجہ سے آپ کا دل پڑھائی سے اُچاٹ ہو گیا۔پھر اس پہ بیماری نے آن گھیرا۔ آنکھ پر پھنسی نکل آئی، نظر بھی کمزرو ہو گئی، بڑے عذابوں میں وقت گزرا۔  ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی اس کیلیے پڑھنا مناسب نہیں۔ اس طرح ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا۔

اسلم کولسریؔ کو مڈل میں سکالر شپ ملا لیکن ان کے ساتھ کے ایک لڑکے نے پنجاب میں سیکنڈ پوزیشن  حاصل کی۔ اس بات کا انہیں دکھ تھا کہ اگر میں ماموں کے پاس نہ آتا تو آج اُس لڑکے کی جگہ میرا نام ہوتا۔  لیکن اداسی اور سختی نے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔

بابا جی، بھی اداس رہنے لگے۔اور گاؤں چھوڑ دیا۔ادھر ان کو پڑھائی سے نفرت ہونے لگی تھی۔ جون توں کر کے گھنوں، ۵۸۔۵۔ایل ( یہ بھٹیوں کا گاؤں تھا)سے میٹرک کا امتحان ۱۹۶۲ء میں پاس کیا ۔

ملازمت و تعلیمی سلسلہ:

پھر کیا تھا،زندگی سکول سے نکل کر فیکڑی میں بھٹکنے لگی۔ستلج کاٹن مل، اوکاڑہ میں مزدوری کا آغاز کیا کیونکہ آپ با لکل پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ایک دفعہ ابا جی ملتان آئے کہ بیٹا مزدوری چھوڑو، تمہیں پی۔ٹی۔سی کروا دیتا ہوں۔(تب اسلم کولسریؔ ملتان میں فضل آئل مل میںکام کرتے تھے۔) لیکن اسلم کولسریؔ نہ مانے۔ اسلم صاحب کی خواہش تھی کہ وہ لیکچرار بنیں۔ یہ ایک موقع تھا لیکن پڑھائی سے  نفرت اور غصے کی وجہ سے موقع ضائع کر دیا۔

وہاں ان کے ایک دوست بنے، سعید ناصر۔ انہوں نے اسلم صاحب کو جامع مدنیہ مسجد (۱۹۶۴۔۱۹۶۸)میں بطور مدرس لگوا دیا۔ یہ مسجد بھی تھی اور ساتھ ایک چھوٹا سا سکول ( پرائمری سکول کوٹ لیاقت آباد)بھی تھا۔انہوں نے اسلم کولسریؔ کو کہا کہ آپ پرائیویٹ تعلیم جاری رکھیں۔ لیکن آپ ابھی نوکریاں کرنا چاہتے تھے۔

سعید ناصر ٗ کالج کے مشاعروں میں شاعری کرتے تھے۔ اور جب کبھی وہ ایک مصرع پہ اٹک جاتے تو دوسرا  مصرع اسلم صاحب گانٹھ دیتے۔ایک بار وہاں(ستلج کاٹن مِل) ایک مشاعرہ ہوا ۔ جس کی صدارت وہاں کے ڈپٹی کمشنر، مظفر قادر نے کی اور مہمانِ خصوصی ناصر شہزاد تھے۔ سعید صاحب نے اسلم کولسریؔ سے پوچھے بغیر اُن کا نام مشاعرے کیلیے لکھوا دیا۔دوست بڑے اچھے تھے اس لیے انکا کرنا مشکل تھا۔ تب وہاں آپ نے غزل پڑھی جس کا پہلا شعر تھا:

 سوئے مقتل چل رہے ہیں پھر بھی محوِ رقص ہیں

ساز سے کچھ کم نہیں ٗ زنجیر کی مہکار بھی

سعید صاحب نے داد دی۔ دوسرے شعر پر بھی سامعین کی طرف سے تالی بجی۔ ستلج آئل مل میں بہت سی  تقریبات ہوا کرتی تھیں۔مشاعروں میں بر صغیر کے شعراء بھی آیا کرتے تھے۔اسلم صاحب کے ایک دوست تھے رفیق کاشمیری، جو قالین سازی کا کام کرتے تھے۔ اُن کی وساطت سے اسلم صاحب کو عرفان فارمیسی، اوکاڑہ  میں لیبارٹری اسسٹنٹ کی نوکری مل گئی۔اسی نوکری کے دوران آپ نے ایف ۔اے، بی۔اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ پاس کیے۔

جب اسلم کولسریؔ نے نوکری شروع کی تو ایک سیاسی جلسے میں نظم پڑھی۔اُس جلسے میں شورش کاشمیری ؔ بھی موجود تھے۔حالانکہ اسلم صاحب کوئی سیاسی بندے نہیں تھے۔ بس دوستوں کی وجہ سے پڑھ دی۔ ہوا کچھ یوں کے c.i.d والے فیکڑی پہنچ گئے۔فیکٹری کا مالک گھبرا گیا۔ مالک کو معلوم نہیں تھا کہ اسلم کولسریؔ شاعری بھی کرتے ہیں۔ مالک نے کہا کہ یا تو  یہاں سے چھٹی کرو۔۔۔یا شاعری چھوڑ دو۔ نوکری اسلم کولسری کی مجبوری تھی۔ اسلیے فی الوقت شاعری کو خیر باد کہہ دیا۔

اُس فیکڑی میں اُن کے صحبت کافی اچھی تھی۔ دوستوں میں، حفیظ جاوید (وکیل)، ضیاء الحق، اور سعید خالد (جو بعد میں سفیر رہے) تھے۔یہ سب اسلم صاحب کو سمجھاتے کہ ابھی شاعری نہیں ،پڑھائی چاہیے۔ دوستوں کی حوصلہ افزائی سے اسلم  صاحب نے ایم۔اے اردو بھی پرائیویٹ کر لیا۔ایم ۔اے کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک ، دو انٹرویو دیے لیکن سفارشوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔اُس کے بعد ایک دوست ملے اقبال صلاح الدین( پنجابی شاعر)۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا ، ہم نے چھے بندے رکھوائے ہیں ، آپ کو بھی رکھوا  دیتے۔بڑے دلبرداشتہ ہوئے۔ عمر بھی سرکاری نوکری کے قابل نہیں رہی تھی۔

پھر اسلم کولسریؔ ۱۹۸۱ء میں لاہور آگئے۔ یہاں طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔سوچا کہ یہاں ٹیوشن پڑھا کے گزارہ ہوتا رہے گا اور بعد میں اپنی ایک چھوٹی سی فیکڑی بنا لیں گے۔کیونکہ انہیںمیڈیسن فیکٹری میں دس سا ل کام کا تجربہ تھا۔ لیکن قسمت کچھ اور ہی کھیل ، کھیل رہی تھی۔

لاہور میں اسلم صاحب کے ایک پرانے دوست تھے۔ ظفر علی راجا۔ اُن سے ملنے کرشن نگر گئے تو وہاں  اسلم کولسری کی ملاقات ’ مشرق ٗ کے میگزین ایڈیٹر خالد محمود  اور مشہور صحافی رانا اکرام سے ہوئی۔ وہاں شاعری کی محفل جمی جو کے  اُن صاحبان کو پسند آئی۔کچھ دنوں بعد جب اسلم کولسریؔ کا دوبارہ اُس طرف سے گزر ہوا تو سوچا کہ ظفر علی راجا سے ملتے جائیں۔ چنانچہ  اُن کے گھر پہنچ گئے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ظفر علی راجا  اسلم صاحب کو خود ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اُس کی  وجہ یہ تھی کہ خالد محمود صاحب نے اسلم کولسری کو مشرق ٗ میگزین میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب ظفر علی راجا نے اسلم کولسری کو یہ بتایا تو اسلم صاحب نے منع کردیا ، کیونکہ وہ داخلہ لے چکے تھے۔خیر! ظفر صاحب نے اسلم کولسریـ ؔ سے کہا کہ آپ خالد صاحب کا شکریہ تو ادا کر یں، انہوں نے آپ کو اتنا تلاش کیا ۔

جب اسلم کولسریؔ  ٗ خالد محمود سے ملنے اُن کے دفتر گئے تو وہاں رؤف ظفر اور سرور مجازؔ بھی موجود تھے۔ خالد محمود نے کچھ ایسے تعارف کروایا کہ پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ مشرق ٗ میں کام کے دوران اسلم کولسریؔ کی ملاقات  شوکت ہاشمی(جن کا پوتا عمران ہاشمی ہے) ، حسن رضا خاں اور ریاض بٹالوی  سے ہوئی۔

بعد ازاں آپ کی ملاقات اشفاق احمدؔ سے ہوئی۔ تب وہ  "اردو سائنس بورڈ” کے ڈائریکٹر تھے۔ انہیں کوئی آدمی چاہیے تھاجو مسودے ایڈٹ کر سکتا ہو۔ اشفاق ؔ صاحب کو سراج منیرؔ نے  اسلم صاحب کا بتایا۔ تو اس طرح اسلم صاحبـ” اردو سائنس بورڈ” میں بطور ریسرچ آفیسر کام کرنے لگے۔ ۱۹۸۷ء سے ۲۰۰۳ء تک اسی عہدے پر رہے۔ پھر ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک بطور ڈپٹی ڈائریکٹر رہے۔اردو سائنس بورڈ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ” پنجاب انسٹیٹیوشن آف لینگویج ، آرٹ اینڈ کلچر” میں کام کیا۔ اُس وقت یہاں کی ڈائریکٹر  شائستہ نزہت تھیں۔

اسلم کولسریـ ؔ نے ایک رسالہ نکالا ، دو سال تک جس کے ایڈیٹر رہے۔ ایک سال دنیا ٹی وی میںکام کیا۔ پھر دو  سال فراغت کے دن کاٹے۔ اور ابھی پچھلے دو سال سے دنیا اخبار میں کام کر رہے ہیں۔

شاعری:

اپنے شاعری کے حوالے کہتے ہیں:

” شاعری اتفاق سے شروع کی، جب بی۔ا ے میں تھے تو فل سٹاپ لگا دیا۔

 اپنے مستقبل کی خاطر چھوڑ دی ہے شاعری

اس طرح ٹکڑا گئی پھر مصلحت ٗ جذبات سے

ڈاکٹر وزیر آغا کو ایک غزل بھیجی ۔ جس کے جوا ب میں انہوں نے کہا:

غزل آپکی طویل ریاضت کا پتہ دیتی ہے لیکن پرانے سٹائل کی ہے۔ آپ نئے خیال کی طرف آئیں”

اسلم صاحب کو اُن کی یہ بات کچھ زیادہ اچھی نہیں لگی۔ اسلم صاحب کے خیال میں شاعری میں ملائمت اور  نغمگی ضرور ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک غزل کا مصرع تھا کہ:

"مٹی اُڑی تو پھولتی سرسوں کا دم گھٹا”

یہ دم گھٹا ٗ اسلم صاحب کو کچھ بھلا نہ لگا۔تو اسلم صاحب نے ڈاکٹر وزیر آغا کو خط لکھا:

"نئی غزل کہتے ہوئے تو آدمی کا دم گھٹا ہے۔”

لیکن بعد میں اسلم کولسریؔ نے سوچا کہ واقعی انہیں کوئی نہیںنئی بات کرنی چاہیے۔ تب انہوں نے غزل کہی، جس کا ایک مصرع ہے:

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

شادی:

۱۹۸۱ء میںدوستوں کے توسط سے آپکی شادی محترمہ خالدہ نسرین سے ہوئی۔ خالدہ نسرین ایک ٹیچر تھیں۔

اولاد:

اسلمؔ کولسری کی چار اولادیں ہوئیں۔ بڑا بیٹا محمد سلمان اسلم ہے جو آج کل( C.A) سی۔اے کر رہا ہے۔ اُس سے چھوٹی بیٹی آمنہ اسلم ہے وہ بھی( C.A) سی۔اے کر رہی ہیں۔ اُس کے بعد محمد رضوان اسلم تھے۔ جو پچپن میں ہی وفات پا گئے۔ جس کی وفات کااسلمؔ  کولسری کو بہت دکھ ہوا۔ 

 تم جانبِ ظلماتِ عدم چل دیے تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

پھر محمد عمران اسلم ہیں۔ جو اسلمؔ کولسری کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ یہ بھی ( C.A) سی۔اے کر رہے ہیں۔جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے کہ وہ ضرور کچھ کرے گا۔

شخصیت و کردار:

اسلمؔ کولسری کی شخصیت بڑی دل آویز ہے۔ اداسی اور مسکراہٹ کا امتزاج اُن کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ عاجزی اُن کی شخصیت کا جزو لازمی ہے۔ چھوٹا ہو یا بڑا وہ بڑی محبت سے بات کرتے ہیں۔ اُن کی گفتگو سے سچائی کی خوشبو آتی ہے۔

اُن کی شخصیت کے حوالے سے شہزاد احمد، اُن کے چند دوستوں اور ادیبوں کا بیان ہے کہ:

"اسلمؔ کولسری ایک ایسے پتے کی طرح محسوس کرتا ہے جو پیلا پڑنے سے پہلے ہی شاخ سے ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک عجیب طرح کی نا آسودگی ہے جو اسے ایک لمحے کے لیے بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ وہ سب کے دکھ میں شریک ہوتا ہے، مگر  خوشی میں اس کی شرکت نیم دلانہ ہوتی ہے۔ یہ رویہ بھی شاید صوفیا کی دین ہے کہ زندگی کی ہر خوشی کو بے معنی سمجھا جائے اور دکھ کو دائمی خیال کیا جائے”  ۱؎

بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ :ـ

"اسلمؔ کولسری بھی لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا ، بجھا ہوا، روہانسا شاعر ہے۔ وہ بھی دو قدم آگے بڑھ کر میلوں  پیچھے بھاگ جانے والا ، تعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گمنامی کے سہارے جینے کے خواب دیکھتا ہے۔”۲؎

اشفاق حسین کی اسلم کولسریؔ کے بارے میں رائے یہ ہے کہ:

"آپ سے جب جب بھی ملاقات ہوئی ،میرے دل میں آپ کیلیے احترام اور محبت کے جذبات میںاضافہ ہی ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہر کسی کیلیے نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تو دل سے ہوتا ہے مجھے آپ کے سلسلے میں کچھ ایسا  ہی لگتا ہے۔”۳؎

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی رائے کچھ یہ ہے کہ:

"اس کے لیجے میں ایک درویش کی بے نیازی ٗ ایک مصلح انسانیت کی انسان دوستی ٗ ایک عاشق صادق کی بے  لوثی ٗ ایک حزینہ نغمہ کی لے کاری اور ایک بے ریا انسان کے جذبے کی سچائی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے سچے جذبات رکھنے والا شخص مادیت سے اٹے ہوئے اس معاشرے کے ساتھ چند لمحوں کی بھی ہم آہنگی محسوس نہیں کر  سکتا۔”۴؎

ڈاکٹر شبیہ الحسن کہتے ہیں کہ:

"اسلم کولسریـ کی شخصیت میںایک اضطراب ہے جو اسے بے چین رکھتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کو تیسری آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ "۵؎

اسلم ؔ کولسری کے حوالے سے معروف شاعر مجروح کلہروی کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے:

گوہر تابدار ہے اسلمؔ

شاعری کا وقار ہے اسلمؔ

زندگی کی اداسیوں کے طفیل

زندگی کا نکھار ہے اسلمؔ

آرزوئے بہار کا مجرم

حاصلِ صد بہار ہے اسلمؔ

آئینہ دار عظمتِ آدم

مایۂ روزگار ہے اسلمؔ

جس لہو سے ہے نخلِ جاں کی نمود

اُس لہو کاوقار ہے اسلمؔ

دشتِ غربت میں نخلِ جاں کے تلے

وقفِ صد انتظار ہے اسلمؔ

آج مجروحِ غم سہی لیکن

نغمۂ نو بہار ہے اسلمؔ۶؎

حوالہ جات

۱۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، شہزاد احمد ’غزل کے شہر میں ایک گاؤں ٗ، پیشِ لفظ، ص:۱۳

