مقدمہ نقش فریادی "ن م راشد” کا تجزیہ ہے ۔ جو انھوں نے 15 نومبر 1941ء کو تحریر کی۔

"نقش فریادی” فیض احمد فیض کی شاعری کی پہلی کتاب ہے۔ یہ مقدمہ فیض کی کلیات "نسخہ ہائے وفا” مطبوعہ "مکتبہ کارواں ، کچہری روڈ ، لاہور” کی اشاعت میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ یہ تحریر کتاب: "فیض احمد فیض (فیض صدی، منتخب مضامین) مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان ۔ سے نقل کیا گیا ہے۔ 

اس کتاب کا نام "مقش فریادی” مرزا غالبؔ کے شعر سے مستعار ہے:

نقش فریادی ہے کِس کی شوخی ءتحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

مقدمہ

"نقش فریادی ”  ایک ایسے شاعر کی غزلوں اور نظموں کا پہلا مجموعہ ہے جو رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑا ہے۔ اس کی سرشت تو اسے عشق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر اکساتی ہے لیکن وہ حقیقت کے روزن میں سے زندگی کی برہنگی اور تلخی پر ایک نظر ڈال لینے کی ترغیب کو روک نہیں سکتا۔

ادبی ذوق کا کوئی انقلاب اپنی ہیئت اور نتائج کے اعتبار سے اتنا وسیع اور اتنا شدید نہ ہوگا جتنا ہمارے زمانے میں جمہور کے خیالات، احساسات اور عزائم کی بڑھتی ہوئی رونے پیدا کیا ہے۔ خود ہمارے ملک میں جہاں عوام کی بیداری کا ابھی آغاز ہے غزل اور اس کے ساتھ اشراف کی دل پسند شاعری، جسے وہ اپنے خلافِ فطرت ہیجانات کی تسکین کا ذریعہ سمجھتے تھے آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ ایک عرصہ سے یہ تصور رائج چلا آرہا ہے کہ شاعری محض تفریح اور دل لگی کا سامان ہے۔ حالیؔ، اکبر ؔاور اقبالؔ نے اس نظریے پر سب سے پہلے ضرب لگائی۔ لیکن اس کی جگہ جو نظریہ انہوں نے رائج کرنا چاہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ شاعری صرف قوموں اور گروہوں کی اخلاقی زندگی سدھارنے کا ذریعہ ہے۔ جدید شاعری ان دونوں نظریوں کے خلاف ردِ عمل ہے۔ جدید شاعر نہ تو شاعری کو محض عیاشوں کی تفریح کا سامان قرار دیتے ہیں اور نہ اسے بگڑی ہوئی قوموں کا سستا اور سہل الحصول ہدایت نامہ ۔ شاعری ان کے نزدیک ہماری زندگی کے لیے محض تفریح سے زیادہ اہمیت اور کہیں گہرا مفہوم رکھتی ہے۔ وہ اس کے تفریحی پہلو کے منکر نہیں لیکن انسانی زندگی اور ہماری روزانہ سرگرمیوں پر اس کے خاموش مگر عمیق اثر کے بھی قائل ہیں۔

فیض نے ابتدا غزل گو کی حیثیت سے کی ۔ اس نے غزل کو محض صنف سخن کی حیثیت ہی سےاختیار نہ کیا بلکہ اس میں تھوڑی  سی  تازگی اور شگفتگی کا اضافہ کر کے اس کی قدیم اور روایتی علامات اور تصورات کو برقرار رکھا۔ اس کی غزلیں بہت حد تک قدیم شاعروں کے خیالات ہی کی بازگشت ہیں۔ جیسے کہ ہر اچھی غزل کو ہونا چاہیے۔ اپنی ابتدائی نظموں میں فیض ایک بورژوا حسن پرست اور انحطاط کا دلدادہ شاعر نظر آتا ہے۔ خود مجھ پر اور غالباً ہماری پود کے اکثر شاعروں پر ایسا ہی زمانہ گزرا ہے۔ ہم میں سے بعض اس دلدل سے جلد باہر نکل آئے ہیں اور بعض ابھی تک اس کے اندر  ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

