تحریر: حمیرا جمیل، سیالکوٹ 

 خودداری اور خود اعتمادی تقریباً ختم ہوچکی ہے. کوئی شخص ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے. دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر ملک فتح کرنے کا سوچتا ہے. کیا کبھی ایسا ہوسکا ہے کہ کسی اور کے بل بوتے سے جیت حاصل ہوسکی ہو…. انحصار کرنا ہی عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے. اللہ نے ہر انسان کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے. صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی ہے…. حق کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور جھوٹ کو سرے سے رد کرنے کا حوصلہ دیا ہے. اُس کے باوجود بھی یہ کہنا میں بے بس ہوں….. صرف خودغرضی ہے.
مہنگائی کے زمانے میں بزرگ سرکاری ملازم کے لیے خوبصورت تحفہ چند گنے چنے پیسے ہیں….. جو ملازمت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ تمام عمر وصول کرتا ہے تاکہ محتاجی اور در بدر ہاتھ پھیلانے سے بچ سکے.
بزرگی کسی اذیت سے کم نہیں ہے. اس کی حقیقت وہی جانتے ہیں. جو اس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں. ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے. ہنس کر غموں کو ٹال دینے والے…… والدین خاموش رہ کر ہزاروں پریشانیوں کو برداشت کرنے والے……. اولاد کی خوشی میں خوش…..شاید کبھی اولاد بھی بڑی ہو سکتی . خاموشی کے پیچھے چھپے درد کو سمجھ سکتی. بلاشبہ والدین کی لازوال قربانیوں کا بوجھ اولاد کبھی نہیں اٹھا سکتی….چند باتیں جن کا ذکر ضروری ہے. والدین بھی انسان ہیں. وہ بھی احساسات اور جذبات رکھتے ہیں. پرسکون رہنا چاہتے ہیں. پرمسرت لمحات گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں…. اپنے متعلق کہنے سے کتراتے ہیں. عمر ڈھلنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دل بھی مر چکا ہے. دراصل اکثریت یہ چاہتی ہے عمر کے ساتھ دل بھی مرجائے…. بوڑھا یا بوڑھی کی اتنی مجال کہ وہ کبھی کوئی فرمائش کرسکے…. یہ سوچ ذہنوں میں بیٹھ گی ہے. جو سرے سے لاعلاج ہے…. دراصل بزرگی جرم ہے. اگر بزرگی کے ساتھ دولت منسلک ہوجائے…. تو وہ خدمت کہلائی جائے گی.
بشرطیکہ پیسہ شرط ہے. جس کے پاس پیسہ موجود ہے. وہ ضعیفی میں بھی امیر ہے..امیری رنگ صورت سب بدل سکتی ہے. پیسہ بولتا ہے….. یقیناً یہ زندہ جیتی جاگتی حقیقت ہے. روٹھے کو منانے اور تعلق جوڑنے کا واحد ذریعہ…… اولاد دن میں خواب دیکھتی ہے. سپنے سہانے پسند کرتی ہے. چوبیس گھنٹوں میں دولت کے انبار دیکھنا چاہتی ہے. یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب والدین کی کوئی جمع پونجی بچوں کے ہاتھ میں ہو……جس کی آسان مثال پینشن ہے. اس کے ہوتے بچوں کی جرات ماں باپ کو بُرا بھلا کہہ سکیں…. پینشن بہت مضبوط کڑی ہے. بچے والدین کے پیر تک چاٹ لیتے ہیں….. محبت کا یہ رشتہ مفاد کی غرض سے وابستہ ہوتا ہے. مفاد ختم خونی رشتہ بھی ختم……. بات تلخ ہے لیکن وزن رکھتی ہے.
یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ موجود عہد میں زیادہ تر بچے مادیت پرستی کا شکار ہوچکے ہیں . ہر چیز کو حتی کہ والدین جیسے مقدس رشتے کو بھی نفع نقصان میں تولتے ہیں . بچے خود والدین کا آخری سہارا بننے سے قاصر ہیں …..محنت کے گنے چنے چند پیسے بھی اپنی مجبوریوں کی کہانی سنا کر چھین لیتے ہیں. ماں باپ اندھا یقین کرتے ہوئے واقعتاً اندھے بن جاتے ہیں. کیوں کہ والدین کے دل کبھی سخت نہیں ہوتے. ہزار مشکلات پیش آئیں…. وہ تمام سختیاں جھیل لیتے ہیں. اولاد پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے.
جو ہورہا ہے یا جو ہونے والا ہے. وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں. والدین کی عزت قائم رہے…. اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے؟ مایوسی ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ معمولی جھگڑوں پر ماں باپ کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے. اپنی عزت بچانے اور گھر کی چار دیوری تک محدود رہنے کے لیے والدین اپنا آخری اثاثہ پینشن کی صورت میں ہر مہینے اولاد پر لٹا دیتے ہیں. اس یقین کے ساتھ بچے پرسکون رہیں. وہ اطمینان جو والدین کی موجودگی نہیں دے سکی…..جب دلوں میں گندگی ہو اور سکون کی بات کرنا مناسب نہیں بلکہ شرمندگی کا باعث ہے.

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top