۲۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، بانو قدسیہ، فلیپ اور آراء

۳۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۲۵

۴۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵،”منفرد لہجے کا شاعر”، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، فلیپ اور آراء

۵۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۵۴

۶۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۴۴


باب دوم

غزل کا تعارف

اصنافِ سخن میں غزل اہم ترین صنفِ شاعری ہے اور شعری ادب میں سب سے زیادہ سرمایہ بھی غزل ہی کا ہے۔ وہ صنف ہے جس میں عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے اور شاعر اپنے فکرو خیال کا اظہار نہایت لطیف پیرائے میں کرتا ہے۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف کرنا کے ہیں ۔ ایک روایت یہ  بھی ہے کہ جب غزال کا شکاری کتے دبوچنے کو ہوں تو اس کے منہ سے اس وقت جو درد ناک چیخ نکلتی ہے، اسے غزل کہتے ہیں۔ گویا غزل میں عشق و محبت اور سوز و درد کا بہت نمایاں ہونا ضروری ہے مگر بقول  فیضؔ:

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں ، وصل کی راحت کے سوا

آہستہ آہستہ غزل کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ اب غزل میں ہر موضوع لایا جانے لگا ہے بلکہ کچھ قد  آور شاعروں مثلاََ علامہ اقبالؔ ، مولانا ظفر علی خاںؔ اور فیض احمد فیضؔ وغیرہ نے غزل کا مفہوم ہی بدل کر رکھ  دیا ہے اور اب غزل میں ہر قسم کے افکار و خیالات اور مشاہدات و تجربات کو پیش کیا جاتا ہے۔

ہیتِ ترکیبی:

تعداد میں غزل کے اشعار کم از کم پانچ اور کثرت میں بیس پچیس بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں مگر اشعار کی  تعداد کا طاق ہونا ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔ غزل کے پہلے شعر کا مطلع کہتے ہیں۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم  قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔(قافیے کا ہونا ضروری ہے، ردیف کا ہونا ضروری نہیں) اگر تیسرا اور چوتھا مصرع بھی ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں تو اسے حسنِ مطلع کہتے ہیں۔مطلع کے بعد غزل کا ہر دوسرا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ پوری غزل ایک ہی بحر میں کہی جاتی ہے۔بحر چھوٹی ہو یا بڑی البتہ غزل کے لیے بالعموم مترنم بحروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ غزل کے آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں اور اس میںشاعر بالعموم اپنا تخلص بھی استعمال کرتا ہے۔ کسی زمانے میں غزل قصیدے ہی کا ایک حصہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک قصیدے اور غزل کی ہیئت ایک ہے۔

غزل کا ہر شعر اپنی جگہ جداگانہ مفہوم کا حامل ہوتا ہے اور ایک علیحدہ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، جو قافیہ اور  ردیف کے ذریعے پوری غزلن سے منسلک ہوتا ہے۔ لیکن اساتذہ کے یہاں مسلسل مضمون کی حامل غزلیں  بھی مل جاتی ہیں۔ عوام و خواص میں صنف غزل سب سے زیادہ مقبول ہے۔ ہمارے اس خیال کی تائید مولانا حالیؔ کے اس بیان سے ہوتی ہے جو وہ غزل کے بارے میں لکھتے ہیں:

"قوم کے لکھے پڑھے اور ان پڑھ سب غزل سے مانوس ہیں۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب تھوڑا بہت اس کا  چٹخارہ رکھتے ہیں۔ وہ بیاہ شادی کی محفلوں میں ، وجد و سماع کی مجلسوں میں ، لہو و لعب کی صحبتوں میں، تکیوں  میں اور رمنوں میں برابر گائی جاتی ہے۔ اس کے اشعار ہر موقع اور ہر محل پر بطورسند  یا تائید کلام کے پڑھے  جاتے ہیں جو لوگ کتاب کے مطالعہ سے گھبراتے ہیں۔ اور نثر یا نظم میں لمبے چوڑے مضمون پڑھنے کا دماغ نہیں  رکھتے ، وہ غزل کے دیوان شوق سے پڑھتے ہیں جس آسانی سے غزل کے اشعار ہر شخص کو یاد ہو سکتے ہیں، کوئی  کلام یاد نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اس میں ہر مضمون دو مصرعوں پر ختم اور سلسلہ بیان منقطع ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو صنف قوم اس قدر دائرو سائر ہو اور مرغوب خاص و عام ہو، اس کا اثر قومی اخلاق پر جس قدر ہو تھوڑا ہے۔ ”  ۱؎

دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں غزل کی زبان بالعموم سادہ، شستہ اور رواں ہوتی ہے اور اس میں ایک بانکپن ہوتا ہے۔ تشبیہہ و استعارہ اور صنائع بدائع کا موزوں اور مناسب استعمال غزل میں حسن اور دلکشی پیدا کرتا  ہے۔

آغاز و ارتقا:

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اسی زمانے میں غزل قصیدے کا ایک ابتدائی حصہ ہو ا کرتی تھی، جسے تشبیب کہا جاتا تھا۔ فارسی شاعری کے ایک قدیم شاعر رودکیؔ نے اسے قصیدے سے علیحدہ کر کے اس غزل کا نام دیا۔ فارسی میں بشمول حاٖفظ شیرازی اور شیخ سعدی شیرازی جیسے غزل کے بڑے بڑے شاعر ہو گزرے ہیں، جن کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ البتہ اُردو غزل ، فارسی غزل کے تتبع میں لکھی گئی اور جلد ہی اس صنف نے ہر طرف سے خراج وصول کرنا شروع کر دیا۔ اُردو غزل کا بہترین دور میرؔ و غالبؔ کا دور تھا۔ اس  دور میں اور بھی بہت سے ممتاز غزل گو پیدا ہوئے جن میںسے خواجہ میر دردؔ اور خواجہ حیدر علی آتشؔ، مصحفیؔ اور  غالبـؔ شامل ہیں۔

خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی ذات اُردو کلاسیکی اور جدید شاعری کا سنگم ہے۔ مولانا حالیؔ اورا ن کے رفقاء  نے غزل کا مزاج ہی بدل دیا۔ اس بدلے ہوئے مزاج کے زیزِ اثر علامہ اقبالؔ اور فیض ؔ و ساحرؔ بھی روایتی  غزل سے مختلف نظر آتی ہیں۔ شاید اسی لیے اقبال نے کہا ہے:

؎ اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

اُردو غزل کو اقبالؔ کے ہاتھوں جو وسعت ملی وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اب غزل میں یہ قوت پیدا ہو چکی ہے۔ کہ غزل زندگی کی ترجمان ہے۔ اقبالؔ نے غزل کو خودی کے حیات آفرین پیغام کا ترجمان بنایا، عہدِ جدید کے فکری اور جمالیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور اپنے عہد کے فنکار  کے لیے ایک نیا پسِ منظر اور توانا متحرک فکری اساس فراہم کی۔ انھوں نے غزل کی صنف کو اظہار کے خوبصورت اور نئے سانچوں سے آشنا کردیا اور  غزل کو آسمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچا دیا اور غزل کی لے کو حیات آفریں  توانائی اور ولولہ عطا کیا۔ یوں  اقبال نے اپنے زمانے اور آنے والے زمانے کے شاعروں کو این نئی فکر، نئی سوچ اور نیا طرزِ اظہار بخشا۔

علامہ اقبالؔ کے بعد جن شعرا ء نے غزل میں کمال حاصل کیا ان کی فہرست تو خاصی طویل ہے۔ لیکن اس دور کے نمایاں اور بڑے شاعروں میںصوفی تبسمؔ، فیضؔ، منیر نیازیؔ، حفیظ جالندھریؔ، ناصر کاظمیؔ، ظفر اقبالؔ، شہزاد  احمدؔ، احمد ندیم قاسمیؔ، قتیل شفائیؔ۔ پروین ؔشاکر، اسلم کولسریؔ، ساحرؔ، سیف الدین سیفـؔ وغیرہ کے نام شامل  ہیں۔

  رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:

” اُردو غزل کا مستقبل شاندار اور روشن ہے کیونکہ اس میں بڑی تغیر پذیری اور لچک موجود ہے۔ اس سلسلے میںاُردو ادب کے ایک نقاد نے بڑی پتے کی بات کی ہے کہا گر اردو شاعری کبھی زندہ رہی تو غزل کے ساتھ ہی زندہ رہے گی۔ لوگ خواہ کتنے ہی دعوے کیوں نہ کریں اور نظم میں جتنا بڑا ذہن چلا جائے لیکن کوئی آدمی تنہائی میں کوئی شعر گنگنائے گا تو وہ غزل ہی کا ہو گا، نظم کا نہیں۔”۲

 اسلم کولسری ؔ بطور غزل گو شاعر

شاعری لطیف احساسات  اور تجربات کو الفاظ کے حسین ترین قالب میں ڈھالنے کانام ہے۔ انسان صدیوں سے شاعری کرتا آیا ہے۔شعراء نے اپنے اپنے ظرف اور علم کے بروکار لاتے ہوئے شعر کہے اور بعض نے تو بہت خوب کہے۔ آج کا  شاعر بھی غزل کی روایت کو ایک نئے ڈھنگ اور رنگ سے آگے بڑھا رہا ہے۔ اور ہمارے آ ج کے ممتاز شاعر اسلم کولسریؔ کی غزل گوئی اُن کے اندرجلنے والی آگ کی تپش ہے۔ اسلم کولسریؔ نے انتہائی بے باکی سے وہ  سب کچھ کہہ ڈالا ، جس کو پڑھ کے ایک دیہاتی انسان کا چہرہ نظر آتا ہے۔جس کے افکار کی تازگی میں معاشرے کے الم گوندھے ہوئے ہیں۔انہوں نے روزمرہ کے الفاظ کو کمال سلیقے سے غزل کاحصہ بنایا ہے۔جو شاید عام طور پر غزل کیلیے معیوب سمجھے جاتے ہیں۔

غم و الم ، غزل کی روح ہے۔اور اسلم کولسری کے ہاں یہ وصف بدرجہ اتم موجود ہے۔ اُن کی کتاب ـنخلِ جاں کی پہلی غزل ہی اس پہ صادق ہے۔ اس بارے میں افتخار عارف صاحب کچھ یوں کہتے ہیں:

” نخلِ جاں کی پہلی غزل ہی سے پتہ چلتا ہے کہ اسلم اس ہجوم کا آدمی نہیں ہے جو ان دنوں غزل کو بے حال کئے ہوئے ہے ٗ لہجے کی تازگی اور کاٹ متوجہ کرنے والی اور پریشان کرنے والی ہے ٗ آتش ٗ یگانہ ٗ سلیم احمد ٰ شکیب  جلالیاپنے عہد میں ٗ اپنے اپنے زمانے سے الگ مگر ایک ہی قبیلے کے لوگ لگتے ہیں ٗ اسلم کولسری کا نام یقینا اس  قبیلے میں ایک معتبر اضافہ ہو گا۔”۳؎

جب میں اپنے گائوں سے باہر نکلا تھا

ہر  رستے نے  میرا  رستہ  روکا  تھا

مجھ کو  یاد ہے جب اُس گھر میں آگ لگی تھی

اوپر  سے  بادل  کا  ٹکڑا  گزرا تھا

اس  نے اکثر چاند  چمکتی راتوں میں

میرے  کندھے پہ سر رکھ کے سوچا تھا

شام  ہوئی اور سورج  نے ایک ہچکی لی

بس  پھر کیا تھا کوسوں  تک  سناٹا تھا

شہر  میں آکر پڑھنے والے بھول گئے

کس  کی  ماں  نے کتنا  زیور بیچا تھا

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے

بچے نے  تو  ایک  ہی  پیسا  مانگا تھا

چوک  میں خاموشی  کی ڈائن بیٹھی تھی

دور کھنڈر  میں  آوازوں  کا میلا  تھا

لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے

                                                             اسلم  اک   جگنو  کے  پیچھے  بھاگا  تھاـ۴؎                                                           

اس غزل میں ایک ایسے شاعر کا دکھ ہے جو گائوں نے شہر آچکا ہے۔اب شہر کے آسیب نے اُسے اپنے اختیار میں کر لیا ہے۔ گہری رات کا سناٹا،اُسے ڈراتا ہے اور وہ روشنی کی  تلاش میں جگنوؤں کے پیچھے بھاگتا ہے۔

معروف دانشور، نقاد اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا اپنے ایک مکتوب بنام اسلم کولسری المقرمہ ۱۷ اگست ۱۹۹۹ء میں رقم طراز ہیں:

"یہ تاثر درست ہے کہ دیہاتی لوگ بڑے شہر میںسدا خود اجنبی محسوس کرتے ہیںبشرطیکہ وہ اپنے دیہاتی پن کو قائم  رکھ سکیں۔ دوسری طرف جب لوگ بڑے شہرکے کلچر کو اوڑھ لیتے ہیںتو انہیں اوپرا پن محسوس تک نہیں ہوتا اور یہ بڑے شہر کاکلچر بھی عجیب چیز ہے جو انسان کو دو حصوں میںبانٹ دیتا ہے، ایک حصہ جو گرمی گفتار ا ور محبت کے اظہار کیلیے وقف ہے اور دوسراجو نفرت اورتعصب پر گزر اوقات کرتا ہے۔”۵  ؎

کٹ جائے گا پورا دن 

شہر کے بھوکے بچے گن

سینہ جیسے اجڑا گھر

دل جیسے زخمی ڈائن۶؎

                                                    

شہروں کی سفاکی کا جو نقشہ اس شعر میں کھینچا گیا ہے وہ اسلم کولسری کی تجربے اور مشاہدے کی غمازی کرتا ہے۔

سوکھی ٹہنی گلاب مانگے ہے

آنکھ پھر تیرے خواب مانگے ہے

بھاگ پھوٹے ہیں اس بھکارن کے 

جس کا بچہ کتاب مانگے ہے ۷؎

اک بے بسی کا عالم ہے ۔ کیا بے بسی سی بے بسی ہے کہ ہم سے ہمارے خواب بھی چھین لیے جائیں۔ اور وہ بھکارن کی روزی کا بہانہ کیونکر ہو جس کا بچہ کشکول چھوڑ کے کتاب کا تقاضا کرے۔ اسلم کولسری کے ہاں عام لوگوں کا دکھ ہے۔

 اسلم کولسریؔ کی شاعری پہ بات کرتے ہوئے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کہتے ہیں:

ـ” اسلم صاحب صبح کی لطافتوں ٗ شام کی رنگینیوں ٗصبا کے جھونکوں ٗ عطر بیز فضائوں  اور رومان انگیز چاندنی  راتوں کا شاعر نہیں ٗ اس کی شاعری میں ریشمی اندھیروں اور بد مست فضائوں کا کوئی مقام نہیں ٗ کیونکہ وہ بزمِ  طرب کا مغنی نہیں ٗ وہ تو اُن دکھیاروں کا ترجمان ہے ٗ جوبزمِ طرب سجانے کیاہلیت ہی نہیں رکھتے۔ "۸؎

اب کے یوں نکلیں اُفق سے بادلوں کی ٹولیاں

جس طرح مفلس کے گھر سے بیٹیوں کی ٹولیاں ۹؎

جوانی عارضی شے ہے ۔۔۔جوانی

کسی مفلس کی بیماری نہیں ہے

اسلم  کولسری کاؔ تخیل اداسی اور کرب سے عبارت ہے۔اور اُن کے ہاں ایک طنز کی سی کیفیت ملتی ہے۔

تو بھی تو کوئی غیر نہیں ٗ غمگسار ہے

تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے 

نخلِ جاں کی ایک غزل میں اپنا المیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ حرفِ دعا بے اثر گیا