 فیض کی اس زمانے کی نظمیں حریری گلابی ملبوسوں میں لپٹی ہوئی خواب سے چور اور لذت سے سرشار تصویروں سے بھری پڑی ہیں۔ زندگی سے ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ زندگی میں اور ان میں ایک خلیج حائل ہے۔ ذاتی حسن پرستی کی خلیج جسے فیض عرصہ تک پار نہیں کر سکا۔

” انتہائے کار، انجام، سرود شبانہ” اس نوع کی نظمیں ہیں۔ ان میں شاعر خود اپنے ساتھ سرگوشیاں کرتا سنائی دیتا ہے۔ تنہائی میں یہی سرگوشیاں زیادہ پر اسرار، زیادہ فریب  انگیز ہوگئی ہیں۔ ان نظموں کے مصرعے رینگ رینگ کر چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ نظموں کا تارو پود مکڑی کے جالے سے زیادہ استوار اور بکار آمد نہیں۔ ہر ہر لفظ پر احساسات ایک بوجھ، ایک کا بوس بن کر چھائے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں فیض نے جو بحر ( فاعلاتن مفاعلن فعلن ) سب سے زیادہ استعمال کی ہے وہ تمام بحروں سے زیادہ کاہل، نرم اور خواب آلود ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے فیض کی شاعری میں حیرت انگیز تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کی آخری چند نظمیں مثلاً : مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ موضوع سخن ۔ انتباہ ۔تسلی وغیرہ اس جسمانی اور ذہنی کشاکش کا پتہ دیتی ہیں جس میں ہماری پود مبتلا ہے۔ یہ نہیں کہ فیض نے عمداً رومان پرستی کو خیر باد کہہ کر نام نہاد ترقی پسندانہ راستہ اختیار کر لیا ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خیالات کی پختگی کے ساتھ ساتھ وہ غلطاں غلطاں احساسات کی نئی دنیا میں چلا گیا ہے جہاں سائے زیادہ گہرے اور زمین زیادہ سنگلاخ ہے۔ فیض شروع سے ان چیزوں کا دلدادہ رہا ہے جن کو اس کے حواس براہ راست دیکھ سکتے ، سُن  سکتے اور چھو سکتے ہوں۔ لیکن وہ زندگی کے حسین اور رقت انگیز پہلو کے سامنے ہمیشہ ذکی الحس  رہا ہے۔ اس کا متخیلہ اس کی ذات کے گرد، اس کے اپنے ماضی، اپنے مستقبل کے گرد گھومتا رہا ہے۔ طبعیت کی افتاد نے غالباً اسے مرئی  حسن سے ہٹا کرمرئی  بدصورتی میں سے لذت اخذ کرنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ اب اس کے تاثرات محض ہوا کے جھونکوں کی طرح اس کے جسم کو چھو کر نہیں گزر جاتے بلکہ اس کے سینے میں جاگزیں ہو کر دیر تک غم اور غصہ کی لہروں کو بھراتے رہتے ہیں۔ اس کی بحروں میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی ہے۔ اب وہ فعلاتن فعلاتن فعلن اور مفعول فعولن فعلاتن و غیرہ قسم کی زیادہ سبک۔ زیادہ متحرک اور زیادہ تند بحروں کا دلدادہ ہے۔ اب اس کی تصویر میں محض آئینہ خانے کے عکس نہیں بلکہ ایک ہاری ہوئی بٹی ہوئی تہذیب کے نئے سرے سے جنم لیتے ہوئے مجسمے ہیں جو ہاتھ پھیلا پھیلا کر اپنی حیات نو کے خوابوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فیض عمداً روایت کا باغی شاعر نہیں۔ اس کے ہاں قاتل اور رقیب کی سی فرسودہ علامات بھی نظر آتی ہیں۔ اس نے بحروں اور قافیوں اور ہیئت سخن میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی لیکن اس کی انفرادیت اس قدر نمایاں ہے کہ اس کی شاعری قدیم شاعری سے بالکل علیحدہ ومختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے قدیم شاعر دراصل حسن کے احساس سے بہت حد تک بے بہرہ تھے۔ وہ اپنی جنسی الجھنوں میں اس قدر گرفتار تھے کہ حسن ان کے لیے فی الواقع ایک نہایت سطحی اور نا قابل توجہ چیز تھی۔ انہوں نے یوں تو انسانی جسم کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے لیکن حسن کے نازک ، لطیف اور دل دوز احساسات تک ان کی رسائی نہ ہو سکی۔ انہوں نے روایتی علامات اور تشبیہات پر بیشتر خلوصِ اظہار کو قربان کیا۔ تجزیہ کرنے سے ہمارے قدیم شاعر کی دنیا بے حد زشت اور کرخت نظر آتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عہد حاضر کے نو جوان شاعروں میں سے فیض ہی تنہا شاعر ہے جس کے ہاں جنسی الجھنوں کے آثار سب سے کم ملتے ہیں۔

