” مرے دل مرے مسافر(تنقیدی جائزہ)” ڈاکٹر محمد حسن کی تحریر ہے۔ 

یہ تجزیہ  فیض کی کلیات "نسخہ ہائے وفا” مطبوعہ "مکتبہ کارواں ، کچہری روڈ ، لاہور میں شامل نہیں ہے۔بلکہ  یہ تحریر کتاب: "فیض احمد فیض (فیض صدی، منتخب مضامین) مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان ۔ سے نقل کی گئی ہے۔ 

ڈاکٹر محمد حسن کا تجزیہ

فیض کا یہ مجموعہ در اصل ان کی جلاوطنی کے کلام پر مشتمل ہے سوانحی لے ظاہر ہے ذرا بلند ہے مگر فیض کی طبعی شائستگی اور نرمی کے ساتھ اداسی فیض کیلئے عرفان حیات کی کلید ہے وہ اسے اوڑھتے نہیں۔ اس کے باریک سے پردے سے زندگی کی نرمیوں اور ٹھنڈک پہنچانے والی صبحوں کا نظارہ کرتے ہیں فیض نے اس مجموعے میں اپنے آپ کو دہرایا کم ہے نئی شعری کیفیات تک رسائی البتہ حاصل کی ہے اس کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہوگا۔

خود کلامی فیض کے ہاں پہلے بھی تھی خاص طور پر دست صبا کی زندانی نظموں میں ۔ مگر میدان جنگ میں مبازرطلب سپاہی کی خود کلامی ہے۔ دل من مسافر من میں یہ خود کلامی کا لہجہ بڑا ہی کھویا سا ہے۔ اس میں تنہائی کا وہ درد ہے جو صرف ان قلندروں کو ملا کرتا ہے جو رنگ نشاط کی طلب سے بے نیاز ہونے کی منزل میں ہوتے ہیں۔ اس دل دوز تنہائی نے فیض کی شاعری میں عجیب تاثر پارے ‘حسی مرکبات اور تشبیہ و استعارے کی نئی تمثال کی تخلیق کی ہے چند مناظر :۔

مرے دل مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

 کہ وطن بدر ہوں ہم تم

 دیں گلی گلی صدائیں 

کریں رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئی پائیں

 کسی یار نامہ بر کا

 ہر ایک اجنبی سے پوچھیں

 جو پتہ تھا اپنے گھر کا

 

دوسرا منظر :

وہ در کھلا میرے غم کدے کا

وہ آگئے میرے ملنے والے

 وہ آگئی شام، اپنی راہوں میں

 فرش افسردگی بچھانے 

وہ آگئی رات ، چاند تاروں کو

 اپنی آزردگی سنانے

 وہ صبح آئی ، دمکتے نشتر سے

یاد کے زخم کو منانے

وہ دو پہر آئی ، آستیں میں

چھپائے شعلوں کے تازیانے

ربودگی اور سپردگی کی جو کیفیت اس خود کلامی کے پیچھے ایک زیریں لہر کی طرح جلوہ گر ہے وہ اس مجموعے کی پہچان ہے۔ ہر منظر یہاں درد کو ہر لمحے کے ساتھی کی طرح پیش کرتا ہے جیسے وہ شہ رگ سے زیادہ قریب ہو اور اس کے ہر منظر کونشتر بار بنا دیا ہو۔

دور اس رات کا دلارا

درد کا ستارا

ٹمٹما رہا ہے

جھلملا رہا ہے

مسکرا رہا ہے

محبوبہ سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ دل دوز اداسی  سیر بودگی اور خود فراموشی کم نہیں ہے۔ "کوئی عاشق کسی محبوبہ سے” یا "جو میرا تمہارا رشتہ ہے،”  جیسی نظموں میں ایک ایسی ہلکی ہلکی آنچ ہے جو سلگتے رہنے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ جن میں” ان کہی کے پردے میں” درد کی نہ جانے کتنی پر تیں اور کیسی کیسی تہیں آشکار ہوئی ہیں اور خود رفتگی  میں شاعر کیسے کیسے تمثال بکھیرتا چلا جاتا ہے۔

عمر رفتہ کے کسی طاق پر بسرا ہوا درد۔  گرد ایام کی تحریر۔پیرہن  بدلی ہوئی خوشبو، ہمدم مہر و سال فرش آزردگی، دمکتے  نشتر والی صبح شعلوں کے تازیانے’  مردہ سورج’  مدفون چند رما’  تاریخ شگوفے کی مہک گھٹاوحشی زمانوں کی۔

غرض نرالی سج دھج کی تصویروں جھنکاروں اور خوشبوؤں کا ایک کارواں ہے جو مثالوں میں ظاہر ہوا ہے ان میں شاید سب سے انوکھی اور فیض کے مزاج سے کسی قدر الگ مثال ہے:

 سمندروں کی ایاں تھامے

خیال سوئے وطن رواں ہے

جس میں نرمی کے بجائے شوکت اور جلال غالب ہے جسے اردو شاعری کے استعاروں میں اضافہ کہا جا سکتا ہے۔

یہ محض اتفاق بھی نہیں ہے کیونکہ فیض کی دردمندی’  آزردگی اور تنہائی محض سپردگی  پر ختم  نہیں ہوتی:۔

اس کے پیچھے وطن کی بے پناہ

(تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن ، وہ آگئے میرے ملنے والے، دل من مسافر من)

زندگی کی رنگینیوں اور لذتوں سے بے اندازہ  پیار

(منظر،  یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے، پیرس، یہ کس دیار عدم میں )

مستقبل پر کبھی نہ ٹوٹنے والا بھروسہ جو تاریخی شعور اور بصیرت کی دین ہے ‘ ویقبیٰ  وجہ ربک  فلسطین کیلئے نظمیں اور ایک مجاہدانہ آن بان جو شکستوں کے باوجود اپنی کلاہ کج رکھتی ہے

 ( شاعر لوگ ، شومین کا نغمہ بجتا ہے، تین آوازیں، قوالی)

فیض اسی دردمندی آزردگی بلکہ شکستوں سے اپنی قلندرانہ آن بان پیدا کرتے ہیں اور درد کونشاط ہی نہیں کج کلاہی میں تبدیل کر دیتے ہیں درد کو جو کجکلاہی فیض کے ہاں ملی ہے وہ اردو فارسی شاعری میں اس انداز سے کبھی نصیب نہیں ہوئی۔

اس مجموعے میں رومانیت کا انقلابی مور بہت کھل کر سامنے آیا ہے اور اس اعتبار سے یہ انقلابی شاعری کا ایک نیا آہنگ ہے یہ شاعری فرد کی ارمانوں بھری زندگی کے لامحدود تنہائیوں اور اجتماعی زندگی کی سنگینی اور اس کے سنورنے کی دشواریوں کے درمیان جان لیوا کش مکش کی شاعری ہے۔ 

 ایسے لوگ جنہیں حسن سے بھی لگاؤ ہے اور زندگی بھی عزیز ہے حسن سے لگاؤ کی خاطر اور ایک سچے جمالیات پرست حساس درد مند فرد کی طرح جینا چاہتے ہیں جہاں صرف وہ آسودہ حال اور خوش و خرم نہ ہوں بلکہ ان کے اردگرد کے لوگ ان کا سماج بھی آسودہ حال ہو اور جب فرد اپنی زندگی کو اس آسودگی کی تلاش میں کھپاتا ہے تو نت نئی محرومیوں، شکستوں اور مظالم کا شکار ہوتا ہے۔

 زندان کی دیواریں صلیب کے پھندے’  جلاوطنی’  سازشیں’ ، مکرور یا اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور تب یہ احساس ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی کتنی مختصر ہے اور کار جہاں کتنا دراز ہے زندگی کے اس دورا ہے پر دور سے جھانکنے والے سویرے کی جھلک نظر آتی ہے اور دل فخر اور درد سے جھوم اٹھتا ہے۔

مجھے یہ  پیراہن دریده

یه جامعه روز و شب گزیده

عزیز بھی ، نا پسند بھی ہے

 کبھی یہ فرمان جوش وحشت

کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو

 کبھی یہ اصرار حرف الفت

 کہ چوم کر پھر گلے لگالو

 

اس مجموعے کی بلند آہنگ نظموں میں "قوالی” اور” تین آوازیں”  سب سے زیادہ اہم ہیں یہ تصویروں تاثیر پاروں سے سجی  ہوئی نظمیں ہیں اور ان میں مستقبل پر اعتماد کی شمعیں اس طرح روشن ہوئی ہیں کہ ہر لفظ کو جگمگاتی گزرگئی ہیں ان میں شاعر کی تخیل نے بڑی ہنرمندی سے اظہار پایا ہے!

 اب نہ بہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی جنا

 فصل گل آئے گی نمرود کے انکار لیے

اب نہ برسات میں برسے گی کہر کی برکھا 

ابر آئے گا خس و خار کے انبار لیے

اب فقیهان حرم دست صنم چومیں گے

 سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے

دونوں نظموں میں فیض کی جگر کاوی زخموں کو نئے نئے پھولوں کی رنگ میں کھلاتی چلی گئی ہے۔ مجموعے میں چند پنجابی گیت اور چند غزلیں بھی ہیں لیکن اس بار نظموں کا پلہ بھاری ہے یہ مجموعہ فیض کے سفر کا اہم سنگ میل ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top