کشتی کا ڈوبنا تھا کہ دریا اُتر گیا

مجھ کو تو نوکری نے بچا ہی لیا مگر

سینے میں اک پھول سا فنکار مر گیا

مائل ہوا تھا، جیسے غمِ روزگار ہو

لیکن وہ شخص خواب کی صورت بکھر گیا

بیوہ کے آئینے کی طرح گرد گرد تھا

دیکھا جو اپنا شیشہ دل ٗ میں تو ڈر گیا

چوپال کا سکوت سراپا سوال ہے

اسلمؔ۔۔ وہ جھونپڑوں کا مغنی کدھر گیا ۱۰؎

نخلِ جاں کی شاعری میں اسلم کولسریؔ بے نا م منزل کا مسافر ہے۔۔وہ چیخ چیخ کے پکارتا ہے کہ کوئی تو ہو جو میرے درد کا درماں بنے۔۔۔کوئی تو ہو جو میری سسکیوں کو سنے۔۔۔سکوں کی زندگی میسر نہیں آتی نہ آئے۔۔۔موت میں تو آرام آئے۔۔۔اک کسک ہے، اُن کی شاعری میں،ان سب حسرتوں کے باوجود ، اُن میں اک جذبہ جستجو ابھی بھی زندہ ہے۔۔ اسی پیرائے کی ایک غزل ملاحظہ کیجئے:

کوئی زخموں کا پاسباں تو ملے

یعنی اس شہر میں اماں تو ملے

مت حقیقت بنے وہ میری خاطر

وہ پسِ پردہ گماں تو ملے

چاندنی رات ـ، ریل کی پٹٹری

بارے مجھ کو بھی رازداں تو ملے

میں خدا ہوں تو لا مکاں ہی سہی

آدمی ہوں تو لا مکاں ہی ملے

نہ ملے لطفِ جاوداں بن کر

صورتِ مرگِ نا گہاں ہی ملے

کوئی ہمدم شریکِ جاں نہ ہوا

کوئی ہمدم حریصِ جاں تو ملے

خواہش و خوں نچڑ چکے ہوں گے

اب مرا پارۂ زباں تو ملے

جذبۂ جستجو تو ہے اسلمؔ

اپنی منزل کا کچھ نشاں تو ملے ۱۱؎

اسلم کولسریؔ پرانے رنگ میں نئے ڈھنگ کا شاعر ہے۔ اُن کو بارے میں قمر اجنالوی یوں رقمطراز ہیں:

” چند سال سے اردو غزل میں جو نئے تجربات ہو رہے ہیں اور اس صنفِ سخن کو جن الفاظ و تراکیب کے زیور  پہنائے جا رہے ہیں ان میں اسلم کولسریؔ کا حصہ سب سے زیادہ معلوم ہوتا ہے ٗ اس نو جوان شاعر نے غزل کو نئے الفاظ  ٗ نئی تراکیب کے ساتھ ساتھ ایک نیا اسلوب اور نیا حسن بھی دیا ہے ٗ اس کے پہلے مجموعہ  نخلِ جاں  کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اسلم کولسریؔ مستقبل کا ایک بڑا شاعر بن  کر ابھرے گا کیونکہ فکر و خیال کی انفرادیت کے علاوہ اس کے پاس خوبصورت اور موزوں الفاظ کا وہ سانچہ  ہے جس میں ڈھل کر شاعر کا خیال امر ہو جاتا ہے اور  روایت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

مجھے اسلم کولسریؔ کاا سلوبِ غزل اتناپیارہ ٗ اثر آفریں بلکہ وج آفریں اور ٹو دی پوائنٹ لگا کہ میں اس کے کئی  شعروں کو گنگناتا اور اسکی جدتِ طبع کو خراض تحسین پیش کرتا رہا۔ میں نخلِ جاں کا روایتی نہیں بلکہ غیر معمولی  انداز میں خیر مقدم کرتا اور توقع رکھتا ہوں کہ اسلم کولسری اردو غزل کے ساتھ ساتھ اردو نظم کے گیسو بھی  سنوارے گا۔ ” ۱۲؎

نخلِ جاں

نخلِ جاں، آپ کی پہلی تصنیف تھی اور اس  نے کافی پذیرائی حاصل کی۔ چھوٹی بحر کا استعمال کیا گیا۔ لیکن ہر اک شعر اپنے اندر کمال معنی سموئے ہوئے ہے۔ ایک غزل کے یہ شعر دیکھیے:

آپ سے اختلاف ہے ٗ لیکن

آپ کا احترام کرتا ہوں

درس و تدریس ٗ عشق ٗ مزدوری

جو بھی مل جائے کام ٗ کرتا ہوں

ان اشعار میں عاجزی بھی ہے اور اُن کی زندگی کے حالات کی بھی خبر ہوتی ہے کہ انہوں نے عام مزدوری سے لے کر عشق کی مزدوری بھی کی ہے۔ اختلاف زندگی کا حسن ہے، بس ہم  دوسروں کی رائے سے  اتفاق کریں یا نہ کریں احترام ضرور کرنا چاہیے۔یہ خیال بڑے صبر کا متقاضی ہے جو ہمیں اسلم صاحب کے یاں نظر آتا ہے

اسلم کولسری ؔ بھی کسی کی تلاش میں ، کوئی کھوج ہے جو اُسے محوِ جستجو رکھتی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

حشرِ زار حیات سے گزرے

یعنی ہم پل سراط سے گزرے

جانے کس کی تلاش میں شبنم

صبح دم پات پات سے گزرے

الم سوغات ہے شاید

شعورِ ذات ہے شاید

ہستی کا مفہوم ابھی 

اپنی سمجھ سے بالا ہے

مندرجہ بالا تمام اشعار میں پہچان کی بات ہے، تلاش ہے۔۔۔شعورِ ذات ہونا بڑے نصیب کی بات ہے، لیکن یہ ایک الم ہے۔۔جس بیان بھی بیان سے باہر ہے۔ اور ابھی اسلم صاحب ہستی کا راز ڈھونڈ رہے ہیں۔۔الغرض ان کی شاعری میں ہمیں اپنی ذات کے اندر کا سفر بھی ملتا ہے۔ بلکہ اپنی ذات کے الم سے واقفت  کے بغیر ، معاشرتی المیوں کا اظہار نا ممکن ہے۔ جناب عارف عبدالمتین صاحب اسی زاویے پہ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ـ”اسلم کولسری کی شاعری ہمیں زخمی انسانیت کی کراہ ٗ مفلوج غیرت کے نوعے ٗ دم توڑتی حمیت کے ماتم اور  جاں بہ لب آدمیت کے مرثیے کا دلگداز احساس کرواتی ہے ٗ مگر اس احساس کی دلگدازی اپنی تمام تر اثر انگیزی کے باوجود کبھی للکار کی اشتعال آفرینی میں نہیںڈھل پاتی ٗ کیونکہ اُن کی شخصیت کا تہذیبی منہاج ہمیشہ اس  سلسلے میں مانع رہا ہے!۔۔ البتہ ان کا کلام سامعین دلوں کو اس غیرا نسانی صورتِ حال کی تبدیلی پر آمادہ ضرور کرتا ہے ٗ جو  انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں سے مضرت رساں ہی نہیں ٗ ہلاکت خیز بھی ہے!۔۔۔ دوسرے لفظوں  میں ہم کہہ سکتے ہیںکہ اسلم کولسری کی شاعری زندگی کے ویرانے پر امڈنے والی اس گھنگھور گھٹا کی طرح نہیںجو  موسلادھار  بارش سے زمیںکو صرف پل بھر کیلیے سطحی طور پر جل تھل کرنے پر قادر ہوتی ہے ٗ بلکہ اس آہستہ  خرام بادل کی مانند ہے ٗ جو اپنی دھیمی دھیمی کن من سے دھرتی کو ایک طویل عرصے کے لیے اس کی بہت سی  اندرونی 

پرتوں تک سیراب کرنے کا مجاز ہوتا ہے ٗ اور ظاہر ہے کہ اس کی یہی سیرابی زندگی کے ویرانے کو چمنستاں کا  بو قلموں روپ بخشنے کی معجزانہ اہلیت رکھتی ہے!” ۱۳؎

اسلم کولسریؔ کے پہلے شعری مجموعہ پہ اگر مختصر بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجموعہ درد کی کہانی ، محبت کی روداد ،  فطرت سے رغبت کی داستاںاور  ایک دیہاتی نوجوان کی شاعری ہے، جو نہایت ہی سادہ اور عام فہم اسلوبِ بیان کی حامل ہے۔

اسلم کولسریؔ ، یادوں کے دشت میں رہنا والا انسان ہے۔ وقت نے جو گرد اُس کے چہرے پہ چھوڑی ہے وہ اُسے صاف کرنے سے گریزاں ہے۔  اُسے خود کو اس پُر ملال کیفیت میں رکھ کر سکوں ملتا ہے۔ اور جب کوئی  یاد ، کوئی چہرہ، اداسی کی تصویر بن کر اُس کے خیال کے آئینے میں نہ آئے تو اسلم کولسری کہیں گم ہو جاتا ہے۔ آپ کی کتاب ’کاش ٗ میں موجود  درج ذیل اشعار اسی نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

سوچ سوالی کر جاتے ہیں

صبحیں کالی کر جاتے ہیں

اسلمؔ چھوڑ کے جانے والے

آنکھیں کالی کر جاتے ہیں

جمالِ یار کے خیر اپنے مسئلے ہوں گے

خیالِ یار تو کچھ بے ریا تھا، وہ بھی گیا

وہ میری خاک اڑا کر حنائی ہاتھوں سے

فضائے دشت میں قوسِ قزح بنائے گا

ہوا کی طرح وہ میرے قریب سے اسلمؔ

گزر گیا ہے ، تو سانسوں میں بٹ کے آئے گا

کُھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں

میں کسی کام سے نہیں آیا

اپنا من سلگا کے سارے کمرے میں

اس کی خوشبو عام کرو اور سو جاؤ

پھیل جائے گی تیرے ذہن میں مہکار مری

شاخِ صندل ہوں، کبھی آ، مجھے سلگا تو سہی ۱۴؎

اسلم صاحب کے مندرجہ بالا یہ اشعار کسی کی یاد میں مہکے ہوئے ہیں۔ جمالِ یار کے جانے کا اتنا دکھ نہیں جتنا  خیالِ یار کے چھن جانے کا ملال ہے۔  اسلم کولسری لطیف احساسات کو خوشبو کا نام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کچھ یہ فرماتے ہیں:

” کاش ٗ کی غزلوں میں اسلم کولسری ایک نئے سج دھج سے جلوہ  ہوئے ہیں۔ اب وہ محض حالات کی ستم گری کا  شکوہ نہیں کرتے بلکہ ان اسباب و علل کو بھی تلاش کرتے ہیں جو حالات کی خرابی کا موجب ہیں۔ ” ۱۵؎

اسلم کولسریؔ صاحب کی یہ غزل اُنکی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔ بے گھری کا زمانہ اُ ن کا مقدر بنا لیکن اسی بے گھری نے ایک ایسے خیال کو جنم دیا جس کی بدولت اب انہیں چپہ چپہ گھر لگنے لگا ہے۔ اور یہ کہ عزت کمانا کوئی مسکل کام نہیں لیکن سر کی بازی لگانی پڑتی ہے اگر ہمت ہے تو۔غزل ملاحظہ کیجئے:

وقت نے ایسی کروٹ لی ہے ڈر لگتا ہے

سوہنا چاند بکھر نہیں سکتا …پر لگتا ہے

آوارہ تنکے کی طرح عمر گزاری

بے گھر ہوں اور چپہ چپہ گھر لگتا ہے

مغرب کی زریں آغوش میں گرتا سورج

تیرے بام سے جانے کا منظر لگتا ہے

اپنے ہاتھ میں سونا بھی مٹی ہو جائے

اس ماتھے پر پتا بھی جھومر لگتا ہے

تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں

خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے

عزت کی خواہش لے کر آئے ہو اسلمؔؔ

پوری ہو سکتی ہے ، لیکن سر لگتا ہے ۱۶؎

شہزاد احمد  اسلم کولسریؔ کی شاعری کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:

اسلم کولسری کی شاعری زمین کے پاس رہنے کی ایک کوشش ہے… مگر زمین کے ساتھ مضبوط رشتے کے شعور کے باوجود اسلم کولسری ایک ایسے پتے کی طرح محسوس کرتا ہے جو پیلا پڑنے سے پہلے ہی شاخ سے ٹوٹ گیا ہے۔

اسلم کولسری نے غزل میں جو زبان استعمال کی ہے، اس کا عمومی رجحان دوسروں سے مختلف ہے۔ اس میں لسانی  تشکیلات تو شاید موجود نہ ہوں مگر اس کا حوالہ ہے جس کے قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دور ہوتی ہوئی دنیا کی تصویر بھی ہے۔ 

دل کی کلر شو ر میں، اجڑے ہوئے بھنبھور میں

زندہ ہیں اس گور میں سب یادیں مر جانیاں ۱۷؎

اسلم کولسریؔ ایک مشاہدہ کرنے والا انسان ہے۔اُس کے تجربات بہت تلخ ہیں۔ اور یہی تلخی ایام اُس کی شاعری کی جاگیر ہے۔ وہ جو دیکھتا ہے، جو محسوس کرتا ہے، بیان کر دیتا ہے۔ وہ خود کو ایک کھنڈر سے تعبیر کرتا ہے لیکن سے تعمیر کرتے ہوئے زمانے لگے ہوں۔ وہ  مادی انسان نہیں ہے، اس لیے اُس کے پاس کرنیں ہیں تنکے نہیں۔ ـ’کاش ٗ کے مندرجہ ذیل اشعار اسی پہلو کی  غمازی کرتے ہیں:

ہاں میں ایک کھنڈر ہوں پیارے

صدیوں میں تعمیر ہوا ہوں

 

بنے کس طرح آشیانہ کہیں

میرے پاس کرنیں ہیں۔ تنکے نہیں

جب سے بنیادوں میں اپنا خوں چھڑکا ہے

سوچ کھنڈر میں ایک نگر آباد ہوا ہے

 

جس نے سارے شہر میں علم کی دولت بانٹی

اس کا اپنا بچہ گھر سے بھاگ گیا ہے

 

دیوانی سی دیوانی ہے اندھی بڑھیا!

زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے!