 فیض اپنے تصورات سے اپنے لیے خالص حسن کا ایک دلکش بہشت پیدا کرنا جانتا ہے۔ خمار خواب سے لبریز احمریں آنکھیں، رخساروں کے عشرت آلو د غازے، سرخ ہونٹوں پر تقسیم کی ضیا، مرمریں ہاتھوں کی لرزشیں ، مخملیں باہیں، رنگین پیراہن ، دمکتے ہوئے رخسار اور جھلکتے ہوئے آنچل اس کی دنیا میں بار بار آتے ہیں۔ وہ انہی الفاظ کے مجموعے سے ایک حسینہ خیال کا مجسمہ تعمیر کر دیتا ہے۔ پھر اس حسینہ کو کسی  نیم تاریک ، نیم خواب شبستان میں بٹھا کر اس سے اپنا انتظار کراتا ہے، اس کے لبوں پر دعائیں اور التجائیں چسپاں کراتا ہے۔ اس کی نگاہوں کی ناصبوری پر رحم کھاتا ہے۔ اس کی تھکاوٹ ، اس کی اداس اور اس کی تنہائی کے بوجھ سے چور جوانی سے لذت کا اکتساب کرتا ہے۔ خود اس کے قریب آ آ کر دبے پاؤں ہٹ جاتا ہے تا کہ وہ علم جس کے ریشمی تاروں سے یہ دنیا آویزاں ہے دفعتا ٹوٹ نہ جائے۔ فیض کی ابتدائی شاعری اس طلسمی حقیقت سے گریز کی داستان ہے۔ اس کے مطمع نظر اور حقیقت کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج سی حائل رہتی ہے جسے وہ عبور کرتے ہوئے جھجکتا کا نپتا ہے۔

لیکن وہ اس خلیج کو پاٹنے میں بالکل نا کام بھی نہیں رہا۔ اس نے حسن اور رومان کے سنہری پردوں کے اس پار حقیقت کی ایک جھلک دیکھ لی ہے۔ اس نے آرزؤں کے مقتل ، بھوک اگانے والے کھیت، خاک میں لتھڑے اور خون میں نہائے ہوئے جسم، بازاروں میں بکتا ہوا مزدور کا گوشت، ناتوانوں کے نوالوں پر جھپٹتے ہوئے عقاب دیکھ پائے ہیں۔ دلوں کی بے سود تڑپ اور جسموں کی مایوس پکارسن پائی ہے۔ اجنبی ہاتھوں کے بے نام ستم کی گرانباری محسوس کر پائی ہے۔ ناسوروں سے بہتی ہوئی پیپ کی بدبو سونگھ لی ہے۔ دکھتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق کی حسرت مرگ کا جائزہ کر لیا ہے۔ حقیقت کی اس بے نقابی پر اس کی بعض نظموں میں جذبات کا سیلاب پھوٹ پڑا ہے۔ فیض میں غیظ کی فراوانی اور تندی نہیں۔ وہ اپنے جذبات کی بے پناہ شدت کا شکار نہیں ہوتا۔ اسے جذبات کے خلوص کے ساتھ خود ضبطی کا وہ جو ہر عطا ہوا ہے جو اس کے غصے کو ایسا شعلہ نہیں بننے دیتا جو بھڑک کر خاموش ہو جائے بلکہ جذبات کی ایک دبی ہوئی چنگاری کہیں آہستہ آہستہ ملتی رہتی ہے۔ اس خود ضبطی کے طفیل وہ اپنی تسلی میں اپنے غصے کو بہتر دنیا کے مخملی خواب میں چھپا دینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں

ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا ہے!

 اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم

آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے!

چنا نچہ اپنی فنکاری کے اس خاص حربے سے وہ  غم وغصے کی انتہا کو بھی یاس کا امتحان نہیں بننے  دیتا۔ وہ عہد جدید کی” شیطنیت”  کو ضرور عیاں کرتا ہے کیونکہ اس کا تخیل مرئی حقیقتوں کے رو برو ہو کر ان پر طعن کرنے پر مجبور ہے لیکن وہ ان حقیقتوں کو خواب میں منتقل کر کے انہیں حسن کی پوشاک پہنانا جانتا ہے۔ اس خواب آفرینی کا نتیجہ ہے کہ اس کی بعض نظموں کے ٹکڑے سخت گھناؤنے ہونے کے باوجود دلکش ہوتے ہیں۔ وہ عہد حاضر کے عفریت کے سینے میں اپنا تیر گاڑتا ہے لیکن زیادہ گہرا نہیں ، اتنا گہرا نہیں کہ وہ ایک سسکی  لیے بغیر چل بسے۔  وہ حقیقت کے دل تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن اس کا دل بر مانے سے کنیا تا ہے۔ اسی لیے اس کی بعض نظموں میں حقیقت کے نفرت آلود چہرے پر غازے کی چمک باقی رہ جاتی ہے جو غنائیت اور تغزل کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ اسے عہد حاضر کی عالمگیر شیطنیت سے وحشت اور کراہت ہے لیکن اس وحشت اور کراہت کو یکدم تباہ کرنا اسے منظور نہیں۔ معصیت کے دور تک پھیلے ہوئے جالوں اور ظلم کی بے پناہ زنجیروں کا خیال اسے بے تاب رکھتا ہے جو ایک انسان کے جسم پر نہیں، دس انسانوں کے جسم پر نہیں، بلکہ ساری انسانی دنیا کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جکڑے ہوئی ہیں۔

تو گر میری بھی ہو جائے

 دنیا کے غم یونہی رہیں گے 

پاپ کے پھندے، ظلم کے بندھن

 اپنے کہے سے کٹ نہ سکیں گے

یا 

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زبان اب تک ہے تیری

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ  زندہ ہے اب تک

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

احساس کی تلخی ان اشعار میں اپنی پوری شدت پر ہے یہاں تک کہ فیض کے ذہن میں بسی ہوئی موسیقی بھی اس تلخی کو مٹا کر ان الفاظ کو خالی تغزل میں تبدیل کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔

 اس تلخی میں بے صبری بلکہ خفقان کا وہ اثر پایا جاتا ہے جو ہمارے زمانے کا طرہ امتیاز ہے۔ فیض غالباً ہمارے تمام موجودہ شاعروں سے بڑھ کر تاریخ کی بے پناہ قوتوں کا شعور کر رکھتا ہے اس لیے کبھی تو وہ اس چار طرف چھائی ہوئی شیطنیت اور نا انصافی کا مجرم اجنبی ہاتھوں کے ستم کو قرار دیتا ہے۔ کبھی ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم میں اس کا راز تلاش کرتا ہے اور کبھی اسے اجداد کی میراث سمجھ کر بے بسی کی حالت میں خاموش ہو جاتا ہے۔

فیض کی یہ آخری زمانے کی شاعری میرے نزدیک اسی نفسی الجھن کی بہترین مثال ہے جسے (Oedipus Complex) کہتے ہیں۔ یہ الجھن شاید ہم سب میں ہے اور عہد حاضر کےجس شاعر میں نہیں وہ اپنے اردگرد کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی انقلاب سے بے بہرہ ہے۔ ہماری موجودہ تہذیب ماضی کی روایت سے اس قدر بیگانہ اور اس سے اس قدر مختلف ہوتی جارہی ہے کہ ہم اپنے دکھوں کو اپنے اجداد کی میراث سمجھنے پر مجبور ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ جب عشق کسی خیالی صورت کی دریوزہ گری کرنا اپنی تو ہین سمجھتا ہے، جب وہ ظلم سہتے ہوئے اور پائندہ غلامی میں کراہتے ہوئے انسانوں کو اپنی آغوش میں لینا چاہتا ہو تو رقیب یا تو اجنبی ہے یا ان گنت صدیاں ہیں یا پھر ہمارے بد نصیب اجداد !