 

سوچوں کے لیے خنجر، وہ حشر بجاں منظر

خرکار کے اندھے پر بوری کا تڑپ جانا

 

گاڑیوں کی بتیاں گنتے ہوئے

ایک بچہ سو گیا فٹ پاتھ پر

 اسلم کولسریؔ اک حسرت کا نام ہے۔ ڈاکٹر شبیہ الحسن صاحب لکھتے ہیں:

"اسلم کولسریؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ تلخ سے تلخ تجربے کو اتنے سلیقے سے پیش کرتے ہیں کہ اُس میں حلاوت پیدا ہو جاتی ہے اور قاری کا ذہن اس سے مدتوں لطف اندوز ہوتا رہتا ہے”۱۸؎

 اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے:

کردارِ یوسفی کا صلہ یوں ملا مجھے

ہر یارِ غم گسار مِرا بھائی بن گیا

 

وہ تو پھر آہوئے مستِ پندار ہے

درد بھی میرے پہلو میں رکتا نہیں

 

شعر کے اجزائے ترکیبی کہوں؟

آخر شب، چاندنی، اسلم، کھنڈر

 

دل بڑا شہرِ فسوں زاد ہوا کرتا تھا

یہ خرابہ کبھی آباد ہوا کرتا تھا

 

یار کو دیدۂ خونبار سے اوجھل کر کے

مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے

یعنی ترتیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے

اس نے پتھر بھی اُٹھایا مجھے پاگل کر کے

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ

اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے ۱۹؎

اسلم کولسریؔ کے یاں چھوٹی بحر کی غزل اپنے اندر کمال معنی سموئے ہوئے ہے۔ سادہ الفاظ، واضح مفہوم  اور کھری بات کرنے کا عادی ہے یہ شاعر۔ یوں لگتا ہے کہ اُس کی پوری زندگی آرزؤں کا مزار بن کے رہ گئی ہے۔  اور وہ اس مزار پہ اگر بتی سلگا کے، گئے دنوں کی خوشبو سونگھنے کی سعی کرتا ہے۔ اسے انتظار رہتا ہے کہ کوئی تو  آئے، خوشی کی خواہش نہیں ہے اُسے، وہ تو غم کا متلاشی ہے۔ یہ غزل اور چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

آرزو کا مزار ہے ٗ میں ہوں

دیدۂ اشکبار ہے ٗ میں ہوں

ٓآخرِ شب ہے اور کمرے میں

خواہشوں کا غبار ہے ٗ میں ہوں

چشمِ پُر افتخار ہے ٗ وہ ہے

دلِ بے اختیار ہے ٗ میں ہوں

عالمِ انتظار تھا ٗ میں تھا

عالمِ انتظار ہے ٗ میں ہوں

کب سے اپنی تلاش میں اسلمؔ

میری زخمی پکار ہے ٗ میں ہوں ۲۰؎

ابھی کچھ دیر جینا چاہتا ہوں

خداوند! مجھے پتھر بنا دے

کانٹوں کا کھلیان خریدے

کون میرا دیوان خریدے

کوئی پتھر، کویء جھونکا، کوئی تہمت، کوئی غم

میرا در دستک کو ترسے، میرا گھر مہمان کو

اسلم یہ شہر چھوڑ کے ایسی جگہ چلیں

چہروں سے پھوٹتی ہو جہاں خام روشنی

وہ شہروں سے نالاں ہے۔ اُسے یہاں سب مصنوعی دکھائی دیتا ہے۔ وہ جینے کا خواہشمند ہے ۔ لیکن ایک  حساس انسان کیسے خوشی سے جی سکتا ہے۔ اس لیے دعا کرتا ہے کہ مجھے پتھر بنا دے، بانو قدسیہ کی رائے کچھ یہ ہے:

” اسلم کولسری بھی لوگوں سے کٹا ہوا ، ہاتھ ملتا ، بجھا ہوا ، روہانسا شاعر ہے وہ بھی دو قدم آگے بڑھ کر میلوں  پیچھے بھاگ جانے والا، تعریف اور شہرت کا آرزومند ہو کر بھی گمنامی کے سہارے جینے کے خواب دیکھتا ہے۔ عید کے روز باہر سے دروازہ مقفل کر کے سوجانے والا اسلم کولسری دراصل اندر ایک آوارہ تنکے کی صورت  عمر گزار رہا ہے۔ ایسے شاعر جو اپنے اندر تضاد کی دیوی کو تادیر پوجتے رہے ہوں، خوف اور خواہش نے جن کے  ذہن میںگھونسلے بنا رکھے ہوں، ان کے لیے شاعری خوشبو کا سفر ہو سکتا ہے نہ زندگی مہکنے کا عمل۔ وہ جب بھی  آنکھ کھولیں گے مغرب کا وقت، خزاں کا موسم اور تنہائی کا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو گا "۲۱؎

"ویرانہ”

 اسلم کولسری کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس  کتاب کے فلیپ پہ  محمد سعیداللہ صدیق تبصرہ کرتے ہوئے ہیں:

"اسلم کولسریؔ کی شاعری میں گاؤں کی سادگی، سچائی، تازگی، تاثیر اور مہک رچی بسی ہے یہ ایک مختلف آواز ہے جیسے۔۔۔۔ بانسریا کی مدھر لَے میں زخمی کوئل کی کُوک شامل ہو گئی ہو۔”۲۲؎

من کیکر کی اک ٹہنی صندل کر مولا

پھر صندل کو صندل کا جنگل کر مولا

اک عمر ہوئی ہے سارا تن من راکھ ہوئے

اب دھوپ پھرے ملبوس کو بادل کر مولا ۲۳؎

ویرانہ ٗ کی ابتدا حمد سے کی گئی ہے۔ لیکن اس حمد میں اپنی بپتا بیان کی گئی ہے۔ اپنا دکھ رویا گیا ہے۔بہت اپنائیت سے مولا کو پکارا گیا ہے۔خدا کو پاس بٹھا کے اسلم کولسریؔ بڑی اپنائیت سے کہتا ہے۔

جتنا بھی گدلا ہوں سائیں

تیرے دوار کھڑا ہوں سائیں

وقت کی بازی گاہ میں آکر

سب کچھ ہار گیا ہوں سائیں

تیری باغ بھری دنیا میں

میں کتنا صحرا ہوں سائیں

صدیوں کا سناٹا اوڑھے

محفل میں بیٹھا ہوں سائیں

رستے غائب ہو جاتے ہیں

جب چلنے لگتا ہوں سائیں

تیز ہواؤں کے نرخے میں

کاغذ کا ٹکڑا ہوں سائیں

دل ہے ایک شکستہ کشتی

میں سوکھا دریا ہوں سائیں

اندھیارا ہے ٗ آوازیں ہیں

اندھے کا سپنا ہوں سائیں

سائیں کل بھی میں تنہا تھا

آج بھی میں تنہا ہوں سائیں

ریزہ ریزہ ہونے پر بھی

اسلم کہلاتا ہوں سائیں

اسلم کولسریؔ اپنی بات کرنے کیلیے زبان کی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتا۔ وہ تو بلا جھجھک کہہ دیتا ہے۔ اُن کے نزدیک خیال زیادہ اہم جزو ہے شاعری کا ۔ 

عمر گزر جاتی ہے ٗ خوابوں کی گٹھڑی

دیوانے کے پاس پڑی رہ جاتی ہے

 سہما سہما ٗ برہم برہم جنگلی

شہر میں کیوں آیا تھا اسلم جنگلی

 مندرجہ بالا اشعار میں سادگی بھی ہے اور بے ساختگی بھی۔۔۔ ڈاکٹر محمد آغا سہیل کے نزدیک اسلم کولسری  کیسا شاعر ہے ۔ دیوانہ ٗ کا پیشِ لفظ میں سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:

” اسلم کولسریؔ نے حسیات سے غزل میں جو کام لیا ہے اور جس طرح کام لیا ہے وہ بجائے خود ایک اہم واقعہ ہے کیونکہ جملہ حواس خمسہ ٗ تشبیہات ٗ استعاروں اور علامات میں جلوہ گری بے ساختہ انداز میں کرتے ہیں جس  میں دوسروں شاعروں کی طرح تصنع اور بناوٹ نہیں بلکہ فطری بے تکلفی ہے ٗ مشاہدے کی بے باکی اور بیان کی دراکی ہے۔ وہ شعراء جو محض قوافی و ردیف ، بحور و زمین، علمِ بیان و بدیع کو سامنے رکھ کر نظم کہتے ہیں۔ وہ  مشتاق نظم گو تو ہوتے ہیں کہ چاروں چولوں سے اُن کا شعر کسا ہوا  اور مضبوط ہو لیکن اس میں شعریت  مفتود ہوتی ہے۔ اسلم کولسری زبان و بیان کے غیر فطری ڈھانچے کو مطلقاََ دھیان میں نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو ثانوی مقام پر ٗ اور شعر کی روح کو من و عن قبول کر کے اس کواولیت دیتے ہیں۔ اور جس انداز اور جس طور پر شعر کا نزول ہوتا ہے اسے بے ساختہ بیان کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شعر کا فطری حسن نہ صرف یہ کہ  مجروح نہیں ہوتا بلکہ اسکی فطری معصومیت باقی رہتی ہے اور قاری پر خاطر خواہ اثر ڈالتی ہے۔ مجھے احسا س ہے کہ اسلم کولسری رومانی نقطہ نظر کے حامل شاعر ہیں لیکن اولاََ تو وہ بیمار اور مجہول رومانیت کے مریض نہیں  ہیں” ۲۴؎

ویرانہ ٗ کی غزلیں غم کی کیفیات کو آفاقی رنگ دیتی ہیں۔  لمبی بحر کی یہ غزل اسلم کولسری کا فنِ کمال ہے۔

مجھے خارِ زار بنا دیا بڑی گل عذار سی شام نے ٗ ترے سامنے

مرے سارے دیپ بجھا دیے تھے ہوا کے مست خرام نے ٗ ترے سامنے

تجھے یاد  ہے کہ ملا تھا میں ٗ تری آرزو فراق سے بھی تپاک سے

مجھے اتنا ظرف عطا کیا مرے زخمِ دل کے پیام نے ٗ ترے سامنے

بڑی دلگداز تھی جانِ جاں ٗ وہ دمِ وداع کی گفتگو ٗ سرِ آبجو

کئی سوکھے پتے لپک پڑے تھے بکھرتے لمحوں کو تھامنے ٗ ترے سامنے

مرے چارہ گر ٗتجھے کیا خبر ٗ میں شرر شرر رہا رات بھر ٗ اسی بات پر

کہ بجھا دیا مجھے چاندنی کی جمیل آتشِ خام نے ٗ ترے سامنے

کبھی اسلمِؔ چمن آرزو بھی تھا موج موج گلاب خو ٗ ترے روبرو

مگر اس کو راکھ ہی کر دیا دمِ ہجر ماہِ تمام نے ٗ ترے سامنے ۲۵؎

جو بھی شاعر نے دکھ سہے ہیں۔ وہ کسی کی موجودگی میں ، سرِ بزم سہے ہیں۔ اسلمؔکولسری کے یاں استعارے اور  تشبیعات ، تمام دکھ اور خزاں کی ہیں۔اور شہر تو جیسے اسلم کولسری کو کھانے کو دوڑتا ہے۔ 

سہما سہما ٗ  برہم برہم ٗ  جنگلی

شہر میں کیوں آیا تھا اسلمؔ جنگلی

اور یہ دیکھیے:

صدمے ٗ جیسے شہر کے گھبرو بے حس قہر کے

خوشیاں ٗ جیسے گاؤں کی سہمی ہوئی سوانیاں

یا

پرو کے دیکھ لو کانٹے میں جگنو

کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے

گاؤں تو اُن کی وہ محبوبہ ہے جو کبھی پیپل کے پیڑ سے، کبھی بہتی ندی کے شور میں، کبھی  نہر کنارے ، کہیں نہ  کہیں سے انہیں بلاتی ہے اور اسلم کولسریؔ نو عمر عاشق کی مانند اُس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔

اُن کی شاعری میں گمشدگی اور تلاش کی آنکھ مچولی بھی نظر آتی ہے۔ اور محبوب کاذکر اشارے کنائے میں۔

ْقریہ قریہ بھٹک رہا ہوں میں

جانے مٹی ہے یہ کہاں کی

مسکراتے ہوئے ستارو

کچھ کہو میرے بد گماں کی

اور یہ غزل گویا ، خود کلامی ہے۔ شاعر لوگ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی ان کا جواب دینے لگتے ہیں۔یاد ، اسلم کولسریؔ کی غزل کا لازمی جزو ہے۔ اگر یہ نکال دی جائے تو تمام الفاظ خالی ہو جائیں۔

یار گنوائے پھرتے ہو!

پھر بھی ہائے پھرتے ہو!

کاہے اس کی یادوں کے 

سائے سائے پھرتے ہو

تم نے پیار کی خواہش کی

اب گھبرائے پھرتے ہو

گویا ٗ ساری دنیا کا 

بوجھ اُٹھائے پھرتے ہو

بارش آنے والی ہے

دیپ جلائے پھرتے ہو

آنکھوں میں کن راتوں کی 

راکھ سجائے پھرتے ہو

اسلمؔ اپنے آپ سے بھی

خود کو چھپائے پھرتے ہو ۲۶؎

اسلم صاحب کیا ایک خوبی ہی بھی ہے کہ وہ مشکل بات کو آسان کرنے کا فن جانتے ہیں۔وہ شاعری میں پیچیدگی پیدا نہیں کرتے۔ اس بارے میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی رائے ملاحظہ کیجیے:

” پاکستان میں اردوغزل نے بہت سے شاعر پیدا کیے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو قدیم روایات سے پوری طرح جڑے ہوئے  ہیں ٗ متعدد ایسے ہیں جنہوں نے ابہام سے مبرا ٗ پیچیدگیٔ خیال سے دور اور دقیق  اسلوب سے پاک غزلیں کہی ہیں۔تاہم ان کے ہاں ایسے اشعار بھی آ جاتے ہیں جو ہمیں جذبات کا ترفع عطا کرتے ہیں ٗ کچھ شعرا نے نت نئے  تجربات کو تخلیق کی بنیاد بنایا ہے۔ اور امیجری کی تازگی سے لے کر ہیٔت کی تبدیلی تک بے شمار نئے امکانات کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان سینکڑوں غزل نگاروں کے چند ایک ایسے ہیں جنہیں با شعور ادبی حلقوں  میں پذیرائی حاصل ہوئی اور ناقدین نے سند پسندیدگی عطا کی۔ وجہ یہ ہے کہ غزل کی صنف میںاتنے بہت سے  شعراء نے اتنے ڈھیر سارے امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے کہ اس میںمنفرد ہونا مشکل اور تازگی  پیدا کرنا مشکل تر ہے۔

اسلم کولسری دس پندرہ سال سے صنفِ غزل میں نئے اور منفرد لہجے کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کی غزل پر جدید غزل کے کسی شاعر کا اثر سرے سے موجود نہیں، ایسا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ ان کے کئی اشعار  ظفر اقبال ٗ شہزاد احمد ٗ مجید امجد ٗ منیر نیازی ٗ شیر افضل ٗ شکیب جلالی یہاں تک کے عدم اور سیف وغیرہ کی بھی یاد دلاتے ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک تازہ لہجہ اور منفرد اسلوب غزل کو دیا ہے۔ اس لہجے میں ایک  درویش کی بے نیازی ٗ ایک مصلح انسانیت کی انسان دوستی ٗ ایک عاشق صادق کی بے لوثی ٗ ایک حزینہ نغمہ کہ  لے کاری اور ایک بے ریا انسان کے جذبے کی سچائی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے سچے جذبات رکھنے والا شخص مدیت سے اٹے ہوئے اس معاشرے کے ساتھ چند لمحوں کی بھی ہم آہنگی محسوس نہیں کر سکتا۔ جذبے کی یہ بے ریا سچائی اور خیال کہ یہ بے لوث صداقت اس کی لہجے کی انفرادیت کی ضامن ہے۔

اسلم کولسریؔ کے دل میں اگر شعر کی یہی لو روشن رہی اور نو بہ نو تجربات سے خائف ہوئے بغیر شعر تخلیق کرتا رہا تو یقینا جلد ہی جدید اردو غزل میںایک نہایت اہم نام کے طورپر تسلیم کر لیا جائے گا۔”۲۷؎

اسلم کولسریؔ ہمیشہ ردائے غم اوڑھے رکھتے ہیں۔ اور تبسم کو، مسرت کو اپنے لیے منافقت تسلیم کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ، دوسرے فلسفیانہ نظریات کی طرح ، زندگی غم سے عبارت ہے۔ زندگی کی ایک ہی مسلمہ حقیقت ہے اور وہ غم ہے۔ وہ محفل میں تنہا ہو جاتے ہیں اور تنہائی میں محفل سجا لیتے ہیں۔مندرجہ ذیل اشعار کچھ ایسے ہی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔

تبسم۔۔۔۔۔یہ غریبانہ تبسم

فقط رودادِ غم کا حاشیہ ہے

کوئی سویا ہوا صدمہ ہی جاگے

ہجومِ دوستاں ہے  ٗ تخلیہ ہے۲۸؎

اسلم کولسری ؔ اپنے غم میں ڈوب کر دوسروں کے غم کو بیان کرتا ہے۔ اُسے تشویش ہوتی ہے کہ ہماری اس دنیا میں ظلم کیوں ہے۔ کہ جہاں خواب دیکھنے کی بھی آزادی نہیں۔ کیا اسیری ہے !! اور خواب کو جب تک غم کی بھٹی میں تپایا نہ جائے تو وہ ابھی کچا ہے، معیاری نہیں ہے۔

اسی مضمون کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

کل شام منڈیر پر بیٹھی تھی ٗ کچھ زخمی کاگ سے کہتی تھی

کیوں رات گئے وہ کومل سی مٹیار کنویں میں ڈو ب مری

اگر آنکھوں سے خوں جاری نہیں ہے

تو جانو! خواب معیاری نہیں ہے

جوانی عارضی شے ہے۔۔۔جوانی

کسی مفلس کی بیماری نہیں ہے

اسلم کولسریؔ نے نظم بھی لکھی ہے لیکن بہت کم۔۔ جتنی بھی لکھی، اُن میں گہرائی ہے ، فلسفہ ہے، پیغام ہے، کہانی ہے۔ 

ملاحظہ کیجیے:

دنیا

قطرۂ آب ٗ آب میں خرّم 

ذرۂ خاک ٗ خاک میں رقصاں

آدمی اپنے شہر میں تنہا

نوحہ

بنسری توڑ دی گڈریے نے

اور چپکے سے شہر میں جا کر

کار خانے میں نوکری کر لی

اسلم کولسری ؔ کی شاعری پہ محترمی جناب مشفق خواجہ کے ایک مکتوب (بنام اسلم کولسری مرقومہ ۳ نومبر ۱۹۹۵ء)کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” شہر کے ان حالات میں آپ کے مجموعہ  ’ویرانہ  ٗ نے بڑی غمگساری کی بلکہ یہ کہیے کہ سچی رفاقت کا فرض ادا کیا اور نظم ’دنیا ٗ پڑھ کر تو یہ  احساس ہوا کہ جیسے آپ میرے ہی شہر میں رہتے ہیں۔ آدمی اپنے شہر میں تنہا ٗ ہر اچھا شاعر ہر شہر اور عہد کا شہری ہوتا ہے۔ آپ کے منفرد لیجے  اور اندازِ سخن کی تازگی نے مجھے عالمِ حیرت سے دوچار کیا ٗ اسے اگر اپنے ہی  لفظوں  میںبیان کروں تو یوں کہوں گا ٗبرسے ہیںکیا رنگ فضا سے۔ خدا آپ کو خوش رکھے کہ آپ نے اپنا خوبصورت مجموعۂ کلام عنایت کر کے مجھے خوش کیا۔”۲۹؎

اسلم کولسریؔ کی شاعری کے بارے میں محمد سعید اللہ صدیق رقمطراز ہیں:

” اسلم کولسریؔ کی شاعری میں گاؤں کی سادگی، سچائی، تازگی، تاثیر اور مہک رچی بسی ہے۔یہ ایک مختلف آواز ہے جیسے۔۔۔۔ بانسریا کی مدھر لَے میں زخمی کوئل کی کُوک شامل ہو گئی ہو۔”۳۰؎

دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں جو غم سے بے نیاز ہو۔ اور شاعر تو غم کے بغیر شاعر ہو ہی نہیں سکتا۔ چاہے وہ  غمِ جاناں ہو یا غمِ دنیا یا پھر ذات کا غم۔۔ اسلم کولسریؔ اپنے غم کو آفاقی غم میں دیکھتے ہیں۔ انسان دوستی اُن کے کلام سے جھلکتی ہے اور اُداسی تو اُن کے کلام کا خاصا ہے۔

یہاں تو کوئی بات بھی نہ ڈھنگ سے ادا ہوئی

حضورؐ کی ثنا تو پھر حضورؐ کی ثنا ہوئی

اسلمؔ کولسری کے شعری مجموعہ’ نیند ٗ کی ابتدا ء نعت سے کی گئی ہے۔

اسلم کولسری اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں  :

  ” اپنی شاعری کے بارے میں کسی زعم میں مبتلا نہیں ہوں ۔ فطرت نے موزوں طبع عطا کی تھی ٗ مگر مجھے اعتراف ہے کہ میں اسے سلیقے سے استعمال نہیں کر سکا۔

  اکثر چلتے چلتے ٗ گنگنانے لگتا  اور کوئی سطر موزوں ہو جاتی تو طبع آزمائی شروع کر دیتا۔۔۔ پت جھڑ کی رُت یا  اداسی کی کیفیت میں زیادہ شاعری کی۔ نہ جانے کیوں ۔۔۔تاہم اس طرح میری شعری فضا میں زرد رنگ نمایاں ہے۔

مختلف تخلیقی لمحوں میں مختلف ذہنی کیفیتوں میں رہا۔ چنانچہ لازم تھا کہ زردی میں کہیں کہیںدوسرے رنگ میں  لکیروں کی صورت در آتے۔

ذاتی طور پر ایک کرم فرما کی اس رائے سے متفق ہوں کہ میری شاعری ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کہیں بھٹکتی ہے۔ اس لیے سمجھتا ہوں کہ جن محسنوں نے میری کاوش کو سراہا ہے ٗ اس میں ان کی محبت ٗ شفقت اور عالی ظرفی بھی شامل ہوتی ہے۔ میں سب کیلیے سراپا تشکر ہوںکہ ایک جانب سچائی ہے تو دوسری طرف محبت۔ اور دونوں بڑے میربان جذبے ہیں۔”۳۱؎

ہجر کے جنگل میں آئی ہے پہلی رات درختو

کتنا سناٹا ہے  ٗ چھیڑو کوئی بات درختو

ساری جانب کھڑے رہتے ہو تم باہیں پھیلائے

کب اور کس جانب سے آتی ہے خیرات درختو

گہری شام ہو ٗ اور نہ کوئی پنچھی لوٹ کے آئے

کیسے ظاہر کرتے ہو اپنے جذبات درختو

سہمے سہمے سینوں میں طوفان تو اُٹھتے ہوں گے

پت جھڑ میں جب جھڑتے ہیں پات درختو

تم کو رونا آتا ہوگا آہنی خاموشی پر

جب انسان لگاتے ہیں ٹہنوںپر گھات درختو

چور ٗ شکاری ٗلکڑہارا ٗسادھو ٗجوگی ٗشاعر

کون تمہارے ہاںسے لوٹا خالی ہات درختو

اچھا یہ نوکیلے کانٹے ہیں یا ساکت چیخیں

اور یہ رنگین پھول ہیں یا جامد نغمات درختو

میں نے کتنی باتیں کی ہیں لیکن تم نہیں بولے 

ہاں ہاں کیا اسلم ٗ کیا اسلم کی اوقات درختو۳۲؎

اسلم کولسری فطرت کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور اُس کی شاعری کا بنیادی استعارہ اور تشبیعہ گاؤں اور اُس سے جڑی تمام  وہ چیزیں ہیں جو قدرت کا حسن ہیں۔مندرجہ بالا غزل میں بھی اُن کی فطرت سے رغبت اور محبت کا ایک اظہار ہے۔

جن کے ڈر سے رات کو اکثر دیر سے گھر آتے ہیں

پیچھے پیچھے کمرے میں سناٹے درآتے ہیں

رات کے پچھلے پہر نہ جانے کیوں بستر سے اُٹھ کر

دور اک پیڑ سے اپنے دل کی باتیں کر آتے ہیں

محبت ہو تو جاتی ہے ذرا سی

پھر اس کے بعد صدیوں کی اداسی 

یہاں بھی اسلم ؔ پیڑ سے اپنے دل کی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تنہائی کا مارا ہوا شخص ہے۔ وہ ہجوم میں تنہا ہے۔ ویرانی سے اُس کی دوستی ہے۔ اُسے ہنگامے نہیں بھاتے۔۔لیکن وہ سناٹوں سے بھی گھبرا جاتا ہے۔محبت بھی اُسے اداسی کا ہی سندیسہ دیتی ہے۔

رات گئے جب ویرانے میں سلگائی بانسریا

میری آنکھیں اتنا برسیں ٗ گھبرائی بانسریا

کٹیا میں ٗ بوڑھے راگی نے مرنے سے پہلے

اپنی ہی پگڑی کی راکھ میں دفنائی بانسریا ۳۳؎

اسلم کولسریؔ کے طرزِ سخن کے بارے میں ڈاکٹر شبیہ الحسن کی رائے یہ ہے:

"اسلم کولسری ایک ایسے پختہ اور ماہر غزل گو شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جسے زبان اور بیان دونوں پر بیک  وقت قدرت حاصل ہے۔ اس مجموعے میں جو چیز قاری کو سب سے پہلے متاثر کرتی ہے وہ اس کی غزلوں کی  منفرد اور یگانہ زمینیں اور ردیفیں ہیں۔ اسلم کولسری کی ان ردیفوں کا مطالعہ کریں تو ایک جانب تو ان کی  انفرادیت واضح ہوتی ہے اور دوسری جانب ان کی زبان پر قدرت ثابت ہو جاتی ہے۔ "۳۴؎

راتوں کو جب سوکھے پتے روتے ہیں

آنکھوں کی دہلیز پہ سپنے روتے ہیں

انسانوں کے ہاتھوں اجڑی بستی میں

راتوں کو لاشوں پر کتے روتے ہیں

روتے روتے ہنس دیتے ہیں دیوانے

اور اچانک ہنستے ہنستے روتے ہیں

اخباروں کی سطریں دیکھ کے لگتا ہے

جیسے خالی گھر میں بچے روتے ہیں

اسلمؔ قابو رہتا ہے کب اشکوں پر

پھر بھی اکثر سوچ سمجھ کے روتے ہیں ۳۵؎

انسان تب ہی انسان کہلانے کا حقدار ہے جب اسے انسانیت کی فکر ہو۔ وہ بے حس نہ ہو ۔ وہ انسانیت کے  دُکھ کو اگر کم نہیں کر سکتا تو اُس پہ چند آنسو تو گرا سکتا ہے۔اور یہی اسلم کولسری ؔ کی خوبی ہے کہ اُس نے اپنے غم کو غمِ دنیا میں شامل کر لیا ہے۔ اس لیے اُس کاانفرادی  غم بھی قابلِ توجہ ہو گیا ہے۔

 اسلم کولسری کی شاعری میں ناصر ؔ کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ جو اُن کی چھوٹی بحر کی غزلوں سے عیاں ہے ۔ میرے  اس خیال کو ڈاکٹر  شبیہ الحسن کی رائے سے تقویت ملتی ہے:

"اسلم کولسری کا ایک اور وصف جو اس مجموعہ میں خصوصیت کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ ان کی چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی ہے۔ جس طرح سہلِ ممتنع میں شعر کہنا دشوار ہے۔ اسی طرح چھوٹی بحروں میں مکمل خیال کو گرفت میں لانا فنکارانہ صلاحیت کا متقاضی ہے۔ آپ اسلم کولسری کی درج ذیل غزلوں کا مطالعہ کیجیے:”۳۶؎

زندگی ایک فسانہ ہے یا۔۔۔

بازیٔ آب و دانہ ہے یا۔۔۔ 

اس کے ہونٹوں پر انکار بھی

خوبصورت بہانہ ہے یا۔۔۔

اپنی آنکھیں گھائل کر لوں

ٓؓ ٓاب تو خواب مکمل کر لوں

چین سے جینا ہے تو خود کو

سوچ سمجھ کر پاگل کر لوں

شہر کی رونق رہے سلامت

گھر چھوٹا سا جنگل کر لوں

شاید آس کی سسی آئے

اپنے سینے کو تھل کر لوں

پتھر تو کرنا ہے من کو

آج کروں یا کل کر لوں

نام تمہارا لوں گا ٗ لیکن

شاید مٹی میں ڈھل کر لوں

اتنی زہر آلود فضا میں 

کیونکر سوچیں صندل کر لوں

ایک دیا روشن کرنا ہے

آندھی میں بارش حل کر لوں

گھر بھی ہے دفتر بھی اسلمؔ

کس کو اپنا مقتل کر لوں ۳۷؎

 

گاؤں کی الھڑ ناریاں

شرمیلی چنگاریاں

آنکھوں آگے فائلیں

سوچوں میں پھلواریاں

ساتھ نبھائیں قبر تک

مفلس کا۔۔۔بیماریاں

پیچھے ہیں مسکان کے 

جانے کتنی زاریاں

شامل ہیں آداب میں

غم دے کر ٗ غم خواریاں

یادیں کیا ہیں روح پر

چلنے والی آریاں

غیر تو آخر غیر ہیں

اپنوں کی بیزاریاں

کس دیمک نے چاٹ لیں

خوابوں کی الماریاں

اسلمؔ کس گلنار سے

سیکھی ہیں گلکاریاں۳۸؎

اسلم کولسریؔ کی مزید غزلیں کا مطالعہ کرنے سے پہلے ڈاکڑ رشید انور کے مضمون” انداز، بیاں اور” میں سے یہ مختصر سا اقتباس ملاحظہ کیجیے:

"اسلم داخلیت کے حصار میں محصور نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ داخلی زندگی خارجی محرکات اور واقعات ہی کا عکس یا رد عمل ہوتی ہے۔ یہ دور داخلیت کا نہیں ٗ لیکن اگر فن کار داخلی دنیا کو یکسر نظر انداز کردے تو فن محض فوٹو  گرافی کے درجے پر اُتر آتا ہے اور ایک اچھا فنکار بھی محض اوسط درجے کا فوٹو گرافر بن کر رہ جاتا ہے اور اس سے شعورِ ذات کا عمل ہی رُک جاتا ہے۔”۳۹؎

آپ نکل جاتے ہیں منظر سے ہم کیچڑ لوگ

تم اجلے بلوریں ساغر سے ٗ ہم کیچڑ لوگ

صحرا کے ہر ذرے سے شبنم ایجاد کریں

اور شعلے بھر لائیں ساگر سے ہم کیچڑ لوگ

چاند ٗ چراغ ٗ ستارا ٗ جگنو سوچتے رہتے ہیں

روشن کیوں ہوتے ہیں اندر سے ہم کیچڑ لوگ

تم نے غور سے دیکھا ہی کب ہے ان آنکھوں میں

موتی برساتے ہیں پتھر سے ہم کیچڑ لوگ

جیون بھر کا مول یہی ایک ٹھنڈا میٹھا بول

مٹ جائیں لہجے کی ٹھوکر سے ہم کیچڑ لوگ

اسلمؔ اونچے بنگلوں میں بیزاری پلتی ہے

پیار کریں اپنے کچے گھر سے ہم کیچڑ لوگ  ۴۰؎

مجبوری کے جنگل میں اتنی مختاری

گھٹنوں پہ سر رکھ کر اپنی آنکھوں سے بہہ لوں

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

جیون

جیون ٗ اسلم کولسریؔ کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔ اس کا مجموعی تاثر فلسفہ حیات ہے، انسان کا مطالعہ ہے۔  لمبی بحروں میں قدرت کلام ہے۔ ایک استفہامیہ لہجہ اپنایا گیا ہے۔

من کی مانگ ہی کیا تھی مولا

پیتم ٗ پیڑ ٗ پرندے  ٗ پانی

کہتے ہیں نا کہ انسان اپنی اصل کی جانب لوٹتا ہے۔ اسلم ؔ کولسری کا دل بھی گاؤں کی گلیوں میں پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا شعر سے واضح ہے۔ اب شاعر سوال کرتا ہے کہ یہ تماشا سا کیا ہے!!