لیکن فیض کی نظم کا موضوع خواہ کوئی رومان ہو، خواہ زندگی کی کوئی سنگین حقیقت ، اس کا طریقہ کار، اس کی تکنیک ہر جگہ ایک سی رہتی ہے اور برسوں میں بھی اس میں کوئی زیادہ نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ فیض ہمارے زمانے کے بعض دوسرے شاعروں کی طرح تشبیہات کا دلدادہ نہیں۔ اگر آپ اس کی نظموں کو غور سے دیکھیں تو شاذ ہی آپ کو کوئی تشبیہ ملے گی ۔ کہیں بھی وہ کسی لفظ کا مفہوم سمجھانے یا کسی چیز کی تصویر پیش کرنے کے لیے کوئی اس سے بڑھ کر انجانی اور نا معلوم چیز اپنے قاری کے سامنے پیش نہیں کرتا۔ وہ صرف ایسے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے جومل کر تاثر کے تاروں میں ایک شدید لیکن پائدار لرزش پیدا کر دیں۔ اس نے اپنی بعض ابتدائی نظموں مثلاً تہ نجوم۔ ایک منظر  اور سرود شبانہ میں اس قسم کی کاریگری سے کام لیا ہے لیکن اس کی نظم ” تنہائی ” اس نوع کی صناعی کی غالباً بہترین مثال ہے۔

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

 راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا

 ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار 

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ 

سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزر

اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

 گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

اب یہاں کوئی نہیں آئے گا!

مجھے بارہا خیال آیا ہے کہ شاید یہ نظم کسی سیاسیات میں الجھے ہوئے لمحے کی پیداوار ہو۔ کیا راہرو سے مراد کوئی نیا حملہ آور ہے؟

کیا تاروں کا ڈھلتا ہوا غبار اور ایوانوں میں لڑکھڑاتے ہوئے چراغ ہماری تہذیب اور مذہب کے بکھرے ہوئے شیرازے کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟ اور کیا اجنبی خاک میں قدموں کے سراغ کے دھندلا جانے سے شاعر کا یہ مطلب ہے کہ اس سرزمین نے جہاں ہم صدیوں پہلے ہنگامہ وہاؤ ہو لے کر آئے تھے، آج اپنی ناگوار آب و ہوا اور اپنے ناپسندیدہ ماحول سے ہمیں زوال آمادہ قوم بنا دیا ہے؟

 لیکن شاید اس حسین اور انتہا درجے کی اثر آفریں نظم پر یہ الزام لگانا اسے مجروح کرنا ہوگا۔ اس نظم کی کامیابی تو اس کی مجرد تا ثیر ہی میں مضمر ہے۔ اس نظم کی پشت پر شاعر کے ایک بے پایاں ذہنی تجربے کا پتہ چلتا ہے۔ جس ذکی الحس شخص کو اپنی زندگی میں کبھی کوئی اداس اور غمناک شام بسر کرنے کا تجربہ ہوا ہو۔ اگر اس نظم کے مطالعے سے تنہائی کا بوجھ ایک سنگِ گراں کے مانند اپنے کندھوں ، اپنے جسم بلکہ اپنے سارے وجود پر محسوس ہونے لگے، تو یہ نظم یقینا ایک بہت بڑی تخلیق ہے۔ فیض کسی مرکزی نظریے کا شاعر نہیں۔ صرف احساسات کا شاعر ہے اور اپنے شدید احساسات کو وہ اپنے حسین الفاظ کے ساتھ اس طرح پیوست کرتا ہے کہ ایک ہی پیرہن کے تاروپود معلوم ہونے لگتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top