یہ جو کچھ بھی ہے ، کیا ہے، غور کرتے ہیں

خیال اچھا ہے ٗ لیکن چھوڑیئے کچھ اور کرتے ہیں

  اسلم کولسریؔ سرکار ؐ کی شان میں بھی مدح سرا ہے۔ 

جب بھی ہونٹوں پہ شہہ ﷺ عصر کا نام آیا ہے

ایک لمحے میں زمانہ تہہ دام آیا ہے

اُس  جہاں میں بھی تیرا نام ہی کام آئے گا

اِس جہاں میں بھی ترا نام ہی کام آیا ہے

اس کے فیضان سے پائی ہے گلوں نے رنگت

اسؐ کے فیضان سے خوشبو کو خرام آیا ہے

اسؐ کا پیغام فقط مژدۂ  جنت ہی نہیں

خطۂ خاک پہ جنت کا نظام آیا ہے

اس ؐکے اکرام کی ہلکی سی جھلک ہے اسلم 

محفل نعت میں تو  ٗ شاعرِ خام آیا ہے۔ ۴۱؎

اسلم کولسریؔ اپنے فن کے بارے میں اور جیون کی حقیقتوں کے بارے میں یوں محوِ سخن ہوتے ہیں۔یہ کوئی سطحی شاعر کے بس کی بات نہیں۔ احساسِ کمتری کا احساس اسلم ؔ کے ہوں آکر عاجزی کا روپ دھار  لیتا ہے۔

کیا ہے اپنی شعر گری اور کیا ہے اپنا فن

شیشے کے بازار میں کچی مٹی کا برتن

کھیتوں کے اُس پار تھی شرمیلی سی ایک سڑک

جس پر خوشبو چھڑکائے تھا شوخ شریر چمن

یہ تو ایک پرانا قصہ ہے اس کو چھوڑو

وقت کٹی کو ذہن میں لاؤ گاؤں کا اجلا پن

جس کی مٹیالی سڑکوں پر چاند مہکتے تھے

جس کی کجرائی گلیوں میں پھرتے تھے ساون

گاؤں کی بُکل میں اپنا چھوٹا سا گھر تھا

کچے کوٹھے ٗ گھاس کا چھپر ٗ اور کھلا آنگن

آنگن میں ٹھنڈی بیری تھی اور جلتا کیکر

جن کے کانٹے چھلنی کر دیتے تھے ہر الجھن

الجھن سے یاد آیا صبح کو دفتر جانا ہے

مجبوری کی بھینٹ چڑھاناہے اپنا تن من

رفتہ رفتہ راکھ تخیل کی خواب گری

دھیرے دھیرے دھول ہوا دل کا دیوانہ پن

خیر اب جیسا بھی ٹوٹا پھوٹا ہے اسلم جی

یونہی جلتے بجھتے یار بتانا ہے جیون ۴۲؎

جب ہوں کالا من کا  ٗ میلا تن کا

مجھ پہ کیسے بھید کھلے ساجن کا

اپنی نفی کرنا ایک مشکل عمل ہے اور خود کو کالا کہنا کچھ اس قدر آسان بھی نہیں۔ لیکن یہ تب ہوتا ہے جب  انسان کا مقصد حیات کچھ بڑھ کے ہو۔ اُسے اُس کی تلاش ہو جس کے بغیر اُس کی اپنی ہستی کا ہونا نہ ہونا بن  کے رہ جائے۔ اور ظاہری سی بات ہے یہ ایک نقطہ نظر ہے ،ایک فلسفہ حیات ہے۔

اس طرح کے خیالات کے بارے میں ڈاکٹر سعادت سعید کے ایک مضمون "اسلم کولسری ایک روایت شکن شاعر” میں سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

"ہمارے عہد کے فلسفیوں ٗ نفسیات دانوں ٗ شاعروں اور ادیبوں نے انسان اور اس کی سماجی زندگی کے  معاملات پر خصوصی توجہ دی ہے۔اسلم کولسریؔ کی غزلوں میں مربوط طریقے سے نہ سہی نئے فکر اور احساس کی یہ رو موجزن ہے لیکن عام فہم اور سادہ انداز میں انہوں نے نئے زمانے کے فکری مسائل کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے وہ ان کے شعور کی  درست نہج کی طرف کُھلا اشارہ ہے۔”۴۳؎

شاعر بڑے مزے کا انسان ہوتا ہے اُس کی تمام باتیں گھوم پھِر کر اُس کی ذات کے گرد مقید ہو جاتی ہیں۔ اور  بات بھی سچ ہے کہ اگر وہ اپنی ذات میں اتنا گہرا نہ اُترا ہو تو اُس میں گہری سوچ کا کبھی آغاز ہی نہ ہو۔ اسی  ضمن میں اسلم کولسریؔ کی غزلوں کے چند ٹکڑے دیکھیے:

خاموشی کے زہر میں امرت گھولیں گے

رات گئے یادوں کے پنچھی بولیں گے

دیوانے رُخ کرتے ہیں صحراؤں کا 

روح میں آخر کتنی ریت سمولیں گے

اجڑا اجڑا منظر تھا

پھر بھی اپنا منظر تھا

اس کی جھیل سی آنکھوں میں 

اور کسی کا منظر تھا

آخری بار ملے تھے جب

دیکھنے والا منظر تھا

ہر اک سوکھے پتے پر

جیسے میرا منظر تھا

حاوی سارے لفظوں پر

گونگا بہرا منظر تھا

اس سے پہلے کے غم کا ساماں ہو

ہر مسرت سے خود گریزاں ہو

زندگی کاٹ دی کٹ کٹ کر

موت کا مرحلہ تو آساں ہو

یہ جو صحرا دکھائی دیتا ہے

کیا خبر کل یہاں گلستاں ہو

بس یہی حسن کی حقیقت ہے

سامنے بھی ہو اور پنہاں ہو

کوئی قیمت نہیں تیری اسلمؔ

اور ارزاں ہو اور ارزاں ہو ۴۴؎

دنیا میں جتنے بھی جھگڑے ہیں اُن کی بنیادی وجہ خود شناسی سے دوری اور دوسروں پہ نظرِ تنقید ہے۔ ہم اپنے  اندر جھانکنے سے گریزاں ہیں اور یہ کوئی اتنا سہل کام بھی نہیں ہے جس کی جانب اسلم کولسریؔ نے اشارہ کیا  ہے۔

تذکرہ تھا خود آگہی کا

اڑ گیا رنگ ہر کسی کا

جیسے سورج بھی لکھ رہا ہو

نوحہ ٗ کرنوں سے ٗ زندگی کا

شہر، اسلم ؔ کی شاعری میں”ولن” کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور اُسکی بنیادی وجہ یہ کہ شہروں میں جو چہل پہل ہوتی  اُس نے انسان کو بہت تنہا کر دیا ہے۔ باہر تو رونق ہے اندر ویرانیوں کی پاتال میں کہیں گم ہے۔ اور یہ احساس اسلم کولسریؔ کی شاعری میں جا بجا بکھرا ہوا ملے گا۔یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

نہ جانے کس لیے لگتا ہے مجھ کو 

کہ شہروں سے پرندے جا رہے ہیں

لگی ہے بھیڑ سی راہوں میں ٗ لیکن

سبھی راہی اکیلے جا رہے ہیں

جب دیوار کھڑی ہوتی ہے

پیڑ اور پنچھی ڈر جاتے ہیں 

جب بھی اس کی یاد آ جائے

بگڑے کام سنور جاتے ہیں

شہر تعمیر ہوتے جاتے ہیں

لوگ تصویر ہوتے جاتے ہیں

کس قدر مشکبار تھے لہجے

کتنے شمشیر ہوتے جاتے ہیں

اچھے اچھے دماغ بھی اسلم

نذرِ تشہیر ہوتے جاتے ہیں

اسلم کولسری ؔ کی شاعری میں ہمیں چند اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جو زندگی موت، جسم ، روح کی بات کرتے ہیں۔ یہ آخر کیا ہے!! کا سوال جنم لیتا ہے۔ اور” جُرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کوــ” کے مصداق ایسی کون سی خطا ہوئی کہ ہمیں خاک کا پیراہن نصیب ہوا۔

کس خطا پر جسم کے زنداں میں ڈالا ہے مجھے

آسماں والے زمیں پر کیوں اچھالا ہے مجھے

موت کا ذکر کس لیے اسلمؔ

زندگی کا سراب کم ہے کیا

ہر لمحہ مصلوب

زندہ ہوں ٗ کیا خوب

ساگر میں کیا ہے

اپنے آپ میں ڈوب

جھوٹ ٗ کمال ہنر

سچائی معیوب

جسم کے پردے میں

کب سے ہوں محجوب

آج بھی اسلم کو

تنہائی محبوب

جو انسان بھی فطرت کی قربت کا داعی ہو گا  وہ امن پسند ہو گا۔ اسلم کولسریؔ معاشرے میں ہونے والی بد امنی کے مخالف ہیں۔ اور شرمندہ ہیں کہ  کوئی ایسا واقعی  مسجد میں ہوتا ہے۔

قتل اور مسجد میں؟

میرے منہ پر تھوک

     "جیون "کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر قدیر کی رائے ملاحظہ فرمائیں:

"اسلم کولسریؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا ایک ایسا نامیاتی  امتزاج ہے جنہیںایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی دکھوں کا احساس اور ان کا تخلیقی اظہار  اسلم کولسریـ ؔ کی غزل کا محور ہے۔ اُن کی پوری غزل پر غمِ کے آفاقی انسانی جذبہ کی چھاپ نہایت گہری ہے۔

چھوٹی بحروں اور روزمرہ کی بول چال سے تخلیقی تجربے میں گہرائی پیدا کرنا اسلم کولسری کی غزل کا وہ انفرادی  وصف ہے جو اُسے میرؔ اور ناصرؔکے برابر لا کھڑا کرتا ہے۔”۴۵؎

    …

جیون کیا ہے ٗ کھیل تماشا

جیسا بھی ہے ٗ جھیل تماشا

"برسات”

 اسلم کولسریؔ کا چھٹا شعری مجموعہ ہے۔  اس مجموعے کا مجموعی لب و لہجہ طنزیہ ہے۔  اور معاشرے کی نا ہمواریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔نا صرف معاشرے بلکہ اپنی ذات کو بھی نہیں بخشا۔ 

نہیں ہر گز نہیں ہوں قابلِ دعا مالک

بنام مصطفیٰؐ لیکن ذرا سی التجا مالک

اگر آنسو بہت ہی لازمی ہیں تیری دنیا میں

تو دنیا بھر کے آنسو میری آنکھوں سے بہا مالک۴۶؎

اسلم کولسریؔ کبھی بھی دبنگ لہجے میں بات نہیں کرتے۔ لیکن اُن کے اشعار میں ایک کاٹ  موجود ہے۔اورعاجز ی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتے ۔

دوست بہت حساس تھے

ہمیں خزاں کی گھاس تھے

کرتی اوس کی بوند کیا

ہم صحرا کی پیاس تھے

        ڈاکٹرشبیہ الحسن رائے بھی ملاحظہ کر لیتے ہیں:

"اسلم کولسری کی شاعری میں طنز کے بھی کئی رُخ ہیں۔ بعض اوقات وہ کسی معاشرتی المیہ پر طنز کرتے ہیں۔  یہاں ان کا انداز نا صحانہ سے زیادہ اصطلاحی ہو جاتا ہے۔ بعض مقامات پر وہ کسی رویہ پر گرفت کرتے ہیں۔  ایک مقام ایسا ہے جہاں اسلم کولسری دوسرے شعرا سے ممتاز ہو جاتے ہیں اور شعری لمحہ اس وقت آتا ہے جب وہ کسی ایک یا چند الفاظ کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ نشتر بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی  ایک غزل دیکھیے جس میں انہوں نے "عالیجاہ” کا لفظ بطور ردیف استعمال کیا ہے لیکن اس لفظ کو آلۂ طنز کے طور پر اتنی صناعی سے استعمال کیا ہے کہ اسلم کولسری کی لفظ شناسی کی داد دینا پڑتی ہے۔”۴۷؎

نہیں ہے اپنا کوئی خاص رنگ عالیجاہ

کہ آئینہ ہیں مکمل ٗ نہ سنگ عالیجاہ

کچھ اس لیے بھی نکلتا نہیں کلیجے سے

کہ تیر بھی ہے سراسر اُمنگ عالیجاہ

دھڑک رہی ہے ابھی دل میں بوند سی کوئی

پھڑک رہا ہے ابھی انگ انگ عالیجاہ

بڑے غرور سے پھرتے ہیں اپنی خاک اوڑھے

اسی نواح میں بے نام و ننگ عالیجاہ

عجب نہیں کہ زمانے کو راکھ ہی کر دے

چھڑی ہے جو ابھی سوچوں میں جنگ عالیجاہ

گزر ہی جائے گا اسلم ٗ جہاں سے جیسے

بیاہ والی گلی سے ملنگ عالیجاہ ۴۸؎

"چیخ”  درد کی انتہاہے۔ یہ تب جنم لیتی ہے جب انسان بے بس ہو جاتاہے۔ اُسے اپنی آواز کو بلند کرنے کے لیے چیخنا پڑتا ہے۔ اسلم کولسریؔ بھی اس بات کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔  اور چیخ  لفظ کو بطور ردیف استعمال کر کے اتنے سخت لفظ کو غزل کا حصہ بنایا ہے۔جو کہ اسلم کولسریؔ کا کمال ہے۔ 

ورنہ پتھر ہو رہے گا ٗ اے دلِ خاموش چیخ

اور پھر یہ بھی امکاں ہے ٗ سنے روپوش چیخ

دیدۂ نمناک سے تازہ لہو  رسنے لگا

آنسوؤں کے ساتھ جب شامل ہوئی مدہوش چیخ

کون سنتا ہے میاں دنیا میں ٹھنڈی سسکیاں

یا تو آواز سگاں ہو یا کوئی پُر جوش چیخ

شہر کی رنگینیوں سے جب کبھی فرصت ملے

غم کدے میں آئیے گا ٗ کیجئے گا نوش چیخ

دیکھتے ہو چاند سے چہرے پہ تابندہ تناؤ

یہ تبسم زیرِ لب ہے ماورائے گوش چیخ

اس کی خاموشی پہ اسلمؔ چیختے ہو کس لیے

میں بتاتا ہوں تمہیں کیا ہے تمہارا دوش ٗ چیخ۴۹؎

اسلم کولسریؔ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں اور  کہتے ہیں کہ سنبھلو۔۔۔ دلوں میں الفت کے چراغ روشن    کریں۔ اپنے دل کی فکر مت کرو۔۔ہر طرف قیامت بپا ہے۔ یہ غزل کچھ اسی رنگ میں ہے۔

مرے دل کو سنبھلنے کی پڑی ہے

ابھی سر پر قیامت کی گھڑی ہے

محبت کی تپش سینے میں رکھنا

اگرچہ آزمائش ہے ٗ کڑی ہے

کِھلے ہیںزخم ٗ کاغذ کے بدن پر

قلم بھی ایک نوکیلی چھڑی ہے

کبھی صحرا میں بھی کھلتی ہے کونپل

نہ جانے کیوں نظر ضد پر اڑی ہے

کسی نے دل میں بھی جھانکا ہے اسلمؔ

شکایت یوں تو یاروں کو بڑی ہے

           اور یہ غزل بھی ملاحظہ کیجیے:

یہ جیسی بے دلانہ کٹ رہی ہے

خدا جانے کہاں کی زندگی ہے

ہرا پتا کوئی ٹوٹا ہے شاید

ہوائے آخرِ شب رو پڑی ہے

یہ کیسی رات اتری ہے نگر میں

دیے ٗ جگنو ٗ ستارے کھا گئی ہے

بدن کی راکھ میں کیا ڈھونڈے ہو

اداسی روح میں اتری ہوئی ہے ۵۰؎

      اسلم کولسریؔ اپنی شاعری کے بارے میں چند معروضات پیش کرتے ہیں:

"شاعری کے بہت سے محرکات ہوتے ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ ایک خاص قسم کا لینڈ سکیپ متاثر کرتا ہے  اور میں سالہا سال سے اپنے اس محرک خاص سے محروم ہوں۔۔۔

بہر حال اب یہ ہے کہ کبھی کبھی غزل کہنے کی کوشش کرتاہوں اور طریق ِ کار وہی ہے کہ کوئی پرانا شعر یاد آگیا تو  اسے غزل بند کرنا شروع کردیا۔ اسی کوشش میںکوئی نئی غزل بھی آغاز ہو جاتی ہے۔۔

مجھے افسوس تو ہے کہ برسوں کی کوشش کے باوجود شاعری محض مشق سخن سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن کیا کیا  جائے۔ اپنے بس میں تو یہی ہے۔”۵۱؎

گزر رہا ہوں سخن کے عذاب سے پیارے

برس رہا ہے لہو ماہتاب سے پیارے

مری جبیں پہ ٗ اگر ہو سکے ٗ تو سورج رکھ

نکل سکوں گا تبھی تیرے خواب سے پیارے

بھٹک رہا ہوں کہ ہر راستہ نکلتا ہے

بہت ہی دور چمکتے سراب سے پیارے

تری تلاش میں جس طرح سانس کی ڈوری

بندھی ہوئی ہے لرزتے حباب سے پیارے

یہ شاعری نظر آتی تو ہے مگر اسلمؔ

یہ شاعری نہیں اپنے حساب سے پیارے

اسلم کولسریؔ نے نئی  قوافی کا استعمال کیا ہے۔ جو پہلے نظر سے نہیں گزری۔ انہوں نے منفرد قوافی استعمال کر کے غزل کو نیا رنگ دیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں:

ہواؤں کو اگر تلوارنا تھا

کرن کا روپ بھی تو دھارنا تھا

اگر انکارنا تھا انجمن میں

سر تنہائی کیوں اقرارنا تھا

اور یہ بھی دیکھیے:

بل کھاتی پگڈنڈی 

جیسے چنچل رنڈی

کوئی گاڈ نہ بابو

کون دکھائے جھنڈی

شاید اسلم بھی ہے

دیوانہ ٗ پاکھنڈی

        ڈاکٹر شبیہ الحسن کی رائے یہ ہے:

"اسلم کولسریؔ نے زبان کو مروجہ بول چال سے بہت زیادہ دور نہیں ہونے دیا۔ کہیں کہیں وہ غیر مانوس الفاظ  بھی استعمال کر دیے ہیں لیکن اس سے شعر کی تاثیر میںکمی نہیں بلکہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ ان کی ان جدید  غزلیات میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔”۵۲؎

من کا پتھر کوٹ

پھر کچھ منہ سے پھوٹ

میرے خواب فروش

جتنا چاہے لوٹ

آنکھیں اور وہ خواب

اتنا لمبا روٹ

لکھ لو میری بات

اسلم ؔ ہو گا  ہوٹ

ہوا چلی پت جھاڑ

غزل ٗ گریباں پھاڑ

کرن بنی ہے ریت

سخن     بنا   ہے  دھاڑ ۵۳؎

یہ جو اک چیز محبت ہے میاں

ہم سے پوچھو تو قیامت ہے میاں

ہجر تو خیر بلائے جاں ہے

وصل بھی ایک مصیبت ہے میاں

ناشناسی پہ نہیں ناز ٗ مگر

آگہی بھی تو اذیت ہے میاں

میں اگرچپ ہوں ٗ تو اس کے پیچھے

کتنے برسوں کی ریاضت ہے میاں

رات دن گھر میں پڑا رہتا ہوں

یہ عجب طرح کی ہجرت ہے میاں

         ڈاکٹر حامدی کاشمیری کے ایک مکتوب (بنام اسلم کولسری مرقومہ ۴۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء) میں سے چند جملے ملاحظہ کیجیے:

"آپ کی غزلیں معاصر شعراء کی بیشتر غزلوں سے مختلف ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ آپ نے یہ صرف زبان و بیان میں جدت کاری سے کام لیا ہے ٗ بلکہ شعری تجربات کو ذہنی اور منطقی حصار بندی سے آزاد کر کے اِس کو  توسیع اور امکان خیزی سے آشنا کیا ہے ۔”۵۴؎

دنیا شور مچانے تک ہے

شور اس کے آجانے تک ہے

دل کو ہر معقول شکایت

اس کے ایک بہانے تک ہے

عقل کی ساری کار گذاری

پتھر سے دیوانے تک ہے

اُن آنکھوں میں نیند کی مستی

میری نیند چرانے تک ہے

دل ہو اگر حساس تو دنیا

گھر سے پاگل خانے تک ہے

یاروں کی محفل میں اسلمؔ

اپنی خاک اُڑانے تک ہے

اسلم کولسریؔ کی شاعری میں عشق اور تصوف کی جانب میلان دکھائی دیتا ہے۔ مابعدالطبیعات نظریات کاذکر کرتے ہیں۔اُن کے نزدیک کانٹے بھی اُن کے آشیاں کے لازمی جزو ہیں۔

ایسے مجنوں تھے ہم کہاں کے

سنگ ہو رہتے آستاں کے

اتنی فرصت کسے ہے آخر

کون اس خامشی میں جھانکے

جیسے تیزی سے کُھل رہے ہوں

آسماں کے مہین ٹانکے

اور ہی حلقہء حقیقت

اور ہی سلسلے گماں کے

ہر صدا ایک بے صدا کی

سب نشاں ایک بے نشاں کے

یہ جو کانٹے ہیں چار سو اسلم ؔ 

یہی تنکے ہیں آشیاں کے

مندرجہ ذیل غزل میں صنعتِ تضاد نظر آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ  رسم و راہ سے کنارہ کشی ہی بھلی۔ انہیں اپنی خاموشی سے بھی گلہ ہے اور گفتگو کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ اسلم کولسریؔ بے نیازی سے زندگی گزارتا ہے۔جس کی جھلک اُن کی شاعری میں ملتی ہے۔

آپ سے رسم و راہ کیا کرتے

ایک دنیا تباہ کیا کرتے

ہم نے اپنی کبھی نہ پرواہ کی

دوستوں سے نباہ کیا کرتے

خامشی کی خطا ہی کیا کم تھی

گفتگو کا گناہ کیا کرتے

روشنی کب تھی روشنائی میں

لوحِ دل کو سیاہ کیا کرتے

ہم کو مٹی نہ مل سکی اسلمؔ

خواہش مہر و ماہ کیا کرتے

ڈاکٹر طارق عزیز اسلم کولسری کی کتاب، عنبر پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:

"ایک ایسا دور جس میں انسان اپنی پہچان کھو بیٹھے ہوں وہاں شعر کا اپنے تشخص کو برقرار رکھنا کا رے دارد ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے شعری سرمائے کو کھنگالیے اور شعرا کے نام ہٹا دیجیے تو کچھ نہیں چلتا کون سی غزل کس شاعر کی ہے۔ اس یکسانیت ٗ ابہام اور گمشدگی کے دور میںاگر کوئی شاعر ہجوم سخنوراں میں سب سے جدادکھائی دیتا ہے تو یہ اس کے سچا شاعر ہونے کی علامت ہے۔ ایسا وہی شخص ہو سکتا ہے۔ جو محض مصرعہ سازی کی حد تک شاعر نہ ہو بلکہ چلتے پھرے ٗ اٹھتے بیٹھتے ٗ بولتے چالتے شاعر نظر آتا ہو۔شخص میں شخصیت کا پر تو اور شاعری میںشاعر کا عکس اسی وقت نظر آ سکتا ہے جب فریب ٗ ریاکاری ٗ جھوٹ اور منافقت کی آلائشوں نے لفظوں کو آلودہ نہ کیا ہو۔

یوں تو اسلم کولسریؔ کے تمام شعری مجموعے مذکورہ دعوی کی صداقت پر دال ہیں لیکن عنبر میں انہوں نے جس  اسلوب کو اختیار کیا ہے اس میں ایک مختلف اسلم کولسری جنم لیتا ہوا نظر آتا ہے۔”۵۵؎

چپ  اچھی ٗ ناکامی اچھی

شہرت سے گمنامی اچھی

جس خوبی پر ناز ہو دل کو

اس خوبی سے خامی اچھی 

جلتے شہر سے خبریں لائے

آخر کون پیامی اچھی

آزادی پہ جان فدا ہے

لیکن ایک غلامی اچھی

آسائش کے زہر سے اسلمؔ

کچھ کچھ بے آرامی اچھی۵۶؎

اسلم کولسریؔ ایک اپنے اندر رہنے والا انسان ہے۔ اُسے تنہائی پسند ہے۔ وہ گمنامی کو شہرت پہ ترجیح دیتا ہے۔ وہ آزادی کا داعی ہے لیکن کسی ایک کی غلامی اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ آشائش کے زہر سے  بے آرامی اچھی لگتی ہے۔ اور دل میں کوئی دلبر تب ہی سما سکتا ہے جب وہاں کسی خواہش کا ٹھکانہ نہ رہے۔

اور مندرجہ ذیل غزل کے اشعار میں منفرد قسم کی قوافی استعمال کی گئی ہے یہی انداز اسلم کولسری کا خاصا ہے۔ اُن کے نزدیک شعر کہنا بھی خالی پن کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔اور بات بھی سچ ہے کہ شعر جب ہی تخلیق ہوتا ہے جب شاعر تنہائی کا شکار ہو۔ 

دل سے جب خواہش تفریق ہوئی

تجھ سے ملنے کی توفیق ہوئی

جانے کیسے اس کے ہاتھوں میں

ریشم کی ڈوری منجنیق ہوئی

اسلم ؔ نے پھر تازہ شعر کہے

پھر خالی پن کی توثیق ہوئی

بہت سے لوگوں نے زندگی کے ایک ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ ہمارے بس میں نہیں کہ ہم اپنی مرضی سے  اس تماشے کو ختم کر سکیں ۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اس تماشے کو خوش اسلوبی سے برداشت کیا جائے۔

جیون کیا ہے ٗ کھیل تماشا

جیسا بھی ہے ٗ  جھیل تماشا

رابطے بھی کچے ہیں ٗ ضابطے بھی کچے ہیں

اس پہ یہ گماں اپنے فاصلے بھی کچے ہیں

کچھ تو رنگ  چہرے کے بھی اڑے اڑے ہوں گے

کچھ غریب لوگوں کے آئینے بھی کچے ہیں

خواب کس طرح اتریں کم نصیب آنکھوں میں

نیند بھی ادھوری ہے ٗ رتجگے بھی کچے ہیں

کیوں جنم نہیں لیتی داستاں نئی کوئی

موج میں ہیں دریا بھی اور گھڑے بھی کچے ہیں

پھر بھی خوں نہیں جلتا ٗ قافلہ نہیں چلتا

راہ میں کانٹے بھی ٗ آبلے بھی کچے ہیں

شوق بھی نہیں اتنا بارِ غم اٹھانے کا

اور ادھر ارادے کچھ آپ کے بھی کچے ہیں۵۸؎

"اسلمؔ کولسری کی شاعری میں کائنات کے ان مسائل کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس سے ہم سب  دو چار ہیں۔ یہاں یہ نکتہ باور کرانا ضروری ہے کہ اسلم کولسری کی شاعری بڑے یا آفاقی مسائل کی پیش کش نہیں اور نہ اس شاعری کو عالمگیر تناظر میںپرکھنے کی ضرورت ہے۔ مقصود محض یہ ہے کہ اسلم ملکی معاملات کو وسیع  تناظر میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں”

اپنی روح کے خالی پن سے

تنگ بہت ہوںاس جیون سے

بادل سے انگارے برسیں

پانی بہتا ہے ایندھن سے

کب جاگے گا بخت آنکھوں کا

کب نکلے گا چاند گہن سے

اس دل کی ساری بربادی

اس چہرے کی ایک پھبن سے

کیا کیجئے اس اندھیارے کا

پھوٹے جو صد رنگ کرن سے

پتے اور پتھر تو اسلمؔ

ہیں مانوس مرے آنگن سے۵۹؎

جب بھی ہم اسلم ـؔکولسری کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک بے بسی اور غم کی فضا ہے۔ انہیں اس  بات کا غم ہے عصرِ حاضر روحانی طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے۔ مادیت نے اسے برباد کر دیا ہے۔اور اسلم کولسری یہ تمنا بھی کرتے ہیں کہ کب چاند گہن سے نکلے گا۔ کب معاشرہ روحانی طور پر بالیدگی اختیار  کرے گا۔

زندگی بھی مشکل ہے

خود کشی بھی مشکل ہے

گفتگو نہیں آساں 

خامشی بھی مشکل ہے

دوستی معاذ اللہ

دشمنی بھی مشکل ہے

جہل ٗ آگ ہے گویا

آگہی بھی مشکل ہے

جھوٹ ٗ زہر کی پڑیا

راستی بھی مشکل ہے

غم ٗ عذاب ہے اسلمؔ

اور خوشی بھی مشکل ہے

کیا دشوار مرحلہ ہے کہ زندگی بھی کٹھن ہو چکی اور مرنا بھی دشوار ہے۔  بات کرنے پہ بھی پابندی ہے اور خاموش رہنا بھی مشکل ہے۔ جہالت ایک جرم ہے لیکن آگاہی بھی جان لیوا ہو چکی۔ اسلم کولسری کہیں درمیاں  میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ اک خلا کا سامنا ہے اُسے، وہ زندگی کے دشت میںبھٹک رہا ہے۔

اپنی ہی محنت سے کھویا ہے ٗ جو کھو سکتا تھا میں

خود ہوا ہوں جس قدر ویران ہو سکتا تھا میں

سارے آنسو میں نے آنکھوں ہی میں ضائع کر دیے

ورنہ ایک سوکھا ہوا جنگل بھگو سکتا تھا میں

ہاتھ بھی پتھر نہ تھے ٗ موسم بھی نا موزوں نہ تھا

کشتِ جاں میں گھاس  کے تنکے تو بو سکتا تھا میں

رتجگوں کا زہر اب نس نس میں اترا ہے تو کیا

کھل کے رو سکتا تھا میں ٗ کچھ دیر سو سکتا تھا میں

اس کے در پر اشک ریزی کا سلیقہ بخت سے

صاف مٹی کے مصلے پر تو رو سکتا تھا میں

بلبلوں کا کھیل تو اسلمؔ کوئی مشکل نہ تھا

صحن میں بارش کے پانی کو بلا سکتا تھا میں۶۰؎

ڈاکٹر  طارق عزیز کہتے ہیں کہ:

"عنبر، کی غزلیات میں سب سے چونکا دینے والا پہلو اسلم کولسری کی صوتیات کا ایک پر اسرار نظام ہے۔ ان کی شعری لغت اس  صوتی نظام میں اور ان کا صوتی نظام شعری لغت میں اس طرح رچا بسا ہوا ہے کہ عنبر ٗ کی  شاعری سات سُروں کا دریا  ٗ ریکھب سے پنجم کا ملاپ اور تین تال پر بھید بھاؤ بتاتی اس داسی کی تپسیا بن جاتی ہے جو شاعری کے بھگوان کے چرنوں میں یوں راس رچاتی ہے کہ بھگوان اپنے استھان سے اُتر کر داسی کہتا ہے۔

آج تو نے بھگوان کو بھگت بنا دیا ہے۔

عنبر ٗ کی شاعری نجانے کتنے بھگوانوں کو بھگت بنائے گی۔”۶۱؎

رات ڈھلتی نہیں خدایا

شمع ُجلتی نہیں خدایا

روپ بدلے، دیار بدلے

رت بدلتی نہیں خدایا

دل پہ وارد ہوئے جو صدمے

جیبھ اگلتی نہیں خدایا

تیرے اسلمؔ کے آنسوؤں سے

شاخ پھلتی نہیں خدایا

احمد ندیم قاسمی ٗؔ اسلمؔ کولسری کے مجموعہ کلام ” کومل” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ـ” ایک مختلف شاعر” سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:

"جدید غزل کے وسیع و عریض پینوراما میں اسلمؔ کولسری ایک سراسر مختلف شاعر ہے۔۔۔ اپنی غزل کے  موضوع و مواد میں بھی مختلف ، تشبیہوں اور استعاروں میںبھی مختلف ، اسلوب ِ اظہار میں بھی اور صنفِ  غزل کی سہ سالہ مسلمہ روایات و اقدار کے حوالے سے بھی مختلف۔ اور یہ اختلاف اس لحاظ سے مثبت ہے کہ اس کی غزل پڑھتے یا سنتے ہوئے، دل و دماغ کی طرف سے اس کی قبولیت کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ اسلم کی  زمینیں اپنی ہیں، غزلوں کی ردیفیں اپنی ہیں، بحریں تک بیشتر اپنی ہیں۔ ساتھ ہی اس کی شاعری میں اپنے خطۂ  ارض کی بو باس رچی بسی ہوئی ہے۔ ردیف ” چمکیلے” اورقوافی  ” پیلے نیلے” والی غزل میں بھی جب وہ کہتا ہے تو اس کے فن کا پورا ماحول سانس لینے لگتا ہیـ:

صحن مہکتے ، گھر اُجلے ، گلیاں مستانی

پیڑ ہرے ، ندیاں روشن ، ٹیلے چمکیلے!

اس کیفیت میں بھی وہ اس  حقیقت کو نظر انداز نہیںکرتا کہ اس کے گاؤں کے بانکے سجیلے جوان شہروں میں  کارخانوں کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔”۶۲؎

ہلکی سی حرارت پوروں کی، چن لیتی درد جہانوں کے

ان ہونٹوں کی اک جنبش سے کھل جاتے ہیں بھید زمانوں کے

ملبوس پہ سو پیوند لگے اور کالی کملی کاندھے پر

اس حال میں بھی مسمار کیے دربار کئی سلطانوں کے

ہر شخص پہ وحشت غالب تھی ، ہر تیغ لہو کی طالب تھی

اس لہجے کی نرماہٹ نے دل موم کیے حیوانوں کے

انگلی کے ایک اشارے سے مہتاب اگر دو نیم کیا

پلکوں کی ذرا سی لرزش سے رخ موڑ دیے طوفانوں کے

اک  ہول بھری تاریکی میں یوں شمعِ محبت روشن کی

پر کھول دیے پروانوں کے، دن پھیر دیے دیوانوں کے

خالد احمد اسلم ؔ کولسری کی شاعری پہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں :

"اسلمؔ کولسری اپنے رنگ ٗ اپنے ڈھنگ کے شاعر ہیں ٗ راست اظہار کے راست فکر شاعر۔ وہ اپنے موضوعات ٗ مشاہدات اور تجربات سے چنتے ہیں۔ عالم نظریات و تصورات سے نہیں۔ زندگی اُن کے ہاں شاعری ہے اور شاعری زندگی ۔ یہ باہم دگر آمیخت بہت کم نو جوانوں کو نصیب ہوئی۔ اسلم کولسری ایک خوش نصیب شاعر  ہیں۔”۶۳؎

وہ تو صحرا ہے ، ریت اڑتی ہے

باغ میں کیا ہے؟ ریت اڑتی ہے

جس جگہ کھیت مسکراتے تھے

کوئی کہتا ہے ریت اڑتی ہے

حال کیا پوچھتے ہو رہ رہ کر

حال اچھا ہے ، ریت اڑتی ہے

ریگزارِ نگاہ میں ہر دم

کون چلتا ہے، ریت اڑتی ہے

میرے بے تاب چشم ریزے ہیں

تو سمجھتا ہے، ریت اڑتی ہے

خود سے باہر نکل کے دیکھ اسلمؔ

چاند نکلا ہے ریت اڑتی ہے

"اسلم ؔ کولسری کی ایک طویل غزل کی ردیف”فقیرا” ہے۔ اس کا مطلع

ڈھلنے لگی ہے شام فقیرا

لاٹھی، کاسہ ، تھام فقیرا

فقیر کے پردے میں دراصل وہ خود سے مخاطب ہے چنانچہ یہ فقیرا اس غزل میں زندگی کی مختلف جہات کا جائزہ  لیتا چلا جاتا ہے” ۶۴؎

 ڈھلنے لگی ہے شام فقیرا

لاٹھی کاسہ تھام فقیرا

مل کے چلیں دو گام فقیرا

کرتے ہوئے کلام فقیرا

ہاتھ ادھر لا ، دیکھ سنبھل کے

لے اللہ کا نام فقیرا

مجھے تو ان سے ڈر لگتا ہے

آہ ! مرے اوہام فقیرا

خیر ہمیں کیا ، جو کچھ ہے

رہیے مستِ  خرام فقیرا

یہ بھی ٹھیک ہے مجھ کو مطلب ؟

کام سے رکھوں کام فقیرا

چلیے اور کوئی دُکھ چھیڑیں

کم تو نہیں آلام فقیرا

آزادی اور امن پسندی

کب سے ہوئے جذام فقیرا

دیکھ کے جلتے زخم  زمیں کے

کانپ گئے اجرام فقیرا

آخر یہ محشر کے ٹکڑے

لائے کیا پیغام فقیرا

خون میں لت پت بھول سے بچی

ممکن نہیں قیام فقیرا

بھاگ یہاں سے بھاگ ، ابھاگی

سانس ہے یہاں حرام فقیرا

اسلم کا گھر آنے کو ہے

بجھے لگے مسام فقیرا

اچھا اب رخصت ہوتے ہیں

اے سائے ، اے خام فقیرا

ہم دیوانے اپنے ایسے خواب کہاں لے جائیں

ننھی چڑیاں ہاتھ پہ بیٹھ کے دانہ دنکا کھائیں

کس پتی کی اوٹ میں سوئے ، کس کانٹے سے الجھے

رات گئے تک جگنو اپنا اپنا حال سنائیں

ساون رُت میں جب دیوانہ بادل چھم چھم برسے

پیپل کے پتوں پر بوندیں وہ تصویر بنائیں

ٹہنی ٹہنی کوئل کُوکے ، من میں آگ لگائے

بلبل قمری ٹھنڈے گیتوں کی شبنم چھڑکائیں

رات کے پچھلے پہر گڈریا ، جب چھیڑے بنسریا

پُروا کے شرمیلے جھونکے کتھک ناچ دکھائیں

سوچ کی ارتی راکھ سے پھوٹیں کیسے کیسے منظر

اسلمؔ ہم بتلائیں لیکن لفظ کہاں سے لائیں۶۵؎

مندرجہ بالا سطور میں اسلم ؔ کولسری کی شاعری کے تمام پہلوؤں پہ بات کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔  انھوں نے محبت کو فروغ دیا۔ اپنے دکھ کو انسانیت کے دکھ تک وسیع کیا۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی تمنا رکھتے  ہیں جو فطرت کے زیادہ قریب ہو۔ اسلمؔ کولسری انسانیت کے دکھ پر نوحہ خواں ہیں۔ وہ نا انصافی کے خلاف  ہیں۔


حوالہ جات

۱۔حالی، مولانا اطاف حسین،” مقدمہ شعرو شاعری”، ص:۸۸

۲۔ہاشمی، رفیع الدین، "اصناف ادب”، ص:۲۳ تا ۲۶

۳۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،”افتخار عارف” فلیپ اور آراء

۴۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۲۳

۵۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۳۸

۶۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۳۹

۷۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۱۴۷

۸۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، ” نخلِ جاں پر ایک نظر”پیشِ لفظ

۹۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۹۳

۱۰۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۳۳

۱۱۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم، ص:۳۵

۱۲۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۲۳

۱۳۔اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، "عارف عبدالمتین”، فلیپ اور آراء

۱۴۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، ۱۹۹۲،  ص:۱۶، ۲۳، ۵۸، ۱۴۵

۱۵۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۵۳

۱۶۔  اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ، ۱۹۹۲،  ص:۱۹

۱۷۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور، شہزاد احمد ’غزل کے شہر میں ایک گاؤں ٗ، پیشِ لفظ

۱۸۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۵۳

۱۹۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ، ۱۹۹۲،  ص:۷۹

۲۰۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ، ۱۹۹۲، ص:۱۲۸

۲۱۔اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ، ۱۹۹۲،  ” بانو قدسیہ "، فلیپ اور آراء

۲۲۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ” محمد سعید اللہ صدیق”، فلیپ اور آراء

۲۳۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۲۳

۲۴۔ اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ڈاکٹر محمد آغا سہیل،مقدمہ

۲۵۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۲۷

۲۶۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۵۷

۲۷۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵،”منفرد لہجے کا شاعر”، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، فلیپ اور آراء

۲۸۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۵۹

۲۹۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۷۱

۳۰۔اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، محمد سعید اللہ صدیق، فلیپ اور آراء

۳۱۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۱۶۶

۳۲۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۲۱

۳۳۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۴۹

۳۴۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۸۴

۳۵۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۶۵

۳۶۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۸۶

۳۷۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۷۱

۳۸۔ اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:

۳۹۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۸۰

۴۰۔اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۹۹

۴۱۔اسلم کولسری ،جیون،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۱۳

۴۲۔اسلم کولسری ،جیون،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۱۵

۴۳۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۹۵

۴۴۔اسلم کولسری ،جیون،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵، ص:۴۲۔۳۶

۴۵۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۱۰۵

۴۶۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۳

۴۷۔ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۱۱۳

۴۸۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۵

۴۹۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۰۹

۵۰۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۱۱۔۸۱

۵۱۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۲۔۱۱

۵۲۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۱۱۸

۵۳۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۶۷۔۱۶۵

۵۴۔اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷، ص:۱۲۱

۵۵۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۱۳۳

۵۷۔اسلم کولسری ،عنبر،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱، ص:۶۷

۵۸۔ اسلم کولسری ،عنبر،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱، ص:۹۱

۵۹۔اسلم کولسری ،عنبر،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱، ص:۴۵

۶۰۔اسلم کولسری ،عنبر،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱، ص:۱۷۵

۶۱۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۱۳۴

۶۲۔اسلم کولسری ،کومل،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱،احمد ندیم قاسمی، ایک مختلف شاعر، ص:۱۱

 ۶۳۔ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ، مطبوعہ، ”  القمر انٹر پرائزر "،لاہور،۲۰۰۶، ص:۲۶

۶۴۔اسلم کولسری ،کومل،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱،احمد ندیم قاسمی، ایک مختلف شاعر، ص:۱۱

۶۵۔اسلم کولسری ،کومل،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱،احمد ندیم قاسمی، ایک مختلف شاعر، ص:۴۱


باب سوم

محاکمہ

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی دور میں انسانی تہذیب کی بقا تبھی ممکن ہوتی ہے جب ایک نسل دوسری نسل کو اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار منتقل کرنے میں کامیاب قرار پاتی ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہر دور میں منفرد  حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا اس دور کے اکابرین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کے مطابق ان اخلاقی  قدروں کو نئے سانچے میں ڈھالے۔ اور یوں ایک نسل سے دوسری نسل تک تہذیبی سفر رواں دواں رہتا ہے۔  جو قوموں کی بقا کی ضمانت بنتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں تعلیم ہی واحد عنصر ہے جو ان اخلاق کے فروغ کا اولیں ذریعہ بنتی ہے۔ گویا یہ معاشرے کے پڑھے لکھے افراد ہی ہیںجو اپنے معاشرے کی بقا کو ممکن بناتے ہیں۔

اسلم ؔ کولسری قصرِ ادب میں ایک ایسا نام ہے جس نے شاعری میں انتھک محنت کی ہے۔ آپ کی شاعری میں انسانیت سے محبت ، مادیت سے دوری اور رروحانیت اقدار سے رغبت کا درس ملتا ہے۔وہ انسانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد پر اپنے قلم کے زور سے جہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری  میں فطرت سے لگاؤاور اپنی اصلیت کو پہچاننے کا پیغام ملتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اسلمؔـ کولسری اداسی کے  دشت میں آبلہ پا نظر آتا ہے۔وہ خود سے نالاں ہے اُسے لگتا ہے وہ جو کر سکتا تھا شاید اُس نے حق ادا نہیں کیا۔

اسلمؔ کولسری کی غزل میں گاؤں اور اُس سے جڑی تمام تر اچھی باتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ سادگی کا پرچار کرتا ہے۔ وہ دنیا کے جھمیلوں سے بچنا چاہتا ہے۔ اسلمؔ کولسری کی مثال اس مصرعے کے مترادف ہے:

ع     بھیڑ میں گم ہونے سے مر جانا بہتر ہے

اسلمؔ کولسری کی عام فہم اور سادہ ہے وہ نہیںبات کو گھما پھرا کے کہنے کا عادی نہیں ہے۔ صاف اور کھری بات کرتا ہے۔ اُن کی شاعری میں ہمیں نئے شعری رجحان بھی ملتے ہیں ۔ انہوں نے منفرد قوافی کا استعمال  بے دھڑک کیا ہے جو اُن کی غزلوں سے مضامین سے مطابقت بھی رکھتی ہے۔اُسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی اُسے سراہتا ہے یا نہیں، وہ شہرت کی رنگینیوں سے بے نیاز رہنا پسند کرتا ہے۔

اسلم ؔ کولسری کے تمام شعری مجموعوں کو پڑھنے کے بعد قاری کو اُن کی شاعری میں ایک فطری انسان کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایک ایسے انسان کا عکس دکھائی دیتا ہے جو اس معاشرے سے بیزار ہے۔ جو اپنے المیے سے  انسانیت کے دکھ کو محسوس کرتا ہے۔ 

اسلم ؔ کولسری اپنی شاعری کے حوالے سے خوش قسمت ہے کہ وہ بھیڑ چال کا حصہ نہیں بنی۔ بلا شبہ اسلمؔ  کولسری کا نام اُردو ادب میں ایک معتبر نام ہے جو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اُردو ادب کا لازمی جزو بن  چکا ہے۔


کتابیات

ابتدائی مآخذ

۱۔      اسلم کولسری ،نخلِ جاں،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،طبع سوم

۲۔      اسلم کولسری ،کاش،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ، ۱۹۹۲

۳۔     اسلم کولسری ،ویرانہ،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵

۴۔     اسلم کولسری ،نیند،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵  

۵۔      اسلم کولسری ،جیون،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۵

۶۔      اسلم کولسری ،برسات،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور ،۱۹۹۷

۷۔      اسلم کولسری ،عنبر،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱

۸۔      اسلم کولسری ،کومل،مطبوعہ ” القمر انٹر پرائزرز”، لاہور،۲۰۰۱

ثانوی مآخذ

مطبوعہ کتب:

۱۔” جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ”، ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، القلم انٹر پرائزز ، لاہور

۲۔ "اردو غزل کی تہذیبی و فکری بنیادیں”ـ، ڈاکٹر سعد اللہ کلیم، الوقار پبلی کیشنز، لاہور

۳۔”اردو غزل کا تکنیکی، ہیتی اور عروضی سفر”، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، مجلسِ ترقیِ ادب لاہور، ۲۰۰۸ء

۴۔ـ”تفہیم و تحسین شعر”، ابوالا عجاز حفیظ صدیقی، سنگت پبلیشرز، لاہور،۲۰۰۸ء

۵۔ "اردو شاعری کا مزاج”، ڈاکٹر وزیر آغا، مکتبہَ عالیہ، لاہور، ۱۹۹۹ء

۶۔”اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ”، خواجہ منظور حسین، مکتبہَ کارواں، لاہور،۱۹۸۱ء

۷۔” اردو شاعری میں اشاریت”، ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید، موڈرن پبلیشنگ ہاوَس، نئی دہلی، انڈیا، ۱۹۸۳ء

۸۔”اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ”، ڈاکٹر سنبل نگار، کتاب سرائے، لاہور، ۲۰۰۳ء

 رسائل و جرائد:

۱۔       لفظ ہمارے شمارہ نمبر ۳، اھست ۱۹۸۵ء، لودھراں،بہاولپور

۲۔      سہ ماہی سورج لاہور۔ کلام شاعر بہ زبان شاعر

۳۔     ماہنامہ شام و سحر، لاہور، اسلم کولسری نمبر

۴۔     سہ ماہی، ہمعصر، لاہور۔ خصوسی گوشہ۔ اسلم کولسری

انٹر ویو

۱۔       اسلم ؔ کولسری کے ساتھ راقم کا انٹرویو ، ۱۰، جولائی ۲۰۱۴ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top